یہ اسٹوری پاری کی ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی سیریز کا حصہ ہے، جس نے ماحولیات کی رپورٹنگ کے زمرہ میں سال ۲۰۱۹ کا رامناتھ گوئنکا ایوارڈ جیتا ہے
’’دزومو اب ہمارے درمیان کافی مقبول ہیں،‘‘ مغربی کامینگ ضلع کے لاگم گاؤں کے ۳۵ سالہ خانہ بدوش چرواہے، پیمپا چھیرِنگ کہتے ہیں۔
دزومو؟ یہ کیا ہے؟ اور اروناچل پردیش کی ۹۰۰۰ فٹ اور اس سے زیادہ اونچی پہاڑیوں میں کیا چیز انھیں مقبول بناتی ہے؟
دزومو یاک اور کوٹ کے ہابرڈ ہیں، اونچے علاقوں کے مویشیوں کی ایک نسل۔ نر ہائبرڈ جسے دزو کہا جاتا ہے، بانجھ ہوتا ہے، اس لیے چرواہے مادہ، دزومو کو پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ کوئی نئی نسل نہیں ہے، لیکن ایک نیم خانہ بدوش چرواہا برادری، بروکپا، حال کے دنوں میں ان جانوروں کو اپنے جھنڈ میں زیادہ شامل کرنے لگے ہیں – تاکہ خود کو مشرقی ہمالیہ میں بدلتی آب و ہوا کے موافق ڈھالا جا سکے۔
پیمپا، جن کے ۴۵ جانوروں کے ریوڑ میں یاک اور دزومو دونوں شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ یاک مویشی ہائبرڈ ’’زیادہ گرمی کو برداشت کرنے والے ہیں اور کم اونچائی والے علاقوں اور بڑھتے درجہ حرارت کے تئیں خود کو بہتر طریقے سے ڈھال سکتے ہیں۔‘‘
ان بلند و بالا چراگاہوں میں، گرمی یا ’وارمنگ‘ بہت حقیقی اور بلا واسطہ دونوں ہیں۔ یہاں سال میں ۳۲ ڈگری سیلسیس درجہ حرارت والے دن نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن یاک، جو منفی ۳۵ ڈگری کو آسانی سے برداشت کر سکتے ہیں، اگر درجہ حرارت ۱۲ یا ۱۳ ڈگری سے زیادہ بڑھ جائے، تو جدوجہد کرنے لگتے ہیں۔ دراصل، ان تبدیلیوں کے رونما ہونے پر پورا ایکولوجی سسٹم جدوجہد کرنے لگتا ہے – جیسا کہ ان پہاڑوں میں حالیہ برسوں میں ہوا ہے۔
بڑی مونپا درج فہرست ذات (۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق پورے اروناچل میں ان کی تعداد تقریباً ۶۰ ہزار ہے) کے خانہ بدوش چرواہے، بروکپا صدیوں سے یاک کی پرورش کرتے آ رہے ہیں اور انھیں پہاڑی چراگاہوں میں بھیجتے ہیں۔ سخت سردیوں کے دوران، وہ نچلے علاقوں میں رہتے ہیں، اور گرمیوں میں وہ اونچے پہاڑی علاقوں میں چلے جاتے ہیں – ۹ ہزار سے ۱۵ ہزار فٹ کی اونچائی پر چلتے ہیں۔
لیکن لداخ کے چانگ تھانگ علاقے کے چانگپا کی طرح، بروکپا بھی اب زیادہ سنگین آب و ہوا کی چپیٹ میں آ چکے ہیں۔ صدیوں سے، ان کا ذریعہ معاش، ان کا سماج، یاک، مویشی، بکری اور بھیڑ کو پالنے اور چرانے پر مبنی ہے۔ ان میں سے، وہ یاک پر سب سے زیادہ منحصر ہیں – اقتصادی، سماجی اور روحانی سطحوں پر۔ یہ رشتہ اب سنگین طور پر کمزور ہوا ہے۔
’’یاک گرمی کے سبب فروری کی شروعات میں ہی تھکاوٹ محسوس کرنے لگتے ہیں،‘‘ چندر گاؤں کی ایک خانہ بدوش خاتون، لیکی سُزوک نے مجھے بتایا۔ مئی میں مغربی کامینگ کے دیرانگ بلاک کے اپنے سفر کے دوران میں ان کی فیملی کے ساتھ ٹھہرا تھا۔ ’’گرمی گزشتہ کئی برسوں سے لمبے دنوں تک رہتی ہیں، درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ یاک کمزور ہو گئے ہیں،‘‘ ۴۰ سالہ لیکی کہتی ہیں۔
بروکپا کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت کے ساتھ، اروناچل پردیش کے پہاڑوں میں – جو چین کے تبت خود مختار علاقہ، بھوٹان اور میانمار کی سرحد پر واقع ہیں – گزشتہ دو دہائیوں میں موسم کا پورا حال غیر یقینی ہوگیا ہے۔
’’ہر چیز میں دیر ہونے لگی ہے،‘‘ پیما وانگے کہتے ہیں۔ ’’گرمیوں کی آمد میں دیری ہو رہی ہے۔ برفباری کی آمد میں دیری ہو رہی ہے۔ موسمی مہاجرت میں دیری ہو رہی ہے۔ بروکپا برف سے ڈھکے اپنے چرائی کے اونچے مقامات پر جاتے ہیں، انھیں ڈھونڈنے کے لیے۔ اس کا مطلب ہے کہ برف کے پگھلنے میں بھی دیری ہو رہی ہے۔‘‘ ۳۰ سالہ پیما بروکپا نہیں ہیں، بلکہ تھیمبانگ گاؤں کے ایک کنزرویٹر ہیں، جن کا تعلق مونپا درج فہرست ذات سے ہے اور وہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے لیے کام کرتے ہیں۔
اس بار میں، ان سے فون پر بات کر رہا ہوں، کیوں کہ عام طور سے میں جس علاقے میں جاتا ہوں، بھاری بارش کے بعد وہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن میں اس سال مئی میں وہاں گیا تھا، چندر گاؤں کے ایک بروکپا یاک چرواہے، ناگولی تسوپا کے ساتھ ایک چٹان پر کھڑے ہو کر، مغربی کمینگ ضلع کے ہرے بھرے جنگلوں کو دیکھتے ہوئے۔ ان کی برادری کے زیادہ تر لوگ یہاں اور توانگ ضلع میں آباد ہیں۔
’’یہاں سے ماگو بہت دور ہے، جو کہ گرمیوں کے ہمارے چراگاہ ہیں،‘‘ ۴۰ سالہ ناگولی نے کہا۔ ’’ہمیں وہاں پہنچنے کے لیے ۳-۴ راتوں تک جنگلوں سے ہوکر گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے [۱۰-۱۵ سال پہلے]، ہم مئی یا جون میں [اوپر کی طرف مہاجرت کے لیے] یہاں سے نکل جایا کرتے تھے۔ لیکن اب ہمیں پہلے ہی، فروری یا مارچ میں نکلنا پڑتا ہے اور ۲-۳ مہینے کی دیری سے لوٹنا پڑتا ہے۔‘‘
ناگولی، جن کے ساتھ میں اس علاقے میں اُگنے والے سب سے اچھے معیار کے بانس جمع کرنے کے لیے، بھاری دھند والے جنگلوں سے ہوکر ان کے لمبے سفر میں سے ایک میں گیا تھا، انھوں نے اور بھی کئی مسائل کی طرف اشارہ کیا: ’’گرمیوں کے دنوں میں اضافہ کے سبب، ہم جن بعض مقامی جڑی بوٹیوں کا استعمال یاک کے علاج میں کرتے ہیں، وہ ایسا لگتا ہے کہ اب اُگ نہیں رہی ہیں۔ ہم ان کی بیماریوں کا علاج اب کیسے کریں گے؟‘‘ انھوں نے کہا۔
اروناچل عام طور سے زیادہ بارش والی ریاست ہے، جہاں سالانہ اوسطاً ۳ ہزار ملی میٹر سے زیادہ بارش ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ ایک دہائی میں، کئی برسوں تک بارش کی کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ہندوستان کے محکمہ موسمیات کے اعدادوشمار کے مطابق، ان میں سے کم از کم چار برسوں میں یہ کمی ۲۵ سے ۳۰ فیصد کے درمیان رہی۔ حالانکہ اس سال جولائی میں، ریاست میں ہونے والی موسلا دھار بارش کے سبب کچھ سڑکیں یا تو بہہ گئیں یا پانی میں ڈوب گئیں۔
ان اتار چڑھاؤ کے درمیان، پہاڑوں میں درجہ حرارت لگاتار بڑھ رہا ہے۔
سال ۲۰۱۴ میں، وِسکانسِن-میڈیسن یونیورسٹی کے ایک مطالعہ نے مشرقی تبتی پٹھار (بڑا جغرافیائی علاقہ جس میں ارونچال واقع ہے) میں درجہ حرارت میں تبدیلی کو درج کیا۔ یومیہ کم درجہ حرارت ’’گزشتہ ۲۴ برسوں میں بہت بڑھ گیا‘‘ (۱۹۸۴ سے ۲۰۰۸ کے درمیان)۔ ۱۰۰ برسوں میں یومیہ اعلیٰ درجہ حرارت ۵ ڈگری سیلسیس کی شرح سے بڑھا تھا۔
’’ہم غیر یقینی موسم کے ایشوز سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں،‘‘ ۳۰ سالہ ایک اور چرواہے، چھیرنگ ڈونڈُپ کہتے ہیں، جن سے ہماری راستے میں ملاقات ہوئی تھی۔ ’’ہم نے اپنی مہاجرت کا وقت دو یا تین مہینے آگے بڑھا دیا ہے۔ ہم چرائی کا استعمال زیادہ سائنسی طریقے سے کر رہے ہیں [بے ترتیب چرائی کے بجائے زیادہ پیٹرن والے طریقے سے]۔‘‘
ان کی طرح، بروکپا کے زیادہ تر لوگ ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں جانتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کے بارے میں وہ زیادہ کچھ نہیں بولتے، لیکن اس سے ہونے والے نقصان کو سمجھتے ہیں۔ اور یہاں کچھ پرجوش ہیں: وہ مختلف موافق حکمت عملیوں کا پتہ لگا رہے ہیں، کئی محقق کہتے ہیں۔ برادری کا سروے کرنے والے ایک گروپ نے ۲۰۱۴ میں انڈیا جرنل آف ٹریڈیشنل نالیج میں اس طرف اشارہ کیا تھا۔ ان کی تحقیق نے نتیجہ نکالا کہ مغربی کمینگ کے ۷۸ء۳ فیصد اور توانگ کے ۸۵ فیصد بروکپا – اروناچل میں اس خانہ بدوش برادری کے ۸۱ء۶ فیصد – ’’بدلتے ماحولیاتی منظر نامہ ... کے بارے میں بیدار تھے۔‘‘ اور ان میں سے ۷۵ فیصد نے ’’کہا کہ انھوں نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کم از کم ایک موافق حکمت عملی اپنائی ہے۔‘‘
محقق دیگر حکمت عملیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں – ’ریوڑ کی تکثیریت‘، کافی اونچے علاقوں میں مہاجرت، مہاجرتی کیلنڈر میں تبدیلی۔ ان کا پیپر ’’ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے ’’۱۰ نظاموں‘‘ کی بات کرتا ہے۔ دیگر حکمت عملیوں میں شامل ہیں چراگاہوں کے استعمال میں تبدیلی، تباہ کیے جا چکے اونچائی والے چراگاہوں کا احیا، مویشی پروری کے ترمیم شدہ طریقے، اور مویشی یاک ہائبرڈائزیشن۔ اس کے علاوہ، جہاں گھاس کم ہے وہاں دیگر چاروں کا انتظام کرنا، مویشیوں کی صحت سے متعلق نئے طریقوں کو اپنانا، اور سڑکوں کی تعمیر میں مزدوری، چھوٹے کاروبار، اور پھلوں کو جمع کرنے جیسے آمدنی کے اضافی ذرائع کو تلاش کرنا۔
یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ کیا یہ یا سبھی کام کریں گے اور بڑی عمل کاریوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔ لیکن وہ کچھ کر رہے ہیں – اور کرنا بھی چاہیے۔ چرواہوں نے مجھے بتایا کہ یاک کی اقتصادیات میں گراوٹ سے اوسط فیملی اپنی سالانہ آمدنی کا ۲۰-۳۰ فیصد کھو چکے ہیں۔ دودھ کی پیداوار میں گراوٹ کا مطلب گھر میں بنائے جانے والے گھی اور چھُرپی (یاک کے پھٹے دودھ سے بنایا گیا پنیر) کی مقدار میں بھی کمی ہے۔ دزومو طاقتور تو ہو سکتا ہے، لیکن دودھ اور پنیر کے معیار میں، یا مذہبی اہمیت کے معاملے میں بھی یاک سے میل نہیں کھاتا۔
’’جس طرح سے یاک کے جھنڈ سکڑتے جا رہے ہیں یا ان میں کمی آ رہی ہے، اسی طرح سے بروکپا کی آمدنی بھی گھٹ رہی ہے،‘‘ پیما وانگے نے اس مئی کے سفر کے دوران مجھ سے کہا۔ ’’اب [معاشی طور پر ترمیم شدہ] پیک کیا ہوا پنیر مقامی بازار میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اس لیے چھُرپی کی فروخت کم ہو رہی ہے۔ بروکپا دونوں طرح سے نقصان میں ہیں۔
اُس بار میرے گھر لوٹنے سے کچھ وقت پہلے، میری ملاقات ۱۱ سالہ نوربو تھوپتن سے ہوئی۔ وہ بروکپا کے ذریعے اپنی مہاجرت کے دوران استعمال کیے جانے والے راستے سے ملحق تھُمری نام کی علاحدہ بستی میں اپنے ریوڑ کے ساتھ تھے۔ ’’میرے دادا جی کا وقت سب سے اچھا تھا،‘‘ انھوں نے خوداعتمادی سے کہا۔ اور، شاید اپنے بزرگوں کی بات کی ترجمانی کرتے ہوئے آگے کہا: ’’زیادہ چراگاہ اور کم لوگ۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس نہ تو سرحد کی کوئی قید تھی اور نہ ہی ماحولیات سے متعلق مشکلیں۔ لیکن خوشی کے دن اب صرف پرانی یادیں ہیں۔‘‘
موسمیاتی تبدیلی پر پاری کی ملک گیر رپورٹنگ، عام لوگوں کی آوازوں اور زندگی کے تجربہ کے توسط سے اس واقعہ کو ریکارڈ کرنے کے لیے یو این ڈی پی سے امداد شدہ پہل کا ایک حصہ ہے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)