ملک کے دیہی علاقوں میں نقل و حمل کی یہ ایک عام شکل ہے، اور ساتھ ہی ٹرک یا لاری کے ڈرائیوروں کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ بھی، جب وہ اسے سامان کے بغیر چلا رہے ہوں – یا سامان کو کسی جگہ پہنچانے کے بعد اُدھر سے خالی لوٹ رہے ہوں۔ اس پر کوئی بھی سواری کر سکتا ہے – آپ بھی کر سکتے ہیں۔ حالانکہ، ہفتہ واری ہاٹ (دیہی بازار) سے اپنے گھر لوٹنے کے لیے بیتاب لوگوں سے کھچاکھچ بھرے اس ٹرک یا لاری پر چڑھنا یا اس میں جگہ پانا آسان نہیں ہوتا۔ دیہی ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں ہر دوسرا ٹرک یا لاری ڈرائیور اپنے مالک کی غیر موجودگی میں فری لانس ’کیب ڈرائیور‘ بن جاتا ہے۔ جن علاقوں میں نقل و حمل کا معقول انتظام نہیں ہے، وہاں پر یہ ڈرائیور بیش قیمتی خدمات فراہم کرتا ہے – لیکن مفت میں نہیں، بلکہ پیسوں کی خاطر۔
یہ تصویر اوڈیشہ کے کوراپُٹ ضلع میں، شاہراہ کے قریب ایک گاؤں کی ہے جہاں لوگ دن ڈھلتے ہی اپنے گھر لوٹنے کے لیے بیتاب تھے۔ ایسے حالات میں یہ پتہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کتنے لوگ گاڑی میں سوار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ صرف ڈرائیور ہی اس کے بارے میں کچھ بتا سکتا ہے کیوں کہ اس نے ہر کسی سے پیسے وصول کیے ہیں۔ لیکن اس کا اندازہ بھی بعض دفعہ درست نہیں ہوتا – کیوں کہ وہ لوگوں کے الگ الگ گروپ سے الگ الگ کرایہ لیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی مرغی یا بکری یا سامان کا بڑا بوجھ لیکر جا رہا ہے، تو اس آدمی سے زیادہ پیسے وصول کیے جاتے ہیں اور بزرگوں یا پرانے گاہکوں سے کم پیسے لیے جاتے ہیں۔ وہ ڈرائیور اپنے مسافروں کو بنیادی شاہراہ کے جانے پہچانے پوائنٹ پر اتارتا ہے۔ وہاں سے یہ لوگ پیدل ہی شام کے اندھیرے میں، جنگلات سے ہوکر، اپنے گھروں کی جانب تیزی سے روانہ ہو جاتے ہیں۔
ان میں سے کئی لوگ ہاٹ پہنچنے کے لیے پہلے ہی ۳۰ کلومیٹر کی دوری طے کر چکے ہوتے ہیں اور ان کے گھر اکثر شاہراہ سے کافی دور ہوتے ہیں۔ سال ۱۹۹۴ میں یہ لوگ اس طریقے سے کوراپُٹ ضلع میں، ۲۰ کلومیٹر تک کا سفر دو سے پانچ روپے میں کر سکتے تھے، جو اُس راستے کی حالت اور اس میں درپیش مشکلات پر منحصر تھا۔ ڈرائیور کے حساب سے کرایہ بھی الگ الگ ہو سکتا تھا، جو ناگہانی ضرورت اور دونوں کے درمیان مول بھاؤ کی صلاحیت پر منحصر تھا۔ خود میری پریشانی نقل و حمل کے اس ذریعہ کو استعمال کرنے میں – اور میں نے اس طریقے سے ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کیا ہے – یہ ہوتی ہے کہ میں ڈرائیور کو منانے کی کوشش کرتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی سواریوں کے ساتھ گاڑی کے پچھلے حصے میں بیٹھنے کی اجازت دے۔ کئی بار میں اس کے کیبن میں نہیں، بلکہ کیبن کے اوپر جانے کی اجازت طلب کرتا ہوں۔
لیکن، گاڑی چلانے والے اُس مہربان اور دوستانہ ڈرائیور کو بات سمجھ میں نہیں آئی۔ اس نے کہا، ’’لیکن میرے کیبن میں ایک اشٹیریو ، کیسیٹ پلیئر رکھا ہوا ہے، سر، اور سفر کے دوران آپ اسے سن سکتے ہیں۔‘‘ اس کے پاس پائریٹیڈ میوزک کا ایک بڑا کلیکشن تھا۔ کبھی کبھی میں نے اس طریقے سے بھی سفر کیا ہے اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا ہوں۔ لیکن یہاں پر میرا مقصد اس بات کا پتہ لگانا تھا کہ وہ اپنی لاری میں گاؤں کے جن لوگوں کو لیکر جا رہا تھا، ہاٹ میں ان کا دن کیسا گزرا۔ میں نے اس سے التجا کی کہ میں ان مسافروں کی تصویریں کھینچا چاہتا ہوں کیوں کہ دن کی روشنی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ میں گھر لوٹ رہے ان مسافروں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا تھا۔ آخرکار وہ مان گیا، لیکن اسے مایوسی ہوئی کہ جس آدمی کو اس نے ہندوستان کے کسی بڑے شہر کا ایک شریف آدمی سمجھ کر اپنے پاس جگہ دی تھی، وہ اتنا بیوقوف نکلا۔
تاہم، اس نے گاڑی کے پچھلے حصے میں چڑھنے میں میری مدد کی، جہاں پر پہلے سے موجود لوگوں نے ہاتھ بڑھا کر مجھے خوش آمدید کہا۔ ہاٹ سے تھکے ہارے لوٹنے والوں کا جذبہ بھی کسی ہمدردی سے کم نہیں تھا، یہاں تک کہ بکریوں اور مرغیوں نے بھی میرے لیے جگہ بنانے میں کوئی دیر نہیں کی۔ اور ان لوگوں کے ساتھ میری گفتگو بھی شاندار رہی، لیکن افسوس اس بات کا رہا کہ پوری طرح اندھیرا ہونے سے پہلے میں صرف ایک یا دو اچھی تصویریں ہی کھینچ پایا۔
اس مضمون کا ایک مختصر حصہ ۲۲ ستمبر، ۱۹۹۵ کو ’دی ہندو بزنس لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز