’’سب کو جلا دو!‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو موہن بہادر بدھ نے ۳۱ مارچ، ۲۰۲۳ کی رات میں اُس وقت سنے تھے، جب ۱۱۳ سال پرانے مدرسہ عزیزیہ کو آگ کے حوالے کیا جا رہا تھا۔
وہاں سیکورٹی گارڈ کا کام کرنے والے ۲۵ سالہ موہن بہادر بتاتے ہیں، ’’میں نے لوگوں کو چیختے اور لائبریری کا مرکزی دروازہ توڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب میں باہر نکلا، تو دیکھا کہ لوگ لائبریری کے اندر پہلے ہی داخل ہو چکے ہیں اور وہاں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں۔‘‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ لوگوں کے ہاتھوں میں ’’تلوار اور بھالا تھا، اور انہوں نے ہتھیار کے طور پر اینٹیں اٹھا رکھی تھیں۔ وہ لوگ چلّا رہے تھے، ’جلا دو، مار دو‘۔‘‘
’ایک الماری میں ۲۵۰ قلمی نسخے [ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں] تھے، جن میں فلسفہ، فصاحت اور طب سے متعلق کتابیں بھی تھیں‘
موہن بہادر کا تعلق نیپال سے ہے۔ وہ بہار شریف کے مدرسہ عزیزیہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال سے سیکورٹی گارڈ کا کام کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جب میں نے منع کیا، تو انہوں نے میرے اوپر ہی حملہ کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مجھے گھونسہ مارا اور کہا، ’سالا نیپالی، بھاگو یہاں سے، نہیں تو مار دیں گے‘۔‘‘
وہ ۳۱ مارچ، ۲۰۲۳ کے اس واقعہ کے بارے میں بتا رہے ہیں، جب شہر میں رام نومی کے جلوس کے دوران فرقہ پرست فسادیوں نے مدرسہ (اسلامیات کا اسکول اور لائبریری) کو آگ لگا دی تھی۔
موہن بہادر کہتے ہیں، ’’لائبریری میں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ اس لیے، اب انہیں سیکورٹی گارڈ کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ میں بے روزگار ہو چکا ہوں۔‘‘
پاری نے مدرسہ عزیزیہ کا دورہ اپریل ۲۰۲۳ کے شروع میں کیا تھا۔ اس سے ایک ہفتہ پہلے ہی فرقہ پرست فسادیوں نے نہ صرف بہار شریف ٹاؤن (جو کہ بہار کے نالندہ ضلع کا ہیڈ کوارٹر ہے) کے اس مدرسہ پر، بلکہ وہاں کی دوسری عبادت گاہوں پر بھی حملہ کیا تھا۔ شروع میں حکام کے ذریعے پورے شہر میں ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی)، ۱۹۷۳ کے تحت دفعہ ۱۴۴ لگا دیا گیا تھا، اور انٹرنیٹ بھی بند کر دیا گیا تھا، لیکن ایک ہفتہ بعد دونوں کو ہٹا لیا گیا۔
وہاں پہنچنے پر ہماری ملاقات مدرسہ کے ایک سابق طالب علم، سید جمال حسن سے ہوئی جو بے بسی کے عالم میں وہاں گھوم رہے تھے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’’لائبریری میں بہت سی کتابیں تھیں، لیکن میں سبھی کتابوں کو نہیں پڑھ سکتا تھا۔‘‘ انہوں نے ۱۹۷۰ میں اس مدرسہ کے اندر تیسری جماعت میں داخلہ لیا تھا اور عالم (گریجویشن) کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد یہاں سے فارغ ہوئے تھے۔
جمال حسن کہتے ہیں، ’’میں دیکھنے آیا ہوں کہ یہاں کچھ بچا بھی ہے یا نہیں۔‘‘
چاروں طرف دیکھنے کے بعد، ۷۰ سال کے جمال حسن کو اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ بچپن میں وہ جس ہال میں بیٹھ کر پڑھائی کرتے تھے، اسے پوری طرح تہس نہس کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ ادھ جلی کتابوں کے سیاہ کاغذات اور پوری طرح سے جل چکی کتابوں کی راکھ بکھری ہوئی ہے۔ مدرسہ کی جس لائبریری میں بیٹھ کر طلباء اور اساتذہ تحقیق و مطالعہ کرتے ہیں، اس کی دیواریں اب دھوئیں سے سیاہ ہو چکی ہیں اور ان میں دراڑ پڑی ہوئی ہے۔ جلی ہوئی کتابوں کی بو چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ لکڑی کی جن پرانی الماریوں پر پہلے کتابیں ہوا کرتی تھیں، اب وہ پوری طرح جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔
اس ۱۱۳ سال پرانے مدرسہ عزیزیہ میں تقریباً ۴۵۰۰ کتابیں تھیں، جن میں قرآن اور حدیث کے ۳۰۰ قلمی نسخے تھے۔ مدرسہ کے پرنسپل محمد شاکر قاسمی بتاتے ہیں، ’’ایک الماری میں ۲۵۰ قلمی نسخے [ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں] تھے، جن میں فلسفہ، فصاحت اور طب سے متعلق کتابیں بھی تھیں۔ اس کے علاوہ، یہاں [سال] ۱۹۱۰ سے طلباء کے داخلہ کے رجسٹر، مارک شیٹ، سرٹیفکیٹ بھی اس لائبریری میں رکھے ہوئے تھے۔‘‘
اُس افسوسناک دن کو یاد کرتے ہوئے شاکر قاسمی کہتے ہیں، ’’میں جیسے ہی سٹی پیلیس ہوٹل کے قریب پہنچا، تو دیکھا کہ شہر کا ماحول کافی سنگین ہو چکا ہے۔ ہر جگہ دھواں ہی دھواں تھا۔ [سیاسی] حالات ایسے نہیں تھے کہ ہم شہر میں کہیں جا سکیں۔‘‘
پرنسپل کو اگلے دن صبح کے وقت مدرسہ میں داخل ہونے کا موقع مل پایا۔ تقریباً ۳ لاکھ لوگوں کی آبادی والے اس شہر میں بجلی کہیں نہیں تھی۔ ’’میں صبح کو چار بجے اکیلے ہی یہاں آیا۔ جب میں نے اپنے موبائل کے ٹارچ سے لائبریری پر نظر ڈالی، تو اسے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میرے اندر خود کو سنبھالنے کی بھی طاقت نہیں بچی تھی۔‘‘
*****
مدرسہ عزیزیہ کے داخلی دروازہ کے قریب، آدھا درجن سے زیادہ ریڑھی والے مچھلیاں بیچنے میں مصروف ہیں۔ یہاں پر کافی بھیڑ بھاڑ ہے اور گاہکوں اور دکانداروں کے مول بھاؤ کی آواز چاروں طرف گونج رہی ہیں۔ سڑک پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں؛ ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ نارمل ہے۔
مدرسہ عزیزیہ کے داخلی دروازہ کے قریب، آدھا درجن سے زیادہ ریڑھی والے مچھلیاں بیچنے میں مصروف ہیں۔ یہاں پر کافی بھیڑ بھاڑ ہے اور گاہکوں اور دکانداروں کے مول بھاؤ کی آواز چاروں طرف گونج رہی ہیں۔ سڑک پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں؛ ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ نارمل ہے۔
پرنسپل شاکر قاسمی بتاتے ہیں، ’’مدرسہ کے مغربی جانب ایک مندر اور مشرقی جانب ایک مسجد ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی بہترین علامت ہے۔‘‘
’’نہ تو انہیں ہماری اذان سے کبھی کوئی دقت ہوئی اور نہ ہی ہمیں ان کے بھجن سے۔ میں نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ فسادی ہماری اس تہذیب کو برباد کر دیں گے۔ مجھے بے حد افسوس ہے۔‘‘
مدرسہ کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ فسادیوں نے اگلے دن بھی یہاں پٹرول بم پھینک کر دوسرے کمروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی۔ ایک درجن سے زیادہ دکانوں اور گوداموں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور انہیں لوٹا گیا۔ اس نامہ نگار کو کئی ایف آئی آر (پہلی اطلاعاتی رپورٹ) کی کاپیاں بھی دکھائی گئیں، جو مقامی اور آس پاس کے لوگوں نے اپنے نقصانات سے متعلق درج کروائی تھیں۔
بہار میں فرقہ وارانہ فساد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سال ۱۹۸۱ میں بھی ایسا ہی ایک بڑا فساد ہوا تھا۔ لیکن، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اُس وقت لائبریری اور مدرسہ پر کسی نے بھی حملہ نہیں کیا تھا۔
*****
بی بی صغریٰ کے ذریعہ ۱۸۹۶ میں قائم کیے گئے مدرسہ عزیزیہ میں اس وقت ۵۰۰ نوجوان طلباء و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ یہاں داخلہ لینے والا طالب علم پوسٹ گریجویٹ ڈگری تک تعلیم حاصل کر سکتا ہے، جو کہ بہار اسٹیٹ بورڈ کے مساوی ہے۔
بی بی صغریٰ نے یہ مدرسہ اپنے شوہر عبدالعزیز کی وفات کے بعد بنوایا تھا، جو اس علاقے کے ایک زمیندار تھے۔ ہیرٹیج ٹائمز کے بانی عمر اشرف بتاتے ہیں، ’’انہوں نے بی بی صغریٰ وقف اسٹیٹ بھی قائم کیا تھا اور زمین سے حاصل ہونے والی آمدنی کو مختلف قسم کے سماجی کاموں میں استعمال کیا جاتا تھا، جیسے تعلیم کے لیے مدرسہ چلانا، کلینک، مسجدوں کی دیکھ بھال، پنشن، کھانے کی تقسیم وغیرہ۔‘‘
یہ مدرسہ ’تعلیم نو بالغاں‘ پروجیکٹ کا بھی حصہ ہے، جسے اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے)، بہار مدرسہ بورڈ اور بہار محکمہ تعلیم نے ۲۰۱۹ میں شروع کیا تھا۔
بی بی صغریٰ وقف اسٹیٹ کے منتظم، مختار الحق کہتے ہیں، ’’شاید یہ زخم [مدرسہ اور لائبریری کو جلانا] تھوڑا بھر بھی جائے، لیکن ہمارا درد کبھی ختم نہیں ہوگا۔‘‘
یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر پڑی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے گزری تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز