’’میں نے دو بورڈ کبھی ایک جیسا نہیں بنایا،‘‘ احمد آباد کے سائن بورڈ (نام کی تختی) کے پینٹر شیخ جلال الدین قمرالدین کہتے ہیں۔ گھیکانٹا کے سبھی سائن بورڈ انہوں نے ہی بنائے ہیں۔ گھیکانٹا ایک مصروف علاقہ ہے اور قینچی بنانے کے اپنے کاروبار کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس علاقے میں کافی دکانیں ہیں، جہاں ایک جیسی چیزیں فروخت ہوتی ہیں۔ لیکن، جلال الدین کی بنائی تختیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ سبھی دکانیں دیکھنے میں ایک دوسرے سے الگ نظر آئیں۔
اس تجربہ کار پینٹر کا کام ’’دیوار، دکان اور شٹر‘‘ پر دیکھا جا سکتا ہے، اور فلموں کے پس منظر کے طور پر بھی۔ سائن بورڈ پینٹر کے لیے کئی مقامی زبانوں میں حروف کو لکھنے اور ان میں رنگ بھرنے کے ہنر کو سیکھنا انتہائی ضروری ہے۔ احمد آباد کے مانک چوک پر زیورات کی ایک دکان پر چار زبانوں – گجراتی، ہندی، اردو اور انگریزی – میں لکھا پچاس سال پرانا ایک سائن بورڈ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
جلال الدین بتاتے ہیں کہ پینٹنگ کا کام انہوں نے فطری طور پر سیکھ لیا۔ تقریباً ۷۱ سال کی عمر میں وہ احمد آباد کے چند عمر دراز پینٹروں میں سے ایک ہیں اور ’جے کے پینٹر‘ کے نام سے اپنی دکان چلاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب انہیں اتنا زیادہ کام نہیں ملتا ہے جتنا پچاس سال پہلے پینٹنگ کا کام شروع کرنے کے وقت ملا کرتا تھا۔
اس ماہر پینٹر نے ساتویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کی ہے اور پانچ زبانوں – گجراتی، انگریزی، ہندی، اردو اور عربی – میں سائن بورڈ پینٹ کر سکتے ہیں۔ اسکول چھوڑنے کے بعد انہوں نے رسّی کی بُنائی کرنے، جلد سازی اور گیراج میں میکینک کا کام بھی کیا۔ اس کے بعد انہوں نے دلگرواڑ مارکیٹ میں رحیم کی دکان میں پینٹنگ کا کام سیکھا۔
جلال الدین آج بھی دکانوں پر سائن بورڈ پینٹ کرنے کے لیے ۲۰ کلو کا گھوڑا (سیڑھی) اٹھا کر لے جانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن جب سے ان کا بائی پاس آپریشن ہوا ہے، ان کے ڈاکٹر نے انہیں بھاری وزن اٹھانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
انہوں نے حال ہی میں منتظر پیسو والا نام کے ایک گاہک کے لیے، جن کی احمد آباد کے تین دروازہ علاقے میں چینی مٹی کے برتنوں (کروکری) کی دکان ہے، کے لیے ایک سائن بورڈ پینٹ کیا ہے۔ اس سائن بورڈ کو پینٹ کرنے کے عوض ان کو ۳۲۰۰ روپے دیے گئے۔ پیسو والا کہتے ہیں، ’’رنگوں اور دوسری چیزوں کے انتخاب میں ہم نے ایک دوسرے کی مدد کی۔‘‘
جلال الدین کی دکان ان کے گھر کے سامنے ہی پیر قطب مسجد کے احاطہ میں ہے۔ یہ حبس بھری ایک سخت دھوپ والی دوپہر ہے اور وہ دوپہر کا کھانا کھانے اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ابھی ابھی دکان لوٹے ہیں۔ انہوں نے ایک سفید شرٹ پہنی ہوئی ہے، جس پر رنگوں کے داغ دھبے لگے ہوئے ہیں، اور اب وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں پرانے شہر کے ایک ہوٹل کے کمروں کی قیمتوں والی تختی پینٹ کرنی ہے۔ وہ ایک رسی اور بغیر ہتھوں والی ایک کرسی کا استعمال کرتے ہیں، تاکہ کرسی پر بیٹھنے کے بعد بھی اپنے ہاتھ دونوں طرف آرام سے گھما سکیں۔
وہ ہاتھ سے بنائے گئے لکڑی کے ڈھانچے کو صحیح اونچائی پر رکھتے ہیں اور ایک خالی بورڈ کو اس پر رکھ دیتے ہیں۔ انہیں اس پران بورڈ کو دیکھتے رہنا ہوگا جو انہوں نے ۲۵ سال پہلے پینٹ کیا تھا۔ اب یہ جگہ جگہ سے دھندلا اور خراب ہو چکا ہے، اس لیے ہوٹل مالک نے ان سے بالکل اسی انداز کا ایک نیا بورڈ بنانے کے لیے کہا ہے۔
