ہر شام کو تقریباً ۵ بجے کام سے واپس لوٹنے کے بعد، ڈاکٹر شبانہ یاسمین سیدھے اپنے پیلے-بھورے گھر کی چھت کے اوپر جاتی ہیں۔ وہاں، وہ غسل کرتی ہیں، قلم اور ڈائری سمیت وہ اپنے کام کی جگہ پر جو کچھ اپنے ساتھ لے کر جاتی ہیں اسے جراثیم سے پاک کرتی ہیں، اپنے کپڑوں کو دھوتی ہیں (چھت کو ان تمام چیزوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے)، اور پھر اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کے لیے سیڑھی سے نیچے آ جاتی ہیں۔ گزشتہ تقریباً ایک سال سے وہ اس معمول پر پابندی سے عمل کر رہی ہیں۔
’’میں نے وبائی مرض [لاک ڈاؤن] کے دوران پوری طرح کام کیا، جب سب کچھ بند تھا، یہاں تک کہ پرائیویٹ اسپتال بھی بند تھے۔ میرا ٹیسٹ کبھی پازیٹو نہیں رہا، حالانکہ میرے ساتھ کچھ کام کرنے والوں کا تھا۔ بلکہ، ہم نے اسپتال میں دو کووڈ- ۱۹ پازیٹو حاملہ خواتین کو کامیابی سے سنبھالا،‘‘ ۴۵ سالہ ڈاکٹر یاسمین کہتی ہیں، جو شمال مشرقی بہار کے کشن گنج قصبہ میں اپنے گھر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، صدر اسپتال میں ماہر امراضِ نسواں (گائناکولوجسٹ) اور سرجن ہیں۔
شبنم کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ وہ کورونا وائرس کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں۔ ان کی والدہ اور بچے – ۱۸ اور ۱۲ سال کے دو بیٹے – گھر پر رہتے ہیں۔ اور ان کے ۵۳ سالہ شوہر، ارتضیٰ حسن گردے کی بیماری سے صحت یاب ہو رہے ہیں، اور اس کے لیے دو گنا محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ’’میں اپنی والدہ، عذریٰ سلطانہ کی وجہ سے [پچھلے ایک سال] کام کر پائی۔ انہوں نے ذمہ داری سنبھال لی، ورنہ سب کچھ میں ہی تھی – ڈاکٹر، گھریلو خاتون، ٹیچر، ٹیوٹر،‘‘ یاسمین کہتی ہیں۔
۲۰۰۷ میں جب انہوں نے طبی تعلیم مکمل کی تھی، تب سے زندگی یونہی چل رہی ہے۔ ’’ایم بی بی ایس کے آخری سال میں، میں حاملہ تھی۔ اپنی شادی کے بعد تقریباً چھ سال تک میں اپنی فیملی کے ساتھ کبھی نہیں رہی۔ میرے شوہر وکیل کے طور پر کام کرتے تھے، وہ پٹنہ میں پریکٹس کر رہے تھے۔ میں وہاں پریکٹس کرتی تھی جہاں مجھے بھیجا جاتا تھا،‘‘ یاسمین کہتی ہیں۔
صدر اسپتال میں پوسٹنگ سے پہلے، ڈاکٹر شبنم ۲۰۱۱ میں ٹھاکر گنج بلاک کے پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) میں تعینات تھیں، جو اُن کے گھر سے تقریباً ۴۵ کلومیٹر دور ہے۔ انہوں نے ۲۰۰۳ میں رانچی کے راجندر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے ایم بی بی ایس ڈگری اور ۲۰۰۷ میں پٹنہ میڈیکل کالج سے پوسٹ گریجویٹ ڈگری حاصل کرنے کے بعد چند سالوں تک بطور ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کی، پھر جاکر انہیں یہ سرکاری نوکری ملی۔ ٹھاکر گنج پی ایچ سی پہنچنے کے لیے، انہیں اپنے دوسرے نومولود بیٹے کو اپنی ماں کے پاس چھوڑ کر، مقامی بس سے جانا آنا پڑتا تھا۔ یہ سخت اور مشکل کام تھا، لہٰذا نو مہینے کے بعد وہ اپنی ماں اور بچوں کے ساتھ ٹھاکر گنج منتقل ہو گئیں۔ ان کے شوہر ارتضیٰ پٹنہ میں ہی رکے رہے اور ہر مہینے ان کے پاس جایا کرتے تھے۔
