’’پنکھے والے [ونڈ مل یا ہوائی چکی]، بلیڈ والے [شمسی توانائی کے فارم] ہمارے اورنوں پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں،‘‘ سونٹا گاؤں کے سومیر سنگھ بھاٹی کہتے ہیں۔ وہ کسان اور چرواہے ہیں، اور ان کا گھر جیسلمیر ضلع میں دیگرائے اورن کے قریب ہے۔
’اورن‘ ایک قدرتی باغ ہوتا ہے، جسے ایک مشترکہ املاک اور وسیلہ مانا جاتا ہے۔ یہاں کوئی بھی آ جا سکتا ہے۔ ہر ایک اورن کے ایک دیوتا ہوتے ہیں، جن کی آس پاس کے گاؤں والے پوجا کرتے ہیں، اور ارد گرد کی زمین وہاں رہنے والی برادریوں کے ذریعے تجاوزات سے پاک رکھی جاتی ہے۔ اورن کے درخت نہیں کاٹے جا سکتے ہیں، صرف سوکھ کر گری ہوئی لکڑیوں کو ہی جلانے کے لیے لے جایا جا سکتا ہے، اور اس زمین پر کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اورن کے آبی ذخائر کو بھی مقدس مانا جاتا ہے۔
حالانکہ، سومیر سنگھ بتاتے ہیں، ’’انہوں نے [قابل تجدید توانائی کی کمپنیوں نے] صدیوں پرانے درخت کاٹ ڈالے اور گھاس اور جھاڑیاں اکھاڑ دی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہے۔‘‘
سومیر سنگھ کے اس غصے میں دراصل جیسلمیر کے سینکڑوں گاؤوں میں رہنے والے لوگوں کا غصہ شامل ہے، جنہیں یہ لگتا ہے کہ اورنوں پر قابل تجدید توانائی (آر ای) کی کمپنیوں نے جبراً قبضہ کر لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ۱۵ سالوں میں اس ضلع کی ہزاروں ہیکٹیئر زمینیں بجلی کے ہائی ٹینشن تار اور مائیکرو گرڈ والی ہوائی چکیوں (ونڈ ملز) اور شمسی توانائی کے پلانٹوں کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ ان سب نے وہاں کی مقامی ماحولیات کو بری طرح متاثر کیا ہے، اور ان لوگوں کے معاش پر اثر ڈالا ہے جو ان جنگلات پر منحصر ہیں۔
’’مویشیوں کے گھاس چرنے کی کوئی جگہ نہیں بچی ہے۔ مارچ کے مہینہ میں ہی گھاس سوکھ چکی ہے اور اب ہمارے مویشیوں کے لیے چارے کے نام پر صرف کیر اور کھیجڑی کے درختوں کے پتے بچے ہیں۔ جانوروں کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا ہے، اس لیے وہ کم دودھ دیتے ہیں۔ جو مویشی ایک دن میں پانچ لیٹر دودھ دیتے تھے، اب وہ مشکل سے دو لیٹر دودھ ہی دیتے ہیں،‘‘ مویشی پرور جورا رام کہتے ہیں۔
نیم خشک گھاس کے میدان والے اورن مقامی برادریوں کے لیے کافی مفید ہیں۔ یہ مویشیوں کے لیے ہری گھاس، چارہ، پانی اور اپنے آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے ہزاروں لوگوں کو جلاون کی لکڑی مہیا کراتے ہیں۔
جورا رام کہتے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں سے ان کے اونٹ زیادہ دُبلے اور کمزور ہو گئے ہیں۔ ’’پہلے ہمارے اونٹ ایک دن میں ۵۰ الگ الگ قسموں کی گھاس اور پتیاں کھایا کرتے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ حالانکہ، ہائی ٹینشن تار زمین سے ۳۰ میٹر اوپر سے گزرتے ہیں، لیکن ان کے نیچے لگے پیڑ پودے ۷۵۰ میگا واٹ بجلی کے اثر سے کانپتے ہیں اور خوفزدہ مویشی ایسے بھاگتے ہیں جیسے ان کے پیچھے کوئی شکاری دوڑ رہا ہو۔ ’’ذرا اونٹ کے ایک چھوٹے بچے کا تصور کیجئے، جس نے اپنے منہ میں ایک پودا رکھا ہو،‘‘ جورا رام اپنا سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں۔
ان کے اور راسلا پنچایت میں رہنے والے ان کے بھائی مسنگھا رام کے پاس کچھ ۷۰ اونٹ ہیں۔ گھاس کے میدانوں کی تلاش میں ان کے مویشیوں کا ریوڑ جیسلمیر ضلع میں ایک دن میں ۲۰ سے بھی زیادہ کلومیٹر کا سفر کرتا ہے۔
مسنگھا رام کہتے ہیں، ’’دیواریں اونچی ہو گئی ہیں، ہمارے گھاس کے میدانوں سے گزرتے ہوئے ہائی ٹینشن تاروں اور کھمبوں [بادی توانائی] نے ہمارے اونٹوں کا اس جگہ گھاس چرنا مشکل کر دیا ہے۔ وہ کھمبے ڈالنے کے لیے کھودے گئے گڑھوں میں گر کر زخمی ہو جاتے ہیں۔ بعد میں ان کے زخموں میں انفکیشن ہو جاتا ہے۔ ان سولر پلیٹوں کا ہمارے لیے کوئی استعمال نہیں ہے۔‘‘
دونوں بھائیوں کا تعلق رائیکا چرواہا برادری سے ہے اور یہ لوگ گزشتہ کئی نسلوں سے اونٹ پالنے کا کام کرتے رہے ہیں، لیکن ’’پیٹ بھرنے کے لیے اب ہمیں مزدوری کرنے کی نوبت آ پڑی ہے،‘‘ کیوں کہ اب بیچنے کے لیے اتنے دودھ کی پیداوار نہیں ہو پاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے روزگار بہت آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ ’’فیملی کا ایک ہی آدمی کام کرنے باہر جا سکتا ہے۔‘‘ بقیہ لوگ مویشیوں کو چرانے کا اپنا پشتینی کام ہی جاری رکھ سکتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ صرف اونٹ پالنے والے چرواہے ہی پریشان ہیں، بلکہ تمام مویشی پروروں کو ان پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
تقریباً ۵۰ کلومیٹر یا اس سے تھوڑی کم دوری پر ۱۰ بجے صبح کے آس پاس چرواہے نجم الدین جیسلمیر ضلع کے گنگا رام ڈھانی اورن میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کی ۲۰۰ بھیڑ اور بکریاں کھانے کے لیے گھاس کے گچھوں کی امید میں اچھل کود مچا رہی ہیں۔
تقریباً ۵۵ سال کی عمر کے اس چرواہے کا گھر ناٹی گاؤں میں ہے۔ وہ ارد گرد اپنی نظریں گھماتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’آس پاس اکیلا یہی اورن کا ٹکڑا بچا رہ گیا ہے۔ چرائی کے لیے کھلے گھاس کے میدان تو اس علاقے میں کہیں بھی ملنے سے رہے۔‘‘ وہ اندازہ لگاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ چارہ خریدنے میں وہ ایک سال میں اوسطاً ۲ لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں۔
سال ۲۰۱۹ کے تخمینہ کے مطابق، راجستھان میں تقریباً ۴ء۱ کروڑ مویشی ہیں، اور یہاں سب سے زیادہ تعداد میں بکریاں (۸ء۲ کروڑ)، ۷۰ لاکھ بھیڑیں اور ۲۰ لاکھ اونٹ ہیں۔ ان مشترکہ وسائل کے ختم ہونے کی وجہ سے ان تمام مویشیوں پر گہرا اثر پڑ رہا ہے۔
حالات کے ابھی مزید خراب ہونے کے آثار ہیں۔
بین ریاستی ٹرانس مشن سسٹم گرین انرجی کوریڈور اسکیم کے دوسرے مرحلہ میں، ایک اندازہ کے مطابق، ۱۰۷۵۰ سرکٹ کلومیٹر (سی کے ایم) ٹرانس مشن لائنیں بچھائی جانی ہیں۔ اس پروجیکٹ کو ۶ جنوری، ۲۰۲۲ کو اقتصادی امور کی کابینہ کمیٹی (سی سی اے) کی منظوری مل چکی ہے اور اسے سات ریاستوں میں نافذ کیا جانا ہے، جس میں راجستھان بھی شامل ہے۔ نئی اور قابل تجدید توانائی کی مرکزی وزارت (ایم این آر ای) کی ۲۰۲۲-۲۰۲۱ کی سالانہ رپورٹ میں اس کا ذکر ہے۔
یہ صرف چراگاہوں کے مسلسل کم ہونے کا معاملہ نہیں ہے۔ ’’جب آر ای کمپنیاں آتی ہیں، تو سب سے پہلے وہ پورے علاقے کے سبھی درختوں کو کاٹ ڈالتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقامی نسل کے سبھی کیڑے مکوڑے، پتنگے، پرندے، تتلیاں وغیرہ سبھی مر جاتے ہیں اور پورا حیاتیاتی دائرہ (لائف سائیکل) متاثر ہو جاتا ہے۔ پرندوں اور حشرات کی افزائش کرنے کی جگہیں بھی تباہ کر دی جاتی ہیں،‘‘ پارتھ جگانی، جو ایک مقامی ماحولیاتی کارکن ہیں، کہتے ہیں۔
اور سینکڑوں کلومیٹر لمبے بجلی کے تاروں کی وجہ سے ہوا میں پیدا ہوئی رکاوٹ کے سبب ہزاروں کی تعداد میں پرندے مارے جا رہے ہیں، جن میں راجستھان کا ریاستی پرندہ جی آئی بی (تغدار پرندہ) بھی شامل ہے۔ (پڑھیں: بجلی کے تاروں کی بھینٹ چڑھتا تغدار پرندہ )
سولر پلیٹوں کے آنے سے یہاں کا درجہ حرارت لگاتار بڑھا ہے۔ ہندوستان میں گرمی کی خطرناک لہریں دیکھی جا رہی ہیں؛ راجستھان کے ریگستان کی آب و ہوا میں، سالانہ درجہ حرارت ۵۰ ڈگری سیلسیس سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی پورٹل کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ اب سے ۵۰ سال بعد، جیسلمیر کے کیلنڈر میں ’سب سے زیادہ گرم دنوں‘ والا ایک اضافی مہینہ جڑ جائے گا – ۲۵۳ دنوں سے بڑھ کر ۲۸۳ دن۔
ڈاکٹر سمت ڈوکیا وضاحت کرتے ہیں کہ درختوں کے کٹنے سے ہونے والے نقصان سولر پینلوں سے پیدا ہونے والی گرمی کی وجہ سے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سمت ایک تحفظاتی بائیو لوجسٹ ہیں جو کئی دہائیوں سے اورنوں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ’’شیشے کی پلیٹوں کے عکس سے پڑنے والے اثرات کی وجہ سے مقامی ماحولیات کے درجہ حرارت میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ موسم بدلنے کی صورت میں اگلے پچاس سالوں میں درجہ حرارت میں ایک سے ۲ ڈگری اضافہ کی امید کی جاتی ہے، ’’لیکن اب یہ رفتار بہت تیزی سے بڑھی ہے اور کیڑے مکوڑوں کی مقامی نسلیں خاص طور سے زیرگی کے لیے ضروری پتنگے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ کے سبب اس علاقے کو چھوڑ دینے کے لیے مجبور ہیں۔‘‘
ایم این آر ای کی رپورٹ کے مطابق، دسمبر ۲۰۲۱ میں راجستھان میں چھ اور سولر پارک بنانے کے منصوبہ کو منظوری ملی ہے۔ وبائی مرض کے دوران راجستھان نے قابل تجدید توانائی (آر ای) کی اپنی صلاحیت میں سب سے زیادہ ترقی کی اور ۲۰۲۱ کے صرف ۹ مہینے (مارچ سے دسمبر) میں بجلی کی پیداوار میں ۴۲۴۷ میگا واٹ کا اپنا تعاون دیا۔
مقامی لوگوں کے مطابق، یہ ایک خفیہ کارروائی تھی: ’’جب لاک ڈاؤن کے سبب پوری دنیا ٹھپ تھی، یہاں کام لگاتار جاری رہا،‘‘ مقامی کارکن پارتھ کہتے ہیں۔ ہوائی چکیوں کی افق تک جاتی لمبی قطار کو دکھاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’دیوی کوٹ سے دیگرائے مندر تک جانے والی اس ۱۵ کلومیٹر لمبی سڑک کے دونوں طرف لاک ڈاؤن سے پہلے کچھ بھی نہیں بنا تھا۔‘‘
یہ سب کیسے ہوا، اسے تفصیل سے بتاتے ہوئے نارائن رام کہتے ہیں، ’’وہ پولیس جیسی لاٹھیاں اپنے ساتھ لے کر آئے۔ سب سے پہلے انہوں نے ہمیں بھگایا اور اس کے بعد اپنی مرضی کی کرنے لگے۔ انہوں نے پیڑ کاٹ ڈالے اور زمینیں برابر کر دیں۔‘‘ وہ راسلا پنچایت میں رہتے ہیں اور یہاں دیگرائے ماتا مندر کے آس پاس کے علاقوں سے جمع دیگر بزرگوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اس مندر میں مشہور دیوی ہی اورنوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
’’اورنوں کو ہم اسی عقیدت سے دیکھتے ہیں جیسے اپنے مندروں کو دیکھتے ہیں۔ ان سے ہمارا عقیدہ جڑا ہوا ہے۔ ہمارے مویشی یہاں گھاس چرتے ہیں۔ یہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کی پناہ گاہ ہے۔ ہمارے لیے یہں کے آبی ذخائر مقدس ہیں۔ یہ ہمارے لیے ہماری دیوی کی طرح ہیں۔ اونٹ، بکریاں، بھیڑ، سبھی ان کا استعمال کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اس نامہ نگار کے ذریعے جیسلمیر کے ضلع کلکٹر سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششوں کے بعد بھی ان سے ملنے کا موقع نہیں مل پایا۔ ایم این آر ای کے تحت آنے والے شمسی توانائی کے قومی ادارہ سے رابطہ کرنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں مل پایا، اور ایم این آر ای سے ایل میل کے ذریعے پوچھے گئے سوالات کا بھی کوئی جواب اس رپورٹ کے شائع ہونے تک نہیں مل پایا ہے۔
ریاستی بجلی کارپوریشن کے ایک مقامی عہدیدار نے بتایا کہ اس موضوع پر بات چیت کرنے کے لیے وہ مجاز نہیں ہیں، لیکن اس نے یہ ضرور بتایا کہ اسے کسی بھی پاور گرڈ کے ذریعے کسی پروجیکٹ یا اس کے عمل کو ملتوی کرنے کے سلسلے میں کسی طرح کی کوئی گائیڈ لائن موصول نہیں ہوئی ہے۔
*****
جتنی آسانی سے آر ای کمپنیوں نے راجستھان میں داخل ہو کر زمینوں پر اپنا قبضہ جمایا، اس کی جڑیں نوآبادیاتی دور کے اس پس منظر میں تلاش کی جا سکتی ہیں، جس کے مطابق وہ سبھی زمینیں ’بنجر زمینیں‘ ہیں جن سے محصولات حاصل نہیں ہوتا ہے۔ ان میں نیم خشک کھلے سوانا اور گھاس کے میدان بھی شامل ہیں۔
اگرچہ سینئر سائنس دانوں اور ماہرین تحفظات نے اس غلط طریقے سے کی گئی درجہ بندی کی کھل کر مخالفت کی، لیکن حکومت ہند نے ۲۰۰۵ سے شائع ہونے والے ویسٹ لینڈ ایٹلس میں اس بارے میں کسی ترمیم کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس ایٹلس کا پانچواں ایڈیشن ۲۰۱۹ میں شائع ہو چکا ہے، لیکن اسے پوری طرح ڈاؤن لوڈ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ویسٹ لینڈ ایٹلس ۱۶-۲۰۱۵ کے مطابق، ہندوستان کی ۱۷ فیصد زمین کی درجہ بندی گھاس کے میدان کے طور پر کی گئی ہے۔ سرکاری طور پر گھاس کے میدان، اور جھاڑی دار اور کانٹے دار جنگلاتی علاقوں کو ’بنجر‘ یا ’غیر زرخیز زمین‘ کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
’’ہندوستان خشک زمین کے حیاتیاتی نظام کو تحفظ، ذریعہ معاش اور حیاتیاتی تنوع کے نقطہ نظر سے مفید ہونے کی بات کو تسلیم نہیں کرتا ہے۔ ایسے میں یہ زمینیں ماحولیات میں تبدیلی اور اسے غیر تلافی نقصان پہنچانے کے نظریہ سے ایک آسان ذریعہ بن جاتی ہیں،‘‘ تحفظاتی سائنس داں ڈاکٹر ابی ٹی ونک کہتے ہیں، جو گھاس کے میدانوں کی اس غلط درجہ بندی کے خلاف گزشتہ دو سے بھی زیادہ دہائیوں سے لڑ رہے ہیں۔
’’سولر فارم اُس جگہ کو بھی بنجر بنا دیتا ہے جو پہلے سے بنجر نہیں تھی۔ آپ ایک سولر فارم بنانے کی لالچ میں ایک زندہ ماحولیات کا قتل کر ڈالتے ہیں۔ بیشک آپ بجلی پیدا کرتے ہیں، لیکن کیا یہ ایک گرین انرجی (سبز توانائی) ہے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ان کے مطابق، راجستھان کی ۳۳ فیصد زمین کھلے قدرتی حیاتیاتی نظام (او این ای) کا حصہ ہے اور کسی بھی لحاظ سے یہ بنجر زمین نہیں ہے، جیسا کہ اس کی درجہ بندی کی گئی ہے۔
نیچر کنزرویشن فاؤنڈیشن کے ماہر ماحولیات ایم ڈی مدھو سودن کے ساتھ مشترکہ طور پر لکھے گئے ایک تحقیقی مقالہ میں لکھتے ہیں، ’’او این ای کے تحت ہندوستان کی ۱۰ فیصد زمین ہونے کے باوجود صرف ۵ فیصد زمین ہی اس کے ’پروٹیکٹیڈ ایریا‘ یعنی محفوظ علاقہ (پی اے) کے ماتحت آتا ہے۔‘‘ اس تحقیقی مقالہ کا موضوع ہندوستان کے نیم خشک عوامی قدرتی حیاتیاتی نظام کے علاقے اور اس کی تقسیم کی پیمائش ہے۔
ان اہم گھاس کے میدانوں کی وجہ سے ہی چرواہا جورا رام یہ کہتے ہیں، ’’سرکار ہم سے ہمارا مستقبل چھین رہی ہے۔ اپنی برادری کو بچانے کے لیے ہمیں اپنے اونٹوں کو بچانے کی ضرورت ہے۔‘‘
سال ۱۹۹۹ میں سابقہ ڈپارٹمنٹ آف ویسٹ لینڈ ڈیولپمنٹ کا نام بدل کر ڈپارٹمنٹ آف لینڈ رسورسز (ڈی او ایل آر) کر دیا گیا، جس سے چیزیں اور زیادہ بگڑ گئیں۔
ونک کہتے ہیں، ’’سرکار کی اس بارے میں سمجھ تکنیک پر مرکوز ہے۔ وہ حالات کی انجینئرنگ اور یکسانیت پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔‘‘ اشوکا ٹرسٹ فار ریسرچ اِن ایکولوجی اینڈ دی انوائرمنٹ (اے ٹی آر ای ای) میں پروفیسر کے عہدہ پر فائز ونک کہتے ہیں، ’’مقامی ماحولیات کا دھیان نہیں رکھا جا رہا ہے، اور ہم عام لوگوں کے ساتھ ان کی زمین کے رشتوں کی اندیکھی کر رہے ہیں۔‘‘
سونٹا گاؤں کی کمل کنور کہتی ہیں، ’’اورن سے اب کیر سانگڑی لانا ناممکن ہو گیا ہے۔‘‘ تقریباً ۳۰ سال کی کنور خاص کر اس بات سے بہت ناراض ہیں کہ مقامی کیر لکڑیوں کو اندھا دھند جلائے جانے کے سبب اب ان کی پسندیدہ بیری اور پھلیاں بھی ان کے لیے نایاب ہو گئی ہیں۔
ڈی او ایل آر کے ذریعے چلائی جا رہی مہم میں ’دیہی علاقوں میں روزگار کے مواقع بڑھانے‘ جیسے پروگرام بھی شامل کیے گئے ہیں، لیکن آر ای کمپنیوں کو زمین پر اختیار دے کر، چراگاہوں کے عوامی استعمال پر روک لگا کر اور غیر جنگلاتی لکڑی کی پیداوار (این ٹی ایف پی) کو ناقابل رسائی بنا کر مذکورہ پروگرام کے برخلاف کارروائی کی گئی ہے۔
کندن سنگھ جیسلمیر ضلع کے موکلا گاؤں کے ایک مویشی پرور ہیں۔ عمر میں ۲۵ سال کے کندن بتاتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں تقریباً ۳۰ کنبے ہیں، جو کھیتی اور مویشی پروری کرتے ہیں۔ ان کے لیے اپنے مویشیوں کے چارے کا انتظام کرنا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ’’انہوں نے [آر ای کمپنیوں نے] چہار دیواری کھڑی کر دی ہے اور ہم اپنے مویشیوں کو گھاس چرانے کے لیے اندر نہیں داخل ہو سکتے ہیں۔‘‘
جیسلمیر ضلع کا ۸۷ فیصد علاقہ دیہی قرار دے دیا گیا ہے، اور یہاں رہنے والے ۶۰ فیصد لوگ زرعی علاقے میں کام کرتے ہیں اور ان کے پاس جانور ہیں۔ ’’علاقے کے سبھی گھروں میں اپنے مویشی ہیں،‘‘ سومیر سنگھ کہتے ہیں۔ ’’میں خود بھی اپنے مویشیوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں کھلا پاتا ہوں۔‘‘
مویشی عام طور پر گھاس کھاتے ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں پیٹرن آف پلانٹ اسپیسیز ڈائیورسٹی نام سے شائع ہونے والے تحقیقی مقالہ کے مطابق، راجستھان میں ۳۷۵ قسم کی گھاس پائی جاتی ہے۔ یہ گھاس یہاں پر ہونے والی کم بارش کے مطابق خود کو زندہ اور تازہ رکھنے کے قابل ہیں۔
حالانکہ، جب آر ای کمپنیوں نے ان زمینوں پر قبضہ کیا، ’’یہاں کی مٹی غیر متوازن ہو گئی۔ مقامی پودوں کے سبھی جھرمٹ کئی کئی دہائی پرانے ہیں، اور یہاں کا ماحولیاتی نظام بھی سینکڑوں سال پرانا ہے۔ آپ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کر سکتے! ان کو ہٹانے کا مطلب ریگستانی علاقے کو بڑھانا ہے،‘‘ ونک اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
ہندوستان میں جنگلات کی حالت سے متعلق رپورٹ ۲۰۲۱ کے مطابق، راجستھان کے پاس ۴ء۳ کروڑ ہیکٹیئر زمین ہے، لیکن ان میں صرف ۸ فیصد زمین ہی جنگلی علاقہ کے طور پر نشان زد ہے، کیوں کہ جب سیٹلائٹ کا استعمال اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، تو صرف درختوں سے ڈھکی زمین کو ہی ’جنگلی علاقہ‘ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
لیکن اس ریاست کے جنگلی علاقے گھاس پر منحصر متعدد جانوروں کی پناہ گاہ بھی ہیں جن میں سے کئی جانوروں پر ختم ہونے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔ ان میں سے لیسر فلوریکن نسل، گریٹ انڈین بسٹرڈ، انڈین گرے وولف، گولڈن جیکال، انڈین فاکس، انڈین گجیل، بلیک بک، اسٹرائپڈ ہائینا، کیریکل، ڈیزرٹ کیٹ، انڈین ہیج ہاگ اور متعدد دوسری قسمیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیزرٹ مانیٹر لیزارڈ اور اسپائنی ٹیلڈ لیزارڈ جیسی انواع کو بھی فوری محفوظ کیے جانے کی ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ نے ۲۰۳۰-۲۰۱۰ کی دہائی کو حیاتیاتی نظام کی بحالی کی دہائی قرار دیا ہے: ’’حیاتیاتی نظام کی بحالی کا مطلب ان حیاتیاتی نظام کو بچانے میں مدد کرنے سے ہے جو یا تو برباد ہو چکے ہیں یا تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی، اس کا مقصد ان حیاتیاتی نظاموں کو محفوظ کرنا ہے جو ابھی بھی بچے ہوئے ہیں۔‘‘ آئی یو سی این کے نیچر ۲۰۲۳ پروگرام میں ’حیاتیاتی نظام کی بحالی‘ کو ترجیح کے نقطہ نظر سے سب سے اوپر رکھا گیا ہے۔
حکومت ہند ’گھاس کے میدانوں کو بچانے‘ اور ’کھلے جنگلی ماحولیات‘ کے مقصد سے بیرون ملک سے چیتے منگوا رہی ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوری ۲۰۲۲ میں ۲۲۴ کروڑ کی لاگت والے چیتا درآمداتی منصوبہ کا اعلان کیا گیا۔ لیکن چیتے اپنی حفاظت کرنے میں خود بھی بہت کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ درآمد کیے گئے ۲۰ چیتوں میں سے ۵ کی اب تک موت ہو چکی ہے۔ یہاں پیدا ہوئے ان کے تین بچے بھی زندہ نہیں رہ پائے ہیں۔
*****
اورنوں کے معاملے میں ایک اچھی خبر تب سننے میں آئی، جب ۲۰۱۸ میں اپنے ایک فیصلہ میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ’’…خشک علاقوں میں جہاں بہت کم ہریالی ہوتی ہے، گھاس کے میدانوں اور اس ایکولوجی کو جنگلاتی علاقہ کا درجہ دیا جانا چاہیے۔‘‘
حالانکہ، زمینی سطح پر کچھ بھی نہیں بدلا ہے اور آر ای کمپنیوں کے ساتھ لگاتار معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ مقامی سماجی کارکن امن سنگھ، جو اِن جنگلات کو قانونی درجہ دلوانے کی لڑائی لڑ رہے ہیں، نے ’’ہدایت اور مداخلت‘‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو ایک عرضی دی ہے۔ عدالت نے ۱۳ فروری، ۲۰۲۳ کو ایک نوٹس جاری کرتے ہوئے راجستھان حکومت سے کارروائی کرنے کے لیے کہا ہے۔
’’سرکار کے پاس اورنوں کے لیے مناسب ڈیٹا بیس دستیاب نہیں ہے۔ محصولات کے کاغذات بھی اپ ڈیٹ نہیں ہیں، اور ان میں متعدد اورنوں کا ذکر نہیں ہے۔ ان پر قبضہ کیا جا چکا ہے،‘‘ کرشی عوام پارستھتکی وکاس سنگٹھن کے بانی امن کہتے ہیں۔ یہ تنظیم عوامی زمین، خاص کر اورنوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے پابند عہد ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اورنوں کو ’نیم جنگلات‘ کا درجہ دے کر اسے قانوناً زیادہ محفوظ بنایا جانا چاہیے، تاکہ انہیں کان کنی، شمسی اور ہوائی تنصیبات، شہرکاری اور دیگر خطروں سے بچایا جا سکے۔ ’’اگر انہیں محصولات کے نقطہ نظر سے بنجر زمین کے زمرے میں رہنے دیا گیا، تب دوسرے مقاصد سے انہیں تقسیم کیے جانے کا خطرہ ان پر بنا رہے گا،‘‘ وہ نتیجہ کے طور پر کہتے ہیں۔
لیکن راجستھان شمسی توانائی پالیسی، ۲۰۱۹ کے ذریعے شمسی توانائی کے پلانٹ اور کمپنیوں کو قابل کاشت زمین کی تحویل کا حق دے دیے جانے سے اورنوں پر مقامی لوگوں کی روایتی دعویداری پہلے کے مقابلے مزید کمزور ہوئی ہے۔ آر ای کمپنیوں اور حکومت دونوں کا واحد مقصد زیادہ سے زیادہ حد کا تعین کرنا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کے سامنے زمین کی تبدیلی سے متعلق کسی قسم کا کوئی کنٹرول اور پابندی جیسا دباؤ نہیں ہے۔
وائلڈ لائف بائیو لوجسٹ اور نئی دہلی کی گرو گوبند سنگھ اندر پرستھ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سمت ڈوکیا کہتے ہیں، ’’ہندوستان کے ماحولیاتی قوانین سبز توانائی (گرین انرجی) کی کوئی پڑتال نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن سرکار کوئی بھی قدم اٹھانے میں بے بس ہے، کیوں کہ قانون آر ای کی حمایت میں ہے۔‘‘
ڈوکیا اور پارتھ آر ای پلانٹوں سے نکلنے والے نان بائیو ڈی گریڈیبل کچروں کی بھاری مقدار سے فکرمند ہیں۔ ’’آر ای کمپنیوں کو یہ پٹّے ۳۰ سال کی مدت کے لیے دیے گئے ہیں، لیکن ہوائی چکیوں اور شمسی پینلوں کی عمر ۲۵ سال ہوتی ہے۔ انہیں کون برباد کرے گا اور یہ کام کہاں ہوگا،‘‘ ڈوکیا سوال کرتے ہیں۔
*****
’’ سر سانٹھے رونکھ رہے تو بھی سستو جان [اگر جان دے کر بھی ایک درخت بچایا جا سکا، تو یہ منافع کا سودا ہوگا]۔‘‘ رادھے شیام بشنوئی ایک مقامی کہاوت دہراتے ہیں، جو ’’درختوں کے ساتھ ہمارے رشتوں کو بیان کرتا ہے۔‘‘ وہ دھولیہ کے رہائشی ہیں اور بھادریا اورن کے پاس ہی رہتے ہیں۔ بشنوئی، گریٹ انڈین بسٹرڈ، جسے مقامی لوگ ’گوڈوَن‘ بھی کہتے ہیں، کے تحفظ کی حمایت میں اٹھنے والی اولین اور مضبوط آواز کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
’’تقریباً ۳۰۰ سال پہلے جودھپور کے راجہ نے ایک قلعہ بنانے کا فیصلہ لیا تھا اور انہوں نے اپنے وزیر سے قریب کے گاؤں کھیتو لائی سے لکڑی لانے کا حکم دیا۔ وزیر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سپاہیوں کو وہاں بھیج دیا۔ لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو بشنوئی لوگوں نے انہیں درخت کاٹنے سے روک دیا۔ وزیر نے اعلان کیا، ’درختوں اور ان سے لپٹے لوگوں کو کاٹ ڈالو‘۔‘‘
مقامی کہاوت کے مطابق، امرت دیوی کے ماتحت سبھی گاؤں والوں نے ایک ایک درخت کو گود لیا تھا۔ لیکن سپاہیوں نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ۳۶۳ لوگوں کو جان سے مار ڈالا۔
’’ماحولیات کے لیے اپنی جان قربان کر دینے کا وہی جذبہ ہمارے اندر آج بھی زندہ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سومیر سنگھ بتاتے ہیں کہ دیگرائے میں ۶۰ ہزار بیگھہ میں پھیلے اورن میں سے ۲۴ ہزار بیگھہ ایک مندر کے ٹرسٹ کے ماتحت ہے۔ بقیہ ۳۶ ہزار بیگھہ کو حکومت کے ذریعے ٹرسٹ کو منتقل نہیں کیا گیا ہے، اور ’’۲۰۰۴ میں حکومت نے اس زمین کو ہوائی توانائی کی کمپنیوں کو تقسیم کر دیا۔ لیکن ہم نے اپنی لڑائی لڑی اور آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں،‘‘ سومیر سنگھ کہتے ہیں۔
وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ جیسلمیر کی دوسری جگہوں کے چھوٹے اورنوں کے بچنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ بنجر زمین کے طور پر درجہ بندی کے سبب آر ای کمپنیاں آسانی سے انہیں اپنا نوالہ بنا رہی ہیں۔
’’یہ زمین پتھریلی لگتی ہے،‘‘ سونٹا میں اپنے کھیتوں میں نظر دوڑاتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہم یہاں باجرے کی سب سے جدید اور مقوی قسم اگاتے ہیں۔‘‘ موکلا گاؤں کے قریب کے ڈونگر پیر جی اورن میں کھیجڑی، کیر، جال اور بیر کے دو چار درخت ہیں۔ یہ یہاں انسانوں اور مویشیوں دونوں کے لیے ضروری خوراک ہیں اور مقامی ذائقوں کا اٹوٹ حصہ بھی ہیں۔‘‘
’’بنجر زمین!‘‘ سومیر سنگھ اس درجہ بندی کو ہی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ’’یہ زمینیں ان مقامی بے زمین لوگوں کو دے کر دیکھئے جن کے پاس معاش کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ یہ زمینیں ان کے حوالے کر دیجئے۔ وہ ان پر راگی اور باجرا اُگا سکتے ہیں اور ہر آدمی کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔‘‘
مانگی لال جیسلمیر اور کھیتو لائی کے درمیان ہائی وے (شاہراہ) پر ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم غریب لوگ ہیں۔ اگر کوئی ہمیں ہماری زمین کے عوض پیسے دینے کی پیشکش کرے گا، تو ہم کیسے منع کر سکتے ہیں؟‘‘
اسٹوری کی رپوٹر اس رپورٹ میں تعاون کرنے کے لیے بائیو ڈائیورسٹی کولیبوریٹو کے رکن ڈاکٹر روی چیلم کا شکریہ ادا کرتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز