بالغ مردوں کا ایک گروہ مہاراشٹر کے پالگھر ضلع میں واقع میرے گاؤں، نمباولی میں ایک درخت کے نیچے جمع ہے۔ وہ لوگ تقریباً ۱۰ سال پہلے کے چند واقعات کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں، جن کے خطرناک نتائج کا انہیں آج بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی ایک ٹیم بڑی گاڑی سے ان کے گاؤں آئی تھی۔ ان کے پاس بہت سارے کاغذات، پیمائش کے آلات، رولر اور ٹیپ تھے۔ میرے بابا پرشورام پریڈ (عمر ۵۵ سال) نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے چھان بین کرکے ایک جگہ تلاش کی، تاکہ پانی کی سطح تک پہنچنے کے لیے زمین کی کھدائی کر سکیں۔
بابا نے یاد کرتے ہوئے بتایا، ’’مجھے وہ اچھی طرح سے یاد ہیں۔ جب ہم نے ان سے بار بار پوچھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، تب انہوں نے چڑھ کر زور سے کہا، ’آپ سب کو پانی چاہیے۔ چاہیے کہ نہیں؟‘ ہم نے کہا کہ ہاں، ہمیں چاہیے۔ ’پانی کسے نہیں مانگتا؟‘ ایک ایسے علاقے میں جہاں پانی کی قلت سالوں بھر رہتی ہو، حکومت کے ذریعے پانی مہیا کرانے کے کسی بھی منصوبہ کا استقبال کیا جانا فطری بات ہے، لیکن گاؤں کے لوگوں کو جس خوشی کی امید تھی وہ پوری نہیں ہوئی۔‘‘
کچھ مہینے بعد ہی واڈا تعلقہ میں نمباولی کے وارلی آدیواسیوں کو اپنی زمینیں خالی کرنے کا سرکاری فرمان ملا۔ پانی کی فراہمی کے پروجیکٹ کے لیے تو نہیں، بلکہ گاؤں کی زمین کو ممبئی-وڈودرا نیشنل ایکسپریس ہائی وے کے لیے نشان زد کیا گیا تھا۔
بال کرشن لپٹ (۵۰ سال) نے بتایا، ’’نوٹس ملنے سے پہلے ہم ہائی وے کے بارے میں جانتے بھی نہیں تھے۔‘‘ یہ سال ۲۰۱۲ کی بات تھی۔ لیکن دس سال بعد آج بھی میرا گاؤں تحویل اراضی کی پر فریب اور گمراہ کن شرطوں سے نبرد آزما ہے۔ زیادہ تر لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ سرکاری نظام کی طاقت کے سامنے ان کی جیت مشکل ہے اور انہوں نے معاوضہ کے طور پر مانگے گئے پیسوں میں کافی کٹوتی بھی کی ہے۔ اپنی زمین کے بدلے ملنے والی زمین کے معاملے میں بھی، وہ ہر ممکن معاہدہ کرنے کو تیار ہیں۔ اپنی شرطوں پر پورے گاؤں کے معاوضے کی بات تو اب وارلی آدیواسیوں کے لیے دور کی کوڑی ہے۔
مہاراشٹر، گجرات، اور دادرا اور نگر حویلی سے ہوکر گزرنے والی ۳۷۹ کلومیٹر لمبی اور آٹھ لین والی اس شاہراہ کے لیے تحویل اراضی کا فیصلہ مرکز کی بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت نے لیا تھا۔ ہائی وے کے مہاراشٹر والے علاقہ کا ایک حصہ پالگھر ضلع کے تین تعلقہ میں پڑنے والے اکیس گاؤوں سے ہوکر جاتا ہے۔ واڈا بھی ان میں سے ایک تعلقہ ہے اور نمباولی اسی تعلقہ کا ایک گاؤں ہے، جس میں ۱۴۰ گھر آباد ہیں۔
ہائی وے کی صرف ۵ اعشاریہ ۴ کلومیٹر لمبائی نمباولی سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے۔ گاؤں کی کل ۷۱۰۳۵ مربع میٹر زمین کو حکومت کے ذریعے تحویل کے لیے نشان زد کیا گیا تھا، اور گاؤں کے لوگوں کے ذریعے مخالفت کیے جانے سے پہلے تحویل کی کارروائی شروع ہو چکی تھی۔
جب گاؤں والوں کو پروجیکٹ کی حقیقت کا علم ہوا، تو وہاں کے معزز اور بزرگ لوگوں کو یہ بھروسہ دیا گیا کہ لوگوں کو ان کے کھیت اور مکان کے بدلے مناسب معاوضہ دیا جائے گا، اس کی رقم سے وہ اپنی پسند کی نئی زمین خرید کر گھر بنوا سکتے تھے۔ لیکن ہمارے گاؤں کے لوگوں نےاس تجویز کو ٹھکرا دیا اور افسران کو آگاہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ جب تک باز آبادکاری کے لیے انہیں کوئی اور زمین نہیں مل جاتی، تب تک کوئی بھی اپنی جگہ سے ہلے گا نہیں۔
چندر کانت پریڈ (۴۵ سال) نے بتایا، ’’ہمیں نو لاکھ روپے فی فیملی کے اوسط سے معاوضہ کا نوٹس ملا ہے۔‘‘ وہ سوالیہ لہجے میں پوچھتے ہیں، ’’کس کے عوض میں؟ ذرا ان شیوگا، سیتا پھل، چیکو، اور کڑی پتا کے درختوں کو دیکھئے۔ ہم اس زمین میں تمام قسم کے قند اور ساگ سبزیاں اگاتے ہیں۔ ان سب کے بدلے انہوں نے ہمیں کتنا پیسہ دیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ کیا آپ صرف نو لاکھ روپے میں زمین خرید سکتے ہیں، گھر بنا سکتے ہیں، اور اتنے سارے درخت لگا سکتے ہیں؟‘‘
ایک دوسرا مسئلہ بھی تھا۔ ہائی وے گاؤں کے بالکل درمیان سے ہوکر گزر رہا تھا، جس کی وجہ سے گاؤں دو حصوں میں بٹ گیا۔ یہ سوال ونود کاکڈ کا تھا، ’’نمباولی کے تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کئی نسلوں سے اسی قسم کی زندگی بسر کی ہے۔ ہم اپنے موجودہ گاؤٹھان کے معاوضہ میں زمین چاہتے ہیں، لیکن وہ زمین ہم ایک ایسے پیکیج کے طور پر چاہتے ہیں جس میں ہم سب کے گھر شامل ہوں۔ ہم اس گاؤں میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے مناسب معاوضہ چاہتے ہیں۔ آپ یہ سڑک ترقی کی نشانی کے طور پر بنانا چاہتے ہیں۔ ضرور بنائیے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن ہمیں کیوں اجاڑ دینا چاہتے ہیں؟‘‘
اس پروجیکٹ نے ہماری زندگیوں میں کئی قسم کی غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ راستوں کی نشاندہی کے عمل کی وجہ سے ۴۹ کنبوں کے ۲۲۰-۲۰۰ لوگ براہ راست متاثر ہوئے ہیں، جب کہ چار گھر اس بے دخلی سے بچ گئے ہیں کیوں کہ وہ نشاندہی والے راستے میں نہیں آتے تھے۔ اُن چار میں سے تین گھر جنگل کی زمین پر بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے حکومت کی نظر میں وہ کسی قسم کے معاوضہ کے حقدار نہیں ہیں۔
ہم وارلی آدیواسی لوگ صدیوں سے اسی مٹی پر رہتے آئے ہیں۔ ہم نے اس زمین پر نہ صرف اپنے گھر بنائے ہیں، بلکہ اس مٹی کے ساتھ ایک قسم کا رشتہ بھی قائم کر لیا ہے۔ املی، آم اور دوسرے سایہ دار درختوں نے ہمیں سخت گرمیوں کی تپتی دھوپ سے راحت دی ہے، اور سپریا پہاڑ ہمیں جلانے کے لیے لکڑیاں دیتا ہے۔ ان سب کو چھوڑ کر کہیں اور جانا واقعی میں تکلیف دہ ہے۔ اور، اُتنا ہی تکلیف دہ اپنے کچھ پیارے لوگوں کو چھوڑ کر جانا بھی ہے۔ یوں تو ہمارا پورا کنبہ بکھر جائے گا۔
ساوتری لپٹ (۴۵ سال) نے بتایا، ’’جو افسر ہماری زمین کی پیمائش کرنے آئے تھے، وہ ہماری یکجہتی کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے تھے۔ انہوں نے ہمیں کہا بھی کہ جن کا گھر بار چھوٹ رہا ہے، ان کی تکلیفیں تو سمجھ میں آتی ہیں، لیکن یہاں تو وہ لوگ بھی رو رہے ہیں جن کے سامنے نقل مکانی کا کوئی بحران نہیں ہے۔ میں نے انہیں یہ کہنے کی کوشش کی کہ ہمارے گھر کے سامنے اور ہمارے گھر کے پیچھے کے تمام مکانوں کو سرکار ہائی وے بنانے کے لیے بے دخل کرنے والی ہے۔ میرا گھر دونوں کے بالکل درمیان میں پڑتا ہے۔ یہ سڑک ہم سب کے لیے ایک بڑی پریشانی کی وجہ بننے جا رہی ہے۔‘‘
عشروں سے اب تک ساتھ رہنے والے لوگوں کو ایک دوسرے سے بانٹ دینے والی سڑک کے تئیں مقامی لوگوں کے کسی قسم کا لگاؤ کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ ابھی انتظار کر رہا تھا۔ ہائی وے کے دونوں طرف کے متعدد مکان نقشے یا سرکاری کاغذات میں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ انہیں کہیں بھی شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ۴-۳ گھر ایسے بھی تھے جنہیں جنگل کی زمین پر بنا ہوا دکھایا گیا تھا۔ گاؤں کے لوگ حکومت کے سامنے یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ تمام کنبوں کو ایک ساتھ ہی کہیں اور بسایا جائے، دوسری طرف متعلقہ افسر ایک ساتھ رہتے آئے ان وارلی آدیواسیوں کی اجتماعی ضرورتوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
کچھ پرانے سرکاری کاغذات دکھاتے ہوئے ۸۰ سلہ دامو پریڈ نے مجھ سے سوالیہ لہجے میں کہا، ’’میں یہاں اتنے سالوں سے رہ رہا ہوں۔ ذرا ٹیکس کی ان پرانی رسیدوں کو دیکھئے، لیکن اب سرکار کہہ رہی ہے کہ میں نے جنگل کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کیا ہے اور اب میں کسی بھی قسم کے معاوضے کا حقدار نہیں ہوں۔ اس عمر میں، میں کہا جاؤں؟‘‘ وہ میرے دادا کے بھائی ہیں۔ انہوں نے مزید یہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لی، ’’میں اب یہ سب نہیں سمجھ پاتا۔ تم جوان اور تعلیم یافتہ ہو۔ اب تم ہی اس مصیبت کو سنبھالو۔‘‘
درشنا پریڈ (۴۵ سال) اور ۷۰ سال کے گووند کاکڈ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جن کے گھر کو جنگل کی زمین پر بتایا گیا ہے۔ دونوں نے اپنے مکان اندرا آواس یوجنا کے تحت بنائے ہیں، ہر سال پراپرٹی ٹیکس ادا کیا ہے، اور دونوں کے گھروں میں باقاعدہ بجلی کی سپلائی ہوتی ہے اور بل کی ادائیگی کے لیے سرکاری میٹر بھی لگا ہوا ہے۔ لیکن ہائی وے کی تعمیر کے لیے نقشہ بنانے کے دوران دونوں کو جنگل کی زمین پر بنا ہوا دکھایا گیا ہے، اور اسے مبینہ طور پر غیر قانونی قبضہ بتا کر انہیں کسی بھی معاوضے سے محروم رکھا گیا۔
یہ ایک مشکل لڑائی ہے جو سالوں سے لڑی جا رہی ہے۔ شروع میں تو تمام متاثرہ لوگوں نے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا، لیکن بعد میں وہ اپنے الگ الگ مطالبات کے ساتھ منتشر ہو گئے۔ احتجاج کی شروعات پروجیکٹ کی مخالفت کے ساتھ ہوئی، بعد میں سب نے اجتماعی طور پر زیادہ معاضے کا مطالبہ کیا اور اب یہ لڑائی نمباولی کے تمام خاندانوں کی مناسب باز آبادکاری کی لڑائی میں تبدیل ہو چکی ہے۔
بابا نے کہا، ’’الگ الگ سیاسی جماعتوں، تنظیموں، اور یونینوں کے لوگ شیتکری کلیان کاری سنگٹھن نام کے آزاد بینر تلے جمع ہوئے تھے۔ اس مورچہ نے لوگوں کو منظم کیا، ریلیاں نکلیں، احتجاجی مظاہرے ہوئے، اور زیادہ معاوضہ کے لیے حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ لیکن یہ سب کرنے کے بعد کسانوں اور تنظیم کے لیڈروں نے بقیہ لڑائی کو ہماری قسمت کے بھروسے چھوڑ دیا۔ مناسب باز آبادکاری کا ایشو اب ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے۔‘‘
شیتکری کلیان کاری سنگٹھن کے سابق صدر، کرشنا بھوئیرے نے اس الزام کی تردید کی۔ انہوں نے اپنی صفائی پیش کی، ’’ہم نے مناسب معاوضے کی لڑائی کے لیے لوگوں کو متحد کیا۔ ہم نے ہائی وے کی تعمیر کے بعد عام لوگوں کی روزمرہ کی زندگی پر اس کے اثرات اور نقصانات سے جڑے دیگر سوالات بھی اٹھائے۔ مثال کے طور پر، لوگ ہائی وے کو کیسے پار کریں گے، طلباء اپنے اسکول اور کالج کیسے جائیں گے، اگر ہائی وے کا پانی گاؤوں اور کھیتوں میں جمع ہونے لگے، تو اس سے کیسے بچا جائے گا؟ ہم نے ہر محاذ پر جم کر لڑائی لڑی، لیکن جب متاثرین کو معاوضہ کی شکل میں کچھ پیسے ملے تو وہ سب کچھ بھول گئے۔‘
ان تمام چیزوں کے درمیان ایک غیر آدیواسی کُنبی کسان، ارون پاٹل نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کے کھیت سے ملحق کچھ زمین، جس پر وارلی لوگ بسے ہوئے تھے، دراصل ان کی تھی۔ اس لیے، وہ معاوضہ کے دعویدار ہیں۔ بہرحال، ان کا دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ ۶۴ سال کے دلیپ لوکھنڈے نے بتایا، ’’ہم نے اپنے سبھی کام کچھ وقت کے لیے ٹال دیے اور دفتر مالیات کے کئی چکر لگائے۔ آخر میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ ہم سبھی کے گھر گاؤٹھان (سرکار کے ذریعے تقسیم کی گئی گاؤں کی زمین) پر ہی تھے۔‘‘
لوکھنڈے کا گھر نمباولی کی گریل پاڑہ بستی میں پانچ ایکڑ سے بھی بڑے گاؤٹھان میں پھیلا ہوا ہے۔ وارلی آدیواسیوں نے زمین کی درست پیمائش اور تعین کے لیے لینڈ ریونیو ڈپارٹمنٹ میں درخواست بھی دی تھی۔ افسر بھی پہنچے، لیکن انہوں نے اپنا کام مکمل نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات کے ملازمین کی موجودگی کے بغیر کام پورا نہیں ہو سکتا تھا۔
جو لوگ مناسب معاوضے کے حقدار ہیں، وہ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہیں۔ فیملی کے سربراہ کہتے ہیں کہ جس معاوضہ کا اعلان کیا گیا ہے، اس کی معمولی سی رقم سے دوسرا گھر بنانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ ببن تمباڈی (۵۲ سال) نے مایوسی سے پوچھا، ’’جنگل کی زمین پر گھر بنانے کی ہمیں اجازت نہیں ہے۔ ایسی حالت میں ہم آدیواسی آپ کے ترقیاتی پروجیکٹوں کے لیے راستہ کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟‘‘
نمباولی کے لوگ جب بھی سب ڈویژنل آفیسر کے پاس جاتے ہیں، تو کچھ وعدوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ انہیں واپس لوٹا دیا جاتا ہے۔ بابا کہتے ہیں، ’’ہم ان کے وعدوں کے سچ ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ تب تک زمین کے لیے ہماری لڑائی جاری ہے۔‘‘
نمباولی کے وارلی آدیواسیوں کو ہائی وے سے کوئی سوغات نہیں ملی ہے، اُلٹے وہ اپنے ہی گاؤٹھان سے باز آبادکاری کے کسی ٹھوس منصوبہ کے بغیر بے دخل کیے جا رہے ہیں۔ میں نے اپنے گاؤں کے لوگوں کو برسوں سے لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور، وہ تب بھی لڑنا جاری رکھتے ہیں، جب ان کے جیتنے کی امید نہیں کے برابر ہو۔
اس اسٹوری کو اسمرتی کوپیکر کے ذریعے ایڈٹ کیا گیا تھا۔ اسمرتی ایک آزادی صحافی اور کالم نگار ہیں، ساتھ ہی میڈیا کے شعبہ میں درس و تدرس کا کام کرتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز