’’ہارمونیم ہماری زندگی ہماری شہ رگ ہے، ہمارا کھیت اور ہمارا گھر ہے۔‘‘
یہ ۲۴ سالہ آکاش یادو ہیں، جو ہوا کے نکلنے کی جانچ کرنے کے لیے ہارمونیم کی دھونکنی کو دباتے ہوئے ہم سے بات کر رہے تھے۔ وہ چابیوں کو ڈھیلا کرتے ہیں اور صفائی کرنے کے لیے انہیں اُلٹا کر دیتے ہیں، اور اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم مشکل سے ایک وقت کا کھانا کھا پاتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو یاس سے دیکھتے ہیں، جو شکایت کیے بغیر بھوکے ہی سوجاتے ہیں۔ یہ لاک ڈاؤن ہماری زندگی کا سب سے بے رحم اور دردناک وقت ہے۔‘‘
آکاش اور ان کے ۱۷ ساتھیوں کا یہ ایک انوکھا گروپ ہے، جو مدھیہ پردیش سے ہر سال اکتوبر سے جون تک، ہارمونیم کی مرمت کرنے کے لیے مہاراشٹر کے ۲۰ شہروں اور قصبوں کا سفر کرتے ہیں۔ اس کام میں اچھے ہنر کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں کلاسیکی موسیقی کی اعلیٰ فہم اور سماعت کی غیر معمولی صلاحیت بھی شامل ہے۔
زیادہ تر جگہوں پر، جہاں وہ جاتے ہیں، انہیں ہارمونیم اور متعلقہ سامان اپنے ساتھ لیکر چلنے کی وجہ سے پیٹی والا کہا جاتا ہے۔ یہ سبھی لوگ کریہر ہیں – مدھیہ پردیش میں (او بی سی) یادو برادری کے اندر اہیر یا گولی برادریوں کی ایک ذیلی جماعت۔
آکاش مجھ سے مہاراشٹر کے لاتور شہر سے ۱۸ کلومیٹر دور، ریناپور میں بات کر رہے تھے۔ ہارمونیم کی مرمت کرنے والے ان سبھی ۱۸ لوگوں کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی ہیں، جو کل ملاکر ۸۱ لوگ ہیں۔ لاک ڈاؤن کے سبب وہ ایک کھلے میدان میں خیموں میں پھنسے ہوئے تھے جہاں رہنے کی اجازت انہیں ریناپور میونسپل کونسل نے دی تھی۔
وہ مدھیہ پردیش کے جبل پور ضلع کی سہورا تحصیل کے گاندھی گرام کے ہیں، جو ۹۴۰ لوگوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والا ایک گاؤں ہے۔ ’’اگر اس بیماری [کووڈ-۱۹] کے سبب سفر کرنے پر پابندی جاری رہتی ہے، تو ہم مر جائیں گے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ سفر شروع کرنے سے پہلے، ہر سال، ہم اپنے تمام اہم کاغذات اپنے گاؤں میں پڑوسیوں کے پاس رکھ دیتے ہیں کیوں کہ وہاں ہم کچے گھروں میں رہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے پاس ’پیلے‘ راشن کارڈ نہیں ہیں۔ ہم یہاں بھوکے مر رہے ہیں۔ کیا آپ براہ کرم ہمیں واپس جانے کے لیے اہلکاروں سے درخواست کر سکتے ہیں؟‘‘ آکاش کہتے ہیں۔
’ہارمونیم بجانے کے لیے سوروں اور شروتیوں کے غیر معمولی علم کی ضرورت ہوتی ہے... سور ۷ بنیادی آوازیں ہیں اور ۲۲ شروتیاں سوروں کے درمیان کا وقفہ ہیں‘
یہ گروپ لاک ڈاؤن کے اعلان سے کچھ دن پہلے، ۱۵ مارچ کے آس پاس رنگ پنچمی (ہولی) کے دن لاتور پہنچا۔ ’’ان کچھ دنوں میں، میں نے مشکل سے ۱۵۰۰ روپے کمائے تھے،‘‘ آکاش کہتے ہیں۔ ’’کئی دیگر لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ اب دو مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘
آکاش کی بیوی، امیتھی کہتی ہیں: ’’کھانا چھوڑیے، پینے کا صاف پانی حاصل کرنا بھی ایک چیلنج ہے۔ میں ایک ہفتہ تک کپڑے بھی نہیں دھو سکی، کیوں کہ پانی نہیں تھا۔ ریناپور میونسپل کونسل ہفتہ میں ایک بار پانی کی سپلائی کرتی ہے۔ میں قریب کے ایک عوامی نل سے پانی لانے کے لیے آدھا کلومیٹر چلتی ہوں۔ ہمارے پاس یہاں پانی جمع کرکے رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے جو ہفتہ بھر چل سکے۔‘‘ اس لیے وہ اس پانی کی سپلائی کے دن کئی بار چکر لگاتے ہیں۔ ’’ہم وقت پر اپنی بیٹیوں کو بھی نہیں کھلا سکتے۔‘‘ ان کی چھوٹی بچی، یامنی ابھی ۱۸ مہینے کی ہے۔ ان کی بڑی بیٹی، ۵ سال کی دامنی کبھی کبھی کھانا کے طور پر بسکٹ کو پانی میں ڈبوکر کھاتی ہے، وہ بتاتی ہیں۔
اکیاسی لوگوں کے اس گروپ میں ۱۸ مرد، ۱۷ عورتیں اور ۱۶ سال سے کم عمر کے ۴۶ بچے ہیں۔ عورتیں تمام کنبوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ’’مرد ہارمونیم کی مرمت کا کام کرتے ہیں،‘‘ آکاش بتاتے ہیں۔ ’’ہم کبھی مہینہ میں ۶۰۰۰ روپے کماتے ہیں – اور کبھی صرف ۵۰۰ روپے۔ ایک ہارمونیم کی ٹیوننگ کرنے سے ۱۰۰۰-۲۰۰۰ روپے ملتے ہیں، جب کہ دیگر چھوٹے موٹے کام جیسے ہوا کے نکلنے کو ٹھیک کرنا، دھونکنی کی جانچ کرنا، چمڑے کو بحال کرنا، چابیوں کو صاف کرنا اور چینج اسکیل کی مرمت کرنے سے تقریباً ۵۰۰-۷۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔ سب کچھ اس شہر، جہاں ہم جاتے ہیں، اور وہاں خدمات کی مانگ پر منحصر ہے۔‘‘
وہ اپنی فیملی کے ساتھ اکتوبر سے جون کے درمیان ہر سال جبل پور سے مہاراشٹر جاتے ہیں، اور لگاتار کام کرتے ہیں، صرف مانسون کے دوران ہی اپنے گھر پر ہوتے ہیں۔ وہ پچھلے ۳۰ سالوں سے ہر سال مہاراشٹر کا سفر کرتے رہے ہیں، ایک ہی راستے سے – جس کی شروعات جبل پور سے جلگاؤں ضلع کے بھساول جانے والی ٹرین پکڑنے سے ہوتی ہے۔ وہاں سے، وہ کولہاپور، لاتور، ناندیڑ، ناگپور، پونہ، سانگلی، وردھا وغیرہ سمیت اس ریاست کے کم از کم ۲۰ دیگر شہروں اور قصبوں میں جاتے ہیں۔
ان کے سامانوں میں ٹینٹ، دو چار برتن، کچھ راشن اور غذائی اشیاء – اور ہارمونیم اور مرمت کے سازوسامان شامل ہوتے ہیں۔ اس بوجھ سے ان کے سفر کا خرچ مزید بڑھ جاتا ہے۔ دو چھوٹی بسوں سے ۸۰ لوگوں کو ۵۰ کلومیٹر لے جانے کا کرایہ ۲۰۰۰ روپے ہے۔ اس لیے وہ ٹرین سے سفر کرنا یا پیدل چلنا پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، انہوں نے ناندیڑ سے ریناپور تک ۱۳۶ کلومیٹر کی دوری چھ دنوں میں طے کی – جب کہ ان میں سے کئی لوگ ننگے پیر تھے۔
’’لیکن اس لاک ڈاؤن میں، ہم اب تک ودربھ کے امراوتی ضلع میں پہنچ چکے ہوتے،‘‘ آکاش کے والد، ۵۰ سالہ اشوک یادو کہتے ہیں۔ ’’وہاں سے ۱۵۰ کلومیٹر اور آگے چلنے پر، ہم مدھیہ پردیش کی سرحد تک پہنچ چکے ہوتے۔ سب کچھ ٹھیک اور معمول پر ہوتا۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے ہی ملک میں سفر کرنا ہماری زندگی کو تباہ کر سکتا ہے۔‘‘ لاک ڈاؤن کا اثر زندگی کی کئی مشکلوں کو، جسے وہ ’عام‘ بتاتے ہیں، پار کر گیا ہے۔
’’ہم اس عظیم تنظیم کے سبب، کم از کم زندہ ہیں،‘‘ اشوک یادو کہتے ہیں۔ وہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کی تشہیر کے لیے کام کرنے والے، لاتور واقع آورتن پرتشٹھان کی بات کر رہے ہیں، جس نے اپنی عام سرگرمیوں سے باہر نکل کر ان کاریگروں اور کنبوں کی مدد کی ہے۔ اس نے ہر فیملی کو راشن کٹ – ۱۵ کلوگرام گیہوں، ۲ پیکٹ بسکٹ، ۲ لیٹر تیل، کچھ صابن اور دیگر سامان فراہم کرنے کے لیے ۱۱۵۰۰ روپے جمع کیے۔
’’کلاسیکی موسیقی کے محافظوں کی حفاظت کرنا ہمارا فریضہ ہے،‘‘ آورتن کے بانی اور موسیقی کے استاد، ششی کانت دیش مکھ کہتے ہیں۔
وہ ہارمونیم کی مرمت کرنے والے کیسے بنے؟ ’’میرا بیٹا آکاش اس پیشہ میں ہماری چوتھی نسل کی نمائندگی کر رہا ہے،‘‘ اشوک یادو نے بتایا۔ ’’میرے دادا جی ہماری فیملی میں پہلے شخص تھے، جنہوں نے ٹیوننگ اور ہارمونیم کی مرمت شروع کی تھی – یہ ہنر انہوں نے ۶۰-۷۰ سال پہلے، جبل پور میں موسیقی آلات کی دکان کے مالکوں سے سیکھا تھا۔ اُن دنوں، کافی لوگ کلاسیکی موسیقی سے جڑے ہوئے تھے اور ہارمونیم بجاتے تھے۔ اس ہنر نے ہمارے بے زمین کنبوں کو معاش فراہم کیا۔‘‘
ہارمونیم، جو کہ بنیادی طور سے یوروپ کا ایک ساز ہے، ۱۹ویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں آیا تھا۔ پہلا ہندوستانی آلہ – ہاتھ سے چلانے والی دھونکنی کے ساتھ – ۱۸۷۵ میں سامنے آیا۔ اور تیزی سے شمالی ہند میں سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے موسیقی کے آلات میں سے ایک بن گیا۔ اس لیے اشوک یادو کی فیملی اس ملک میں اس کی موجودگی کی تقریباً نصف مدت سے ہارمونیم سے جڑی ہوئی ہے۔
حالانکہ، اشوک کہتے ہیں، گزشتہ چند دہائیوں میں ’’موسیقی کے دیگر آلات نے زیادہ مقبولیت حاصل کی ہے۔‘‘ اس کے سبب، ہارمونیم اور مرمت کرنے والوں کی کمائی گھٹی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے، وہ مزدور کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں، خاص طور سے کھیتوں میں، جب جون اور اکتوبر کے درمیان وہ جبل پور کے اپنے گاؤوں لوٹتے ہیں۔ وہاں مردوں کی یومیہ مزدوری ۲۰۰ روپے اور عورتوں کی ۱۵۰ روپے ہے – اوریہ کام انہیں محدود دنوں کے لیے ملتا ہے، وہ بتاتے ہیں۔ یہاں، لاتور میں، ہارمونیم کی مرمت کرکے وہ ایک ہی دن میں ۱۰۰۰ روپے کما سکتے ہیں – حالانکہ ایسے دن بھی اب محدود ہیں۔
ہر سال مہاراشٹر کا ہی سفر کیوں؟ کچھ دہائی پہلے وہ چھتیس گڑھ اور گجرات جیسی ریاستوں کا بھی سفر کرتے تھے، اشوک یادو کہتے ہیں، لیکن گزشتہ چند برسوں میں ان جگہوں سے ہونے والی آمدنی میں لگاتار گراوٹ آنے لگی۔ اس لیے گزشتہ ۳۰ برسوں سے، مہاراشٹر ان کا واحد بازار رہا ہے۔
’’ہماری خدمات کے لیے کسی دیگر ریاست میں اتنی اچھی اور لگاتار مانگ نہیں ہے،‘‘ اشوک کہتے ہیں۔ ان کی سب سے اچھی کمائی، وہ بتاتے ہیں، کولہاپور-سانگلی-میراج بیلٹ میں ہوتی ہے، جہاں ’’ہارمونیم سمیت ہندوستانی موسیقی آلات کا ایک بڑا بازار ہے۔ پنڈھرپور اور پونہ بھی ہمیں اچھی آمدنی دیتے ہیں۔‘‘
’’ہارمونیم کی ٹیوننگ کرنے کے لیے سوروں اور شروتیوں کے غیر معمولی علم کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ آورتن کے ششی کانت دیش مکھ کہتے ہیں۔ ’’ہندوستانی کلاسیکی موسیقی میں، سور سات بنیادی آوازیں ہیں اور ۲۲ شروتیاں سوروں کے درمیان کا وقفہ ہیں۔ ہر ایک سور اور شروتی کے فرق کو سمجھنا اور پھر اسے آوازوں سے ملانے کے لیے فریکونسی، پچ، تال اور لے کی عظیم مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
’’دوسرا اہم عنصر ہے باریک متفرقات کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیز کان کا ہونا۔ یہ ہنر نایاب ہے کیوں کہ اس میں سور-کیندر تک پہنچنے کے لیے مہارت ہونی چاہیے۔ ان لوگوں کے پاس کامل ہنر ہے۔ ان کے پاس ہارمونیم کے سائنس کو جاننے کی ایک لمبی وراثت ہے۔ کلاسیکی موسیقی کے ان محافظوں کی حفاظت کرنا ہمارا فریضہ ہے،‘‘ دیش مکھ کہتے ہیں۔
ان کی کمائی، حالانکہ، ان کے ہنر کے حساب سے کافی کم ہے۔ ’’پیانو کو ٹھیک کرنے میں اوسطاً ۷-۸ ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں،‘‘ دیش مکھ کہتے ہیں۔ ’’اور ہارمونیم ٹھیک کرنے والوں کو – فی آلہ ۲۰۰۰ روپے سے بھی کم ملتا ہے۔‘‘
’’ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو اب کوئی اہمیت نہیں دیتا،‘‘ اشوک یادو افسردگی سے کہتے ہیں۔ ’’اس ملک کا اپنا فن، وقت کے ساتھ عظمت اور شہرت کھو رہا ہے۔ ان دنوں لوگ اس خوبصورت ساز کو الگ رکھ کر، کی بورڈ یا کمپیوٹرائزڈ مشینوں [جیسے الیکٹرانک یا ڈیجیٹل کمپیوٹر آرگن] کا استعمال کرنا پسند کرتے ہیں۔ ہماری آنے والی نسلیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے کیا کریں گی؟‘‘
آکاش جن چابیوں کی مرمت کر رہے تھے، انہیں فنشنگ ٹچ دیتے ہوئے سوال کرتے ہیں: ’’ہارمونیم میں جب ہوا باہر نکلنے لگتی ہے، تو اسے ہم ٹھیک کر دیتے ہیں۔ مسئلہ کو نظر انداز کر دینے سے یہ اور بھی بے سرا اور غیر آہنگ ہو جائے گا۔ کیا یہ ہمارے ملک پر بھی لاگو نہیں ہوتا؟‘‘
پوسٹ اسکرپٹ: اشوک یادو نے ۹ جون کو مجھے فون پر بتایا کہ وہ مدھیہ پردیش کے گاندھی گرام پہنچ گئے ہیں، اوریہاں پہنچنے کے بعد انہیں فی فیملی ۳ کلو چاول ملا ہے۔ اور ان سبھی کو ’گھر پر ہی کوارنٹائن‘ کیا گیا ہے۔ ان کے پاس آگے کے لیے کوئی کام نہیں ہے اور وہ حکومت سے مدد ملنے کی امید کر رہے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز