اس موسم میں مراٹھواڑہ کی سب سے بڑی فصل پیاس ہے۔ گنّے کو بھول جائیے۔ پیاس، چاہے انسانوں کی ہو یا صنعتوں کی، دوسری چیزوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جو لوگ اس کی کھیتی کر رہے ہیں، یعنی پانی بچا کر رکھ رہے ہیں، وہ پورے علاقے میں ہر دن لاکھوں، کروڑوں روپے کما سکتے ہیں۔ پانی کے خشک برتنوں سے لدی گاڑیاں، جنھیں آپ سڑکوں پر دیکھ رہے ہیں، وہ مویشی کیمپوں میں چارے کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں۔ انھیں سڑکوں پر آپ جو ’’ٹینکرس‘‘ دیکھ رہے ہیں، وہ قصبوں، گاؤوں اور صنعتوں کی طرف نفع کمانے کے لیے جا رہے ہیں۔ یہاں پر سب سے بڑی چیز پانی کے بازار ہیں۔ ٹینکرس ان کی علامتیں ہیں۔

ہزاروں ٹینکرس مراٹھواڑہ میں روزانہ اِدھر سے اُدھر آتے جاتے ہیں، پانی جمع کرنے، لے جانے اور بیچنے کے لیے۔ حکومت نے جن کو ٹھیکہ پر لیا ہے، ان کی تعداد کم ہے اور بعض تو صرف کاغذوں پر ہی موجود ہیں۔ یہ پرائیویٹ ٹینکرس ہیں، جو پانی کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بازاروں کے لیے کافی اہم ہیں۔

ممبرانِ اسمبلی اور کارپوریٹر سے بنے ٹھیکے دار اور ٹھیکہ دار سے بنے کارپوریٹرس اور ایم ایل اے ٹینکر اقتصادیات کے بنیادی حصے ہیں۔ ان میں نوکر شاہ بھی شامل ہیں، جن میں سے کچھ تو براہِ راست ٹینکروں کے مالک ہیں یا پھر بے نامی۔

تو پھر، ٹینکر کیا ہے؟ دراصل، یہ اسٹیل کی ہلکی پلیٹیں ہیں، جسے گول کرکے بڑے ڈرم بنائے گئے ہیں۔ دس ہزار لیٹر کے پانی کے ٹینکر کو بنانے کے لیے ۵ فیٹ چوڑی اور ۱۸ فیٹ لمبی اسٹیل کی ایسی تین چادروں کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں سے ہر ایک کا وزن ۱۹۸ کلوگرام ہوتا ہے۔ گول کیے گئے ڈرم کو ایک ساتھ ملا کر ان کی ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ انھیں ٹرکوں، لاریوں اور دوسری بڑی گاڑیوں سے لایا جاتا ہے اور ان گاڑیوں پر انھیں مختلف طریقے سے لادا جاتا ہے۔ چھوٹی گاڑیاں کم مقدار والے سلنڈروں کو لاتی لے جاتی ہیں۔ پانچ ہزار لیٹر کا کنٹینر کسی بڑی گاڑی کے ٹریلر پر جا سکتا ہے۔ ہزار اور ۵۰۰ لیٹر کے ڈرم کو چھوٹے ٹریکٹر، کھلے ہوئے آٹو رکشہ اور بیل گاڑیوں سے لے جایا جاتا ہے۔

پانی کی قلت جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، ایسے ہزاروں ٹینکر ریاست بھر میں ہر دن بنائے جا رہے ہیں۔ جالنہ ضلع کے جالنہ دیہات میں تقریباً ۱۲۰۰ ٹینکرس، ٹرکس، ٹریکٹرس اور آٹو رکشے ہیں جو مختلف سائز کے برتنوں کو لانے، لے جانے کے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ وہ پانی کے ذخیر سے لے کر مختلف مقامات پر پھیلے ہوئے عوام کے درمیان نقل و حمل کرتے ہیں۔ ان کے ڈرائیور موبائل فون کے ذریعہ مول بھاؤ کرتے ہیں۔ تاہم، زیادہ تر پانی صنعتوں میں جاتا ہے، جو بڑی مقدار میں اسے خریدتے ہیں۔ مراٹھی روزنامہ ’لوک ستّا‘ سے وابستہ لکشمن راؤت بتاتے ہیں، ’’ٹینکروں کے مالک ہر دن پانی بیچ کر ۶۰ سے ۷۵ لاکھ روپے کماتے ہیں۔ پانی کے بازار کے اس واحد علاقہ، یعنی یہ قصبہ اتنا قیمتی ہے۔‘‘ راؤت اور ان کے ساتھی رپورٹروں نے اس علاقے کے پانی کے کاروبار پر برسوں سے رپورٹنگ کی ہے۔

پانی کے برتنوں کا سائز الگ الگ ہوتا ہے۔ لیکن اس قصبہ میں بقول راؤت، ’’ان (برتنوں) کی اوسط استعداد تقریباً ۵ ہزار لیٹر ہوتی ہے۔ ان ۱۲۰۰ میں سے ہر ایک روزانہ تین چکّر لگاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ۲۴ گھنٹے میں یہ ۱۸۰ لاکھ لیٹر پانی ڈھوتے ہیں۔ اگر ہر ایک ہزار لیٹر کی قیمت ۳۵۰ روپے لگائی جائے، تو کل قیمت ہوگئی ۶۰ لاکھ روپے روزانہ۔ یہ قیمت زیادہ بھی ہو سکتی ہے، جس کا انحصار اس پر ہے کہ آیا اس کا گھریلو استعمال ہوگا، یا جانوروں کے لیے ہوگا یا پھر صنعتوں کے لیے۔‘‘

پانی کی قلت ہی ٹینکر اقتصادیات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ ٹینکرس بنائے جا رہے ہیں، ان کی مرمت ہو رہی ہے، کرایے پر دیے جا رہے ہیں، بیچے یا خریدے جا رہے ہیں۔ جالنہ جاتے ہوئے ہم نے ایک مصروف جگہ دیکھی، جس کا نام راہوری ہے، جو پڑوس کے احمد نگر ضلع میں واقع ہے۔ یہاں ۱۰ ہزار لیٹر والے پانی کے ٹینکر کو بنانے پر مشکل سے ۳۰ ہزار روپے خرچ ہوتے ہیں۔ لیکن اسے دو گنی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔ راہوری فیکٹری، جو چھوٹی صنعتوں والا علاقہ ہے، ہم نے ٹینکر ٹکنالوجی میں کریش کورس کیا۔ یہاں پر ٹینکر بنانے والی ایک چھوٹی سی اکائی کے مالک شری کانت میلا وانے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ایم ایس پلیٹ کی ۵ فیٹ چوڑی اور ۱۸ فیٹ لمبی ہر چادر ساڑھے تین ملی میٹر پتلی ہوتی ہے (جسے گاج ۱۰ کہتے ہیں)۔‘‘ شری کانت ہمیں ’’رولنگ مشین‘‘ دکھاتے ہیں، جس پر ہر پلیٹ کو ہاتھ سے رول کرنا پڑتا ہے۔


02-Melawane-rolling-machine-Rahuri-P1010546(Crop)-PS-Tankers and the Economy of Thirst.jpg

یہ مشین ہلکے اسٹیل کی ۱۵ فیٹ چوڑی اور ۱۸ فیٹ لمبی چادر کو رول کرتی ہے، جس کے بعد اسے ایک دوسرے کے ساتھ ویلڈ کیا جاتا ہے، تاکہ اس سے ٹینکرس یا وہ برتن بنائے جا سکیں، جو پس منظر میں راہوری فیکٹری میں دکھائی دے رہا ہے


وہ بتاتے ہیں، ’’۱۰ ہزار لیٹر کا ہر ایک تقریباً ۸۰۰ کلو وزنی ہے۔‘‘ اس کو بنانے کے لیے ہلکے اسٹیل کی جن تین چادروں کی ضرورت پڑتی ہے، ان کی قیمت تقریباً ۲۷ ہزار روپے ہے (۳۵ روپے فی کلو کے حساب سے)۔ لیبر چارج، بجلی اور دوسرے خرچے ۳ ہزار روپے کے ہو جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایک دس ہزار لیٹر کا ٹینکر بنانے میں پورا دن لگ جاتا ہے۔ اس بار کافی مصروفیت رہی۔ ہم نے تین مہینوں میں (الگ الگ سائز کے) ۱۵۰ بنائے۔‘‘ ایک کلومیٹر کے دائرہ میں ان ہی کے جیسی چار اکائیاں ہیں۔ یہ سب کی سب اسی رفتار سے ٹینکر بناتی ہیں۔ احمد نگر قصبہ میں تین کلومیٹر کے دائرے میں ایسی ۱۵ اکائیاں ہیں اور سب کی سب اسی کام میں لگی ہوئی ہیں۔

میلا وانے کہتے ہیں، ’’سب سے بڑا ۲۰ ہزار لیٹر کا ٹینکر مویشیوں کے کیمپوں اور صنعتی اکائیوں میں جاتا ہے۔ ۱۰ ہزار لیٹر والے شہروں اور قصبوں میں جاتے ہیں۔ میں نے جو سب سے چھوٹا بنایا ہے، وہ ایک ہزار لیٹر کا ہے۔ چھوٹے ٹینکروں کو باغبانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسے زیادہ تر اناروں کی باغبانی کرنے والے خریدتے ہیں، جو ڈرِپ سسٹم لگوانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وہ اِن ڈرمس کو بیل گاڑیوں پر لے جاتے ہیں اور میں نے انھیں خود اپنے ہاتھوں سے پانی دیتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

تو، پانی کہاں سے آتا ہے؟ بڑے پیمانے پر زیر زمین پانی کے استحصال سے۔ پرائیویٹ کنووں سے، جن میں سے کچھ تو ابھی نئے کھودے گئے ہیں، تاکہ قلت کا بے جا استعمال کیا جائے۔ یہ بھی خشک ہو سکتے ہیں، کیوں کہ زیر زمین پانی کی سطح لگاتار گھٹ رہی ہے۔ سٹّے بازوں نے اُن تمام کنووں کو خرید لیا ہے، جن میں پانی بچا ہے، تاکہ وہ اس سے کمائی کر سکیں۔ جالنہ میں واقع بوتل بند پانی کے پلانٹ (وِدربھ کے) بلدھانہ سے پانی لاتے ہیں، جو کہ خود پانی کی شدید قلت والا ضلع ہے۔ یہی ہوتا رہا، تو بقیہ علاقوں میں بھی یہ کمی تیزی سے پھیلنے لگے گی۔ کچھ لوگ عوامی ذرائع، ٹینکوں اور ذخائر سے پانی لوٹ رہے ہیں۔

ٹینکر کا مالک ۱۰ ہزار لیٹر ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے میں خریدتا ہے۔ اسے وہ ساڑھے تین ہزار روپیوں میں بیچتا ہے، سودے بازی میں ڈھائی ہزار تک بڑھا دیتا ہے۔ اگر اس کے پاس خود کا کوئی پانی کا کنواں ہو، تو وہ کم قیمت پر بیچتا ہے۔ لیکن اگر وہ عوامی ذرائع کو لوٹتا ہے، تو اسے مفت میں پانی مل جاتا ہے۔

سابق رکن پارلیمنٹ (اور صوبائی قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن) پرساد تانپورے کہتے ہیں، ’’اس سال پورے صوبہ میں کل ۵۰ ہزار سے زیادہ (اوسط اور بڑے) ٹینکرس بنائے گئے ہیں۔ اور پچھلے سال کے ہزاروں ٹینکروں کو مت بھولئے۔ لہٰذا، اب کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس وقت کتنے ٹینکر کام کر رہے ہیں۔‘‘ یہاں کے ماہر سیاست داں، تانپورے پانی کے منظرنامہ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ دوسرے نئے ٹینکروں کی تعداد ایک لاکھ بتاتے ہیں۔

پچاس ہزار نئے ٹینکروں کا مطلب ہے کہ اسے بنانے والوں نے گزشتہ چند مہینوں میں بیس لاکھ روپے کے آس پاس کاروبار کیا ہے۔ ظاہر ہے، بعض کو دوسرے محاذ پر نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، کیوں کہ بقول میلاوانے، ’’تعمیراتی کام بند ہو چکا ہے۔ کوئی چھڑ نہیں، چھت نہیں، کچھ بھی نہیں۔‘‘ لیکن، بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اِس نفع بخش بازار میں کود رہے ہیں۔ جالنہ کے ہی، ٹینکر بنانے والے سریش پوار کہتے ہیں، ’’اس قصبہ کے آس پاس ۱۰۰ سے زیادہ بنانے والے ہیں۔ ان میں سے ۹۰ ایسے ہیں، جنھوں نے یہ کام پہلے کبھی نہیں کیا، لیکن اب کر رہے ہیں۔‘‘

جالنہ ضلع کے شیل گاؤں میں کسان (اور مقامی سیاست داں) دیپک امبورے ہر روز تقریباً دو ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ ’’میں اپنے ۱۸ ایکڑ میں پھیلے باغات، جن میں موسمی کے باغ بھی شامل ہیں، کے لیے روزانہ پانچ ٹینکر پانی لیتا ہوں۔ اس کے لیے مجھے ساہوکار سے قرض لینا پڑتا ہے۔‘‘ لیکن جب فصل پر گہن لگا ہو، تو اتنا کیوں خرچ کرتے ہیں؟ ’’فی الحال، اپنے باغات کو صرف زندہ رکھنے کے لیے۔‘‘ یہاں قرض پر لگنے والا سود سالانہ ۲۴ فیصد یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔

حالات پریشان کن تو ہیں، لیکن پوری طرح خستہ نہیں ہیں۔ ابھی تک تو نہیں۔ جالنہ کے بہت سے لوگ ابھی تک بغیر ٹینکروں کے رہ رہے ہیں۔ صرف بحران کی نوعیت اور ٹینکروں کی تعداد میں تبدیلی آئی ہے۔ ابھی خستہ حالی کافی دور ہے، اور یہ صرف بارش کو لے کر نہیں ہے۔ چند کو چھوڑ کر۔ ایک سیاسی لیڈر بے حیائی سے کہتا ہے، ’’اگر میرے پاس بھی ۱۰ ٹینکر ہوتے، تو میں بھی اس سال قحط کے لیے دعا کرتا۔‘‘


(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)


ಪಿ. ಸಾಯಿನಾಥ್ ಅವರು ಪೀಪಲ್ಸ್ ಆರ್ಕೈವ್ ಆಫ್ ರೂರಲ್ ಇಂಡಿಯಾದ ಸ್ಥಾಪಕ ಸಂಪಾದಕರು. ದಶಕಗಳಿಂದ ಗ್ರಾಮೀಣ ವರದಿಗಾರರಾಗಿರುವ ಅವರು 'ಎವೆರಿಬಡಿ ಲವ್ಸ್ ಎ ಗುಡ್ ಡ್ರಾಟ್' ಮತ್ತು 'ದಿ ಲಾಸ್ಟ್ ಹೀರೋಸ್: ಫೂಟ್ ಸೋಲ್ಜರ್ಸ್ ಆಫ್ ಇಂಡಿಯನ್ ಫ್ರೀಡಂ' ಎನ್ನುವ ಕೃತಿಗಳನ್ನು ರಚಿಸಿದ್ದಾರೆ.

Other stories by P. Sainath