لِمباجی لوکھنڈے نے ۱۰ ہزار روپے حاصل کرنے کے لیے ۱۰۰۰ روپے سے زیادہ خرچ کر دیے ہیں۔ ’’ایک طرف کے سفر کے لیے آٹورکشہ والا ۲۰ روپے کرایہ لیتا ہے،‘‘ ۴۲ سالہ کسان اپنے گاؤں بوروَنڈ سے ۱۵ کلومیٹر کی دوری پر واقع پربھنی قصبے کی زرعی پیداوار والی مارکیٹنگ کمیٹی (اے پی ایم سی) تک پہنچنے پر خرچ ہونے والی رقم کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ’’اس لحاظ سے روزانہ ۴۰ روپے کرایے کے بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ چائے پیتے ہیں اور دوپہر کے کھانے پر خرچ کرتے ہیں۔ میں ۱۵ دنوں سے یہاں آ رہا ہوں، جو اپنے آپ میں ایک جدوجہد ہے۔‘‘
مہاراشٹر میں ۱۰ ہزار روپے کی راحت کی خانہ پری کسانوں کے ذریعہ یکم جون کو شروع ہونے والی ریاست گیر ہڑتال کا نتیجہ ہے۔ وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے ۱۴ جون کو اس کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت چونکہ قرض معافی کے طریقہ کار پر غور کیا جا رہا ہے، اس لیے کسانوں کو خریف فصل کی بوائی کی لاگت کو پورا کرنے کی خاطر ۱۰ ہزار روپے کی فوری راحت دی جا ئے گی۔
جون کی ہڑتال میں کسانوں کا سب سے اہم مطالبہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کا نفاذ تھا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں ایسی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) ملنی چاہیے جس میں پیداواری لاگت کے علاوہ ۵۰ فیصد کا منافع شامل ہو، اور ساتھ میں مکمل قرض معافی کا بھی اہتمام ہو۔ ایم ایس سوامی ناتھن کی سربراہی میں زرعی بحران کے مطالعہ کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کی تفصیلی رپورٹ سال ۲۰۰۷ سے مرکزی حکومت کے پاس پڑی ہوئی ہے۔
کسانوں کے ہڑتال کو اس وقت روک دیا گیا تھا جب فڈنویس نے ان کے نمائندوں سے ملاقات کی اور انہیں قرض معافی کا یقین دلایا، اور کہا کہ وہ وزیر اعظم سے بات کرکے پیداواری لاگت کے مطالبے پر غور کریں گے۔ ریاست نے ۱۰ ہزار روپے کی عارضی امداد فراہم کی، کیونکہ بینک ایسے کسانوں کی نئے قرضوں کی درخواستیں مسترد کر رہے تھے، جنہوں نے پچھلے قرضے ادا نہیں کیے تھے۔
لیکن لوکھنڈے اگست میں بھی ۱۰ ہزار روپے حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ رقم جون کے وسط سے شروع ہونے والے بوائی کے موسم کے لیے انہیں اور دیگر کسانوں کو مدد پہنچانے والی تھی۔ پربھنی کے اے پی ایم سی کمپلیکس میں کھڑے وہ کہتے ہیں، ’’یہاں کافی افراتفری ہے۔‘‘ کسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ رقم حاصل کرنے کے لیے یہاں سے فارم لے کر جمع کریں۔ ’’مجھے ابھی تک فارم نہیں ملا ہے۔ اسے جمع کرانے میں میرا مزید وقت ضائع ہوگا۔‘‘
بالا صاحب تروَٹے کو ایک الگ مسئلہ درپیش ہے۔ انہوں نے چار دن قطار میں کھڑے ہونے کے بعد ایک فارم حاصل کیا اور اسے جمع کرایا۔ اس ۴۰ سالہ کسان کا کہنا ہے، ’’۱۱ دن ہو گئے ہیں۔ میرے [بینک] اکاؤنٹ میں رقم جمع نہیں ہوئی ہے۔ میں ۳۵ کلومیٹر دور رہتا ہوں۔ میرے گاؤں واڈی دمئی سے یہاں پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ آج مجھے بتایا گیا ہے کہ اس میں مزید ۱۰ دن لگیں گے۔ اس اسکیم نے فائدے سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ اس پیچیدہ فارم کو بھرنے اور اتنا وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘
چھ صفحات پر مشتمل یہ فارم سبھی ضلعوں کے اے پی ایم سی مراکز اور بینکوں میں دستیاب ہے۔ اس میں ایک اقرار نامہ بھی شامل ہے، کسانوں کے لیے اسے جمع کرانا ضروری ہے۔ اس اقرار نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’فارم میں درج شرائط کے مطابق، میں [اسکیم سے فائدہ اٹھانے کا] اہل ہوں…میں کسی بھی شرط کی خلاف ورزی نہیں کر رہا ہوں۔ میں خلاف ورزی کی صورت میں جرمانہ یا سود کے ساتھ فوری طور پر ۱۰ ہزار روپے جمع کرانے کے لیے ذمہ دار ہوں اور مجھ پر قانونی کارروائی بھی کی جا سکتی ہے…‘‘
مراٹھواڑہ کے پربھنی میں اے پی ایم سی کمپلیکس میں اپنا فارم لے کر زمین پر بیٹھے بہت سے کسان حیران ہیں کہ اس فارم کا کیا کریں۔ جب انہیں کہیں شک ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں، لیکن دوسرے کسانوں کے جوابات میں بھی اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ غلطی کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، کیونکہ ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے انہیں فارم کے لیے واپس قطار میں کھڑے ہونے کے لیے بھیج دیا جائے گا۔
لوکھنڈے نے اپنی ساڑھے تین ایکڑ زمین پر سویابین اور کپاس کی فصل لگائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ۱۰ ہزار روپے حاصل کرنے کے لیے اپنے کھیتوں سے دور ہونا پڑا ہے۔ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ یہ اتنا وقت طلب اور پیچیدہ ہونے والا ہے، تو میں درخواست ہی نہیں دیتا،‘‘ وہ افسوس ظاہر کرتے ہیں۔ ’’لیکن اب جب کہ میں نے اس پر ۱۰۰۰ روپے خرچ کر دیے ہیں، تو میں اس کام کو مکمل کرنے کا پابند محسوس کرتا ہوں۔ لیکن ۱۰ ہزار روپے میں بوائی کا انتظام کون کر سکتا ہے؟ [ایک ایکڑ زمین کی بوائی کے لیے بشمول مزدوری تقریباً روپے ۱۰ سے ۱۲ ہزار روپے درکار ہوں گے۔] اور یہ کوئی سبسڈی بھی نہیں ہے۔ ریاست ہم سے ۱۰ ہزار وصول کرے گی۔‘‘
وہ کسان جو ۳۰ جون ۲۰۱۶ تک اپنے قرضوں کی ادائیگی نہیں کر سکے ہیں اور ’نان پرفارمنگ اثاثے‘ (بینکوں کے ریکارڈ میں) بن گئے ہیں، وہ ریاست کی طرف سے اعلان شدہ قرض معافی کے حقدار ہیں۔ وہ فوری امداد کے طور پر ۱۰ ہزار روپے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ لیکن قرض معافی کے منصوبے میں ایک تاکید بھی شامل ہے، جس کے مطابق کسانوں کے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کے قرض مکمل طور پر معاف کر دیے جائیں گے، لیکن اس سے زیادہ قرض لینے والے کسانوں کو ڈیڑھ لاکھ روپے سے فاضل رقم ادا کرنی ہوگی۔
لہٰذا، لوکھنڈے کو اپنے ڈھائی لاکھ روپے کے بینک کے قرض کو بے باق کرنے کے لیے ایک لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ وہ سوال کرتے ہیں، ’’اگر میرے پاس ایک لاکھ روپے ہوتے، تو کیا میں ۱۰ ہزار کے لیے بھاگ دوڑ کرتا؟‘‘ اس کے علاوہ، بینک کے قرض کا تصفیہ کرتے وقت واجب الادا رقم میں ۱۰ ہزار روپے جوڑ دیے جائیں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے کی معافی درحقیقت ایک لاکھ ۴۰ ہزار روپے کی معافی ہے۔
دس ہزار روپے کے لیے چھ صفحات پر مشتمل یہ فارم کوئی واحد فارم نہیں ہے جسے کسانوں کو بھرنا ہے۔ اس سال ریاستی حکومت نے فصل بیمہ کے فارم آن لائن جمع کروانے کو بھی لازمی قرار دیا ہے (پاری پر دیکھیں: بینک سے روتے ہوئے واپسی )۔ تربیت یافتہ بینک حکام کی کمی اور بھاری ٹریفک سنبھالنے میں سرور کی ناکامی کے ساتھ ساتھ اس نئے ضابطے نے افراتفری پھیلا دی ہے۔ کام کے زیادہ بوجھ نے بینکوں کو فصل بیمہ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کر دیا ہے، اور مراٹھواڑہ کے کسانوں نے بھی ۱۰ ہزار روپے حاصل کرنے کی بجائے جولائی میں اپنے پریمیم وقت پر ادا کرنے کو ترجیح دی ہے۔ بہت سے کسانوں نے درخواست کے طویل عمل سے محتاط رہتے ہوئے، امدادی اسکیم سے مکمل طور پر دوری بنائے رکھی ہے۔
کسان کارکن کشور تیواری کے ذریعہ اسٹیٹ لیول بینکرز کمیٹی (ایس ایل بی سی) سے حاصل کردہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ مہاراشٹر کے ۳۷ لاکھ سے زیادہ کسانوں میں سے جن کے قرضوں کو ’نان پرفارمنگ اثاثہ‘ کے ذیل میں رکھا گیا تھا، صرف ۴۳۰۱۸ نے ۱۴ اگست تک ۱۰ ہزار روپے کے لیے درخواستیں دی تھیں، اور ان میں سے صرف ۳۴۴۱۰ کسانوں کو ہی اس کے لیے اہل سمجھا گیا ہے۔
مثال کے طور پر لاتور ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینک کے منیجنگ ڈائریکٹر ہنومنت جادھو کے مطابق، لاتور ضلع میں اگست کے پہلے ہفتے تک ایک بھی کسان نے ان کے بینک سے ۱۰ ہزار روپے کی اسکیم کا فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ لاتور کے دوسرے بینکوں میں بھی درخواست کنندگان کی تعداد کافی کم ہے۔
تیواری، جو ایک سرکاری ادارہ ’وسنت راؤ نائک شیتکری سواولمبن مشن‘ کے چیئرمین ہیں، نے کہا کہ بینک اس اسکیم کو نافذ کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے ۲۵ جولائی کو ایشین ایج اخبار کو بتایا کہ ’’بینکوں نے قرضوں [۱۰ ہزار روپے] کی تقسیم کے لیے ۱۵ جولائی تک آرڈر بھی جاری نہیں کیے تھے۔‘‘
قومی بینک امداد دینے سے اس لیے گریزاں ہیں کیونکہ ان کے پاس پہلے سے ہی غیر ادا شدہ زرعی قرضے ہیں۔ اور ضلعی کوآپریٹو بینک، جن کو اسکیم کا سب سے بڑا حصہ تقسیم کرنا ہے، اس کے لیے تیار نہیں ہیں کیونکہ وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور رسوخ دار ڈیفالٹرز کو پکڑنے میں ناکامی نے ان بینکوں کو تقریباً ناکارہ بنا دیا ہے۔
لہٰذا، جن لوگوں نے ۱۰ ہزار روپے حاصل کرنے کا ارادہ کیا تھا وہ اب بھی لمبی قطاروں میں کھڑے ہیں۔ لوکھنڈے کہتے ہیں، ’’حکومت کئی اسکیموں کے وعدے کرتی ہے اور انہیں ناقص طور پر نافذ کرتی ہے۔ اگر آپ وعدہ پورا نہیں کر سکتے، تو ہماری امیدیں کیوں بڑھاتے ہیں؟ ریاست ہمارے زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہے۔‘‘
مترجم: شفیق عالم