خواجہ معین الدین کو اپنا کلف لگا سفید کرتا آج بھی یاد ہے، جسے انہوں نے ووٹنگ کی صبح پہن رکھا تھا۔ وہ ۱۹۵۱-۵۲ کے درمیان منعقد ہونے والے ہندوستان کے پہلے عام انتخابات تھے۔ اس وقت ان کی عمر ۲۰ سال کی تھی اور انہیں اپنے جوش و خروش پر قابو پانے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ وہ ایک نئی آزاد جمہوریت کی جشن کی فضا میں سانس لیتے ہوئے، اچھلتے کودتے اپنے چھوٹے سے شہر کے پولنگ اسٹیشن تک پہنچے تھے۔
اب ۷۲ سال بعد معین الدین اپنی عمر کی دسویں دہائی میں داخل ہو چکے ہیں۔ ۱۳ مئی، ۲۰۲۴ کو وہ ایک بار پھر کلف لگے سفید کرتے میں ملبوس صبح کے وقت باہر نکلے، لیکن اس بار وہ چھڑی کی مدد سے پولنگ بوتھ تک گئے۔ ان کا جوش و خروش غائب تھا اور ووٹنگ کے دن کی خوشی کا ماحول بھی جا چکا تھا۔
’’’تب دیش بنانے کے لیے ووٹ کیا تھا، آج دیش بچانے کے لیے ووٹ کر رہے ہیں،‘‘ وہ مہاراشٹر کے بیڈ شہر میں واقع اپنے مکان میں پاری سے بات چیت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ضلع بیڈ کی تحصیل شیرور کاسار میں ۱۹۳۲ میں پیدا ہوئے معین الدین تحصیل دفتر میں چوکیدار کے طور پر کام کرتے تھے۔ لیکن ۱۹۴۸ میں انہیں اس وقت کی نظام شاہی ریاست حیدر آباد کے ہندوستان میں الحاق کے دوران ہونے والے تشدد کی وجہ سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور بیڈ شہر میں بھاگ کر آباد ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔
سال ۱۹۴۷ کی خونی تقسیم کے ایک سال بعد تین ریاستوں – حیدرآباد، کشمیر اور تراوانکور نے ہندوستانی وفاق میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ حیدرآباد کے نظام نے ایک آزاد ریاست کا مطالبہ کیا جو نہ تو ہندوستان کا حصہ ہو اور نہ ہی پاکستان کا۔ مراٹھواڑہ کا زرعی علاقہ، جس میں بیڈ واقع ہے، حیدرآباد کی ریاست کا حصہ تھا۔
ستمبر ۱۹۴۸ میں ہندوستانی مسلح افواج حیدرآباد میں داخل ہوئیں اور نظام کو چار دن سے بھی کم وقت میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔ تاہم، سندر لال کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ، جو ایک خفیہ حکومتی رپورٹ تھی اور جسے کئی دہائیوں بعد منظر عام پر لایا گیا تھا، کارروائی کے دوران اور اس کے بعد کم از کم ۲۷ سے ۴۰ ہزار مسلمانوں نے اپنی جانیں گنوائیں، جس کی وجہ سے معین الدین جیسے نوجوانوں کو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔
’’میرے گاؤں کا کنواں لاشوں سے بھرا ہوا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’ہم بھاگ کر بیڈ شہر پہنچے اور تب سے یہی میرا گھر ہے۔‘‘
انہوں نے بیڈ میں شادی کی، یہیں اپنے بچوں کی پرورش کی اور اپنے پوتے پوتیوں کو بالغ ہوتے دیکھا۔ انہوں نے ۳۰ سال تک بطور درزی کام کیا اور مقامی سیاست میں بھی تھوڑا ہاتھ آزمایا۔
لیکن ۷۰ سال سے کچھ عرصہ پہلے جب وہ اپنے اصل گھر سے بھاگ کر شیرور کاسار آئے تھے، اس کے بعد پہلی بار معین الدین اپنی مسلم شناخت کی وجہ سے غیرمحفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کی دستاویزسازی کرنے والی واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تنظیم ’انڈیا ہیٹ لیب‘ (ہندوستان نفرت کی تجربہ گاہ) کے مطابق، ہندوستان میں ۲۰۲۳ میں نفرت انگیز تقاریر کے ۶۶۸ واقعات پیش آئے، یعنی روزانہ تقریباً دو واقعات۔ مہاراشٹر، جو مہاتما پھولے اور بابا صاحب امبیڈکر جیسے ترقی پسند مفکرین کے لیے جانا جاتا ہے، ایسے ۱۱۸ واقعات کے ساتھ سرفہرست رہا ہے۔
’’تقسیم کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت کو لے کر کچھ غیر یقینی صورتحال تھی،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’لیکن مجھے خوف محسوس نہیں ہوا۔ مجھے بحیثیت قوم ہندوستان پر بھروسہ تھا۔ تاہم، آج اپنی ساری زندگی یہاں گزارنے کے بعد میں سوچتا ہوں کہ کیا میرا یہاں سے تعلق ہے…‘‘
انہیں یقین نہیں ہوتا ہے کہ کیسے سب سے اوپر بیٹھا ایک لیڈر سب کچھ اتنی تیزی سے بدل سکتا ہے۔
معین الدین کہتے ہیں، ’’پنڈت جواہر لال نہرو حقیقی طور پر سب سے محبت کرتے تھے، اور ہر شخص یکساں طور پر ان سے بھی محبت کرتا تھا۔ انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ہندو اور مسلمان باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ وہ ایک حساس اور حقیقی معنوں میں سیکولر شخص تھے۔ وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ہندوستان بہت ہی خاص ملک بن سکتا ہے۔‘‘
لیکن اس کے برعکس، معین الدین کہتے ہیں کہ جب ہندوستان کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی مسلمانوں کو ’’در انداز‘‘ کہتے ہیں اور ووٹروں کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کر کے انتخابات جیتنا چاہتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے پیٹ میں گھونسا مار دیا ہو۔
گزشتہ ۲۲ اپریل ۲۰۲۴ کو مودی، جو برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے اسٹار کمپینر بھی ہیں، نے راجستھان میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جھوٹا دعویٰ کیا کہ کانگریس پارٹی لوگوں کی دولت کو ’’در اندازوں‘‘ میں تقسیم کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔
معین الدین کہتے ہیں، ’’یہ بہت مایوس کن ہے۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب اصول اور دیانت داری سب سے قیمتی سرمایہ ہوا کرتے تھے۔ اب کسی بھی قیمت پر اقتدار حاصل کرنا ہے۔‘‘
معین الدین کے ایک کمرہ کے مکان سے تقریباً دو یا تین کلومیٹر کے فاصلہ پر سید فخر الزماں رہتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ انہوں نے پہلے عام انتخابات میں ووٹ نہ دیا ہو، لیکن انہوں نے ۱۹۶۲ میں پہلے وزیر اعظم نہرو کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالا تھا۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ کانگریس کے لیے برا وقت ہے، لیکن میں نہرو کے نظریہ کو نہیں چھوڑوں گا،‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’مجھے یاد ہے کہ اندرا گاندھی ۱۹۷۰ کی دہائی میں بیڈ آئی تھیں، تو میں انہیں دیکھنے گیا تھا۔‘‘
وہ ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے کافی متاثر ہیں، جس میں راہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک پد یاترا (پیدل مارچ) کی ہے۔ مہاراشٹر میں وہ ادھو ٹھاکرے کے شکر گزار ہیں۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کے اظہار کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
’’شیو سینا میں پچھلے دنوں مثبت تبدیلی آئی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’وبائی مرض کے دوران جس طرح سے ادھو ٹھاکرے نے خود کو وزیر اعلی کے طور پر ثابت کیا وہ متاثر کن تھا۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کو دیگر ریاستوں کی طرح نشانہ نہ بنایا جائے، انہوں نے لیک سے ہٹ کر کام کیا۔‘‘
فخر الزماں اب ۸۵ سال کے ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ اختلاف کی ایک زیریں لہر ہمیشہ سے تھی، لیکن ’’اس کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازیں اگر زیادہ نہیں تو کم از کم برابر ضروری رہیں۔‘‘
دسمبر ۱۹۹۲ میں وشو ہندو پریشد کی قیادت میں ہندو بنیاد پرست تنظیموں نے اتر پردیش کے ایودھیا شہر میں بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ اساطیری شخصیت بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اس واقعہ کے بعد ملک بھر میں فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑے تھے، جس میں مہاراشٹر کا دارالحکومت ممبئی بھی شامل ہے، جو بم دھماکوں اور فسادات سے لرز اٹھا تھا۔
فخر الزماں کو ۱۹۹۲-۹۳ کے ہنگامے کے دوران اپنے شہر بیڈ میں پیدا ہونے والی کشیدگی یاد ہے۔
’’میرے بیٹے نے شہر میں امن ریلی نکالی، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہمارا بھائی چارہ برقرار رہے۔ ہندو اور مسلمان دونوں بڑی تعداد میں اس ریلی میں شامل ہوئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ یکجہتی اب غائب ہو گئی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
فخر الزماں کی پیدائش اسی مکان ہوئی تھی جس میں وہ اس وقت قیام پذیر ہیں۔ ان کا خاندان بیڈ کے بااثر مسلم خاندانوں میں سے ایک رہا ہے، جن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی رہنما اکثر انتخابات سے قبل وہاں آتے رہتے تھے۔ ان کے والد اور دادا، دونوں اسکول میں استاد تھے اور ’’پولیس ایکشن‘‘ کے دوران جیل بھی گئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان کے والد کا انتقال ہوا، تو تمام مذاہب کے ہزاروں لوگوں نے جنازے میں شرکت کی، جن میں مقامی رہنما بھی شامل تھے۔
’’گوپی ناتھ منڈے کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات تھے،‘‘ فخر الزماں بیڈ کے سب سے بڑے لیڈروں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہیں۔ ’’سال ۲۰۰۹ میں میرے پورے کنبے نے انہیں ووٹ دیا تھا، حالانکہ وہ بی جے پی سے تعلق رکھتے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں تفریق نہیں کریں گے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ اس بار بیڈ سے بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والی منڈے کی بیٹی پنکجا کے ساتھ بھی ان کے مراسم اچھے ہیں، تاہم ان کا خیال ہے کہ وہ مودی کے فرقہ وارانہ رخ کی مخالفت نہیں کر سکیں گی۔ ’’انہوں نے بیڈ میں بھی اپنی ریلی کے دوران اشتعال انگیز تبصرہ کیا تھا،‘‘ فخر الزماں کہتے ہیں۔ ان کے دورے کے بعد پنکجا نے اپنے ہزاروں ووٹ گنوا دیئے۔ آپ جھوٹ بول کر بہت آگے نہیں جا سکتے۔‘‘
زماں اپنی پیدائش سے قبل اپنے والد سے منسلک ایک واقعہ یاد کرتے ہیں۔ ان کے گھر کے قریب ہی ایک مندر ہے، جو ۱۹۳۰ کی دہائی میں سوالوں کے زد میں آ گیا تھا۔ کچھ مقامی مسلم رہنماؤں کا خیال تھا کہ یہ حقیقتاً ایک مسجد ہے اور انہوں نے حیدر آباد کے نظام سے مندر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اپیل کی تھی۔ فخر الزماں کے والد سید محبوب علی شاہ کی شہرت ایک حقیقت پسند شخص کے طور پر تھی۔
فخر الزماں کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ ان پر چھوڑ دیا گیا کہ آیا یہ مسجد ہے یا مندر۔ میرے والد نے گواہی دی کہ انہوں نے کبھی اس کے مسجد ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا۔ معاملہ طے ہوگیا اور مندر بچ گیا۔ اگرچہ اس کے بعد کچھ لوگوں کو مایوسی ہوئی، لیکن میرے والد نے جھوٹ نہیں بولا۔ ہم مہاتما گاندھی کی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں: ’سچائی ہمیشہ آپ کو آزادی دلاتی ہے‘۔‘‘
معین الدین کے ساتھ بات چیت کے دوران بھی گاندھی کا حوالہ باقاعدگی سے آتا رہا۔ ’’انہوں نے ہمارے درمیان اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خیال پیدا کیا،‘‘ وہ کہتے ہیں، اور ایک پرانا ہندی فلمی گیت سناتے ہیں: ’’تو نہ ہندو بنے گا، نہ مسلمان بنے گا۔ انسان کی اولاد ہے، انسان بنے گا۔‘‘
معین الدین کہتے ہیں کہ جب ۱۹۹۰ میں وہ بیڈ میں کونسلر بنے تو یہی ان کا نصب العین تھا۔ ’’میں نے ۳۰ سال بعد ۱۹۸۵ میں درزی کی نوکری چھوڑ دی، کیونکہ میں سیاست کی طرف راغب تھا،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’لیکن میں سیاست میں زیادہ دیر تک نہیں ٹک سکا۔ میں بلدیاتی انتخابات میں بھی بدعنوانی اور پیسے کے استعمال سے اتفاق نہیں کر سکا۔ میں اب ۲۵ سال سے ریٹائرڈ شخص کے طور پر زندگی گزار رہا ہوں۔
فخر الزماں نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ بھی بدلتے وقت اور بے لگام بدعنوانی کی وجہ سے لیا تھا۔ انہوں نے اچھے دنوں میں مقامی ٹھیکیدار کے طور پر کام کیا۔ ’’سال ۱۹۹۰ کی دہائی کے بعد، یہ بدل گیا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’کام کا معیار پیچھے رہ گیا اور رشوت آگے آ گئی۔ میں نے سوچا کہ میں گھر میں بہتر رہوں گا۔‘‘
ریٹائرمنٹ کے بعد فخر الزماں اور معین الدین دونوں مزید مذہبی ہو گئے ہیں۔ فخر الزماں ساڑھے چار بجے اٹھ کرصبح کی نماز پڑھتے ہیں۔ معین الدین امن کی تلاش میں اپنے گھر سے سڑک کی دوسری جانب واقع مسجد کے درمیان آمد و رفت کرتے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ ان کی مسجد بیڈ کی ایک تنگ گلی میں واقع ہے۔
پچھلے کچھ سالوں سے دائیں بازو کے ہندو گروہ رام نومی کا تہوار مسجدوں کے سامنے بھڑکاوْ، نفرت انگیز اور اشتعال انگیز گانے بجا کر منا رہے ہیں۔ بیڈ کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے وہ گلی جہاں معین الدین کی مسجد واقع ہے وہ اتنی تنگ ہے کہ وہاں سے جارحانہ جلوس نہیں نکالے جا سکتے۔
اس معاملے میں فخر الزماں کم خوش نصیب ہیں۔ انہیں وہ گیت سننے پڑتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف تشدد کے مطالبے کے ساتھ ساتھ ان کی بے عزتی بھی کرتے ہیں۔ ان گیتوں کا ہر لفظ انہیں ایک کم تر انسان ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
’’مجھے یاد ہے کہ میرے پوتے اور ان کے مسلمان دوست رام نومی اور گنیش چترتھی کے تہواروں کے دوران ہندو یاتریوں کو پانی، جوس اور کیلے پیش کیا کرتے تھے،‘‘ فخر الزماں کہتے ہیں۔ ’’یہ ایک ایسی خوبصورت روایت تھی جو اس وقت ختم ہو گئی جب انہوں نے ہمیں چڑھانے کے لیے اشتعال انگیز گانے بجانے شروع کر دیے۔‘‘
وہ بھگوان رام کا بے حد احترام کرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے، ’’رام نے کبھی کسی کو دوسروں سے نفرت کرنا نہیں سکھایا۔ آج نوجوان اپنے ہی دیوتا کو بدنام کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں یہ سب نہیں سکھایا تھا۔‘‘
مساجد کے سامنے جمع ہونے والے ہندوؤں میں نوعمر بالغوں کا غلبہ ہے، اور اس سے فخر الزماں سب سے زیادہ پریشان ہیں۔ ’’میرے والد عید کے دن اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کہ ان کے ہندو دوست نہیں آ جاتے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن میں اب اس میں نمایاں تبدیلی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
معین الدین کہتے ہیں کہ اگر ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے پرانے دنوں کو واپس لانا چاہتے ہیں، تو ہمیں گاندھی جیسے ثابت قدم اور ایماندار شخص کی ضرورت ہوگی جو اتحاد کے پیغام کی بازیافت کرسکے۔
گاندھی کا سفر انہیں مجروح سلطان پوری کے ایک شعر کی یاد دلاتا ہے: ’میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر، لوگ ساتھ آ تے گئے اور کارواں بنتا گیا۔‘
’’ایسا نہیں ہو پایا، تو یہ لوگ آئین کو بدل دیں گے اور اس کی قیمت آنے والی نسلوں کو چکانی پڑے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مترجم: شفیق عالم