جنوری کی سرد رات کے ۹ بج چکے ہیں، اور تقریباً ۴۰۰ ناظرین کا مجمع اسٹیج پر ڈرامہ کی پیشکش کا انتظار کر رہا ہے، جسے ایک گھنٹہ پہلے ہی شروع ہو جانا چاہیے تھا۔

اچانک سامنے کی طرف عارضی اسٹیج کے قریب ہلچل ہونے لگتی ہے۔ بانس کے مچان پر بندھے ایک لاؤڈ اسپیکر سے آواز گونجتی ہے، ’’جلد ہی ہم ماں بون بی بی کو وقف منظوم ڈرامہ شروع کریں گے…جو ہمیں ہر برائی سے بچاتی ہیں۔‘‘

گوسابا بلاک کی جواہر کالونی میں آس پاس بھٹک رہے لوگ اس ’برائی‘ (بدمعاش بھوتوں، سانپ، مگرمچھ، شیر، شہد کی مکھیوں) کو دیکھنے کے لیے پرجوش ہو کر بیٹھنے لگتے ہیں، جن کا دیوی ماں بون بی بی نے آٹھارو بھاٹر دیش (۱۸ موجوں کی سرزمین) میں خاتمہ کیا تھا۔ یہ سندربن ہے، جو کھارے (نمکین) اور تازہ پانی کے آبی ذخائر سے گھرا دنیا کا سب سے بڑا مینگرو بن گیا ہے، جس میں جانور، نباتات، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانوروں کی بھرمار ہے۔ یہاں، بون بی بی کی کہانیاں ایک نسل سے دوسری نسل کو وراثت کی طرح ملتی ہیں اور اس علاقے کی زبانی روایت میں پوری طرح پیوست ہیں۔

گرین روم یا آرائشی کمرہ، جس کو پردے کی مدد سے گھیر کر اسی گلی کے ایک کونے میں بنایا گیا ہے، ناظرین کی آمد و رفت سے گلزار ہے اور فنکار بون بی بی پال گان کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ اپنی باری آنے کے انتظار میں، شہد کے بڑے چھتے اور شیروں کے ٹیراکوٹا ماسک ترپال کی دیواروں کے سہارے رکھے ہوئے ہیں، جن کا آج کی پیشکش میں استعمال کیا جانا ہے۔ اس قسم کی پیشکش کا موضوع اکثر سندربن میں لوگوں کی زندگی سے جڑا ہوتا ہے – جو کہ سال ۲۰۲۰ میں ۹۶ شیروں کا گھر تھا۔

On the first day of the Bengali month of Magh (January-February), households dependent on the mangroves of Sundarbans pray to Ma Bonbibi for protection against tigers, bees and bad omens
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بنگالی کیلنڈر کے مطابق ماگھ (جنوری-فروری) مہینے کے پہلے دن، سندربن کے مینگرو جنگلات پر منحصر رہنے والے کنبے شیروں، شہد کی مکھیوں اور بدشگونی سے بچنے کے لیے ماں بون بی بی سے پرارتھنا کرتے ہیں

The green room is bustling with activity. A member of the audience helps an actor wear his costume
PHOTO • Ritayan Mukherjee

گرین روم میں کافی ہلچل ہے۔ ایک ناظر کسی اداکار کو اس کی پوشاک پہننے میں مدد کر رہا ہے

اداکار – جو کسان، ماہی گیر اور شہد جمع کرنے والے کارکن ہیں – اپنی پوشاک پہن رہے ہیں اور میک اپ کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔ ناظرین میں اجتماعی جذبہ صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ اسٹیج کے پیچھے جا کر فنکاروں کو ڈائیلاگ کی مشق کرا رہے ہیں یا پوشاک ٹھیک کرنے میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔

ایک تکنیکی کاریگر اسپاٹ لائٹ میں رنگین فلٹر لگا رہا ہے، اور اب کچھ ہی دیر میں ٹولی اپنی آج کی پیشکش شروع کرے گی – رادھا کرشن منظوم ڈرامہ اور بون بی بی جاترا پال پرفارم کرے گی۔ بون بی بی پالا گان، دُکھے جاترا کے نام سے مشہور ہے، اور بنگالی ماگھ مہینہ (جنوری-فروری) کے پہلے دن پرفارم کیا جاتا ہے۔

اس سالانہ جلسے میں شامل ہونے اور بون بی بی پالا گان دیکھنے کے لیے، مغربی بنگال کے جنوبی ۲۴ پرگنہ کے گوسابا بلاک کے بہت سے گاؤوں کے لوگ آئے ہیں۔

نتیانند جوتدار، منڈلی کے میک اپ آرٹسٹ ہیں۔ وہ احتیاط سے ایک اداکار کے سر پر رنگین تاج رکھتے ہیں، جس پر بہت باریکی سے کاریگری کی گئی ہے۔ ان کی فیملی کئی نسلوں سے پالا گان کی پیشکش کا حصہ رہی ہے۔ حالانکہ، اب اس کے ذریعے ہونے والی آمدنی کے سہارے ان کے لیے گزارہ کر پانا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’پالا گان کی آمدنی کے ساتھ کوئی اپنا گھر نہیں چلا سکتا۔ مجھے اتر پردیش اور بہار میں کیٹرنگ بزنس (کھانے پینے کے انتظام سے جڑے کاروبار) میں نوکری کرنی پڑی تھی۔‘‘ لیکن کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران وہ آمدنی بھی بند ہو گئی۔

'I love transforming people into different characters,' says make-up artist Nityananda Jotdar
PHOTO • Ritayan Mukherjee

میک اپ آرٹسٹ نتیانند جوتدار کہتے ہیں، ’مجھے لوگوں کو الگ الگ کرداروں میں بدلنا پسند ہے‘

Nityananda puts a mukut on Dakkhin Rai, played by Dilip Mandal
PHOTO • Ritayan Mukherjee

دلیپ منڈل کے ذریعے ادا کیے جانے والے دکھن رائے کے کردار کو تاج پہناتے نتیانند

منڈلی کے بہت سے ممبران نے پاری کو پالا گان کی پیشکش سے ہونے والی آمدنی سے گھر چلانے میں آ رہی مشکلوں کے بارے میں بتایا۔ اداکار ارون منڈل کہتے ہیں، ’’گزشتہ برسوں میں سندربن میں پالا گان کی بکنگ تیزی سے گھٹتی گئی ہے۔‘‘

بہت سارے پالا گان فنکار ماحولیاتی تباہی، گھٹتے مینگرو، اور فوک تھیٹر کی کم ہوتی مقبولیت کے سبب کام کی تلاش میں شہروں کا رخ کرنے لگے ہیں۔ تقریباً ۳۵ سال کے نتیانند، کولکاتا میں اور آس پاس کے تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں پالا گان کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ اس لیے، آج رات میں یہاں فنکاروں کا میک اپ کر رہا ہوں۔‘‘

اس قسم کے کسی شو کے لیے ۷۰۰۰ سے ۱۵ ہزار روپے تک کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ ان پیسوں میں سے جب ہر ایک فنکار کو پیسے دیے جاتے ہیں، تو وہ بہت معمولی رقم ہوتی ہے۔ ارون کہتے ہیں، ’’بون بی بی پالا گان کی اس پرفارمنس کے عوض ۱۲ ہزار روپے ملیں گے، جو ۲۰ سے زیادہ فنکاروں میں تقسیم ہونے ہیں۔‘‘

اسٹیج کے پیچھے، اوشا رانی گھرانی ایک معاون اداکار کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی ہیں۔ وہ مسکرا کر کہتی ہیں، ’’شہری اداکاروں کے برعکس، ہم اپنی آرائش و زیبائش کا سارا سامان ساتھ رکھتے ہیں۔‘‘ جواہر کالونی گاؤں کی رہائشی اوشا رانی تقریباً ۱۰ برسوں سے پالا گان میں پرفارم کر رہی ہیں۔ آج وہ تین الگ الگ کردار نبھائیں گی، جن میں ماں بون بی بی کا مرکزی کردار بھی شامل ہے۔

Usharani Gharani lines Uday Mandal’s eyes with kohl; the actor is playing the role of Shah Jangali, the brother of Ma Bonbibi
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اوشا رانی گھرانی، اُدے منڈل کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی ہیں؛ جو ماں بون بی بی کے بھائی شاہ جنگلی کا کردار نبھا رہے ہیں

Banamali Byapari, a popular pala gaan artist of the Sundarbans, stands next to a honeycomb which is a prop for the show tonight
PHOTO • Ritayan Mukherjee

سندربن کے ایک مشہور پالا گان فنکار، بن مالی بیاپاری شہد کے ایک چھتے کے پاس کھڑے ہیں، جو آج رات شو میں پرفارمنس کے دوران استعمال کیا جائے گا

گرین روم کے دوسرے کنارے پر بن مالی بیاپاری بھی موجود ہیں۔ وہ ایک تجربہ کار اداکار ہیں۔ پچھلے سال رجت جوبلی گاؤں میں، میں نے انہیں ماں منسا پالا گان میں پرفارم کرتے دیکھا تھا۔ وہ مجھے پہچان لیتے ہیں اور گفتگو شروع ہونے کے کچھ ہی منٹوں میں کہتے ہیں، ’’میرے ساتھ کے فنکار یاد ہیں، جن کی آپ نے تصویریں کھینچی تھیں؟ اب وہ سب آندھرا پردیش میں دھان کے کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔‘‘

تباہ کن سمندری طوفانوں – سال ۲۰۲۰ میں آئے امفن اور سال ۲۰۲۱ میں آئے یاس – نے سندربن میں فنکاروں کو مزید بحران میں دھکیل دیا ہے، اور علاقے میں موسمی مہاجرت بڑھتی جا رہی ہے۔ دہاڑی مزدوروں کے لیے، بغیر کسی مستقل آمدنی کے ہوتے ہوئے پالا گان میں پرفارم کرنے کے لیے لوٹنا مشکل کام ہے۔

بن مالی کہتے ہیں، ’’میرے ساتھی اداکار آندھرا پردیش میں تین مہینے رہیں گے۔ وہ فروری کے بعد لوٹیں گے۔ دھان کے کھیت میں کام کر کے وہ تقریباً ۷۰ سے ۸۰ ہزار روپے بچا لیں گے۔ سننے میں لگتا ہے کہ یہ بہت بڑی رقم ہے، لیکن یہ کمر توڑ دینے والا کام ہوتا ہے۔‘‘

اسی وجہ سے بن مالی، آندھرا پردیش نہیں گئے۔ ’’پالا گان کی پیشکش سے جو تھوڑا بہت پیسہ مجھے مل جاتا تھا، میں اسی میں خوش تھا۔‘‘

Audience members in the green room, keenly watching the actors put on make-up.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
Modelled on animals, these masks will be used by the actors essaying the roles
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: کئی ناظرین گرین روم میں کھڑے ہو کر بے صبری سے اداکاروں کو میک اپ کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ دائیں: جانوروں پر مبنی اس قسم کے تاج کا استعمال ان کا رول نبھانے والے اداکار کریں گے

Portrait of Dilip Mandal in his attire of Dakkhin Rai
PHOTO • Ritayan Mukherjee

دکھن رائے کے کردار میں دلیپ منڈل کی تصویر

بون بی بی ڈرامہ کی ایک پیشکش میں منتظمین کے تقریباً ۲۰ ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں، جس میں سے ۱۲ ہزار روپے منڈلی کو دیے جاتے ہیں اور باقی لاؤڈ اسپیکر اور اسٹیج تیار کرنے میں خرچ ہوتا ہے۔ آمدنی میں گراوٹ کے بعد بھی بون بی بی پالا گان مقامی لوگوں کی سرگرم حوصلہ افزائی، شرکت اور مالی تعاون کے سہارے بچا ہوا ہے۔

دریں اثنا، اسٹیج تیار ہو گیا ہے، بڑی تعداد میں ناظرین اپنی سیٹوں پر بیٹھ چکے ہیں، موسیقی اپنی رفتار پکڑتی ہے، اور پرفارمنس شروع ہونے کا وقت ہو جاتا ہے۔

اوشا رانی اعلان کرتی ہیں، ’’ماں بون بی بی کے آشیرواد سے، ہم شاعر جسیم الدین کے اسکرپٹ کی بنیاد پر پیشکش شروع کرنے جا رہے ہیں۔‘‘ کئی گھنٹے سے شو شروع ہونے کا بے صبری سے انتظار کر رہی بھیڑ چوکنی ہو جاتی ہے، اور اگلے ۵ گھنٹوں کے لیے پیشکش کے ساتھ بندھ جاتی ہے۔

دیوی ماں بون بی بی، ماں مانسا اور شِب ٹھاکر کے لیے گائے جانے والے دعائیہ گیتوں سے پورے شو کے لیے سماں بندھ جاتا ہے۔ دلیپ منڈل، سندربن کے ایک اہم پالا گان فنکار ہیں اور دکھن رائے کا کردار نبھاتے ہیں – جو کہ بھیس بدلتا رہتا ہے اور اکثر شیر میں بدل جاتا ہے۔

پرفارمنس کا وہ حصہ، جس میں ماں بون بی بی، دکھن رائے کے چنگل سے ایک نوجوان لڑکے دُکھے کو بچاتی ہیں، ناظرین کو مسحور کر دیتا ہے، اور کئی لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ سال ۱۹۹۹ سے ۲۰۱۴ کے درمیان ۴۳۷ لوگ سندربن میں داخل ہوتے یا اس سے گزرتے ہوئے شیروں کے حملے میں زخمی ہو گئے تھے۔ جنگل میں داخل ہونے کے ساتھ بنے رہنے والے شیر کے حملے کے خطرہ کو مقامی لوگ بخوبی جانتے ہیں، اس لیے وہ دُکھے کے ڈر کے ساتھ وابستگی محسوس کرتے ہیں، اور ماں بون بی بی کا آشیرواد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

PHOTO • Ritayan Mukherjee
A packed crowd of close to 400 people wait for the performance to begin
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: اسٹیج پر مائک ٹھیک کرتا ایک تکنیکی کاریگر۔ دائیں: تقریباً ۴۰۰ لوگوں کا مجمع شو کے شروع ہونے کا انتظار کر رہا ہے

Jogindra Mandal, the manager of the troupe, prompts lines when needed.
PHOTO • Ritayan Mukherjee
The pala gaan is interrupted several times due to technical glitches and so a technician sits vigilant at the console
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بائیں: منڈلی کے منیجر جوگندر منڈل ضرورت پڑنے پر شو کے دوران ڈائیلاگ یاد کراتے ہیں۔ دائیں: تکنیکی خرابی کی وجہ سے پالا گان میں کئی بار رخنہ پڑتا ہے، اور اس لیے ایک ٹیکنیشین وہاں محتاط ہو کر بیٹھا رہتا ہے

اچانک مجمع کے درمیان سے کوئی چیختا ہے، ’’یہ مائک والا اتنا بیوقوف کیوں ہے! کتنی دیر سے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا ہے۔‘‘ جب تک ٹیکنیشین تاروں کو ٹھیک کرتا ہے، پرفارمنس رکی رہتی ہے۔ اس سے فنکاروں کو تھوڑی دیر کے لیے وقفہ مل جاتا ہے اور تکنیکی خامی دور ہونے کے بعد ۱۰ منٹ میں شو دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔

جاترا پال منڈلی کے منیجر جوگندر منڈل اسٹیج کے سامنے اس طرح بیٹھے ہیں کہ اگر کوئی اداکار اپنی لائن بھولے، تو وہ بتا سکیں۔ وہ بھی پالا گان کی گرتی مانگ سے مایوس ہیں، ’’کہاں ملتی ہے بکنگ؟ پہلے ایک کے بعد دوسرے شو ہوتے رہتے تھے، اور ہمیں مشکل سے ہی وقت مل پاتا تھا۔ اب وہ زمانہ چلا گیا۔‘‘

جوگندر جیسے منیجروں کے لیے منڈلی کے فنکار ڈھونڈنا مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ لوگ اس سے ہونے والی آمدنی سے گزارہ نہیں چلا پاتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں بہت دور سے فنکاروں کو بلانا پڑتا ہے۔ ’’اب آپ کو اداکار ملتے کہاں ہیں؟ پالا گان کے سبھی فنکار اب مزدوری کرنے لگے ہیں۔‘‘

اسی دوران، کئی گھنٹے گزر چکے ہیں اور بون بی بی پالا گان اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ کسی طرح میری پھر سے اوشا رانی سے بات ہو جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ پالا گان کے ساتھ ساتھ، گوسابا بلاک کے الگ الگ گاؤوں میں رامائن پر مبنی کہانیاں سناتی ہیں۔ لیکن ان کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے ’’کسی مہینے میں ۵۰۰۰ کما لیتی ہوں، کسی مہینے کچھ بھی نہیں ملتا۔‘‘

اگلے سال پھر سے پرفارم کرنے کی امید کے ساتھ اپنا سامان باندھتے ہوئے اوشا رانی کہتی ہیں، ’’گزشتہ تین برسوں میں، ہم نے سمندری طوفان کا سامنا کیا، کووڈ۔۱۹ وبائی مرض اور لاک ڈاؤن جھیلا۔ پھر بھی پالا گان کو مرنے نہیں دیا۔‘‘

Usharani going through her scenes in the makeshift green room
PHOTO • Ritayan Mukherjee

عارضی گرین روم میں اوشا رانی اپنا ڈائیلاگ پڑھ رہی ہیں


Actor Bapan Mandal poses with a plastic oar, all smiles for the camera
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اداکار باپن منڈل پلاسٹک کے چپو کے ساتھ مسکراتے ہوئے تصویر کھنچواتا ہے


Rakhi Mandal who plays the role of young Ma Bonbibi and Dukhe, interacting with her co-actors
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ماں بون بی بی کے بچپن اور دُکھے کا کردار نبھانے والی راکھی منڈل ساتھی فنکاروں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہیں


The actors rehearse their lines in the green room. Dilip Mandal sits in a chair, sword in hand, waiting for his cue to enter the stage
PHOTO • Ritayan Mukherjee

گرین روم میں اداکار اپنی لائنیں تیار کر رہے ہیں۔ ہاتھ میں تلوار لیے دلیپ منڈل ایک کرسی پر بیٹھے ہیں؛ وہ اسٹیج پر جانے کے لیے خود کی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں


Usharani Gharani announcing the commencement of the pala gaan
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اوشا رانی گھرانی پالا گان شروع ہونے کا اعلان کر رہی ہیں


Artists begin the pala gaan with prayers dedicated to Ma Bonbibi, Ma Manasa and Shib Thakur
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ماں بون بی بی، ماں منسا اور شِب ٹھاکر کو وقف دعائیہ گیتوں کے ساتھ فنکاروں نے پالا گان کی پیشکش شروع کر دی ہے


Actor Arun Mandal plays the role of Ibrahim, a fakir from Mecca
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اداکار ارون منڈل، مکہ کے ایک فقیر ابراہیم کا رول نبھا رہے ہیں


Actors perform a scene from the Bonbibi pala gaan . Golabibi (in green) is compelled to choose between her two children, Bonbibi and Shah Jangali. She decides to abandon Bonbibi
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بون بی بی پالا گان کے ایک منظر کی پیشکش کے دوران فنکار۔ گولا بی بی (ہرے رنگ کی پوشاک) اپنے دو بچوں، بون بی بی اور شاہ جنگلی میں سے کسی ایک کو چننے پر مجبور ہوتی ہیں۔ وہ بون بی بی کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتی ہیں


Rakhi Mandal and Anjali Mandal play the roles of young Bonbibi and Shah Jangali
PHOTO • Ritayan Mukherjee

راکھی منڈل (بائیں طرف) بون بی بی کے بچپن اور انجلی منڈل، شاہ جنگلی کا کردار نبھاتی ہیں


Impressed by the performance of Bapan Mandal, a elderly woman from the village pins a Rs. 10 note to his shirt as reward
PHOTO • Ritayan Mukherjee

باپن منڈل کی پرفارمنس سے متاثر ہو کر، گاؤں کی ایک بزرگ خاتون بطور انعام اس کی ٹی شرٹ پر ۱۰ روپے کا نوٹ نتھی کر رہی ہیں


Usharani delivers her lines as Narayani, the mother of Dakkhin Rai. In the pala gaan , she also plays the roles of Bonbibi and Fulbibi
PHOTO • Ritayan Mukherjee

دکھن رائے کی ماں نارائنی کی شکل میں اوشا رانی اپنی لائنیں پیش کرتی ہیں۔ پالا گان میں، وہ بون بی بی اور پھول بی بی کے کردار نبھاتی ہیں


Actors play out a fight scene between young Bonbibi and Narayani
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بون بی بی کی نوجوانی کے دنوں میں نارائنی کے ساتھ ہوئی لڑائی کا ایک منظر نبھاتیں فنکار


A child from Jawahar Colony village in the audience is completely engrossed in the show
PHOTO • Ritayan Mukherjee

جواہر کالونی گاؤں کی ایک بچی پرفارمنس میں پوری طرح سے ڈوبی ہوئی ہے


Bibijaan bids farewell to her son, Dukhey as he accompanies Dhana, a businessman into the forest to learn the trade of collecting honey. Many in the audience are moved to tears at this scene
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بی بی جان اپنے بیٹے دُکھے کو وداع کرتی ہیں، کیوں کہ وہ دھن نام کے ایک کاروباری کے ساتھ جنگل میں شہد اکٹھا کرنے کا ہنر سیکھنے کے لیے جا رہا ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر کئی ناظرین کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں


Boatmen take Dukhey into the jungle laced with dangers
PHOTO • Ritayan Mukherjee

کشتی بان دُکھے کو تمام خطروں سے بھرے جنگل میں لے جاتے ہیں


Boatmen and Dhana strategise on how to get honey from the forest
PHOTO • Ritayan Mukherjee

جنگل سے شہد کیسے لائی جائے، اس کے لیے کشتی بان اور دھن حکمت عملی تیار کرتے ہیں


A scene from the pala gaan where Dakkhin Rai appears in the dream of Dhana, asking him to sacrifice Dukhey as his kar (tax). Only then would he find honey in the forest
PHOTO • Ritayan Mukherjee

پالا گان کا ایک منظر، جس میں دکھن رائے، دھن کے خواب میں نمودار ہوتا ہے، اور ٹیکس کے طور پر دُکھے کی قربانی کرنے کو کہتا ہے، تبھی اسے جنگل میں شہد مل سکے گا


Usharani Gharani, looking ethereal, enters the stage dressed as Ma Bonbibi
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اوشا رانی گھرانی کا کردار غیبی نظر آتا ہے، اور ماں بون بی بی کی شکل میں وہ اسٹیج پر داخل ہوتی ہیں


In the forest, an abandoned Dukhey prays to Ma Bonbibi, to save him from Dakhin Ray. Ma Bonbibi grants his wish, defeats Dakhin Roy and safely returns him to his mother Bibijaan. Dukhey is also blessed with large amounts of honey which make him comfortably rich
PHOTO • Ritayan Mukherjee

جنگل میں، چھوڑ دیا گیا بچہ دُکھے ماں بون بی بی سے دکھن رائے سے بچا لینے کی فریاد کرتا ہے۔ ماں بون بی بی دُکھے کی خواہش کو پورا کرتی ہیں، دکھن رائے کو شکست دیتی ہیں، اور اسے بحفاظت اس کی ماں بی بی جان کے پاس لوٹا دیتی ہیں۔ دُکھے کو غیبی مدد کے طور پر بڑی مقدار میں شہد بھی ملتی ہے، جس سے وہ امیر ہو جاتا ہے


A butterfly motif, and the word 'Samapta' ('The End' ) marks the conclusion of the script
PHOTO • Ritayan Mukherjee

کاغذ پر بنا تتلی کا ڈیزائن، اور ساتھ میں لکھا ’ختم‘ (’دی اینڈ‘) لفظ بتاتا ہے کہ اسکرپٹ مکمل ہو چکی ہے


مترجم: محمد قمر تبریز

Ritayan Mukherjee

रितायन मुखर्जी, कोलकाता के फ़ोटोग्राफर हैं और पारी के सीनियर फेलो हैं. वह भारत में चरवाहों और ख़ानाबदोश समुदायों के जीवन के दस्तावेज़ीकरण के लिए एक दीर्घकालिक परियोजना पर कार्य कर रहे हैं.

की अन्य स्टोरी Ritayan Mukherjee
Editor : Dipanjali Singh

दीपांजलि सिंह, पीपल्स आर्काइव ऑफ़ रूरल इंडिया में सहायक संपादक हैं. वह पारी लाइब्रेरी के लिए दस्तावेज़ों का शोध करती हैं और उन्हें सहेजने का काम भी करती हैं.

की अन्य स्टोरी Dipanjali Singh
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पीपुल्स आर्काइव ऑफ़ रुरल इंडिया के ट्रांसलेशन्स एडिटर, उर्दू, हैं। वह दिल्ली स्थित एक पत्रकार हैं।

की अन्य स्टोरी Qamar Siddique