نومبر کے آتے ہی، ماجولی جزیرہ کا گرمور بازار تین دنوں تک رنگ برنگی روشنی اور مٹی کے دیوں (چراغ) سے جگمگانے لگتا ہے۔ ابتدائی سردی کی شام ڈھلتے ہی ڈھول نقارہ بجنے لگتا ہے۔ چاروں طرف لاؤڈ اسپیکر پر گانے بجانے کی آواز، اور تال جھانجھ منجیرا کی تھاپ گونجنے لگتی ہے۔
یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ راس مہوتسو کی شروعات ہو چکی ہے۔
پورنیما کے روز جب چاند پورا نکلتا ہے، آسام کے کٹی-اگھون مہینے (اکتوبر اور نومبر کے درمیان) میں راس مہوتسو شروع ہو جاتا ہے۔ یہ جشن دو دنوں تک چلتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے ہرسال زائرین اور سیاح بڑی تعداد میں اس جزیرہ پر آتے ہیں۔
بورون چتادار چُک گاؤں میں اس تہوار کا اہتمام کرنے والی کمیٹی کے سکریٹری، راجا پائینگ کہتے ہیں، ’’ہم لوگ اگر اسے ہر سال نہ منائیں، تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ کھو گیا ہے۔ یہ [راس مہوتسو] ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ لوگ سال بھر اس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں۔‘‘
بہترین کپڑوں میں ملبوس یہاں کے سینکڑوں باشندے گرمور سارو سترا – آسام میں ویشنو فرقہ کے کئی مٹھوں (عبادت گاہوں) میں سے ایک – کے قریب جمع ہو جاتے ہیں۔
راس مہوتسو (کرشن کے رقص کا تہوار) میں رقص، ڈرامہ اور منظوم پیشکش کے ذریعے بھگوان کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ تہوار کے دوران اسٹیج پر ایک ہی دن میں ۱۰۰ سے زیادہ کرداروں کو اسٹیج پر اتارا جا سکتا ہے۔
اسٹیج پر کرشن کی زندگی کے مختلف حصوں کو دکھایا جاتا ہے – جیسے کہ ورندا وَن میں گزرا ان کا بچپن اور راس لیلا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گوپیوں کے ساتھ رقص کیا تھا۔ اس بار کے ڈراموں میں ’انکیا ناٹ‘ (تنہا اداکاری) کی مختلف شکلیں پیش کی گئی تھیں، جیسے کہ شنکر دیو کے ذریعے تحریر کردہ ’کیلی گوپال‘ اور ان کے شاگر مادھو دیو کو وقف ’راس جھومور‘۔
گرمور مہوتسو میں وشنو کا کردار نبھانے والے مکتا دتّہ کہتے ہیں کہ رول ملتے ہی انہیں کچھ چیزوں پر سختی سے عمل کرنا پڑتا ہے: ’’جس دن ہمیں کرشن، نارائن یا وشنو کا رول ملتا ہے، عام طور پر اسی دن سے ہم سبزی خور ہو جاتے ہیں اور گوشت یا مچھلی نہیں کھا سکتے۔ راس کے پہلے دن، ہم بروت (روزہ) رکھتے ہیں۔ پہلے دن کی پیشکش ختم ہونے کے بعد ہی ہم اپنا بروت (یا برت) توڑتے ہیں۔‘‘
برہم پتر ندی آسام میں تقریباً ۶۴۰ کلومیٹر تک بہتی ہے۔ ماجولی اس ندی کا ایک بڑا جزیرہ ہے۔ یہاں کے سترا (مٹھ یا عبادت گاہ) ویشنو مذہب کے ساتھ ساتھ فن و ثقافت کے بھی مرکز ہیں۔ سماجی مصلح اور سادھو، شری منت شنکر دیو کے ذریعے ۱۵ویں صدی میں قائم کیے گئے ان سترا نے آسام میں نئی ویشنو بھکتی تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
ماجولی میں ایک زمانے میں ۶۵ سترا ہوا کرتے تھے، جن میں سے اب صرف ۲۲ ہی بچے ہیں۔ بقیہ تمام سترا دنیا کے سب سے بڑے طاس والے علاقے، یعنی برہم پتر میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے بہہ گئے۔ دراصل، موسم گرما اور مانسون کے مہینوں میں ہمالیہ کی جو برف پگھلتی ہے، وہ مختلف ندیوں سے ہوتے ہوئے دریائے برہم پتر میں ہی آ کر گرتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر سال وہاں سیلاب آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مانسون کے دوران ماجولی میں ہونے والی بارش سے بھی زمین دھنس جاتی ہے۔
راس مہوتسو عموماً سترا میں منایا جاتا ہے، جب کہ اس جزیرہ پر آباد مختلف برادریوں کے لوگ کمیونٹی ہال، کھلے میدانوں یا اسکول کے میدان میں بنائے گئے اسٹیج پر اپنی تقریبات اور پرفارمنس کا اہتمام کرتے ہیں۔