’’میں رنگوں کے تین کوٹ لگاتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ اسی درمیان لکڑی کے بورڈ پر سفید پینٹ چڑھایا جا چکا ہے۔ ’’بالکل فنشنگ والا کلر [رنگ] آئے گا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ پینٹ کی ہر پرت (کوٹ) کو ٹھیک سے سوکھنے کے لیے ایک دن کا وقت چاہیے۔
بورڈ بنانے والے الگ الگ پینٹروں کے انداز (اسٹائل) کو پہچانا جا سکتا ہے۔ احمد آباد ک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن (این آئی ڈی) میں گرافک ڈیزائن کے پروفیسر ترون دیپ گردھر کہتے ہیں، ’’ان کے انداز میں ہندوستان کے کثیر جہتی بصری مناظر کی عکاسی ہوتی ہے، جو ہماری مورتیوں، مندروں اور پرنٹس میں ملتے ہیں۔‘‘
جلال الدین ان حروف کو دیکھتے ہیں جنہیں انہیں بورڈ پر اتارنا ہے۔ ’’میں اس کا خیال رکھتا ہوں کہ حروف کو کتنا بڑا یاچھوٹا ہونا چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کچھ ڈرائنگ نہیں کرتا ہوں، لائن بنا کے لکھنا چالو، قلم سے۔‘‘ قلم سے ان کی مراد برش ہے۔ یہ ماہر پینٹر حروف کو پہلے پینسل سے لکھتے نہیں ہیں، وہ صرف سیدھی لکیریں کھینچنے کے لیے ایک لکڑی کے اسکیل کی مدد لیتے ہیں۔
گلہری کے بالوں کے پرانے برش پینٹ باکس سے نکالتے ہوئے وہ مجھے فخر سے کہتے ہیں، ’’میں نے اپنا پینٹ باکس اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔‘‘ جلال الدین بڑھئی کا کام بھی جانتے ہیں اور انہوں نے یہ پینٹ باکس ۱۹۹۶ میں بنایا تھا۔ بازاروں میں فروخت ہونے والے نئے پلاسٹک کے برش انہیں اچھے نہیں لگتے ہیں، اور وہ اپنے اسی پینٹ باکس میں سنبھال کر رکھے ہوئے تقریباً ۳۰ سال پرانے برش کو استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔
دو برش کا انتخاب کرنے کے بعد وہ انہیں تارپین کے تیل میں ڈبوکر صاف کرتے ہیں اور سرخ پینٹ کا ایک کین کھولتے ہیں۔ یہ بوتل ۱۹ سال پرانی ہے۔ اپنے اسکوٹر کی چابی کی مدد سے وہ تارپین کو تب تک ملاتے ہیں، جب تک اس کا گاڑھاپن ٹھیک ویسا نہ ہو جائے جیسا وہ چاہتے ہیں۔ اس کے بعد برش کے بے ترتیب بالوں کو نکال کر اسے ایک برابر کرتے ہیں۔
جلال الدین کہتے ہیں کہ وہ اوپر والے کے احسان مند ہیں کہ اس عمر میں بھی ان کے ہاتھ نیں کانپتے ہیں، ان کی مستحکم پکڑ کام کرنے میں ان کی مددگار ہے۔ پہلا حرف لکھنے میں انہیں تقریباً پانچ منٹ لگتے ہیں، لیکن وہ حرف کی اونچائی سے خوش نہیں ہیں۔ اس قسم کی کبھی کبھار ہونے والی غلطیوں کو وہ فوراً مٹا کر ٹھیک کرتے ہیں، کیوں کہ پینٹ کے سوکھ جانے کے بعد غلطی کو درست کرنا مشکل ہے۔ ’’ہم کو ذرا سا بھی باہر نکلا ہوا نہیں چلے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے کام کی صفائی اور خوبصورتی کے سبب ہی ان کے گاہک ان کے پاس دوبارہ آتے ہیں۔ ڈائمنڈ ٹائپ کی پینٹنگ میں انہیں مہارت حاصل ہے، جس میں حروف کو لکھنے کے بعد ان سے تھری-ڈی (سہ رخی) اثر پیدا ہوتا ہے اور سائن بورڈ کی تحریر میں ہیرے جیسی چمک آتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک پیچیدہ طرز ہے، اور جلال الدین بتاتے ہیں کہ اس میں چمکدار، گہرے اور ہلکے رنگ کا توازن ہونا ضروری ہے، تاکہ تحریر میں تازگی کا تجربہ کیا جا سکے۔
اس سائن بورڈ کو مکمل کرنے میں انہیں ایک اور دن لگے گا، اور ان دو دنوں کے کام کے عوض انہیں ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے ملیں گے۔ جلال الدین فی مربع فٹ کام کے عوض ۱۲۰ سے ۱۵۰ روپے کے درمیان کوئی بھی رقم وصول کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی ماہانہ آمدنی کے بارے میں صاف صاف کچھ نہیں کہتے ہیں: حساب لکھوگے تو گھاٹا ہی ہوگا، اس لیے بے حساب رہتا ہوں۔‘‘
جلال الدین کے تین بچے ہیں – دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ ان کے بڑے بیٹے نے سائن بورڈ بنانے کا کام شروع تو کیا تھا، لیکن جلد ہی اسے چھوڑ دیا اور اب ٹیلرنگ کی دکان میں کام کرتے ہیں۔
جلال الدین کے بیٹوں کی طرح ہی کئی دوسرے نوجوانوں نے اس کام کو چھوڑ دیا ہے۔ آج سائن بورڈ بنانے کا ہنر آہستہ آہستہ ختم ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ’’کمپیوٹر نے ہاتھ کاٹ دیے پینٹر کے،‘‘ عاشق حسین کہتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً ۳۵ سال پہلے سائن بورڈ پینٹ کرنے کا کام شروع کیا تھا۔ دھیرو بھائی، جو اپنے خاندان میں یہ کام کرنے والے دوسری نسل کے پینٹر ہیں، کے اندازہ کے مطابق احمد آباد میں اب مشکل سے ۵۰ سائن بورڈ پینٹر ہی بچے ہیں۔
اب فلیکس پر کیے جانے والے ڈیجیٹل پرنٹ کا رواج تیزی سے بڑھا ہے اور کسی کو ہاتھ سے پینٹ کیا ہوا سائن بورڈ اب نہیں چاہیے۔ اس لیے اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے عاشق پینٹنگ کرنے کے علاوہ آٹو رکشہ بھی چلاتے ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ گوپال بھائی ٹھکر جیسے ڈیجیٹل پرنٹنگ دکان کے کئی مالک ہاتھ سے بنائے گئے سائن بورڈوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، جب کہ اپنے لیے سائن بورڈ پرنٹ کرنا ان کے لیے بہت آسان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مہنگا پڑنے کے باوجود ہاتھ سے پینٹ کیے گئے سائن بورڈ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ ’’لائف ٹائم [تاعمر] چلتا ہے، وہ نہیں چلے گا۔‘‘
بہت سے پینٹروں نے نئی تکنیک کو اپنا لیا ہے۔ گاندھی نگر سے ۱۰ کلومیٹر دور واقع اڈالج کے اروند بھائی پرمار گزشتہ ۳۰ برسوں سے سائن بورڈ پینٹ کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ سات سال پہلے انہوں نے اسٹیکر پرنٹ کرنے والی پلیکسی کٹر مشین خریدی۔ ان کے لیے یہ ایک بڑی سرمایہ کاری تھی۔ مشین کی قیمت ۲۵ ہزار روپے تھی، اور کمپیوٹر کے لیے انہیں ۲۰ ہزار روپے الگ سے ادا کرنے پڑے۔ کمپیوٹر پر کیسے کام کیا جاتا ہے، یہ انہوں نے اپنے دوستوں سے سیکھا۔
مشین سے ریڈیم پیپر پر اسٹیکر اور حروف کاٹنے کے بعد انہیں دھات پر چپکا دیا جاتا ہے۔ لیکن، اروند بھائی بتاتے ہیں کہ انہیں ہاتھ سے پینٹ کرنا زیادہ پسند ہے۔ کمپیوٹر یا مشین – دونوں میں ایک نہ ایک خراب ہوتا رہتا ہے اور ہمیں ان کی مرمت کرانی پڑتی ہے۔
ولی محمد میر قریشی (۴۱) بھی ایک سائن بورڈ پینٹر ہیں، جو اب ڈیجیٹل سائن بورڈ بنانے کا کام کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کو سائن بورڈ پینٹ کرنے کا کام بھی مل جاتا ہے۔
کئی دوسرے پینٹروں کی طرح ولی نے بھی یہ ہنر حسین بھائی ہاڈا کی نگرانی میں سیکھا ہے، لیکن ۷۵ سال کے حسین بھائی کہتے ہیں کہ ان کے خود کے بچے اس ہنر سے ناواقف ہیں۔ ان کے بیٹے حنیف اور پوتے حاضر اور عامر گاندھی نگر کے سیکٹر ۱۷ میں اسٹیکر، سائن بورڈ اور فلیکس ڈیزائننگ اور پرنٹنگ کی اپنی دکان چلاتے ہیں۔
’’اور لوگوں کو یہ کام کرنا چاہیے،‘‘ حسین بھائی کہتے ہیں۔
مترجم: قمر صدیقی