مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے۔ اپنی ماں کے بغل میں ایک کمبل میں گھُسا، میں ان کی کہانی سن رہا تھا – ’’اور سدھارتھ نے زندگی کے حقیقی معنی کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ دیا،‘‘ وہ بولیں۔ پوری رات بارش ہوتی رہی، ہمارے کمرے سے زمین کی بدبو آ رہی تھی، موم بتی سے نکلنے والا کالا دھواں چھت کو چھونے کی کوشش کرتا رہا۔
’’سدھارتھ کو اگر بھوک لگی تب کیا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میں کتنا بیوقوف تھا؟ سدھارتھ کے لیے تو بھگوان ہیں۔
پھر، ۱۸ سال بعد، میں اسی کمرے میں واپس آیا۔ بارش ہو رہی تھی – بوندیں کھڑکی کے شیشوں پر ٹپک رہی تھیں۔ میرے بغل میں ایک کمبل میں لپٹی، میری ماں خبر سن رہی تھیں۔ ’’۲۱ دن قبل لاک ڈاؤن کی شروعات کے بعد سے اب تک ہندوستان کے بڑے شہروں سے پانچ لاکھ مہاجرین اپنے گاؤوں جا چکے ہیں۔‘‘
وہی سوال آج بھی بنا ہوا ہے: اگر انہیں بھوک لگی تب کیا ہوگا؟
خون کا ایک نشان
چھوٹی کھڑکی سے میں نے دیکھا،
لوگوں کو چلتے ہوئے – چینٹیوں کے نشان کی طرح۔
بچے کھیل نہیں رہے تھے،
نوزائیدوں کے رونے کی کوئی آواز نہیں تھی،
ویران سڑکوں پر خاموشی کا پہرہ تھا۔
یا یہ بھوک تھی؟
چھوٹی کھڑکی سے، میں نے دیکھا
مرد اپنے سر پر تھیلے رکھ کر چل رہے ہیں،
اور ان کے دلوں میں خوف ہے –
بھوک کا خوف۔
میلوں تک، وہ چلتے رہے
اب ان کے پیروں سے خون بہہ رہا ہے،
پیچھے چھوڑتے
اپنے وجود کا ثبوت۔
زمین ہوئی لال اور آسمان بھی۔
چھوٹی کھڑکی سے، میں نے دیکھا،
سکڑی ہوئی چھاتیوں والی ماں
اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہوئی۔
راستہ ختم ہو گیا۔
کچھ اپنے گھر پہنچے،
کچھ نے بیچ راستے میں ہی دم توڑ دیا،
کچھ کے اوپر بلیچ چھڑکا گیا،
کچھ کو، مویشیوں کی طرح، ٹرکوں میں ٹھونس دیا گیا۔
آسمان پہلے کالا ہوا اور بعد میں نیلا ہو گیا،
لیکن زمین لال بنی رہی۔
کیوں کہ اس کے لیے،
خونی پیروں کے نشان اس کی چھاتی پر ابھی بھی موجود تھے۔
آڈیو: سُدھنوا دیش پانڈے، جن ناٹیہ منچ کے ایک اداکار اور ہدایت کار اور لیفٹ ورڈ بُکس کے ایڈیٹر ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)