گرمور سارو سترا کے برعکس، اتر کملا باڑی سترا کی پیشکش میں عموماً عورتوں کو شامل نہیں کیا جاتا، بلکہ اس میں سترا کے برہمچاری بھکشو حصہ لیتے ہیں، جنہیں بھکت کہا جاتا ہے۔ ان بھکتوں کو مذہبی اور ثقافتی تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور یہ جن ڈراموں میں حصہ لیتے ہیں، وہ سبھی کے لیے مفت ہوتا ہے اور وہاں ہر کوئی آ سکتا ہے۔
اندرنیل دتہ (۸۲ سالہ)، گرمور سارو سترا کے راس مہوتسو کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے سترادھیکار (سترا کے سربراہ) پیتامبر دیو گوسوامی نے ۱۹۵۰ میں صرف مردوں کو اس میں شامل کرنے کی روایت ختم کر دی اور اس کے دروازے خواتین اداکاروں کے لیے بھی کھول دیے۔
وہ بتاتے ہیں، ’’پیتامبر دیو نے [روایتی مقام] نامگھر [عبادت گاہ] سے باہر اسٹیج بنوایا۔ نامگھر چونکہ پوجا کرنے کی جگہ تھی، اس لیے ہم لوگ اسٹیج کو باہر لے گئے۔‘‘
یہ روایت آج بھی جاری ہے۔ جن ۶۰ جگہوں پر یہ مہوتسو منایا گیا تھا، ان میں سے ایک گرمور بھی ہے۔ ناٹک کا اہتمام آڈیٹوریم میں کیا جاتا ہے، جہاں تقریباً ۱۰۰۰ لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اسے دیکھنے کے لیے لوگوں کو ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔
یہاں پیش کیے جانے والے ناٹک (ڈرامے) ویشنو روایت میں شنکر دیو اور دیگر لوگوں کے ذریعے تحریر کردہ ڈراموں کی الگ الگ شکلیں ہیں، جنہیں تجربہ کار فنکار آج کے ماحول کے مطابق ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ اندرنیل دتہ بتاتے ہیں، ’’جب میں ڈرامے لکھتا ہوں، تو اس میں لوک سنسکرتی [مقامی ثقافت] سے جڑی چیزیں ڈال دیتا ہوں۔ ہمیں اپنی جاتی [کمیونٹی] اور سنسکرتی [ثقافت] کو زندہ رکھنا ہے۔‘‘
مُکتا دتّہ بتاتے ہیں، ’’ریہرسل دیوالی کے اگلے دن شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اداکاروں کو تیار ہونے کے لیے دو ہفتے سے بھی کم وقت فراہم کرتا ہے۔ ’’جو لوگ پہلے اداکاری کر چکے ہیں وہ الگ الگ جگہوں پر رہتے ہیں۔ انہیں اکٹھا کرنا تھوڑا مشکل ہوتا ہے،‘‘ مُکتا دتّہ کہتے ہیں، جو اداکار ہونے کے علاوہ، گرمور سنسکرت ٹول (اسکول) میں انگریزی بھی پڑھاتے ہیں۔
کالج اور یونیورسٹیوں کے امتحان بھی اکثر مہوتسو کے انہی دنوں میں پڑتے ہیں۔ ’’پھر بھی وہ [طلباء] آتے ہیں، ایک دن کے لیے ہی سہی۔ وہ راس میں اپنا رول ادا کرتے ہیں اور اگلے دن لوٹ جاتے ہیں تاکہ اپنا امتحان دے سکیں،‘‘ مُکتا بتاتے ہیں۔
مہوتسو کا انتظام کرنے کا خرچ ہر سال بڑھ رہا ہے۔ گرمور میں، سال ۲۰۲۲ میں اس پر تقریباً ۴ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ مُکتا کہتے ہیں، ’’ہم ٹیکنیشین کو پیسے دیتے ہیں۔ اداکاری کرنے والے تمام لوگ رضاکار ہیں۔ ان کی تعداد ۱۰۰ سے ۱۵۰ کے آس پاس ہے – یہ تمام لوگ رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں۔‘‘
بورون چتادار چُک میں راس مہوتسو اسکول میں منایا جاتا ہے اور اس کا اہتمام میسنگ کمیونٹی (جسے آسام میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے) کے لوگ کرتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے، نوجوان نسل کی عدم دلچسپی اور اس علاقے سے بڑی تعداد میں لوگوں کی مہاجرت کی وجہ سے اداکاروں کی تعداد گھٹنے لگی ہے۔ ان تمام چیزوں کے باوجود یہ مہوتسو ختم اب بھی جاری ہے۔ راجا پائینگ کہتے ہیں، ’’اگر ہم اس کا اہتمام نہیں کریں گے، تو گاؤں میں کچھ امنگل [ناخوشگوار واقعہ] ہو جائے گا۔ گاؤں کے لوگوں کا یہی عقیدہ ہے۔‘‘
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کے ذریعے فراہم کردہ فیلوشپ کی مدد سے کی گئی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز