’’ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ نہایت مختلف انداز سے پیش آتے رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پرانے زمانے میں ہمیں وقت کا احساس بہت کم ہوا کرتا تھا۔‘‘ جیوتی دھیبھئی نے اپنے چھوٹے سے باورچی خانہ میں ایک اسٹوو کے ارد گرد چکر لگاتے ہوئے ہمیں یہ باتیں بتائیں۔ ’’جب میں بڑی ہو رہی تھی، تب میں نے اپنی دادی سے سیکھا کہ مہمان ہمارے بھگوان ہوتے ہیں ۔ لوگ بغیر بتائے ہوئے دن بھر ہمارے گھر آتے رہتے تھے اور ہمیں ان کی خاطر مدارات کرنے میں خوشی حاصل ہوتی تھی۔‘‘ جیوتی کی پرورش جودھپور میں ہوئی، لیکن شادی کے بعد وہ اُدے پور آگئیں، جہاں انھوں نے میواڑیوں کے ساتھ خود اپنے میواڑی کلچر کو فروغ دیا۔


01 Guests Gods Gastronomy SD DSC_0197.jpg

جیوتی دھیبھئی کے گھر میں انگیٹھی پر پکتا ہوا گندھے ہوئے آٹے کا پیڑا


مَنوَر کے نام سے مشہور راجستھانی روایت کا تعلق مہمان نوازی اور خاص کر کھانے سے رہا ہے۔ مارواڑی زبان میں ’ مَنوَر ‘ کا مطلب ہے ’درخواست کرنا‘۔ عملی طور پر اگر دیکھا جائے، تو یہ دیکھ بھال کی ایسی رسم ہے، جس میں خود سے زیادہ مہمانوں کی ضرورتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ بعض دفعہ، زور زبردستی کی وجہ سے یہ برداشت سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ جب آپ کو پہلی بار کوئی چیز پیش کی جاتی ہے، تو آپ اسے لینے سے انکار کرتے ہیں۔ اس طرح میزبان اور مہمان کے درمیان پیشکش اور انکار کا حسین رقص شروع ہوتا ہے۔ آخرکار، مہمان راضی ہو جاتا ہے۔ پیار جتانے کا سب سے اچھا طریقہ ہے، کسی کو کھانا کھلانا، اور کھانے کی زیادہ سے زیادہ چیزیں پیش کرنے کا مطلب ہے، زیادہ سے زیادہ پیار جتانا۔

02 Guests Gods Gastronomy SD DSC_0135.jpg

گایتری دھیبھئی اپنے باورچی خانہ میں


جیوتی اور ان کی نند، گایتری دھیبھئی، راجستھانی کھانوں کی دو الگ الگ قسم کی تھالی (لغوی معنی تو پلیٹ ہے، لیکن اس سے کھانا مراد لیا جاتا ہے) تیار کر رہی ہیں۔ ایک تھالی دال، دہی، گھی کے ساتھ باجرے کی روٹی اور گُڑ کی ہے۔ اس تھالی میں گٹّے کی سبزی، کھیچ، چنے کی سبزی اور لال مرچی بھی ہے۔ اس تھالی کے ساتھ راب، مرچی کی سبزی، پنچ کوٹ، کڑھی، اچار اور میٹھا گیہوں کا لڈو بھی ہوتا ہے۔


03 Guests Gods Gastronomy SD DSC_0196.jpg

راجستھانی کھانے کی ایک ’تھالی‘


دوسری تھالی جو وہ پیش کرتے ہیں، اسے دال باٹی کہتے ہیں، جو کہ سادہ کھانے کی ہوتی ہے، لیکن کافی مشہور ہے۔ مسور کی دال اور آٹے کے پکے ہوئے پیڑے سے بنی یہ تھالی غریبوں کا کھانا کہلاتی ہے، کیوں کہ یہ کم پیسے میں آسانی سے مل جاتی ہے اور اس سے پیٹ بھی بھر جاتا ہے۔ یہاں پر اسے کچی پیاز، ہری مرچ اور چورما (گڑ اور گھی کے ساتھ باٹی کا چورا) کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔


04 Guests, gods and gastronomy SD DSC_0222 right.jpg

’دال باٹی تھالی‘


دھیبھئی فیملی اُدے پور کی اِس حویلی میں ۱۵۰ برسوں سے رہ رہی ہے۔ وہ پہلے بیکانیر کی شہزادی کے محافظ ہوا کرتے تھے، جن کی شادی بعد میں اُدے پور کے راجا سے ہوئی۔ فیملی کی کہانی کے مطابق، انھوں نے اِس شاہی جوڑے سے پیدا ہونے والے بیٹے کو خود اپنے چچا سے بچایا اور پھر دونوں کو لے کر اُدے پور آ گئے۔ اسی کی وجہ سے ان کا نام ’دھیبھئی‘ پڑا، جس کا مطلب ہے، ایک ہی دودھ کا بھائی۔ اس کے بعد، ہندوستان کے آزاد ہونے تک وہ شاہی خاندان کے لیے کام کرتے رہے، بعض دفعہ وہ مہاراجہ کے مشیر خاص بھی بنے۔ ان کی حویلی پرانی روایت کی نشانی ہے، جسے اب بھلایا جانے لگا ہے، جس میں کھانا بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا طریقہ بھی شامل ہے۔


05 Guests Gods Gastronomy SD DSC_0197.jpg

دھیبھئی کے روایتی ہال میں کھانا پیش کرنے کا ایک منظر


گایتری بڑے مزے سے راجستھانی کھانے کی روایت کو بیان کر رہی ہیں۔ وہ روٹی کے لیے باجرے کو تیار کر رہی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی بتا رہی ہیں کہ کیسے فیملی کا ڈھانچہ بدل چکا ہے۔ ’’کھانا اور فیملی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ پہلے ہم سب ایک ہی چھت کے نیچے مل کر رہا کرتے تھے۔ لیکن اب ویسے رہنا مشکل ہے۔ اب ہر کسی کو کھلی جگہ اور خلوت چاہیے۔ دوستوں کی اہمیت زیادہ ہوگئی ہے، اور اب عورتیں بڑی تعداد میں گھر سے باہر کام کرنے لگی ہیں۔ لوگ چونکہ اب کافی مصروف ہو گئے ہیں، اس لیے ہم پہلے جس طرح کا کھانا بناتے تھے، اب ویسا کھانا بنانے کا وقت نہیں ملتا۔ اسی طرح، ہم پہلے ایک دوسرے سے، اپنے گھر والوں سے، اپنے مہمانوں سے جس طرح ملتے جلتے تھے، بات چیت کرتے تھے، وہ سب اب بدل چکا ہے۔‘‘


06 Guests, Gods, Gastronomy SD DSC_0149.jpg

گایتری جی روٹیاں بنا رہی ہیں


تھالیوں میں جو کچھ پروسا جاتا تھا، وہ بھی بدل گیا ہے۔ اب کسی کے گھر میں پروسی جانے والی تھالی میں بھی آپ کو کھانے کی وہی چیزیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، جو آپ کو باہر کسی ہوٹل پر کھاتے وقت ملیں۔ اب ریستوراں میں وہی چیزیں پروسی جاتی ہیں، جو مقبول ہوں، نہ کہ جو روایت کا حصہ ہوں۔ لوگ بھی ایسے مل جائیں گے، جو اپنے مہمانوں کی خاطر مدارات کر رہے ہوں، ویسی ہی تھالی ان کی خدمت میں پیش کر رہے ہوں اور پھر ان کے ساتھ کھانے اور بات چیت میں شریک ہوں۔ یہ مَنوَر روایت کا ایک حصہ تھا۔ اب بَفَر سسٹم کا چلن ہو گیا ہے، لوگ خود سے ہی کھانا اٹھاکر کھاتے ہیں، میزبان کے ذریعہ کھانا پروسنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہمان اور میزبان کے بیچ کا راشتہ کم ہو رہا ہے۔

ماحولیات اور اقتصادیات نے بھی روایتی کھانوں کو مخالف سمت میں دھکیل دیا ہے۔ جس زمانے میں زیادہ تر لوگ کھیتوں پر کام کرتے تھے، اس وقت ان کی تغذئی ضروریات مختلف ہوا کرتی تھیں۔ اور اسی کے مطابق، ان کے لیے ویسا ہی کھانا دستیاب بھی ہوا کرتا تھا۔ عورتیں تیزی سے پیسے کمانے لگی ہیں، لیکن مرد کھانا پکانے میں ان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔ اس لیے اب گھروں پر تغذئی عناصر سے بھرپور کھانا پکانے کا وقت نہیں بچتا۔


07 Guests Gods Gastronomy SD DSC_0210.jpg

پکی ہوئی ’باٹی‘ کا چورا بنا کر ’گُڑ‘ اور گھی کے ساتھ پروسا جاتا ہے


جیوتی جی کے ۳۲ سالہ بیٹے، وِشال دھیبھئی پرانی اور نئی روایت کو ملانے کی بات کرتے ہیں۔ ایک کارکن کے طور پر وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ مہمان کو کھانا کھلانے کا خیال اب بھی موجود ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر کوئی آپ کے گھر آتا ہے، تو اسے بھوکا واپس بھیجنا اچھی بات نہیں ہے، لیکن اب ہم ان کی مرضی کے بارے میں ضرور پوچھتے ہیں۔ اب ہم اُن سے زیادہ زور زبردستی نہیں کرتے۔ اگر وہ منع کرتے ہیں، تو ہم ان کی بات سن لیتے ہیں۔ ہم جب روایتوں کو دل سے نہیں مانتے، تو یہ ایک بوجھ بن جاتا ہے۔ میری نسلیں اور دیگر لوگ بھی یہی دیکھ رہے ہیں۔ بعض دفعہ میں سوچتا ہوں کہ ہماری مہمان نوازی میں کمی آئی ہے، ہمارے اندر یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ ہر کسی کے لیے ہمارے پاس نہ تو وافر وقت ہے، نہ تو کھانا ہے اور نہ ہی وسائل ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، لیکن میرے خیال سے ماضی کی کچھ باتیں اب بھی موجود ہیں، جنھیں میں دیکھ سکتا ہوں۔ ان کا صرف، ’جدید‘ سے مقابلہ ہو رہا ہے۔‘‘


08 Guests, Gods, Gastronomy SD DSC_0163.jpg

آٹے کے پیڑے میں ڈالنے کے لیے خام ’باجرے‘ تیار ہے


کھانے کا ایک مضبوط نظام ہے۔ راجستھانی لوگ اس بات پر خاصی توجہ دیتے ہیں کہ وہ کس کو کس کے ساتھ ملا رہے ہیں، اور اسی لیے تہوار اور کھانے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ذائقہ اور ہاضمہ کے مطابق، ہر قسم کی روٹی (گیہوں، مکئی، باجرا اور جوار) کے ساتھ الگ الگ طرح کی سبزیاں یا دال پیش کی جاتی ہیں۔ جیوتی جی ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ہر چیز آپس میں ملا کر کھانے میں ذائقہ دار نہیں لگتی۔ مثال کے طور پر، مکئی کی روٹی اور اُڑد کی دال ایک ساتھ کھائی جاتی ہے۔ یا باجرے کی روٹی مونگ کی دال کے ساتھ کھائی جاتی ہے۔ ہماری دادیاں ایسا ہی کیا کرتی تھیں، اور ہم بھی ویسا ہی کر رہے ہیں۔‘‘

مَنوَر تو اب بھی زندہ ہے، لیکن اس کی چمک کم ہوتی جا رہی ہے۔ روایتی راجستھانی کھانوں سے بھری تھالی اب خاص موقعوں پر ہی دیکھنے کو ملتی ہے، جب کہ پہلے یہ عام طور پر مہمانوں کو ہر روز پروسی جاتی تھی۔ کھانا اب بھی ثقافت کا ایک مضبوط حصہ ہے، جس میں مہمان نوازی کا عنصر شامل ہے۔

اب گھر پر بنے ہوئے کھانوں کی جگہ، پہلے سے پیک کیے ہوئے کھانوں نے لینی شروع کر دی ہے۔ اب چونکہ عورتیں زیادہ تر گھروں سے باہر ہی کام کرتی ہیں، لہٰذا ان پر دوہرا بوجھ ہے۔ جیوتی جی کہتی ہیں، ’’جب تک میری نسل یہاں پر ہے، ہم اس روایت کو زندہ رکھیں گے، لیکن آگے چیزیں بدل جائیں گی۔ ہمیں اس میں صحیح توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اور کچھ نہیں۔‘‘

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

یہ مضمون ان کے سی ایس ای فوڈ فیلوشپ کا حصہ ہے۔

وشال سنگھ اور ان کی فیملی کا خاص طور سے شکریہ۔

Sweta Daga

ಶ್ವೇತಾ ದಾಗಾ ಬೆಂಗಳೂರು ಮೂಲದ ಬರಹಗಾರರು ಮತ್ತು ಛಾಯಾಗ್ರಾಹಕರು ಮತ್ತು 2015ರ ಪರಿ ಫೆಲೋ. ಅವರು ಮಲ್ಟಿಮೀಡಿಯಾ ವೇದಿಕೆಗಳಲ್ಲಿ ಕೆಲಸ ಮಾಡುತ್ತಾರೆ ಮತ್ತು ಹವಾಮಾನ ಬದಲಾವಣೆ, ಲಿಂಗ ಮತ್ತು ಸಾಮಾಜಿಕ ಅಸಮಾನತೆಯ ಬಗ್ಗೆ ಬರೆಯುತ್ತಾರೆ.

Other stories by Sweta Daga