مارچ ۲۰۲۰ میں وبائی مرض کی شروعات کے بعد سے، مہاراشٹر کے عثمان آباد ضلع کے ارون گائکواڑ کی دس ایکڑ زرعی زمین اب بنجر پڑی ہے۔ ان کا گھر عثمان آباد تعلقہ کے مہا لنگی گاؤں میں ہے۔ ان کی ۴۸ سالہ بیوی راج شری بتاتی ہیں، ’’ہم نے اُس دوران جوار، چنا (کابلی چنا)، اور پیاز کی فصل کاٹی تھی۔‘‘

لیکن لاک ڈاؤن کے سبب بازار بند تھے۔ راج شری کہتی ہیں، ’’ہم اپنا مال منڈی تک نہیں لے جا سکے۔ ہماری ساری فصل ہماری آنکھوں کے سامنے خراب ہو گئی۔‘‘

۵۲ سال کے ارون اور راج شری نے ۱۰ کوئنٹل جوار، ۱۰۰ کوئنٹل پیاز، اور ۱۵ کوئنٹل چنا اُگایا تھا۔ اس وقت جوار کی کم از کم امدادی قیمت ۲۵۵۰ روپے فی کوئنٹل تھی۔ چنا اور پیاز بالترتیب ۴۸۰۰ اور ۱۳۰۰ روپے فی کوئنٹل پر فروخت ہو رہے تھے۔ اس وجہ سے انہیں کم از کم ۲۲۷۵۰۰ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا، جس میں بیج، کھاد، حشرہ کش دواؤں پر کیا گیا خرچ اور دیگر لاگت شامل نہیں ہے۔

اس کے علاوہ، ان فصلوں کو اُگانے میں ان کی کڑی محنت بھی شامل تھی۔ راج شری آگے کہتی ہیں، ’’کورونا وبائی مرض آنے کے کچھ وقت پہلے ہی ہم نے نیا ٹریکٹر خریدا تھا، جس کی ۱۵۰۰۰ روپے ماہانہ قسط بھرنی مشکل ہو گئی تھی۔ ہمیں بینک سے نوٹس آنے لگے تھے۔‘‘

لیکن، ارون کو امید تھی کہ وہ ۲۰۲۰ میں خریف کا سیزن (جولای سے اکتوبر) آنے پر اپنے نقصان کی تلافی کر لیں گے۔ کورونا وبائی مرض کی پہلی لہر جولائی میں تھمنے لگی تھی اور کورونا کے معاملے کم ہونے لگے تھے۔ انہیں لگا کہ بحران ختم ہو گیا ہے۔ ۳۰ سالہ پردیپ دھولے کہتے ہیں، ’’ہمیں لگا کہ اب جلد ہی سب کچھ معمول پر آ جائے گا اور بحران ٹل چکا ہے۔ معاشی سرگرمیاں بھی دھیرے دھیرے شروع ہونے لگی تھیں۔‘‘ پردیپ ارون کے داماد ہیں۔

پچھلے سال جون میں، ارون اور راج شری نے اپنے کھیت میں سویابین کی بوائی کی۔ لیکن اکتوبر تک اس کی کٹائی کا وقت آتے آتے پورے عثمان آباد میں بے موسم بارش نے سویابین کی فصل کو برباد کر دیا ۔ راج شری بتاتی ہیں، ’’ہم اپنی فصل نہیں بچا سکے۔ اس وقت انہوں نے مجھے نقصان کے بارے میں ٹھیک سے کچھ نہیں بتایا تھا، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ میری پریشانی اور بڑھ جائے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنا قرض دس لاکھ روپے کے قریب بتایا تھا، جو پچھلے ۴-۵ سالوں کا ملا جلا بقایا تھا۔

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: پردیپ دھولے اس ٹریکٹر کے سامنے کھڑے ہیں، جسے ان کے سسر ارون گائکواڑ نے خریدا تھا۔ دائیں: اسی مچان کے نیچے ارون نے خودکشی کی تھی

بقایا قرض کا کچھ حصہ تو تین بیٹیوں کی شادی کے لیے قرض لینے کے سبب جمع ہو گیا تھا۔ راج شری بتاتی ہیں، ’’کورونا سے پہلے ہی ہمارے حالات کافی خراب تھے۔ لاک ڈاؤن اور بھاری بارش نے ہمیں اور بھی زیادہ تباہ کر دیا۔ ہمارا بیس سال کا ایک بیٹا (منتھن) بھی ہے۔ اس کی پڑھائی کے لیے ہمیں پیسوں کی ضرورت تھی۔‘‘

ارون پھر بھی ہمت نہیں ہارے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ ان کا برا وقت پیچھے چھوٹ چکا ہے۔ ایک نئے جوش کے ساتھ انہوں نے ربیع کے سیزن کے لیے کام کرنا شروع کیا، جو نومبر کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے جوار اور چنے کی فصل بوئی۔ پردیپ بتاتے ہیں، ’’لیکن جب ربیع کی فصل کی کٹائی (مارچ کے دوران) ہونی تھی، تو کورونا کی دوسری لہر آ گئی۔ یہ پہلی لہر سے بھی زیادہ برا تھا۔ لوگ پچھلے سال کے مقابلے اس بار کہیں زیادہ خوف زدہ اور گھبرائے ہوئے تھے۔ کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہتا تھا۔‘‘

اس بار، انہوں نے ۲۵ کوئنٹل جوار اور تقریباً ۲۰ کوئنٹل چنا اگایا تھا۔ لیکن اس بار پھر ارون اور راج شری کے سامنے مارچ ۲۰۲۰ جیسے حالات پیدا ہو گئے تھے۔ ملک میں پھر سے لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، دکانیں بند ہو گئیں، اور سبھی اہم فصلوں کی قیمتیں گر گئیں۔

شاید ایک اور بربادی کا خیال ارون کے ذہن پر حاوی ہو گیا۔ اس سال اپریل کی ایک صبح انہوں نے خود کشی کر لی۔ اپنے گھر سے لگے ایک مچان کے نیچے انہوں نے خود کو پھندے سے لٹکا لیا۔

ارون بھلے ہی کورونا سے بچ گئے تھے، لیکن وہ وبائی مرض سے آئی تباہی سے نہیں بچ سکے۔

امریکہ میں واقع پیو ریسرچ سنٹر کی مارچ ۲۰۲۱ کی رپورٹ کے مطابق، مارچ ۲۰۲۰ میں کورونا وبائی مرض کی شروعات کے صرف ایک سال بعد تقریباً ساڑھے سات کروڑ ہندوستانی شہری غریبی کے دلدل میں دھنس گئے ہیں، اور ان کی آمدنی ۲ ڈالر (تقریباً ۱۴۹ روپے) یومیہ یا اس سے بھی کم ہے۔

کساد بازاری کا اثر خاص طور پر عثمان آباد میں نظر آتا ہے، جہاں کسان گزشتہ تین دہائیوں سے قرض اور زرعی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ عثمان آباد، مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے کا زراعت پر مبنی ایک ضلع ہے۔

PHOTO • Parth M.N.
PHOTO • Parth M.N.

اس سال اپریل میں عثمان آباد میں پیاز کی فصل برباد ہو گئی، کیوں کہ کورونا کی دوسری لہر کے سبب کسان اپنی فصل منڈی میں فروخت نہیں کر پائے

سال ۲۰۱۵ سے ۲۰۱۸ کے درمیان، ریاست کے مراٹھواڑہ علاقے میں سب سے زیادہ تعداد میں کسانوں نے خودکشی کی ۔ اب مقامی معیشت کی مندی، جو پہلے سے ہی قحط، مہنگائی، اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب دباؤ میں تھی، اس نے کسانوں کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ وبائی مرض کی شروعات سے ہی ان کے زندہ رہنے کی جدوجہد مزید بڑھ گئی ہے، اور ان میں سے بہت سے کسان غریبی کے دلدل میں اور بھی زیادہ گہرے دھنس گئے ہیں۔

۴۰ سالہ رمیش چورے، کورونا کی دوسری لہر آنے سے پہلے ہی اپنا سب کچھ کھو دینے کے خوف سے اپنی ہمت ہار گئے، وبائی مرض کی پہلی لہر نے ہی انہیں توڑ کر رکھ دیا۔

عثمان آباد کے رگھوچیواڑی گاؤں میں، اپنی تین ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے والے رمیش نے اپنی بیوی کے ڈائلیسس سے جڑے طبی اخراجات کے لیے قرض لیا تھا، جس کے لیے مہینہ میں کم از کم ایک بار انہیں وہاں سے ۹۰ کلومیٹر دور لاتور جانا پڑتا تھا۔ ان کے چچا رام راؤ (عمر ۶۱ سال)، جو ان کے پڑوس میں رہتے ہیں، بتاتے ہیں، ’’اسے اپنی بیوی کے علاج میں بہت سارا پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ ستمبر ۲۰۱۹ میں اس کی موت ہو گئی۔‘‘

اپنی بیوی کی موت کے بعد، رمیش نے اپنی زمین پر جوار اور سویابین کی فصل لگائی تھی۔ وہ اپنی آمدنی کے لیے ایک ٹیمپو چلاتے تھے اور ان کے اوپر اپنے ۱۶ سال کے بیٹے روہت کی ذمہ داری بھی تھی۔ رام راؤ بتاتے ہیں، ’’ایک ڈرائیور کے طور پر وہ مہینے میں ۶۰۰۰ روپے کما لیتا تھا۔ لیکن، کورونا وبائی مرض آنے کے بعد اس کا کام بند ہو گیا۔ ایک کسان کے طور پر بھی اسے مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘

دوسرے کسانوں کی طرح رمیش بھی اپنی ۲۵ کوئنٹل جوار کی فصل فروخت نہیں کر سکے اور انہیں ۶۴ ہزار روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ رام راؤ بتاتے ہیں کہ ان کے بھتیجے کو اس کے ساتھ ساتھ ۳۰ ہزار روپے کا نقصان الگ سے اٹھانا پڑا، کیوں کہ اس نے فصل اگانے کے لیے ۱۲ ہزار روپے فی ایکڑ کے حساب سے خرچ کیا تھا۔

رمیش اپنے سر پر قرض کے بڑھتے بوجھ (کل چار لاکھ روپے، جس میں کھیتی کی لاگت اور علاج کا خرچ شامل ہے) سے پریشان رہنے لگے تھے۔ رام راؤ بتاتے ہیں، ’’اسے یہ احساس تھا کہ اگر اس کی سویابین کی فصل اچھی بھی رہی، تو بھی اس کے سر سے قرض کا بوجھ جلدی اترنے والا نہیں تھا۔‘‘ پچھلے سال ستمبر میں رمیش نے خود کشی کر لی۔ رام راؤ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’میں شام کو کھیت پر گیا تھا اور جب واپس لوٹا، تو میں نے اس کے گھر میں اسے ایک پنکھے سے لٹکتا ہوا پایا۔ اگلے ماہ اکتوبر میں ہوئی بارش نے اس کی ساری فصل کو برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ کم از کم، اسے یہ سب نہیں دیکھنا پڑا۔‘‘

ایک سال کے اندر اپنے والدین کو کھو دینے کے بعد، رمیش کا بیٹا روہت اب اپنی پڑھائی کا خرچ اٹھانے کے لیے ایک راشن کی دکان پر کام کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’میں نے ابھی اسکول کی پڑھائی ختم کی ہے، اور میں آگے کالج جانا چاہتا ہوں اور آرٹس پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد دیکھوں گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

رام راؤ چورے اپنے بھتیجے کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’رمیش کو کسان ہونے کا درد جھیلنا پڑا‘‘

قحط، مہنگائی، اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پہلے سے ہی دباؤ میں چل رہی مقامی معیشت کے اور زیادہ ڈوب جانے سے، کسانوں کے مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ وبائی مرض کی شروعات سے ہی ان کے زندہ رہنے کی جدوجہد مزید بڑھ گئی ہے اور ان میں سے بہت سے کسان غریبی کے دلدل میں اور بھی گہرے دھنس گئے ہیں

کسانوں کی گھٹتی قوت خرید کا طویل مدتی اثر تو پڑنا ہی تھا۔

اس اثر کو ۳۱ سال کے شری کرشن بڑھے، جو بیڈ ضلع کے دھرور تعلقہ میں ایک زرعی سروس سنٹر کے مالک تھے، نے محسوس کیا تھا۔ عثمان آباد سے ۱۱۵ کلومیٹر دور دیو دہیپھل گاؤں میں واقع اپنی دکان پر وہ آس پاس کے کسانوں کو بیج، کھاد اور حشرہ کش بیچا کرتے تھے۔ بڑھے کے چچیرے بھائی کھنڈو پوٹے (عمر ۲۴ سال) کہتے ہیں، ’’کئی بار کسان ان سامانوں کو خریدتے نہیں، بلکہ اُدھار پر لیتے تھے۔ ایک بار جب کسانی کا سیزن ختم ہوتا تھا، تو وہ اپنی پیداوار کی فروخت سے جمع ہوئے پیسوں سے دکاندار سے لیا گیا اُدھار چکا دیتے تھے۔‘‘

پوٹے کا کہنا ہے کہ اس بار زیادہ تر کسان وبائی مرض شروع ہونے کے بعد، بڑھے سے لیا گیا اُدھار چکا نہیں سکے تھے۔ وہ آگے کہتے ہیں، ’’شری کرشن کے پاس خود کی پانچ ایکڑ کی زمین تھی، تو اسے معلوم تھا کہ کسان جھوٹ نہیں بول رہے تھے۔ لیکن اسے سپلائروں سے خریدے ہوئے مال کا پیسہ چکانا تھا۔ اس نے اس کے لیے پیسہ قرض لینے کی کوشش کی۔ لیکن کچھ ہو نہیں پایا۔‘‘

بڑھے کی تشویش مزید بڑھتی چلی گئی۔ اس کے بعد، مئی ۲۰۲۱ میں ایک دن وہ اپنے کھیت گئے اور ایک درخت سے لٹک کر خودکشی کر لی۔ پوٹے بتاتے ہیں، ’’اسے ڈر تھا کہ ایک بار پھر سے نقصان کی تلافی کے لیے، اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ لگاتار کھیتی کریں۔‘‘

یہی راج شری نے بھی سوچا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’ہم نے اس سال سویابین کا سیزن شروع ہونے پر ایک لاکھ روپے کا قرض لیا تھا۔ سیزن کے آخر میں جب ہم اپنی سویابین کی فصل کاٹیں گے، تو ہم اپنا قرض چکا دیں گے۔ یہی واحد راستہ ہے کہ ہم دھیرے دھیرے اپنا قرض اتار دیں۔‘‘

اس لیے راج شری کو اچھی فصل کا انتظار ہے۔ ان کی بیٹیاں اور بیٹیوں کے شوہر اس دوران ان کی مدد کر رہے ہیں۔ چیزیں دھیرے دھیرے صحیح ہو رہی تھیں۔ لیکن ’گلاب‘ سمندری طوفان آنے کے سبب ستمبر کے آخر میں مراٹھواڑہ میں بھاری بارش ہوئی۔ راج شری کو ڈر ہے کہ ان کے برے وقت نے اب تک ان کا پیچھا چھوڑا نہیں ہے۔

اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

பார்த். எம். என் 2017 முதல் பாரியின் சக ஊழியர், பல செய்தி வலைதளங்களுக்கு அறிக்கை அளிக்கும் சுதந்திர ஊடகவியலாளராவார். கிரிக்கெடையும், பயணங்களையும் விரும்புபவர்.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique