دو بُلڈوزر دوپہر کے وقت آئے۔ ’’بُلڈوزر، بُلڈوزر... سر... سر...‘‘ اسکول کے میدان میں کھڑے بچے چلّائے۔ ان کی چیخ سن کر اسکول کے دفتر سے پرنسپل پرکاش پوار اور بانی متین بھونسلے بھاگتے ہوئے آئے۔
’’آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟‘‘ پوار نے پوچھا۔ ’’ہم شاہراہ بنانے کے لیے [کمروں کو] گرانا چاہتے ہیں۔ براہِ کرم کنارے ہٹئے،‘‘ بلڈوزر کے ایک ڈرائیور نے کہا۔ ’’لیکن کوئی نوٹس نہیں دیا گیا،‘‘ بھونسلے نے اس کی مخالفت کی۔ ’’حکم اوپر [امراوتی کے کلکٹر کے دفتر] سے آیا ہے،‘‘ ڈرائیور نے کہا۔
اسکول کے ملازمین نے جلدی سے بنچ اور (ہرے) بورڈ نکالے۔ انھوں نے مراٹھی میں امبیڈکر، پھُلے، گاندھی، عالمی تاریخ وغیرہ پر تقریباً ۲ ہزار کتابوں کی لائبریری کو خالی کیا۔ ان سب چیزوں کو پاس کے ہاسٹل میں لے جایا گیا۔ جلد ہی بلڈوزروں نے دھکہ دیا۔ ایک دیوار گر گئی۔
یہ سب ۶ جون کو ’پرشن چنہہ آدیواسی آشرم شالہ‘ (سوالیہ نشان آدیواسی اسکول) میں ۲ گھنٹے تک چلا۔ اپریل کے بعد گرمیوں کی چھٹیوں میں ہاسٹل میں رہنے والے بچوں نے اپنی کلاسوں کو گرتے ہوئے دیکھا۔ ’’تو ہمارا اسکول ۲۶ جون سے شروع نہیں ہوگا؟ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟‘‘ ان میں سے کچھ نے پوچھا۔
جلد ہی چھپر کی تین کلاسیں، چار پکّی کلاسیں اور لائبریری پوری طرح گرا دیے گئے، جہاں پھانسے پاردھی آدیواسی برادری کے ۴۱۷ بچے اور کورکو آدیواسی برادری کے ۳۰ بچے پہلی کلاس سے ۱۰ویں کلاس تک پڑھتے تھے۔ اس ملبہ میں تعلیم کا آئینی حق بھی دفن ہو گیا۔
مہاراشٹر حکومت کی ۷۰۰ کلومیٹر لمبی سمردھی شاہراہ کا راستہ بنانے کے لیے امراوتی ضلع میں اس اسکول کو گرا دیا گیا۔ یہ شاہراہ ۲۶ تعلقوں میں ۳۹۲ گاؤوں سے ہو کر گزرے گی۔ امراوتی میں یہ شاہراہ تین تعلقوں کے ۴۶ گاؤوں سے گزرے گی۔
’’ہماری محنت کے سات سال برباد ہو چکے ہیں،‘‘ ۳۶ سالہ متین بتاتے ہیں۔ انھوں نے آدیواسی بچوں کے لیے جس اسکول کی شروعات کی، وہ نندگاؤں کھنڈیشور تعلقہ میں ایک سنسان تنگ راستے کے پاس واقع ہے۔ مہاراشٹر ریاستی سڑک ڈیولپمنٹ کارپوریشن (ایم ایس آر ڈی سی) کے ذریعے امراوتی کے ضلع کلکٹریٹ کو جون ۲۰۱۸ میں بھیجے گئے ایک خط سے مطلع کیا گیا کہ ’’معاوضہ کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا ہے‘‘ کیوں کہ اسکول سروے نمبر ۲۵ کی ۱۹ء۴۹ ہیکٹیئر کی چراگاہ کی سرکاری زمین پر بنا تھا۔
سمردھی شاہراہ ۱۰ کمروں والے دو منزلہ ہاسٹل کو بھی نگل جائے گا، جو ۶۰ لڑکیوں اور ۴۹ لڑکوں کا گھر ہے، یہ آدیواسی پھانسے پاردھی کمیٹی کی ملکیت کی تین ایکڑ زمین پر بنایا گیا ہے، جو اسکول کو چلاتی ہے (متین کمیٹی کے صدر ہیں)۔ ہاسٹل اور اس کے دو ٹوائلیٹ والے حصے ۲۰۱۶ میں ایک مراٹھی اخبار کے ذریعے چلائی گئی امدادی مہم کے بعد آئی عوامی عطیہ کی رقم سے بنے تھے۔
لیکن سرکار اس تین ایکڑ میں سے تقریباً ایک ایکڑ بھی مانگ رہی ہے۔ امراوتی ضلع انتظامیہ کے ذریعے ۱۱ جنوری ۲۰۱۹ کو جاری کیے گئے ایک نوٹس کے مطابق، سروے نمبر ۳۷ میں ہاسٹل اور مسمار شدہ کلاسوں کے درمیان واقع ۳۸۰۰ مربع میٹر (ایک ایکڑ تقریباً ۴۰۴۶ مربع میٹر کے برابر) کے ایک ٹکڑے کی بھی شاہراہ بنانے کے لیے ضرورت ہے۔ ریاست نے کمیٹی کو اس کے لیے معاوضہ کے طور پر ۱۹ء۳۸ لاکھ روپے کی پیشکش کی ہے۔
’’یہ رقم اسکول کو دوبارہ بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ بھلے ہی کلاسیں، لائبریری اور باورچی خانہ سرکاری زمین پر بنے تھے، ہمیں قانون کے مطابق معاوضہ ملنا چاہیے،‘‘ متین نے مجھے فروری ۲۰۱۹ میں بتایا تھا۔ ’’ہم نے [۳۸۰۰ مربع میٹر کے لیے ایم ایس آر ڈی سی کے ساتھ] فروخت دستاویز پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ ہم نے امراوتی کلکٹریٹ کے پاس اعتراض درج کیا ہے اور ان سے اسکول کے لیے پہلے متبادل زمین مہیا کرنے کی مانگ کی ہے۔‘‘
متین نے امراوتی کے کلکٹر اور وزیر اعلیٰ کو کئی دیگر شکایتی خط لکھے، ۲۰۱۸ میں ۵۰-۶۰ بچوں اور اسکول کے ملازمین کے ساتھ کلکٹر کے دفتر تک تین بار مارچ کیا، فروری ۲۰۱۹ میں ایک دن کی بھوک ہڑتال کی – ہر بار اسکول کی پوری عمارت کے لیے وافر زمین سمیت مکمل باز آبادکاری کا مطالبہ کیا گیا۔
پرشن چنہہ اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین بھی مسمار کو لے کر فکرمند تھے۔ اسکول سے قریب ۲ کلومیٹر دور تقریباً ۵۰ جھونپڑیوں کی پھانسے پاردھی بستی میں ۳۶ سالہ سرنیتا پوار نے اپنے اینٹ کے گھر کے باہر پھلیاں چھیلتے ہوئے مجھے بتایا تھا، ’’میری بیٹی سُرنیشا نے اس اسکول سے ۱۰ویں کلاس تک تعلیم مکمل کر لی ہے۔ اب وہ فاصلاتی تعلیم سے ۱۱ویں کلاس کی پڑھائی کر رہی ہے،‘‘ سُرنیتا اپنی بستی سے ملحق ۳۷۶۳ لوگوں کے منگرول چاولا گاؤں میں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔ مسماری کے بعد جب میں نے انھیں فون کیا، تو انھوں نے کہا، ’’میں نے سنا ہے کہ کلاسوں کو توڑ دیا گیا ہے۔ سُرنیش [میرا بیٹا] وہاں پانچویں کلاس میں ہے۔ وہ گرمی کی چھٹی میں گھر گیا تھا۔ اب وہ کہاں جائے گا؟‘‘
ان کی برادری پھانسے پاردھی اور کئی دیگر درج فہرست قبائل کو، نوآبادیاتی برطانوی حکومت کے کرمنل ٹرائبس ایکٹ کے مطابق ’مجرم‘ قرار دے دیا گیا تھا۔ ۱۹۵۲ میں حکومت ہند نے اس قانون کو منسوخ کر دیا تھا اور درج فہرست ذاتوں کو آزاد کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ اب درج فہرست ذات، درج فہرست قبائل اور دیگر پس ماندہ طبقہ کے زمرے میں شامل ہیں۔ (دیکھیں کوئی جرم نہیں لیکن سزا لامحدو )۔ مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق، مہاراشٹر میں تقریباً ۲۲۳۵۲۷ پاردھی رہتے ہیں اور اس برادری میں پال پاردھی، بھیل پاردھی اور پھانسے پاردھی جیسی متعدد ذیلی برادریاں ہیں۔
انھیں آج بھی مختلف سطحوں پر بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’گاؤں والے ہمیں کام نہیں دیتے ہیں،‘‘ سُرنیتا کہتی ہیں۔ ’’اس لیے ہمارے لوگ امراوتی شہر یا ممبئی، ناسک، پونہ، ناگپور میں بھیک مانگنے جاتے ہیں۔‘‘
جیسا کہ ان کے پڑوسی، ۴۰ سالہ ہندوس پوار نے کیا تھا۔ انھوں نے ایک دہائی تک بھیک مانگی، پھر کبھی کبھار کھیتوں یا تعمیراتی مقامات پر کام کیا۔ ’’میں نے زندگی بھر تکلیف دیکھی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’پولس ہمیں کبھی بھی پکڑ لیتی ہے۔ یہ آج بھی ہو رہا ہے اور میرے دادا کے زمانے میں بھی ہوا کرتا تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ اگر ہمارے بچے پڑھائیں نہیں کرتے ہیں، تو ان کی زندگی بھی ہماری جیسی ہوگی۔‘‘ ان کا بیٹا شاردیش اور بیٹی شار دیشا پرشن چنہہ آدیواسی آشرم شالہ میں ۷ویں اور ۱۰ویں کلاس میں تھے، جب میں کچھ مہینے پہلے ان کی فیملی سے ملا تھا۔
حیدرآباد واقع سماجی ترقیاتی کونسل کے ذریعے مہاراشٹر کے ۲۵ ضلعوں میں ڈی نوٹیفائیڈ، خانہ بدوش اور نیم خانہ بدوش درج فہرست قبائل پر مبنی ۲۰۱۷ کے ایک سروے کے مطابق، ۱۹۹ پاردھی گھروں میں سے ۳۸ فیصد گھروں (سروے میں، ۱۹۴۴ گھر اور ۱۱ برادریوں کو شامل کیا گیا تھا) کے بچوں نے بھید بھاؤ، لسانی رکاوٹ، شادی اور تعلیم کی اہمیت کے بارے میں کم بیداری کے سبب ابتدائی تعلیم کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ سروے کے دوران ۲ فیصد لوگوں نے بتایا کہ انھیں پیچھے کی بنچ پر بیٹھایا جاتا ہے، اور ۴ فیصد نے کہا کہ استادوں کا رویہ تذلیل آمیز تھا۔
’’ضلع پریشد اسکول کے ٹیچر ہمارے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کرتے،‘‘ سُرنیتا کہتی ہیں۔ ۱۴ سالہ جِبیش پوار اس بات سے متفق ہیں۔ ’’میں ضلع پریشد اسکول واپس نہیں جانا چاہتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ جِبیش ۲۰۱۴ تک یوتمال ضلع کے نیر تعلقہ کے اجنتی گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں پانچویں کلاس میں پڑھ رہے تھے۔ ’’ٹیچر مجھے پیچھے بیٹھنے کے لیے کہتے تھے۔ دوسرے بچے مجھے پاردھی، پاردھی کہہ کر چڑھاتے تھے... گاؤں والے ہمیں گندا کہتے ہیں۔ ہماری جھونپڑیاں گاؤں کے باہر ہیں۔ میری ماں بھیک مانگتی ہیں۔ میں بھی جاتا تھا۔ میرے والد دو سال پہلے مر گئے۔‘‘
پھر جِبیش نے اپنی بستی سے تقریباً ۱۷ کلومیٹر دور پرشن چنہہ آدیواسی آشرم شالہ میں داخلہ لیا۔ ان کی بستی میں پانی اور بجلی نہیں ہے، اس لیے وہ ہاسٹل میں رہتے ہیں۔ ’’میں پڑھنا چاہتا ہوں اور فوج میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری ماں بھیک مانگے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ انھوں نے ۹ویں کلاس تک کی پڑھائی پوری کر لی ہے، لیکن ۱۰ویں کلاس کے اہم پڑاؤ پر پہنچنے کا ان کا جوش اب فکرمندی میں تبدیل ہو گیا ہے۔
۱۴ سالہ کرن چوہان بھی دھولے ضلع کے ساکری تعلقہ کے جامڈے گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے والدین دو ایکڑ جنگلاتی زمین پر دھان اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔ ’’گاؤں والے ہمارے ضلع پریشد اسکول جانے کی مخالفت کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے دوستوں نے پڑھائی چھوڑ دی، کیوں کہ دوسرے بچے انھیں چِڑھاتے تھے۔ ہماری جھونپڑیاں گاؤں کے باہر ہیں۔ جب آپ گاؤں میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں، ’دیکھو، چور آ گئے‘۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ میں چور نہیں ہوں۔ پولس اکثر ہماری بستی میں آتی ہے اور چوری، قتل کے لیے کسی بھی اٹھا لیتی ہے۔ اس لیے میں پولس والا بننا چاہتا ہوں۔ میں بے قصوروں کو پریشان نہیں کروں گا۔‘‘
یہ سب اچھی طرح جاننے کے بعد متین بھونسلے نے صرف پھانسے پاردھی بچوں کے لیے ایک اسکول بنانے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی فیملی کی چھ بکریوں کو بیچا اور ٹیچر کی کمائی کی اپنی بچت سے ۲۰۱۲ میں ۸۵ بچوں کے ساتھ اس کی شروعات کی۔ اسکول تب ان کے چچا شانکولی بھونسلے (جن کی عمر اب ۷۶ سال ہے) کے ذریعے دی گئی تین ایکڑ زمین پر ایک پھوس کی جھونپڑی میں تھا۔ متین بتاتے ہیں کہ ان کے چچا نے برسوں بچت کر ۱۹۷۰ میں ۲۰۰ روپے میں یہ زمین خریدی تھی۔ وہ بڑی چھپکلی، تیتر، خرگوش اور جنگلی سوروں کا شکار کر انھیں امراوتی شہر کے بازاروں میں بیچا کرتے تھے۔‘‘
’یہ سب پاردھیوں کے سوال ہیں – جن کے کوئی جواب نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ پرشن چنہہ آدیواسی آشرم شالہ ہے‘
متین کی بیوی، سیما اسکول چلانے میں مدد کرتی ہیں اور ان کے تین بچے اسی اسکول میں انہی بچوں کے ساتھ پڑھتے ہیں، جو امراوتی، بیڈ، دھولے، واشم اور یوتمال ضلعوں کی پھانسے پاردھی بستیوں سے آتے ہیں۔ یہاں پر تعلیم، بچوں اور ان کے کنبوں کے لیے پوری طرح مفت ہے۔ اسکول کے آٹھ میں سے چار ٹیچر پھانسے پاردھی برادری سے ہیں۔
’’پھانسے پاردھیوں کا نہ تو مستقل گھر ہوتا ہے اور نہ ہی آمدنی کا کوئی [محفوظ] ذریعہ۔ وہ چلتے رہتے ہیں۔ وہ بھیک مانگتے ہیں، شکار کرتے ہیں یا مزدوری کرتے ہیں اگر کوئی کام ملے تو،‘‘ متین بتاتے ہیں۔ ان کے والد شکار کرتے تھے، ان کی ماں بھیک مانگتی تھیں۔ ’’بچے اکثر ریلوے اسٹیشن اور بس اسٹاپ پر اپنے والدین کے ساتھ بھیک مانگتے ہیں۔ وہ تعلیم اور نوکریوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ تعلیم اور استحکام ان کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ لیکن پاردھی بچوں کو حقیقت میں آج بھی ضلع پریشد اسکول میں نہیں لیا جاتا ہے۔ ان کے لیے تعلیم کا حق کہاں ہے؟ اور مہاراشٹر حکومت نے [آدیواسی بچوں کے لیے] وافر رہائشی اسکول نہیں بنائے ہیں۔ وہ کیسے ترقی کریں گے؟ یہ سب پاردھیوں کے سوال ہیں – جن کے کوئی جواب نہیں ہیں۔ اسی لیے یہ پرشن چنہہ آدیواسی آشرم شالہ ہے۔‘‘
اپنی فیملی اور برادری کے سامنے رکاوٹوں کے باوجود، متین نے ۲۰۰۹ میں امراوتی کے گورنمنٹ ٹیچرس کالج سے ایجوکیشن میں ڈپلومہ پورا کیا۔ دو سال تک انھوں نے منگرول چاولا گاؤں کے ضلع پریشد اسکول میں ایک ٹیچر کے طور پر کام کیا، جس گاؤں کے باہر وہ اپنے والدین اور بہنوں کے ساتھ ایک جھونپڑی میں رہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اسی اسکول میں پڑھے اور پڑھائی نہیں چھوڑی کیوں کہ ایک ٹیچر ان کے ساتھ کھڑے رہے۔
متین یاد کرتے ہیں کہ ۱۹۹۱ میں جب وہ آٹھ سال کے تھے، ’’ہم بھیک مانگتے تھے یا تیتر اور خرگوش کا شکار کرتے تھے۔ یا میں اور میری تین بڑی بہنیں گاؤں والوں کا پھینکا ہوا باسی کھانا کھاتے تھے۔ ایک بار ہم نے [قریب] ۵-۶ دنوں تک کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ میرے والد ہمیں بھوکا نہیں دیکھ سکے، تو انھوں نے کسی کے کھیت سے جوار کے ۲-۳ گٹھر اٹھا لیے۔ میری ماں نے جواری آمبِل [کڑھی] بنا کر ہمارا پیٹ بھرا۔ بعد میں کھیت کے مالک نے میرے والد کے خلاف ایف آئی آر (تھانہ میں پہلی اطلاع رپورٹ) درج کرا دی کہ انھوں نے پانچ کوئنٹل جوار کی چوری کی ہے۔ ان کے غمزدہ دل نے ان سے چوری کرائی، لیکن ۲-۳ گٹھروں اور پانچ کوئنٹل میں بڑا فرق ہے۔‘‘
ان کے والد شنکر بھونسلے تین مہینے تک امراوتی جیل میں رہے۔ متین کہتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو وردی میں دیکھ کر ان کے والد کو تعلیم اور علم کی طاقت کا احساس ہوا۔ ’’جیل وہ پاردھی قیدیوں سے اپنے بچوں کو پڑھانے کو کہتے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں، اور اپنے والد کے الفاظ یاد کرتے ہیں، ’اگر علم اور تعلیم کا غلط استعمال بے قصوروں کو پریشان کر سکتا ہے تو اس کا صحیح استعمال ان کی حفاظت بھی کر سکتا ہے‘۔
متین اپنے والد کی بات مان کر ٹیچر بن گئے۔ اور پھر انھوں نے اسکول کی بنیاد ڈالی۔ لیکن سات سال بعد بھی ریاست کے اسکولی تعلیم محکمہ اور آدیواسی ترقی محکمہ کو کئی خط لکھنے کے باوجود، یہ اسکول سرکاری منظوری اور گرانٹ کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
۲۰۱۵ میں متین نے سرکاری منظوری اور گرانٹ نہیں دیے جانے کو لے کر مہاراشٹر ریاستی تحفظ اطفال کمیشن کو ایک شکایت بھیجی۔ کمیشن نے ریاست کو یہ ذمہ داری یاد دلائی کہ تعلیم کے حق کا قانون (آر ٹی ای، ۲۰۰۹) کے تحت محروم طبقوں کے بچوں کو ابتدائی تعلیم پوری کرنے سے روکا نہیں جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ شکایت کرنے والے کو اسکول چلانے اور منظوری حاصل کرنے کا حق ہے، بھلے ہی اسکول کے پاس قانون کے ذریعے مقررہ ضروری ڈھانچہ اور سہولیات ہوں۔
’’سرکار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ذات، طبقہ اور مذہب کی کسی تفریق کے بغیر ہر بچے کے لیے ابتدائی تعلیم کو یقینی بنائے۔ یہی بات آر ٹی ای میں صاف صاف کہی گئی ہے۔ اگر سرکار نے واقعی اس پر عمل کیا ہوتا، تو یہ ’پرشن چنہہ‘ (سوالیہ نشان) نہیں اٹھتا۔ پھر جب کوئی خود کی محنت سے ایسے اسکول قائم کرتا ہے، تو سرکار اسے منظوری بھی نہیں دیتی ہے،‘‘ احمد نگر واقع ایک تعلیمی کارکن، بھاؤ چاسکر کہتے ہیں۔
’’اس حکم نامہ کے چار سال بعد بھی نہ تو آدیواسی محکمہ اور نہ ہی محکمہ تعلیم نے کوئی قدم اٹھایا ہے،‘‘ پھانسے پاردھی برادری سے ہی آنے والے پرشن چنہہ اسکول کے پرنسپل پرکاش پوار کہتے ہیں۔ ریاستی حکومت گرانٹ سے سائنس و کمپیوٹر لیب، لائبریری، ٹوائلیٹ، پینے کے پانی کی سہولت، ہاسٹل، ٹیچروں کی تنخواہ اور بہت کچھ مہیا کر سکتی ہے۔ ’’یہ سب ہم عوامی عطیہ سے کرتے ہیں،‘‘ پوار بتاتے ہیں۔
عطیہ کچھ پرائیویٹ اسکولوں کے ذریعے کاپیوں کی شکل میں، اور ریاست کے چند افراد اور تنظیموں کے ذریعے کتابوں (لائبریری کے لیے)، راشن اور رقم کی شکل میں آتا ہے، جس سے آٹھ ٹیچروں کی تنخواہ (۳۰۰۰ روپے ماہانہ) اور ۱۵ معاونین کی تنخواہ (۲۰۰۰ روپے ماہانہ) سمیت دیگر اخراجات کا انتظام کیا جاتا ہے۔
رکاوٹوں کے باوجود، تقریباً ۵۰ بچوں نے پرشن چنہہ اسکول سے ۱۰ویں کلاس تک پڑھائی پوری کی اور مہاراشٹر کے شہروں اور قصبوں میں آگے کی پڑھائی کر رہے ہیں۔ اسکول کی لڑکیوں کی کبڈی ٹیم نے ۲۰۱۷ اور ۲۰۱۸ میں تعلقہ اور ریاستی سطح پر مقابلے جیتے ہیں۔
لیکن ان کے خوابوں کے راستے میں اب سمردھی شاہراہ ہے۔ ’’مجھے نہیں معلوم کہ ہم اس سال کا بیچ کیسے شروع کریں گے۔ شاید ہم ہاسٹل کے کمروں میں کلاس لیں گے،‘‘ پوار کہتے ہیں۔ ’’ہم نے تفریق، نامقبولیت اور بنیادی سہولیات کی کمی کے ’سوالوں‘ کا سامنا کیا ہے۔ جب ہمیں اس کا جواب ’تعلیم‘ کی شکل میں ملا، تو آپ نے [مہاراشٹر سرکار] ہمارے سامنے نقل مکانی کا یہ نیا ’سوال‘ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ کیوں؟‘‘ متین غصے میں پوچھتے ہیں۔ ’’میں سارے بچوں کو آزاد میدان [جنوبی ممبئی] میں بھوک ہڑتال پر لے جاؤں گا۔ بازآبادکاری کا تحریری وعدہ جب تک نہیں ملتا، تب تک ہم وہاں سے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)