دکان پر کسی کے نام کی کوئی تختی نہیں ہے۔ محمد عظیم کہتے ہیں، ’’یہ تو ایک گمنام دکان ہے۔‘‘ اسبیسٹس سے بنی ۸ بائی ۸ کی اُس دکان کی دیواریں اندر کی جانب گرد و غبار اور مکڑی کے جالوں سے بھری پڑی ہیں۔ کونے میں ایک لوہے کی بھٹی بنی ہوئی ہے، بیچ میں نیلے رنگ کی پتلی پولیتھین پر جلی ہوئی سیاہ مٹی کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔
ہر دن صبح کے تقریباً ۷ بجے، عظیم مغربی حیدر آباد میں دودھ باؤلی کی تنگ گلیوں سے سائیکل چلاتے ہوئے آتے ہیں اور اس دکان کے پاس اپنی سائیکل کھڑی کرتے ہیں۔ اس کی پچھلی دیوار حکیم میر وزیر علی قبرستان کے احاطہ کی دیوار سے سٹی ہوئی ہے۔
یہاں گرد و غبار سے بھرے پلاسٹک کے برتنوں، زنگ آلودہ لوہے کے بکسوں، ٹوٹی بالٹیوں، اور فرش پر بکھرے ہوئے اوزاروں کے درمیان وہ دھات کے ٹوکن بنانے کا اپنا کام شروع کرتے ہیں، جو جگہ کے لحاظ سے بہت تنگ ہے۔
۲۸ سالہ عظیم کے بنائے ہوئے ٹوکن (یا سکّے) حیدر آباد کی چائے کی کچھ پرانی دکانوں اور کھانے کے ہوٹلوں میں اب بھی رائج ہیں۔ پرانے زمانے میں ان ٹوکنوں کا استعمال ملوں، فوجی چھاؤنیوں، ریلوے، بینکوں، کلب، کو آپریٹو تنظیموں جیسے کئی اداروں میں کیا جاتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ پلاسٹک کے ٹوکن یا کاغذ کی پرچیوں کے استعمال سے ان کی مانگ میں کافی تیزی سے گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ حیدر آباد کے جن ہوٹلوں میں ان ٹوکنوں کا استعمال ہوتا ہے، وہاں کے لوگ ان کے ذریعے اپنی دن بھر کی کمائی جوڑتے ہیں۔ جب کوئی گاہک کھانے کی کوئی چیز آرڈر کرتا ہے، تو اسے اس کے مطابق ہی ٹوکن پکڑائے جاتے ہیں۔
عظیم، جنہیں ان کے گھر والے اور ساتھی دکاندار ’اَجّو‘ نام سے پکارتے ہیں، بتاتے ہیں کہ وہ شہر کے ان چند کاریگروں میں سے ایک ہیں، جو ان سکوں یا ٹوکنوں کو بنانے کا کام کرتے ہیں۔ پورے حیدرآباد میں اب دس سے بھی کم لوگ یہ کام کرتے ہیں۔
پاس رکھے بکسوں سے انہوں نے کچھ ٹوکن نکال کر زمین پر بکھیر دیے۔ اُن پر انگریزی میں کچھ کندہ تھا: ٹی، رائس، اڈلی، پایا، فش، سی بی ایس (چکن بریانی سنگل)، سی بی جے (چکن بریانی جمبو)، ایم بی جے (مٹن بریانی جمبو) وغیرہ۔ ان میں سے کئی ٹوکنوں پر غذائی اشیاء کی شکلیں بنی ہوئی تھیں، جیسے چائے کی کیتلی، مچھلی، مرغ، بکرا، ڈوسا اور دیگر پکوان۔
عظیم کے چچا، محمد رحیم کی عمر تقریباً ۶۰-۷۰ سال کے درمیان ہے، جو خود لمبے عرصے سے ٹوکن بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہمیں ان سکّوں کو بنانے میں مہارت حاصل ہے اور پورے حیدر آباد سے کئی دکاندار ہم سے یہ سکّے خریدنے آتے تھے۔ لیکن اب اس میں اُتنی کمائی نہیں رہی۔‘‘
ان سے ہمیں پتہ چلا کہ عظیم کے دادا بھی مہریں بناتے تھے اور حیدر آباد کے آخری نظام کے دور حکومت میں (۱۹۱۱-۱۹۴۸) وہ شاہی دربار کے لیے مہریں اور آرائشی سامان بنایا کرتے تھے۔ اور گھروں کے لیے وہ دھات کے بنے آرائشی برتن تیار کرتے تھے۔ رحیم بتاتے ہیں کہ وہ سائیکل سواروں کے نام والے سکّے بھی تیار کرتے تھے، جسے وہ اپنی سائیکلوں پر چپکا دیتے تھے۔ عظیم ہمیں سائیکل کی ایک پلیٹ دکھاتے ہیں، جو کچھ سال پہلے ان کے والد نے بنائی تھی۔
عظیم کے والد، محمد مرتضیٰ سکے بنانے میں ماہر ایسے کاریگر تھے، جن سے مقامی سطح پر سبھی لوگ کام کرانا چاہتے تھے۔ لیکن کئی دہائیوں قبل، جب اجو پیدا بھی نہیں ہوئے تھے، مرتضیٰ کا دایاں ہاتھ بھٹی میں لگی آگ کی وجہ سے زخمی ہو گیا، اور اسے کاٹنا پڑا۔
پھر بھی، مرتضیٰ اور رحیم دونوں اپنے والد کی وراثت کو آگے بڑھاتے رہے۔ عظیم کو تو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ جب انہوں نے پہلی بار سکہ ڈھالنے کا کام شروع کیا، تو اس وقت ان کی عمر کیا تھی۔ انہوں نے چوتھی کلاس تک پڑھائی کی ہے۔ اور جب ان کی اپنے ایک دوست سے لڑائی ہوئی، تو ان کے والد نے اسکول سے ان کا نام کٹوا دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ سکہ بنانے کے علاوہ دوسرا کوئی کام نہیں جانتے۔
گزشتہ کچھ دہائیوں میں، اس فیملی کو اپنی دکان کو کئی بار ادھر ادھر کرنا پڑا ہے۔ کبھی دکان گرائے جانے پر، کبھی بھٹی سے نکلنے والے دھوئیں کی شکایت پر، کبھی جگہ کی تنگی کے سبب۔ کبھی انہوں نے چار مینار کے پاس ایک جھونپڑی میں اپنی دکان لگائی، تو کبھی اس علاقے کی ایک مسجد کے پاس کی ایک دوسری دکان میں کام کرتے رہے۔ یہی نہیں، ایک وقت ایسا آیا جب انہیں اپنے تین کمرے کے چھوٹے سے گھر میں ایک کونے میں اپنی بھٹی لگا کر کام شروع کرنا پڑا۔ یہاں، عظیم کی بیوی ناظمہ بیگم آس پاس سے مٹی جمع کرنے، چھاننے، اور سانچہ میں بھرنے کا کام کرتی تھیں۔
مارچ ۲۰۲۰ میں جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا، تو اس دوران مرتضیٰ نے ماہانہ ۲ ہزار روپے کی اپنی معذوری والی امدادی رقم سے فیملی کا خرچ چلایا۔ عظیم کی تینوں بہنوں کی شادی ہو چکی ہے – سبھی خاتون خانہ ہیں، جب کہ ان کا چھوٹا بھائی دو پہیہ گاڑی کی ایک دکان میں ویلڈنگ کا کام کرتا ہے۔
مرتضیٰ کا اپریل ۲۰۲۰ میں انتقال ہو گیا (عظیم کی والدہ خواجہ کا انتقال ۲۰۰۷ میں ہی ہو گیا تھا) اور اس کے ساتھ ہی ان کی پنشن بھی بند ہو گئی۔ لہٰذا نومبر ۲۰۲۰ میں، عظیم نے قبرستان کے بغل میں ایک دکان کرایے پر لی، جہاں سے اب وہ اپنا کام کرتے ہیں، اور زیادہ گاہکوں کے آنے اور زیادہ پیسے کمانے کی امید کر رہے ہیں۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ یہ جھونپڑی نما دکان فٹ پاتھ پر اور شہر کے سرکاری حکام کے ذریعے کسی بھی وقت گرائی جا سکتی ہے۔
وہاں ایک بار جانے پر میں نے دیکھا کہ انہیں ایک دن پہلے بیگم پیٹ کے ایک ہوٹل سے آرڈر ملا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ریستوراں کے خاص آرڈر پر سب سے پہلے ہم ٹوکن کے لیے خاص شکلوں (چائے کے کپ کے سائز یا پھر مچھلی کے نشان والی مہروں) کا انتخاب کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر طرح کے ٹوکن کا سانچہ (ماسٹر ٹوکن) پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ سفید دھات سے بنا یہ سانچہ وہ پہلے سے ہی تیار کرکے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی نقل تیار کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔
عظیم، لکڑی کے ایک بورڈ پر ایک پیٹی (دھات کا سانچہ یا فریم) رکھ کر اس پر سنجیرا (ڈھلائی کے لیے استعمال ہونے والا پاؤڈر) چھڑکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ پاؤڈر سکوں کو ریت [مٹی] کے ذرات میں پھنسنے سے بچاتا ہے۔‘‘ پھر وہ خاص سائز کے ٹوکنوں کو ایک ایک کرکے لکڑی کے بورڈ پر رکھتے جاتے ہیں۔
پھر وہ پیٹی کے ایک چوتھائی حصے کو باریک اور ملائم مٹی سے بھر دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی گُڑ سے بنا ایک بھورا سیال مادّہ بھی ڈالا جاتا ہے، تاکہ وہ مٹی کو جوڑنے کا کام کرے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس عمل میں کسی بھی طرح کی مٹی یا ریت کا استعمال کیا جا سکتا ہے، بس اس کے بڑے ذرات کو چھان کر الگ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس چپچپے آمیزہ کو استھر مٹی (بنیاد کی مٹی) کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس میں جلی ہوئی سیاہ مٹی کے اجزاء ملاتے ہیں، جسے بھٹی سے پہلے ہی نکال کر نیلی پولیتھین سے ڈھانپ کر رکھا گیا ہے۔
ایک بار جب پیٹی بھر جاتی ہے، تب مٹی کو دبانے کے لیے عظیم اس پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ سانچہ کو اُلٹ دیتے ہیں۔ اب سکّے کا نشان آمیزہ پر چھپ جاتا ہے۔ سانچہ کو ڈھکن سے ڈھانپ دیا جاتا ہے، وہ اس پر کچھ اور سنجیرا پاؤڈر چھڑکتے ہیں، اس کے بعد وہ استھر مٹی اور جلی ہوئی سیاہ مٹی کی مزید پرتیں لگاتے ہیں۔ وہ اپنے پیروں سے اسے دوبارہ دباتے ہیں۔ اتنے میں ان کا پیر مٹی اور سیاہی سے بھر جاتا ہے۔
پھر اضافی مٹی کو پونچھ کر ہٹا دیا جاتا ہے اور پیٹی کھول دی جاتی ہے۔ آہستہ سے، وہ مہر کے سانچوں کو ہٹا دیتے ہیں۔ اس طرح سے مٹی کے آمیزہ پر اُن شکلوں کے مطابق گڑھے بن جاتے ہیں۔
اس میں پگھلا ہوا المونیم بھرنے کے لیے عظیم ایک چھوٹی سی چھڑی سے اس میں دباؤ ڈال کر جگہ بناتے ہیں۔ چھڑی سے وہ پرانے آرڈر کی بنیاد پر بنائی ہوئی نقاشی کو ہٹانے کے لیے گڑھوں کے اندر کی مٹی کو باہر نکالتے ہیں – جیسے کہ سانچے سے کسی ہوٹل کا نام ہٹانا۔ وہ پیٹی کو بند کرتے ہیں، اسے مضبوطی سے پکڑتے ہیں، اوپر ایک لکڑی کا بورڈ رکھتے ہیں اور اس کے بعد ٹوکن ڈھالنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔
ہاتھوں سے چلنے والے بلوور (گرم ہوا پھینکنے والا آلہ) کی مدد سے بھٹی کے کوئلہ کو جلایا جاتا ہے۔ ایک بار جب بھٹی میں کوئلے کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تب عظیم اس میں پرانے المونیم کے سکوں یا اس کے ٹھوس ٹکڑوں سے بھری دھات کی ایک بالٹی رکھتے ہیں۔ جب یہ سکے یا ٹکڑے پگھل جاتے ہیں، تو ایک ہولڈر کی مدد سے گرم دھات کے آمیزہ کو پیٹی میں گرایا جاتا ہے۔ وہ بغیر کسی تحفظاتی آلات کے یہ سارا کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے اس طرح کام کرنے کی عادت ہو گئی ہے اور یہ سارے آلات کافی مہنگے ہوتے ہیں۔‘‘
پگھلی ہوئی دھات جلد ہی ٹھوس ہو جاتی ہے، اور کچھ ہی منٹوں میں سانچوں کو کھول کر اس کے اندر بنائے گئے نئے ٹوکن کو دیکھا جاتا ہے۔ وہ انہیں باہر نکال کر ایک اوزار سے ان کے کناروں کو تیز کرتے ہیں۔ وہ اپنی ہتھیلی میں ایک چھوٹا سا دھات کا ٹکڑا رکھ کر کہتے ہیں، ’’یہ رہا ہمارا کوائن!‘‘
اگلے مرحلہ میں ٹوکن پر ہوٹلوں اور مخصوص پکوانوں کا نام [انگریزی میں] لکھا جاتا ہے۔ اس کے لیے، المونیم کے بنے ان نئے ٹوکنوں پر حروف اور نمبروں کے نشان ٹھونکے جاتے ہیں۔ ایک بار جب یہ ٹوکن تیار ہو جاتے ہیں، تو ان کی مدد سے اس عمل کو دوہرایا جاتا ہے۔
وہ سانچوں کے انبار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’ایک بار میں کتنے سکّے تیار ہوں گے، یہ پیٹی پر منحصر ہے۔ میرے پاس ۱۲ الگ الگ قسم کی پیٹیاں ہیں۔‘‘ ایک اوسط سائز کی پیٹی ۱۵ بائی ۹ انچ کی ہوتی ہے، جس میں ایک بار میں چالیس ٹوکن بنائے جا سکتے ہیں۔ ایک ساتھ کئی آرڈر ملنے پر وہ دس گھنٹے کام کرکے دن بھر میں تقریباً چھ سو ٹوکن تیار کر سکتے ہیں۔
جب کبھی (شاذ و نادر) ایسا ہوتا ہے کہ ان کے پاس کسی نئے ڈیزائن کے لیے سفید دھات سے بنا ٹوکن (ماسٹر کوائن) نہیں ہوتا، تو وہ صارفین سے پلاسٹک سے تیار کی ہوئی اس کی ۳ ڈی نقل لانے کو کہتے ہیں۔ مگر یہ مہنگے ہوتے ہیں، اس لیے زیادہ تر گاہک پرانی شکلوں کے مطابق ہی ٹوکنوں کا آرڈر دیتے ہیں۔ (جب عظیم کے والد مرتضیٰ سکّے کی ڈھلائی کا کام کرتے تھے، تب وہ اپنے ہاتھوں سے نئی شکلوں اور سائز والی مہریں تیار کرتے تھے۔)
محمد معین بتاتے ہیں کہ دھات کے سکّے پلاسٹک کے سکّوں کے مقابلے زیادہ مضبوط اور سستے ہوتے ہیں۔ وہ عظیم کی دکان سے تقریباً ۱۳ کلومیٹر دور بیگم پیٹ علاقے کے ایک ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتے ہیں۔ وہ ان کے پاس آرڈر دینے کے لیے آئے ہیں۔ ’’ہاتھوں سے گنتی کرنے کا یہ اچھا طریقہ ہے، اور ہمارے گاہک بھی اسے پسند کرتے ہیں۔ ہم ہر ڈِش (پکوان) کے لیے ۱۰۰ ٹوکن رکھتے ہیں۔ ایک بار جب یہ ختم ہو جاتے ہیں، تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ اس پکوان کے ۱۰۰ آرڈر فروخت ہو چکے ہیں۔ اس طرح ہم دن بھر کی کمائی جوڑتے ہیں۔ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں، اس لیے ہمارے ساتھ یہ روایت جڑی ہوئی ہے۔‘‘
عظیم ایک سکّہ بنانے کے ۳ روپے لیتے ہیں، لیکن ایک ہزار سکّوں سے کم کے آرڈر پر وہ اپنا ریٹ بڑھا کر ۴ روپے کر دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہمیں ہر روز تو آرڈر ملتے نہیں ہیں، ہفتے میں دو یا تین بار کچھ گاہک آتے ہیں۔ وہ مجھے اور میری دکان کا پتہ جانتے ہیں۔ یا ان کے پاس میرا موبائل نمبر ہوتا ہے۔ وہ مجھے فون کرکے آرڈر دیتے ہیں۔ کسی کو ۳۰۰ سکّے چاہیے ہوتے ہیں، تو کوئی ہزار سکّے کا آرڈر دیتا ہے۔ میری آمدنی مستحکم نہیں ہے۔ ایک ہفتہ میں کبھی میں ایک ہزار روپے کماتا ہوں، تو کبھی ڈھائی ہزار روپے مل جاتے ہیں۔‘‘
اور کئی بار لوگ آرڈر دینے کے بعد ٹوکن لینے واپس نہیں آتے۔ عظیم سب سے اونچی طاق پر رکھے ہوئے ٹوکن دکھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے یہ ایک ہزار سکّے تیار کیے تھے، لیکن گاہک انہیں لینے نہیں آیا۔‘‘ کچھ دنوں کے بعد وہ ایسے ٹوکنوں کو پگھلا دیتے ہیں، تاکہ ان سے نئے سکّے بنائے جا سکیں۔
عظیم بتاتے ہیں کہ ان کی کمائی کا بڑا حصہ ان کی دو دکانوں کے کرایے میں چلا جاتا ہے۔ مسجد کے قریب ان کی پرانی دکان (جسے وہ ابھی تک چلا رہے ہیں، کیوں کہ اس کے ایک خاص علاقے میں ہونے کے سبب گاہک ملنا آسان ہے اور اس کا کرایہ بھی کم ہے) کا کرایہ ۸۰۰ روپے ماہانہ ہے، جب کہ قبرستان کے پاس بنی اسبیسٹس کی ان کی دکان کا کرایہ ۲۰۰۰ روپے ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہر مہینے، میں اسکول کی فیس، راشن اور دیگر گھریلو ضروریات پر ۶ سے ۷ ہزار روپے خرچ کرتا ہوں۔‘‘ فیملی کے اخراجات کا انتظام کرنے میں ان کے چھوٹے بھائی بھی کچھ تعاون کرتے ہیں۔
عظیم اکثر دوپہر تک معین پورہ میں واقع اپنے گھر واپس لوٹ آتے ہیں، جو ان کی دکان سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ ان کے گھر پر کوئی فرنیچر نہیں ہے، انہوں نے اپنی سیمنٹ کی فرش پر پلاسٹک کی چٹائی بچھا رکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے بھی یہی کام کریں۔ بھٹی اور گرم پگھلی دھاتوں کے ساتھ کام کرنا کافی خطرناک ہے۔‘‘
ناظمہ کہتی ہیں، ’’میں اپنے بچوں کے لیے محفوظ مستقبل چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ انہیں اچھی تعلیم ملے۔‘‘ جب کہ ان کی تین سالہ بیٹی سمیرہ ان کی گود سے چپکی ہوئی تھی اور بغل میں ایک کونے میں ان کا چھ سال کا بیٹا، طاہر کھیل رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ہتھوڑا اور کچھ سکّے تھے، جسے اس کے دادا نے اس کے لیے بنایا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز