عبدالمجید وانی خوش ہیں کہ اس موسم میں کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے۔ انہیں امید ہے کہ وہ جو کانگڑی بناتے ہیں اس کی مانگ بڑھتی رہے گی، جیسا کہ پچھلے سال دسمبر میں کشمیر کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت منفی ۱۰ ڈگری سیلسیس تک گرنے پر ہوا تھا۔
۵۵ سالہ وانی، وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع کے چرارِ شریف میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ سرینگر سے تقریباً ۳۲ کلومیٹر دور، یہ شہر کانگڑی بنانے والے کاریگروں کا ایک مرکز ہے۔ کانگڑی مٹی کی انگیٹھی ہے، جو کوئلہ کے انگاروں سے بھری اور ہاتھ سے بنی بید کی ایک چھوٹی ٹوکری سے ڈھکی ہوتی ہے۔ کشمیر میں طویل سردیوں کے دوران یہاں کے بہت سے لوگ خود کو گرم رکھنے کے لیے اس پورٹیبل ہیٹر کو اپنے فیرن (سردیوں میں پہنا جانے والا گھٹنے تک لمبا ایک روایتی لبادہ) کے اندر ہینڈل سے پکڑے رہتے ہیں۔ (بعض مطالعوں میں کہا گیا ہے کہ خاص کر کشمیر میں، لمبے وقت تک انگاروں کو جسم سے سٹاکر رکھنے سے ’کانگڑی کینسر‘ ہوتا ہے؛ لیکن یہ ایک الگ اسٹوری ہے۔)
’’ہمارا علاقہ خوبصورت کانگڑیوں کے لیے مشہور ہے، جسے ہم اچھی بید سے بناتے ہیں،‘‘ چرارِ شریف کے کانل محلہ کے ساکن، ۳۰ سالہ عمر حسن ڈار کہتے ہیں۔ کاریگروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے مزدور بھی کانگڑی بنانے میں شامل ہیں۔ بید سے لکڑیاں بنانے کے لیے آس پاس کے جنگلات سے بید کی لکڑی جمع کی جاتی ہے یا کسانوں سے خریدی جاتی ہے، پھر اسے ابال کر نرم کیا جاتا ہے اور ہاتھ سے بنے ایک دھاردار آلہ (جسے مقامی طور پر چپّو کہتے ہیں؛ لکڑی کے دو موٹے ڈنڈے ایک دوسرے کے درمیان سے گزرتے ہوئے، زمین میں گڑے ہوئے) کا استعمال کرکے اسے صاف کیا جاتا اور چھیلا جاتا ہے، پھر اسے بھگونے، خشک کرنے اور رنگنے کا کام کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تیار ہو چکی بید کی ان تیلیوں کو مٹی کے برتن کے چاروں طرف بُنا جاتا ہے۔
اس پورے عمل میں تقریباً ایک ہفتہ کا وقت لگتا ہے، جس کے دوران بید کی تیلیاں پوری طرح سے خشک ہو جانی چاہئیں۔ کانگڑی عام طور پر سردیاں شروع ہونے سے پہلے اگست میں بنائی جاتی ہے، اور کبھی کبھی مانگ کی بنیاد پر، سردیوں کے موسم کے دوران بھی بنائی جاتی ہے، جو فروری کے آخر تک چلتا ہے۔
پرانے زمانے میں، کشمیر کی کانگڑی صرف مٹّی کا برتن ہوا کرتی تھی – مقامی کمہاروں سے خریدی گئی – جس کے اوپر بید کا کوئی خول نہیں ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ، کچھ کاریگروں نے بید کی تیلیوں کے مختلف ڈیزائنوں کے ساتھ اس دیسی ہیٹر کو بنانا شروع کیا، جس کی قیمت پرانی کانگڑیوں کے مقابلے زیادہ تھی۔ کم لاگت والی کانگڑی کی قیمت اب تقریباً ۱۵۰ روپے ہے اور اسے بنانے میں ۳-۴ گھنٹے لگتے ہیں؛ زیادہ باریک ڈیزائن کے ساتھ بنائی گئی کثیر رنگی کانگڑی – جسے بُننے میں ۳-۴ دن لگتے ہیں – کی قیمت تقریباً ۱۸۰۰ روپے ہو سکتی ہے، ڈار مجھے بتاتے ہیں، اور اس سے انہیں ۱۰۰۰ روپے سے ۱۲۰۰ روپے تک کا منافع ہوتا ہے۔
کانگڑی بنانا ویسے تو ایک موسمی پیشہ ہے، لیکن یہ اُن کاریگروں اور کسانوں کو سال بھر کا معاش فراہم کرتا ہے جو تاجروں اور ٹھیکہ داروں کو بید کی تیلیاں فروخت کرتے ہیں۔ چرارِ شریف میں کانگڑی بنانے والے مجھے بتاتے ہیں کہ ہر سردی میں وہ تقریباً ۵۰ ہزار سے ۶۰ ہزار انگیٹھیاں بیچتے ہیں، جس سے ان کی کل ۱ کروڑ روپے کی کمائی ہو جاتی ہے۔ سخت سردیوں کے موسم میں، اس فروخت کے بڑھنے کا امکان رہتا ہے۔ ’’ہمیں امید ہے کہ اس موسم میں ہم ۱ کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کر لیں گے، کیوں کہ کانگڑی کی مانگ لگاتار بڑھ رہی ہے،‘‘ وانی کہتے ہیں، جو جون سے دسمبر تک چھ مہینے کے اس موسم میں ۱۲۰۰۰-۱۵۰۰۰ روپے ماہانہ کماتے ہیں۔
مرد جہاں عام طور سے کانگڑی بنانے کا کام کرتے ہیں، وہیں بید چھیلنے کا کام عورتوں کے ذمہ ہے۔ ’’میں نے ۱۲ویں کلاس سے ہی بید چھیلنے کا کام شروع کر دیا تھا،‘‘ نگہت عزیز کہتی ہیں (ان کی درخواست پر نام بدل دیا گیا ہے)، جو اب گریجویٹ ہیں۔ ’’بید کی ایک تیلی کو پوری طرح سے چھیلنے کے لیے کافی ہنر کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آپ اُس تیلی کو توڑ سکتے ہیں اور یہ بیکار ہو جائے گی۔ نگہت کی طرح، گاندربل ضلع کے عمر ہیرے علاقہ میں کئی نوجوان خواتین بید چھیلنے کا کام کرتی ہیں۔ ایک گٹھر بید چھیلنے پر وہ عام طور سے ۴۰ روپے کماتی ہیں، اور ایک دن میں ۳ سے ۴ گھنٹے کے اندر ۷-۸ گٹھر چھیل سکتی ہیں۔
لیکن کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اسے بند کر دینا چاہتی ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں کے لوگ بید چھیلنے کے سبب ہمیں نیچی نگاہ سے دیکھتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ یہ غریب کنبوں کا کام ہے۔ میں ان کے طعنے کی وجہ سے اسے جاری نہیں رکھنا چاہتی،‘‘ عمر ہیرے کی پروینہ اختر کا کہنا ہے۔
عام طور پر اپنی فیملی کی انگیٹھی کے لیے انگارے تیار کرنے کا کام بھی خواتین ہی کرتی ہیں۔ لکڑی کا کوئلہ بازار سے خریدا جاتا ہے – یہ زیادہ تر خوبانی اور سیب کی جلی ہوئی لکڑی کا ہوتا ہے۔ ’’صبح میں اور سورج ڈوبنے کے بعد، میں انگیٹھی تیار کرتی ہوں۔ پورے کشمیر میں عورتیں یہ کام سردیوں کے دوران کرتی ہیں،‘‘ ۵۰ سالہ حاجا بیگم کہتی ہیں، جو سرینگر کے علی کدل علاقے میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے سبزی فروش شوہر سمیت، اپنی مشترکہ فیملی کے لیے روزانہ تقریباً ۱۰ کانگڑی تیار کرتی ہیں۔
حالانکہ اب گرمی بنائے رکھنے کے دیگر ذرائع آ چکے ہیں – مرکزی حرارت سے لے کر وسطی ایشیا کے جدید ترین بخاری (لکڑی کے چولہے) تک – کانگڑی کشمیر کے صفر سے کم درجہ حرارت، خاص طور سے دیہی علاقوں میں عام لوگوں کا ہیٹر بنی ہوئی ہے۔ ان کے لبادوں کے اندر، کوئلہ کے انگارے لمبی سردیوں کے دوران گھنٹوں تک سکون دینے والی گرمی فراہم کرتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)