’’مجھے میرے شوہر کی حمایت حاصل تھی، لیکن دن میں دو بار سفر کرنا خوفناک تھا، اور وہ زندگی مشکل تھی۔ سب سے خراب بات یہ تھی کہ میں بمشکل کچھ کر سکتی تھی۔ میں سرجن ہوں۔ لیکن میں آپریشن نہیں کر سکتی تھی۔ آلات کے معاملے میں وہاں [پی ایچ سی میں] کچھ بھی نہیں تھا، کوئی بلڈ بینک نہیں، کوئی انیستھیٹکس نہیں۔ زچگی سے متعلق پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی تھیں اور میں ریفر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ میں سیزیریئن بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کوئی مداخلت نہیں، [صرف ان سے یہ کہنا کہ] ایک بس لے لو [سب سے قریبی اسپتال کے لیے]،‘‘ یاسمین اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
کشن گنج ضلع کے صدر اسپتال میں اُن کے کمرے کے باہر، تقریباً ۳۰ عورتیں انہیں دکھانے کے لیے انتظار کر رہی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر خاتون ڈاکٹر سے بات کرنا یا ان کے ذریعے جانچ کروانا چاہتی ہیں۔ اس اسپتال میں دو ڈاکٹر ہیں، ڈاکٹر شبنم یاسمین اور ڈاکٹر پونم (جو صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتی ہیں)، دونوں بچوں کی پیدائش (اوبسٹیٹرکس) اور امراض نسواں (گائناکولوجی) شعبے سے ہیں۔ دونوں ڈاکٹروں میں سے ہر ایک روزانہ ۴۰-۴۵ مریضوں کو سنبھالتی ہیں، لیکن پھر بھی انتظار کرنے والے علاقہ میں حد سے زیادہ بھیڑ کی وجہ سے اُن میں سے کچھ ڈاکٹر کو دکھائے بغیر ہی گھر لوٹ جاتی ہیں۔
دونوں ڈاکٹروں کو ہفتہ میں ۴۸ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، لیکن اکثر یہ صرف نمبر ہی رہتا ہے۔ ’’سرجن کی سپلائی کم ہے، اس لیے جن دنوں ہم آپریشن کرتے ہیں، مجھے تعداد یاد نہیں رہتی۔ اگر جنسی استحصال اور عصمت دری سے متعلق معاملے ہیں، تو مجھے عدالت جانا پڑتا ہے۔ پورا دن اسی میں چلا جاتا ہے۔ پرانی رپورٹ کو فائل کرنا پڑتا ہے اور بطور سرجن ہمیں ہمیشہ بلا لیا جاتا ہے،‘‘ یاسمین بتاتی ہیں۔ کشن گنج ضلع کے سات پی ایچ سی، ایک ریفرل سینٹر اور صدر اسپتال کے جن ڈاکٹروں سے میں نے بات کی، ان کے اندازہ کے مطابق پورے ضلع میں تقریباً ۶-۷ خواتین ڈاکٹر ہیں۔ ان میں سے نصف (یاسمین کو چھوڑ کر) ٹھیکہ کی بنیاد پر کام کرتی ہیں۔
ان کی مریض – زیادہ تر کشن گنج سے، چند پڑوسی ارریہ ضلع سے، اور کچھ مغربی بنگال سے بھی – عام طور پر حمل سے متعلق باقاعدہ جانچ اور زچگی سے قبل دیکھ بھال، پیٹ کے درد، پیڑو کا انفیکشن، حیض کے دوران درد اور بانجھ پن کے سلسلے میں آتی ہیں۔ ’’خواتین میں سے زیادہ تر کو، خواہ وہ کسی بھی سلسلے میں یہاں آئی ہوں، خون کی کمی (انیمیا) ہوتی ہے۔ آئرن کی گولیاں [پی ایچ سی اور اسپتال میں] مفت دستیاب ہیں، پھر بھی ان کے اندر خود اپنی صحت کے بارے میں آگاہی اور توجہ کی مکمل کمی ہے،‘‘ یاسمین کہتی ہیں۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( این ایف ایچ ایس- ۴، ۲۰۱۵-۱۶ ) کے ذریعہ پیش کردہ اعداد و شمار ڈاکٹر یاسمین کے مشاہدہ کی تصدیق کرتے ہیں: کشن گنج ضلع میں ۱۵-۴۹ سال کی تمام خواتین میں سے ۶۷ اعشاریہ ۶ فیصد میں خون کی کمی ہے۔ یہ تعداد ۱۵-۴۹ سال کی حاملہ خواتین کے درمیان تھوڑی کم، یعنی ۶۲ فیصد ہے۔ اور حمل کے دوران صرف ۱۵ اعشاریہ ۴ فیصد خواتین نے ہی ۱۰۰ دنوں تک آئرن فولک ایسڈ کی گولی کھائی تھی۔
’’عورت کی صحت کوئی ترجیح نہیں ہے۔ وہ صحت بخش کھانا نہیں کھاتی، شادی جلدی ہو جاتی ہے اور پہلا بچہ ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی وہ دوبارہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ دوسرا بچہ ہونے کے بعد، ماں اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ وہ مشکل سے چل پاتی ہے۔ ایک چیز کے بعد دوسری ہو جاتی ہے، اور اس طرح وہ سبھی خون کی کمی کی شکار ہیں،‘‘ ۳۸ سالہ ڈاکٹر آسیان نوری کہتی ہیں، جو اُسی بلاک کے بیلوا پی ایچ سی میں تعینات ہیں، جو صدر اسپتال سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور ہے۔ اور بعض اوقات، ماں کو جس وقت اس کے دوسرے بچہ کی ولادت کے لیے لایا جاتا ہے، اسے بچانے میں کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
’’پہلے ہی خواتین ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اگر ہم مریضوں کو دیکھ نہیں پائے، یا اگر کسی مریض کی موت ہو گئی، تو ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے،‘‘ یاسمین بتاتی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہیں کہ صرف فیملی کے ممبران ہی ایسا نہیں کرتے بلکہ ’ٹھگوں‘ کی جماعت یا علاقہ میں کام کرنے والے نا اہل میڈیکل پریکٹشنرز بھی انہیں دھمکی دیتے ہیں۔ ’’آپ نے انہیں چھوا تو دیکھو کیا ہوا،‘‘ بچہ کی ولادت کے دوران ایک ماں کی موت کے بعد اس کی فیملی کے ایک رکن نے یاسمین سے کہا تھا۔
این ایف ایچ ایس- ۴ کے مطابق، کشن گنج ضلع میں صرف ۳۳ اعشاریہ ۶ فیصد بچوں کی ولادت سرکاری اسپتالوں میں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر نوری کہتی ہیں کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مرد کام کے لیے شہروں میں رہتے ہیں۔ ’’ایسے معاملوں میں، عورت کے لیے زچگی کے دوران حرکت کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے بچوں کی ولادت گھر پر ہوتی ہے۔‘‘ وہ اور یہاں کے دیگر ڈاکٹروں کا اندازہ ہے کہ کشن گنج کے تین بلاک – پوٹھیا، ڈیگھل بینک اور ٹیڑھا گاچھ (جن میں سے ہر ایک میں پی ایچ سی ہے) – میں زیادہ تر بچوں کی ولادت گھر پر ہی ہوتی ہے۔ ان بلاک سے صدر اسپتال یا پرائیویٹ کلینک تک تیز رفتار ٹرانسپورٹ کی کمی، اور راستے میں چھوٹی ندی کی وجہ سے خواتین اور ان کے کنبوں کے لیے اسپتال تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔
۲۰۲۰ میں، وبائی مرض سے متعلق لاک ڈاؤن کے دوران اور اس کے بعد، کشن گنج ضلع میں اسپتالوں میں ولادت میں مزید کمی آئی۔ عورتیں گاڑیوں کی آمدورفت پر پابندی اور اسپتالوں میں وائرس کا شکار ہونے کے خوف سے دور رہیں۔
’ہم جب ماؤں اور باپ کو مانع حمل کے بارے میں بتاتے ہیں، تو [فیملی کی] بوڑھی عورتیں اسے پسند نہیں کرتیں۔ مجھ پر چیخا گیا، اور جب میں نے بات کرنا شروع کیا تو ماں یا میاں بیوی کو وہاں سے چلے جانے کو کہا گیا۔ یہ سن کر اچھا نہیں لگتا...‘
’’لیکن اب اس میں بہتری آئی ہے،‘‘ ۳۶ سالہ ڈاکٹر منتشا کہتی ہیں، جو کشن گنج ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرس سے ۳۸ کلومیٹر دور، پوٹھیا بلاک کے چھتر گاچھ ریفرل سینٹر / زچہ بچہ فلاحی مرکز میں تعینات ہیں۔ وہ بھی ویسی ہی چنوتیوں کا سامنا کر رہی ہیں جو ڈاکٹر یاسمین کو اپنے کریئر کے ابتدائی سالوں میں پیش آئی تھیں – اپنی فیملی سے دور رہنا اور مشکل بھرا سفر۔ ان کے شوہر بھاگلپور میں رہتے اور وہیں کام کرتے ہیں، اور ان کا صرف ایک بیٹا ہے جو کٹیہار ضلع میں اپنے نانا نانی کے ساتھ رہتا ہے۔
’’میرے دن کا ایک لمبا حصہ عورتوں سے خاندانی منصوبہ بندی، مانع حمل کے طریقے، دو بچوں کے درمیان فرق، غذا کے بارے میں بات کرنے میں گزرتا ہے،‘‘ ڈاکٹر منتشا کہتی ہیں (جو صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتی ہیں)۔ مانع حمل کے بارے میں بات چیت شروع کرنا بہت مشکل کام ہے – این ایف ایچ ایس- ۴ کے مطابق، کشن گنج میں حال ہی میں شادی شدہ عورتوں میں سے صرف ۱۲ اعشاریہ ۲ فیصد نے خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی طریقہ استعمال کیا تھا، اور صرف ۸ اعشاریہ ۶ فیصد معاملوں میں کسی صحت کارکن نے مانع حمل استعمال نہ کرنے والی کسی عورت سے خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں کبھی بات کی تھی۔
’’ہم جب ماؤں اور باپ کو مانع حمل کے بارے میں بتاتے ہیں، تو [فیملی کی] بوڑھی عورتیں اسے پسند نہیں کرتیں۔ مجھ پر چیخا گیا، اور جب میں نے بات کرنا شروع کیا تو ماں یا میاں بیوی کو [کلینک تک ان کے ساتھ آنے والی بوڑھی عورتوں کے ذریعہ] وہاں سے چلے جانے کو کہا گیا۔ یہ سن کر اچھا نہیں لگتا، لیکن ہمیں اپنا کام کرنا پڑتا ہے،‘‘ ڈاکٹر منتشا کہتی ہیں، جو ڈاکٹر یاسمین کی طرح ہی اپنی فیملی میں پہلی ڈاکٹر ہیں۔
’’میرے مرحوم والد، سید قطب الدین احمد، مظفرپور کے ایک سرکاری اسپتال میں پیرامیڈیکل اسٹاف میں تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب خاتون ڈاکٹر ہوں گی، تب عورتیں آئیں گی۔ میں بن گئی،‘‘ ڈاکٹر یاسمین کہتی ہیں، ’’اور ہمیں یہاں ایسی مزید ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔‘‘
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتا لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز