تنوجا کی کمر میں ہونے والا درد جب ناقابل برداشت ہو گیا، تو وہ ایک ہومیو پیتھ کے پاس دکھانے گئیں۔ ’’اس نے بتایا کہ میرے اندر کیلشیم اور آئرن کی کمی ہے اور مجھے فرش پر بیٹھنے سے منع کیا۔‘‘
تنوجا، مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلع میں بیڑی بنانے کا کام کرتی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں روزانہ آٹھ گھنٹے فرش پر بیٹھ کر بیڑیوں کو باندھنا پڑتا ہے۔ تقریباً ۵۰ سال کی ہو چکیں تنوجا کہتی ہیں، ’’مجھے بخار اور کمزوری محسوس ہوتی ہے، اور پیٹھ میں کافی درد رہتا ہے۔ کاش کہ میں اپنے لیے ایک کرسی اور میز خرید پاتی!‘‘
نومبر کے آخری دن چل رہے ہیں اور ہریک نگر محلہ میں واقع ان کے گھر کی سیمنٹ والی فرش پر گرم دھوپ آنے لگی ہے۔ تنوجا تاڑ کے پتے سی بنی مدور (چٹائی) پر بیٹھ کر ایک کے بعد ایک بیڑی رول کرنے میں مصروف ہیں۔ کیندو کے پتوں کو موڑتے وقت ان کی انگلیاں پوری مہارت سے گھوم رہی ہیں، کہنیاں ایک خاص پوزیشن پر ہیں، کندھے اوپر کو اٹھے ہوئے اور سر ایک طرف کو جھکا ہوا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میری انگلیاں اتنی سُنّ (بے حس) ہیں کہ ان کے ہونے کا احساس ہی نہیں ہو رہا ہے۔‘‘
ان کے آس پاس بیڑی بنانے کا سارا سامان رکھا ہوا ہے: کیندو کے پتّے، صاف کیا ہوا تمباکو اور دھاگوں کے گچھے۔ ایک چھوٹا سا دھار دار چاقو اور دو قینچی ان کے اوزار ہیں، جن کی مدد سے وہ بیڑی بناتی ہیں۔
گھر کے لیے ضروری سامان لانے، کھانا پکانے، پانی بھرنے، گھر اور برآمدے کی صفائی کرنے اور اس قسم کے دیگر گھریلو کاموں کے لیے تنوجا تھوڑی دیر کے لیے چھٹی لیتی ہیں۔ لیکن ان سب کے درمیان، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ دن بھر میں اگر انہوں نے ۵۰۰-۷۰۰ بیڑیاں نہیں باندھیں تو ہر مہینے ہونے والی ان کی ۳۰۰۰ روپے کی کمائی گھٹ بھی سکتی ہے۔
اسی لیے، وہ صبح سے لے کر آدھی رات تک یہ کام کرتی ہیں۔ بیڑی سے اپنی نظریں ہٹائے بغیر تنوجا بتاتی ہیں، ’’فجر کی اذان ہوتے ہی میں اٹھ جاتی ہیں۔ اور نماز پڑھنے کے بعد اپنا کام شروع کر دیتی ہوں۔‘‘ انہیں چونکہ ٹائم دیکھنا نہیں آتا، اس لیے وہ اذان کی آواز سے ہی اپنے وقت کا اندازہ لگاتی ہیں۔ مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان وہ رات کا کھانا پکاتی ہیں، اس کے بعد بیڑی کے پتوں کو کاٹنے اور انہیں رول کرنے میں کم از کم مزید دو گھنٹے لگانے کی کوشش کرتی ہیں، پھر آدھی رات کو سونے چلی جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’اس کمر توڑ کام کے دوران مجھے صرف نماز کے لیے ہی چھٹی مل پاتی ہے؛ تب میں تھوڑا آرام اور سکون حاصل کرتی ہوں۔‘‘ تنوجا سوال کرتی ہیں، ’’لوگ کہتے ہیں کہ بیڑی پینے سے آدمی بیمار پڑتا ہے۔ کیا انہیں پتہ ہے کہ بیڑی بنانے والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟‘‘
سال ۲۰۲۰ میں، آخرکار تنوجا جب ضلعی اسپتال کے ڈاکٹر کے پاس جانے کی تیاری کر رہی تھیں، تبھی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا اور کووڈ کے ڈر سے وہ سرکاری اسپتال نہیں جا سکیں۔ بجائے اس کے، انہوں نے ایک ہومییوپتھ ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کے بیلڈانگا-1 بلاک میں بیڑی بنانے والے کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ سب سے پہلے غیر رجسٹرڈ معالجین کے علاوہ، اکثر اسی قسم کے ہومیوپیتھ کے پاس جانا پسند کرتے ہیں۔ دیہی صحت کی شماریات ۲۱-۲۰۲۰ کے مطابق، مغربی بنگال کے ابتدائی طبی مراکز یا پرائمری ہیلتھ سینٹر (پی ایچ سی) میں ۵۷۸ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ اس کے علاوہ، دیہی علاقوں میں ۵۸ فیصد پی ایچ سی کی کمی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں علاج تھوڑا سستا ضرور ہے، لیکن اس کے لیے تشخیص کے بعد ٹیسٹ اور اسکین وغیرہ کرانے کے لیے مریضوں کو لمبی قطاروں میں لگنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کی دہاڑی ماری جاتی ہے، جیسا کہ تنوجا کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا ہے۔‘‘
جب ہومیو پیتھ کی دوا سے کام نہیں چلا، تو تنوجا نے اپنے شوہر سے ۳۰۰ روپے مانگے، اس میں اپنی جیب سے مزید ۳۰۰ روپے ملائے اور ایک مقامی ایلوپیتھک ڈاکٹر کے پاس پہنچ گئیں۔ ’’اس نے مجھے کچھ ٹیبلیٹس دیے اور سینے کا ایکس رے اور اسکین کرانے کو کہا۔ میں نے وہ نہیں کرایا،‘‘ تنوجا بتاتی ہیں، اور واضح کرتی ہیں کہ ان کے پاس وہ سب کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔
مغربی بنگال میں ۲۰ لاکھ مزدور بیڑی بنانے کا کام کرتے ہیں، جن میں سے ۷۰ فیصد خواتین ہیں، تنوجا بھی انہیں میں سے ایک ہیں۔ ان کے کام کے حالات اس قدر خراب ہیں کہ دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے انہیں کئی قسم کے طبی مسائل جیسے کہ جسم میں اینٹھن، پٹھوں اور اعصاب میں درد، پھیپھڑے کی بیماریاں اور تپ دق (ٹیوبر کلوسس) تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان مزدوروں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے اور کھانے میں غذائیت کی کمی، کام سے متعلق بیماریوں کو مزید بڑھا دیتی ہے، جس سے ان کی مجموعی صحت اور تولیدی صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔
مرشد آباد میں ۱۵ سے ۴۹ سال کی عمر والی ۶ء۷۷ فیصد عورتیں اینیمیا (بدن میں خون کی کمی) کی شکار ہیں، حالانکہ چار سال قبل ایسی عورتوں کی تعداد صرف ۵۸ فیصد تھی۔ اینیمیا کی شکار عورتوں کے بچوں میں بھی خون کی کمی ہونے کا قوی امکان رہتا ہے۔ حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ اس ضلع کی تمام عورتوں اور بچوں میں اینیمیا کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ، اس ضلع میں ۵ سال سے کم عمر کے ۴۰ فیصد بچوں کی نشوونما ٹھیک سے نہیں ہو پا رہی ہے، اور تشویش کی بات یہ ہے کہ چار سال پہلے یعنی ۲۰۱۶-۲۰۱۵ کے این ایف ایچ ایس میں درج اس شرح میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔
ماٹھ پاڑہ محلے میں رہنے والے احسن علی ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں، جو وہاں پر دواؤں کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ ویسے تو وہ ایک غیر تربیت یافتہ معالج ہیں، لیکن کمیونٹی کے لوگ طبی مسائل کے بارے میں انہی کی صلاح پر بھروسہ کرتے ہیں کیوں کہ وہ بھی بیڑی بنانے والی ایک فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۳۰ سالہ احسن علی کا کہنا ہے کہ بیڑی بنانے والے لوگ درد کی گولیاں اور مرہم کے لیے ان کے پاس آتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’۲۶-۲۵ سال کی عمر ہونے پر، انہیں کئی قسم کے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کہ اینٹھن، پٹھوں کا کمزور ہونا، اعصاب سے متعلق درد اور سر میں تیز درد۔‘‘
چھوٹی لڑکیوں کو بچپن کے ابتدائی دنوں میں اپنے گھروں میں لگاتار تمباکو کے رابطے میں رہنے، اور دن کے ٹارگیٹ کو پورا کرنے میں اپنی ماؤں کی مدد کرنے کی وجہ سے بیماری کا سنگین خطرہ لاحق رہتا ہے۔ تنوجا ابھی ۱۰ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ انہوں نے ماجھ پاڑہ محلہ میں بیڑی بنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں بیڑی کے کنارے کو موڑنے اور بیڑیوں کو باندھنے میں اپنی ماں کی مدد کیا کرتی تھی۔ ہمارے معاشرہ میں کہا جاتا ہے کہ ’جن لڑکیوں کو بیڑی رول کرنا نہیں آتا، انہیں کوئی شوہر نہیں ملے گا‘۔‘‘
۱۲ سال کی عمر میں رفیق الاسلام کے ساتھ ان کی شادی کر دی گئی تھی، جس کے بعد ان کے یہاں چار لڑکیوں اور ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی۔ این ایف ایچ ایس۔۵ کے مطابق، اس ضلع میں ۵۵ فیصد عورتوں کی شادی ۱۸ سال کی عمر سے پہلے ہی ہو گئی تھی۔ یونیسیف کے مطابق، کم عمری کی شادی اور بچے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ غذائیت کی کمی سے اگلی نسل پر برا اثر پڑتا ہے۔
ہیلتھ سپروائزر، ہاشی چٹرجی کا کہنا ہے، ’’عورتوں کی تولیدی اور جنسی صحت، ان کی عام صحت – جسمانی اور ذہنی دونوں – سے پوری طرح جڑی ہوئی ہے۔ آپ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کر سکتے۔‘‘ وہ بیلڈانگا بلاک-1 میں واقع مرزا پور پنچایت کی انچارج ہیں اور صحت کی مختلف اسکیموں کو ضرورت مند لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری سنبھال رہی ہیں۔
تنوجا کی ماں زندگی بھر بیڑی بناتی رہی ہیں۔ اب وہ تقریباً ۷۰ سال کی ہو چکی ہیں، اور اپنی ماں کے بارے میں تنوجا بتاتی ہیں کہ ان کی صحت اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ وہ اب ٹھیک سے چل بھی نہیں پاتیں۔ وہ انتہائی مایوسی سے کہتی ہیں، ’’ان کی پیٹھ ٹوٹ چکی ہے اور اب وہ بستر پر پڑی ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے والا ہے۔‘‘
بیڑی کی صنعت میں کام کرنے والے تقریباً سبھی مزدور کم آمدنی والے گھروں سے تعلق رکھتے ہیں، جنہیں کوئی دوسرا ہنر نہیں آتا۔ اگر عورتیں بیڑی بنانے کا کام نہیں کریں گی تو انہیں اور ان کے اہل خانہ کو بھوکا رہنا پڑے گا۔ جب تنوجا کے شوہر کافی کمزور ہو گئے اور کام کے لیے گھر سے باہر نکلنے کے قابل نہیں رہے، تو بیڑی بنانے کے کام نے ہی اس چھ رکنی فیملی کا پیٹ بھرنے میں مدد کی تھی۔ وہ اپنی نوزائیدہ بچی – ان کی چوتھی بیٹی – کو ملائم کانتھا رضائی میں لپیٹ کر گود میں رکھ لیتیں اور بیڑی بنانے کا کام جاری رکھتیں۔ فیملی کی شدید ضرورت کی وجہ سے اس بچی کو بھی تمباکو کے گرد و غبار کا سامنا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
تنوجا بتاتی ہیں، ’’کسی زمانے میں، میں ایک دن میں ۱۲۰۰-۱۰۰۰ بیڑیاں بنا لیتی تھی۔‘‘ لیکن اب وہ ایک دن میں ۷۰۰-۵۰۰ بیڑیاں رول کرکے ماہانہ تقریباً ۳۰۰۰ روپے کماتی ہیں، جس کے لیے انہیں اپنی صحت کو داؤ پر لگا کر ٹارگیٹ کو پورا کرنا پڑتا ہے۔
مرشدہ خاتون، دیب کنڈا ایس اے آر ایم گرلز ہائی مدرسہ کی ہیڈ مسٹریس ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ بیلڈانگا بلاک-1 میں واقع ان کے مدرسہ میں ۸۰ فیصد سے زیادہ لڑکیاں ایسے ہی گھروں سے آتی ہیں، جو ٹارگیٹ کو پورا کرنے میں اپنی ماؤں کی مدد کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ چاول، دال اور سبزی کی شکل میں اسکول میں ملنے والا مڈ ڈے میل ان چھوٹی لڑکیوں کے لیے اکثر دن کا پہلا کھانا ہوتا ہے۔ وہ مزید بتاتی ہیں، ’’ان کے گھروں میں مردوں کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے، صبح میں عام طور پر کچھ بھی نہیں پکایا جاتا ہے۔‘‘
مرشد آباد ضلع پوری طرح سے ایک دیہی علاقہ ہے – یہاں کی ۸۰ فیصد آبادی ۲۱۶۶ گاؤوں میں رہتی ہے اور شرح خواندگی ۶۶ فیصد ہے، جو کہ ریاست کی اوسط شرح خواندگی ۷۶ فیصد سے کم ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ قومی کمیشن برائے خواتین کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس صنعت میں عورتوں کو اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ وہ گھر سے کام کر سکتی ہیں اور ان کی انگلیاں تیزی سے حرکت کرتی ہیں، جس کی اس کام میں ضرورت پڑتی ہے۔
*****
ان کے پاس چونکہ ایک منٹ کا بھی فالتو وقت نہیں ہوتا ہے، اس لیے شاہِ نور بی بی گھوگھنی کا مسالہ تیار کرنے کے لیے پیاز اور مرچ کاٹتے ہوئے ہی باتیں کر رہی ہیں۔ بیلڈانگا-1 کے ہریک نگر علاقہ سے تعلق رکھنے والی شاہ نور پہلے بیڑی بنانے کا کام کرتی تھیں، لیکن اب وہ آمدنی کی خاطر پیلے چنے سے تیار یہ مقبول ناشتہ شام کو اپنے گھر سے ہی فروخت کرنے لگی ہیں۔
۴۵ سالہ شاہ نور کہتی ہیں، ’’بیڑی بنانے والے کی قسمت میں بیمار پڑنا ہی لکھا ہے۔‘‘ انہیں دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور سانس لینے میں دقت ہو رہی ہے، لہٰذا کچھ مہینے پہلے وہ چیک اپ کرانے کے لیے بیلڈانگا گرامین ہسپتال گئی تھیں۔ ڈاکٹر کے کہنے پر انہوں نے ایک پرائیویٹ کلینک سے سینے کا ایکس رے بھی کرایا تھا۔ لیکن شوہر کے بیمار پڑ جانے کی وجہ سے وہ دوبارہ اسپتال نہیں جا سکی ہیں۔ انہیں گھوگھنی کیوں بیچنا پڑ رہا ہے، اس بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’میری دو بہوئیں مجھے بیڑی رول نہیں کرنے دیتیں۔ انہوں نے اب سارا کام اپنے ذمہ لے لیا ہے، لیکن اس [کمائی] پر ہمارا گزارہ نہیں ہونے والا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سلمان مونڈل اسی بلاک کے ایک اسپتال میں کام کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہاں ہر مہینے ٹی بی کے ۲۰ سے ۲۵ مریض آتے ہیں۔ بیلڈانگا-1 کے بلاک میڈیکل آفیسر (بی ایم او)، ڈاکٹر مونڈل کہتے ہیں، ’’بیڑی بنانے والوں کو تپ دق ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے کیوں کہ وہ لگاتار زہریلے غبار کے رابطے میں رہتے ہیں۔ اس سے انہیں اکثر زکام ہو جاتا ہے اور دھیرے دھیرے ان کے پھیپھڑے کمزور ہونے لگتے ہیں۔‘‘
یہاں سے تھوڑا آ گے درزی پاڑہ محلہ میں رہنے والی سائرہ بیوہ کو اکثر کھانسی زکام رہتا ہے۔ ان کی عمر تقریباً ۷۰ سال ہے، اور گزشتہ ۱۵ برسوں سے وہ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر سے متعلق مسائل کا سامنا کر رہی ہیں۔ تقریباً پانچ دہائیوں سے لگاتار بیڑی بنانے کی وجہ سے ان کے ہاتھ اور ناخن تمباکو کی گرد سے خراب ہو چکے ہیں۔
مونڈل بتاتے ہیں، ’’ موسلا [اچھی طرح پسا ہوا تمباکو] الرجی کی بنیادی وجہ ہے اور بیڑی بناتے وقت اس کے ذرات اور تمباکو کے غبار سانسوں کے ذریعے جسم کے اندر چلے جاتے ہیں۔ مغربی بنگال میں استھما کی شکار عورتوں کی تعداد مردوں سے دو گنا زیادہ ہے – ہر ایک لاکھ پر ۴۳۸۶ عورتیں (این ایف ایچ ایس۔۵)
بی ایم او اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ ’’تمباکو کی گرد سے رابطہ اور ٹی بی کے درمیان گہرا تعلق ہونے کے باوجود ہمارے یہاں کسی مخصوص شعبہ میں ٹی بی کی جانچ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔‘‘ یہ کمی خاص طور پر ایسے ضلع میں نمایاں ہے جہاں بیڑی بنانے والے سب سے زیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔ سائرہ کو کھانستے وقت خون آتا ہے – جو کہ ٹی بی کی ابتدائی علامت ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں بیلڈانگا گرامین ہسپتال گئی تھی۔ انہوں نے کچھ ٹیسٹ کیے اور مجھے کچھ گولیاں پکڑا دیں۔‘‘ انہوں نے سائرہ کو اپنے تھوک کی جانچ کرانے اور تمباکو کے غبار سے دور رہنے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ لیکن کوئی حفاظتی سامان فراہم نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ’پاری‘ نے ضلع کے جتنے بھی بیڑی بنانے والے مزدوروں سے ملاقات کی، ان میں سے کسی کے پاس نہ تو کوئی ماسک تھا اور نہ ہی دستانے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس روزگار سے متعلق کوئی کاغذ، سماجی تحفظ کے فوائد، معیاری اجرت، فلاح، حفاظت یا حفظان صحت کی سہولیات دستیاب نہیں تھیں۔
مرشد آباد کی دو تہائی آبادی مسلمانوں کی ہے اور بیڑی بنانے والی تقریباً سبھی عورتیں مسلم ہیں۔ رفیق الحسن تین دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے بیڑی بنانے والے مزدوروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ سینٹر فار انڈین ٹریڈ یونینز (سیٹو) کے بیلڈانگا کے سکریٹری، رفیق الحسن کہتے ہیں، ’’بیڑی کی صنعت ہمیشہ سے ہی آدیواسی اور مسلم لڑکیوں اور عورتوں کی شکل میں ملنے والے سب سے سستے مزدوروں کا استحصال کرتے ہوئے پروان چڑھی ہے۔‘‘
مغربی بنگال کا لیبر ڈپارٹمنٹ اس بات کو ریکارڈ پر تسلیم کرتا ہے کہ بیڑی بنانے والے، غیر رسمی شعبے کے سب سے کمزور کارکنوں میں سے ایک ہیں۔ لیبر ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کم از کم مزدوری ۲۶۷ روپے ۴۴ پیسے طے کی گئی ہے، لیکن بیڑی کے مزدوروں کو اتنی اجرت نہیں دی جاتی، انہیں ۱۰۰۰ بیڑی بنانے پر صرف ۱۵۰ روپے ہی ملتے ہیں۔ یہ اجرت سال ۲۰۱۹ میں اجرتوں سے متعلق ضابطہ کے تحت قومی سطح پر مقرر کی گئی ۱۷۸ روپے کی کم از کم مزدوری سے بھی کم ہے۔
سیٹو سے منسلک مرشد آباد ضلع بیڑی مزدور اور پیکرز یونین کے ساتھ کام کرنے والی سعیدہ بیوہ کہتی ہیں، ’’یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ ایک ہی کام کے لیے عورتوں کو مردوں کے مقابلے بہت کم مزدوری ملتی ہے۔ مہاجن ہمیں دھمکی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اگر تمہیں پسند نہیں ہے، تو ہمارے ساتھ کام کرنا بند کر دو‘۔‘‘ ۵۵ سالہ سعیدہ چاہتی ہیں کہ ریاست کو بیڑی بنانے والے مزدوروں کے لیے مخصوص اسکیمیں بنانی چاہئیں۔
مہاجن نہ صرف ان کی اجرتوں میں کٹوتی کرتے ہیں، بلکہ انہیں ناقص معیار کا خام مال سپلائی کرتے ہیں اور حتمی جانچ پڑتال کے دوران ان کی کچھ مصنوعات کو مسترد بھی کر دیتے ہیں۔ سعیدہ اس ناانصافی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مہاجن ان مستر کردہ بیڑیوں کو اپنے پاس ہی رکھ لیتے ہیں لیکن ان کے پیسے ادا نہیں کرتے۔‘‘
معمولی اجرت اور کسی قسم کے تحفظ کے بغیر، تنوجا جیسے دہاڑی مزدور مالی طور پر غیر محفوظ زندگی گزارنے کو مجبور ہیں۔ میاں بیوی نے اپنی تیسری بیٹی کی شادی کے لیے جو ۳۵ ہزار روپے کا قرض لیا تھا، اسے واپس چکانا ابھی باقی ہے۔ ’’ہماری زندگی قرض اور اس کی ادائیگی کے چکروں میں ہی پھنس کر رہ گئی ہے،‘‘ وہ متعدد قرضوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں، جو انہیں ہر شادی کے وقت لینا پڑا اور بعد میں، ان قرضوں کو چکانے کے لیے انہیں کام کرنا پڑا۔
تنوجا اور ان کے شوہر رفیق الاسلام شروع میں اپنے والدین کے ساتھ گھر پر ہی رہتے تھے، لیکن جب ان کے بچے ہو گئے تو میاں بیوی نے قرض لیے، زمین خریدی اور گھاس پھوس کی چھت والا ایک کمرے کا مکان بنایا۔ ’’تب ہم دونوں ہی جوان تھے اور ہم نے سوچا کہ اپنی کڑی محنت سے ہم قرض کے پیسے لوٹا دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ ہم ایک کے بعد ایک قرض لیتے گئے اور اب یہ حالت دیکھ لیجئے، ہم ابھی تک اس گھر کو پوری طرح بنا نہیں پائے ہیں۔‘‘ میاں بیوی کے پاس کوئی دوسری زمین نہیں ہے اور بھلے ہی وہ پی ایم آواس یوجنا کے تحت ایک گھر پانے کے اہل ہیں، لیکن انہیں سرکار کی طرف سے کوئی گھر ابھی تک نہیں ملا ہے۔
رفیق الاسلام اب گرام پنچایت کی طرف سے ڈینگو کی روک تھام کے لیے چلائے جا رہے ایک پروگرام کے تحت ٹھیکہ پر صفائی کا کام کرتے ہیں۔ اس کام سے انہیں ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے ملتے ہیں، لیکن یہ پیسہ انہیں کبھی وقت پر نہیں ملتا۔ تنوجا بتاتی ہیں، ’’وقت پر پیسہ نہ ملنے سے میری پریشانی کافی بڑھ جاتی ہے۔ ایک بار تو انہیں چھ مہینے تک ایک بھی پیسہ نہیں ملا تھا۔‘‘ اس دوران اس فیملی کا ایک مقامی دکان پر ۱۵۰۰۰ روپے کا بقایا چڑھ گیا تھا۔
بیڑی بنانے والے مزدوروں کو زچگی یا بیماری کے لیے کوئی چھٹی نہیں ملتی؛ حاملہ ہونے اور بچے کی پیدائش کے دوران یہ عورتیں بیڑی بنانا جاری رکھتی ہیں۔ جننی سرکشا یوجنا ، انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ اسکیم (آئی سی ڈی ایس) اور مفت مڈ ڈے میل جیسے پروگراموں سے نوجوان عورتوں کو مدد ملی ہے۔ اوشا ورکر شبینہ یاسمین کہتی ہیں، ’’لیکن بزرگ خواتین کی صحت پر پڑنے والے اثرات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ مینوپاز (اختتام حیض) کے بعد ان کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ ان میں کیلشیم اور آئرن – جو کہ عورتوں کے لیے دو انتہائی ضروری چیزیں ہیں، اس کی کمی ہونے لگتی ہے، ہڈیاں کمزور ہو جاتی ہیں اور وہ اینیمیا (جسم میں خون کی کمی) کی شکار ہو جاتی ہیں۔‘‘ یاسمین، بیلڈانگا ٹاؤن کے ۱۴ وارڈوں کی انچارج ہیں، اور انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ وہ ان عورتوں کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتیں کیوں کہ ان کا رول اور ڈیوٹی زچگی اور بچوں کی دیکھ بھال تک ہی محدود ہے۔
بیڑی کی صنعت اور ریاست دونوں کے ذریعے ہی نظر انداز کر دی گئیں ان خواتین مزدوروں کے پاس اب کوئی امید نہیں بچی ہے۔ بلکہ، تنوجا سے جب کام سے متعلق کسی فائدے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہیں غصہ آ گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’کوئی بھی بابو [ٹھیکہ دار] ہمارا حال پوچھنے یہاں نہیں آتا ہے۔ کافی پہلے بی ڈی او کے دفتر نے کہا تھا کہ ڈاکٹر ہماری جانچ کریں گے۔ ہم لوگ وہاں گئے، لیکن ہمیں بڑی بڑی بیکار گولیاں پکڑا دی گئیں، جن سے کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘ بعد میں ان عورتوں کی جانچ کرنے کے لیے وہاں کوئی نہیں آیا۔
تنوجا کو شک ہے کہ وہ گولیاں انسانوں کے لیے تھیں۔ ’’میرے خیال سے وہ گایوں کے لیے تھیں۔‘‘
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز