’’لوگوں کا ذائقہ بدل چکا ہے، لیکن ہم نہیں بدلے ہیں،‘‘ منگلا بنسوڈے لمبی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ سامعین اب مشہور ہندی گانوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ’’ایک وقت ایسا بھی آنے والا ہے جب ہمیں شیواجی مہاراج کی انٹری کے لیے بھی کوئی مشہور (بالی ووڈ) گانا استعمال کرنا پڑے گا!‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں۔
منگلا تائی نے نہ صرف ناظرین کی بدلتی ترجیحات کا مشاہدہ کیا ہے، بلکہ نصف صدی سے زیادہ کے عرصے میں انھوں نے تماشہ کی شکل و صورت کو بھی تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے تقریباً ۱۰ مرد و خواتین پر مشتمل یہ منڈلی بیل گاڑیوں سے سفر کرتی تھی، لیکن اب یہ ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس میں تبدیل ہو چکا ہے، جیسا کہ خود منگلا تائی کے پاس ہے۔
منگلا تائی بنسوڈے، ۶۶، سات سال کی عمر سے ہی اس پیشہ میں ہیں۔ وہ تماشہ کی معروف فنکار وِٹھا بائی نارائن گاؤنکر کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ وٹھا بائی پُنے ضلع کے نارائن گاؤں میں مقیم تھیں، جسے تماشہ کی مقدس سرزمین تصور کیا جاتا ہے۔ منگلا تائی، جو اب ستارا ضلع کے کروَڈی گاؤں میں رہتی ہیں، سال ۱۹۸۳ سے ہی تقریباً ۱۷۰ لوگوں پر مشتمل خود اپنا پھڑ (منڈلی) چلا رہی ہیں۔ ’منگلا بنسوڈے اور نتن کمار تماشہ منڈل‘ (نتن کمار ان کے چھوٹے بیٹے ہیں، جو گلوکار۔ اداکار۔ ڈانسر اور منڈلی کے اسٹار ہیں) ہر سال ستمبر سے مئی تک مہاراشٹر کے گاؤوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا ہے۔ (دیکھیں ’ تماشہ ایک جیل ہے، جس میں میں رہنا چاہتاہوں ‘۔)
منڈلی ایک اسٹیج کے اوپر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہے، جسے منگلا تائی کی منڈلی میں کام کرنے والے مزدور ہر اُس گاؤں میں تیار کرتے ہیں، جہاں کا یہ منڈلی دورہ کرتی ہے۔ اس قسم کے شو عام طور سے ایک خیمہ کے اندر تب دکھائے جاتے ہیں جب ان کے ٹکٹ بیچے گئے ہوں، اور کھلے آسمان کے نیچے تب ہوتے ہیں جب اسے گاؤں کی جترا (میلہ) کمیٹیوں کے ذریعے بلایا گیا ہو۔ اسے دیکھنے کے لیے ۱۰۰۰ سے لے کر ۲۰۰۰ تک کے درمیان لوگ جمع ہوتے ہیں، جب کہ بغیر ٹکٹ والے یا ’سُپاری‘ شو میں سامعین کی تعداد ۱۰ ہزار سے لے کر ۱۵ ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔
شو میں داخلہ کا ٹکٹ جو سال ۱۹۷۰ میں ایک روپیہ ہوا کرتا تھا، اب ۶۰ روپے ہو چکا ہے۔ لیکن، منڈلی مالکان کا کہنا ہے کہ منافع کی رقم گھٹتی جا رہی ہے۔ تنخواہوں میں کئی گُنا اضافہ ہو چکا ہے، دوسری طرف پروڈکشن کی قیمتیں بھی تیزی سے اس لیے بڑھی ہیں، کیوں کہ سفر کرتی منڈلی کے لیے ٹرکوں، بسوں، قوس لیمپوں اور دیگر سامانوں پر آنے والے اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دریں اثنا، منگلا تائی نے بتایا کہ ناظرین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ ٹکنالوجی میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ بہت سے لوگ اب یا تو ٹیلی ویژن پر فلم دیکھنے لگے ہیں یا پھر موبائل فون پر۔ نارائن گاؤں میں، ہر سال اپریل میں جترا کے دوران ہونے والے شو کو مقامی ٹیلی ویژن چینل پر نشر کیا جاتا ہے۔ ’’ایسے میں بھلا کون اپنے گھر کو چھوڑ کر تین گھنٹے کے لیے تماشہ دیکھنے باہر آئے گا؟‘‘ منگلا تائی پوچھتی ہیں۔
انٹری ٹکٹ جو ۱۹۷۰ میں ایک روپیہ کا ہوا کرتا تھا، اب ۶۰ روپے کا ہے۔ لیکن، منافع کی رقم گھٹتی جا رہی ہے۔ تنخواہوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ پروڈکشن کی لاگت بڑھتی جا رہی ہے
تماشہ پیش کرنے کی جگہیں بھی سکڑ کر اب زیادہ تر دیہی علاقوں تک محدود ہو چکی ہیں۔ ماضی میں، متعدد گاؤوں میں پیشکش کے لیے جاتے ہوئے، بنسوڈے کی منڈلی راستے میں مہاراشٹر کے بڑے شہروں میں شو دکھانے کے لیے رکتی تھی، جیسے دھولیہ، جلگاؤں، ناسک، ستارا، کولھا پور، شعلہ پور، پربھنی، ناندیڑ، عثمان آباد اور بیڈ جیسے شہروں میں۔ وہ پُنے شہر میں بھی شو کر چکی ہیں۔ اب ایسے کچھ ہی شہر بچے ہیں جہاں کافی دنوں بعد شو ہو تا ہے، یا بالکل بھی نہیں ہوتا۔ ’’پہلے ہم ضلع ہیڈکوارٹرس میں شو کیا کرتے تھے؛ اب ہم صرف مختلف تعلقوں کے ہی چکر لگاتے رہتے ہیں،‘‘ منگلا تائی کے بڑے بیٹے اور پھڑ کے منیجر انل بنسوڈے نے بتایا۔
اپنے یادگار دنوں میں، تقریباً ۱۹۹۰ کے عشرے تک، ممبئی میں بھی تماشہ دکھایا جاتا تھا؛ منڈلیاں ستمبر سے مئی تک کے سیزن میں، شہر کے مضافات میں جا کر متعدد شو کیا کرتی تھیں۔ ایک مشہور تماشہ فنکار اور منڈلی کے مالک، رگھوویر کھیڈکر نے بتایا کہ ممبئی میں ان کے گروپ کا آخری پروگرام تقریباً دو عشرے قبل ہوا تھا۔ کپڑا ملوں کا بند ہونا اس کی ایک بڑی وجہ تھی، وہ بتاتے ہیں، کیوں کہ مراٹھی بولنے والے سامعین، جو پہلے اِن کپڑا ملوں میں کام کرتے تھے، کم ہو گئے یا شہر سے باہر نکل گئے۔ رتنا گیری ضلع کے کھیڈ تعلقہ کے چِنچ گھر گاؤں کے رہنے والے، ۵۶ سالہ کھیڈکر نے سال ۱۹۷۰ میں ۹ سال کی عمر میں اسٹیج پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ ’رگھوویر کھیڈکر ساہ کانتا بائی ستارکر لوک ناٹیہ تماشہ منڈل‘ نام کی ان کی منڈلی کو ۱۹۶۹ میں ان کی ماں، کانتا بائی نے شروع کیا تھا۔
منڈلی مالکوں کا کہنا ہے کہ سرکاری ضابطوں نے بھی تماشہ پر پابندی لگائی ہے۔ ’’ہمارے شو (تقریباً ۱۱ بجے رات میں شروع ہوتے اور) صبح کے ۶ بجے تک چلتے تھے، اور لوگ اسے رات بھر پورے دھیان سے دیکھا کرتے تھے،‘‘ انل بنسوڈے نے بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ شو سے متعلق ضابطوں (جس کی شروعات صوتی آلودگی ریگولیشن اور کنٹرول ضوابط، ۲۰۰۰ سے ہوتی ہے) نے تماشہ کو دیہی علاقوں تک محدود کر دیا ہے۔ ان ضابطوں نے منڈلیوں کے ذریعہ شہر سے باہر کے علاقوں میں بھی رات ۱۰ بجے کے بعد شو کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کی وجہ سے تماشہ کی شکل ہی بدل گئی ہے، کیوں کہ منڈلی مالک شو کا وقت کم کرنے کے لیے بہت سے آئٹم گھٹا دیتے ہیں، انھیں دکھاتے ہی نہیں۔
’’اب پیشکش کے لیے درکار جگہ بھی نہیں رہی،‘‘ کھیڈکر کا کہنا ہے۔ ’’لیکن ساتھ ہی اب تماشہ والے بڑے ساؤنڈ سسٹم سے جو شور مچاتے ہیں، وہ بھی بکواس ہے۔ اب کوئی مجموعی شکل رہی ہی نہیں۔ بہت زیادہ ہنگامہ ہوتا ہے، بڑے بڑے اسپیکر لگے ہوتے ہیں۔ یہ سب پچھلے ۲۰ برسوں سے ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے، ۳۰۰۰ لوگوں کے لیے صرف دو چار بگل ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے کے لیے لوگ آج کی طرح جھگڑالو اور شور مچانے والے نہیں تھے، بلکہ وہ خاموشی سے بیٹھتے تھے۔‘‘
لیکن شاید تماشہ میں سب سے بڑی تبدیلی اس کے مواد اور پیشکش کو لے کر ہوئی ہے۔ روایتی تماشہ کے بنیادی عناصر ہیں گن (بھگوان گنیش کے لیے ابتدائی پرارتھنا)، گولن (کرشن اور گوپیوں کے درمیان بات چیت پر مبنی رقص)، بتاونی (چٹکلے بازی کا سلسلہ)، رنگ بازی (ملا جلا رقص) اور وَگ ناٹیہ (فوک ڈرامہ، عام طور سے سماجی مسائل یا اساطیری کہانیوں کو پیش کرتا ہوا)۔ حالانکہ، یہ عناصر اور ترتیب، دیگر رسموں اور روایتی پیشکش و موسیقی (مثال کے طور پر روایتی ساز جیسے تال، تُنتُنے، ڈھولکی، اور ہلگی اب بھی گن میں استعمال ہوتے ہیں) کی طرح اب بھی برقرار ہے، لیکن وقت کے ساتھ انھیں پیش کرنے کے طریقے میں تبدیلی آئی ہے۔ تماشہ بدل کر اب ’متعدد تفریحی‘ قسم کا پیکج، ڈانس۔ ڈرامہ شو بن چکا ہے۔
پُنے کے مقامی فوٹو جرنلسٹ سندیش بھنڈارے، جنہوں نے تماشہ برادری پر ایک کتاب لکھی ہے، بتاتے ہیں کہ منڈلیاں اب شراب نوشی یا جہیز کی مانگ جیسے سماجی مسائل پر مبنی وگ ناٹیہ اسکٹس کو چھوڑ کر عوام کی مانگ پر، ہندی اور مراٹھی گانوں پر مبنی رنگ بازی پر زیادہ زور دے رہی ہیں۔ بھنڈارے نے تقریباً ۱۰ سال قبل کونکن، مراٹھواڑہ اور وِدربھ جیسے متعدد ضلعوں میں تماشہ کی تصویریں کھینچی تھیں، اور اب اس سال انھوں نے دوبارہ وہاں جا کر اس میں ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہے۔
کھیڈکر کی منڈلی نے اس میں الیکٹرانک آلات (جیسے ڈرم سیٹ، رائم مشین اور ڈجیٹل آرگن)، لائٹنگ، رنگ برنگی پوشاک، اور میک اَپ کے مختلف طریقوں کو شامل کیا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ نوجوان اس تماشہ سے دور ہوتے چلے گئے، جس میں عورتیں اب بھی روایتی نو۔وَری (نو گز کی) ساڑی کا استعمال کیا کرتی تھیں۔ ’’لہٰذا، ہم نے ان گانوں کو پیش کرنا شروع کردیا جو نوجوان لڑکوں کو پسند ہے،‘‘ انھوں نے بتایا۔ (سامعین زیادہ تر مرد ہوتے ہیں؛ بعض دفعہ کچھ عورتیں تھوڑی تعداد میں ضرور آتی ہیں، جو عام طور سے سب سے پیچھے بیٹھتی ہیں)۔ ’’ تماشہ تفریح کی وہ شکل ہے جو وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ جس طرح سنیما بدل رہا ہے، ویسے ہی تماشہ ،‘‘ کھیڈکر نے مزید بتایا۔
انھوں نے جو تبدیلی کی، اس کی نقل دوسری منڈلیوں نے بھی کرنی شروع کر دی، لیکن آخر کار یہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ حالانکہ، کھیڈکر کا یہ ماننا ہے کہ یہ تبدیلیاں ضروری تھیں، وہ کہتے ہیں، ’’پہلے جہاں سامعین کپڑے سے پوری طرح ڈھکی ہوئی عورت کو پسند کیا کرتے تھے، وہیں اب یہ عورتیں چھوٹے اور ہلکے کپڑے پہنتی ہیں۔ یہ بند ہونا چاہیے۔ اب عوام میرے قابو میں نہیں ہیں، میرا وقت گزر چکا ہے۔ نئی نسل جو آ رہی ہے، اسے یہ سب ٹھیک کرنا پڑے گا۔ تماشہ خطرے میں ہے۔‘‘
اور اسی لیے، اب بھی منگلا تائی جب اسٹیج پر آتی ہیں، تو اپنی لگن اور عقیدت سے اس فن کو زندہ کر دیتی ہیں۔ بلب کی روشنی میں جب وہ اپنے چمکیلے لباس اور میک اَپ کے ساتھ اسٹیج پر تھرکتی ہیں، تو ان کی ادا کاری کا ہر کوئی قائل ہو جاتا ہے۔ اور تب کسی کو یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ان کی عمر اب ۶۶ سال کی ہو چکی ہے، اور وہ تماشہ کی شاید آخری فنکاروں میں سے ایک ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)