بالا صاحب لونڈھے کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ۲۰ سال قبل لیا گیا ان کا فیصلہ آج ان کے لیے مصیبت بن جائے گا۔ مہاراشٹر کے پونے ضلع کے چھوٹے سے قصبہ فُرسُنگی کے ایک حاشیہ کے کسان کنبے میں پیدا ہوئے لونڈھے نے چھوٹی عمر سے ہی اپنے کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، جہاں وہ بنیادی طور پر کپاس اُگاتے تھے۔ جب وہ ۱۸ سال کے ہوئے، تو انہوں نے کچھ اضافی آمدنی حاصل کرنے کے لیے بطور ڈرائیور بھی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

’’ایک دوست نے مویشیوں کی نقل و حمل کا کاروبار کرنے والی ایک مسلمان فیملی سے میرا تعارف کرایا،‘‘ ۴۸ سالہ لونڈھے کہتے ہیں۔ ’’انہیں ڈرائیوروں کی ضرورت تھی، اس لیے مجھے کام پر رکھ لیا گیا۔‘‘

لونڈھے ایک ہمت ور نوجوان تھے۔ انہوں نے اس تجارت کی باریکیوں کو سمجھا تھا۔ تقریباً ایک دہائی کے بعد انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے اور کافی بچت بھی کر لی ہے۔

’’میں نے ۸ لاکھ روپے میں ایک سیکنڈ ہینڈ ٹرک خریدا، اور اس کے بعد بھی میرے پاس نقد ۲ لاکھ روپے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’گزشتہ ۱۰ سالوں میں، میں نے بازار میں کسانوں اور تاجروں سے رابطے قائم کیے تھے۔‘‘

لونڈھے کا کاروبار منافع بخش ثابت ہوا۔ اسی کاروبار کی بدولت انہوں نے فصلوں کی گرتی قیمتوں، مہنگائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب اپنی پانچ ایکڑ زمین سے ہوئے نقصان کی تلافی کی تھی۔

کام سیدھا تھا۔ ایسے کسانوں سے مویشی خریدنا جو انہیں گاؤں کے ہفتہ وار بازاروں میں فروخت کرنا چاہتے تھے اور ان پر اپنا کمیشن رکھ کر ذبیحہ خانوں یا کسانوں کے کسی دوسرے گروپ کو فروخت کرنا جو ان مویشیوں کو خریدنا چاہتے تھے۔ اس کاروبار سے تقریباً ایک دہائی تک منسلک رہنے کے بعد ۲۰۱۴ میں انہوں نے اپنی تجارت کو مزید ترقی دینے کی غرض سے دوسرا ٹرک خریدا۔

لونڈھے کہتے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت، گاڑی کی دیکھ بھال کے اخراجات اور ڈرائیور کی تنخواہ کو الگ کرنے کے بعد ان کی اوسط ماہانہ آمدنی تقریباً ۱ لاکھ روپے ہو جاتی تھی۔ انہیں اس بات سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ ان معدودے چند ہندوؤں میں شامل تھے جو ایک ایسا کاروبار کرتے تھے جس پر مسلم قریشی برادری کا غلبہ تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ اپنے رابطوں اور انعامات کو لے کر فراخ دل تھے۔ میں نے سوچا کہ میرے قدم جم گئے ہیں۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

بابا صاحب لونڈھے کاشتکاری سے مویشیوں کی نقل و حمل کے ایک کامیاب کاروبار میں منتقل ہو گئے۔ لیکن ۲۰۱۴ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد مہاراشٹر میں گئو رکشا کی مہم پروان چڑھنے لگی، جس کی وجہ سے لونڈھے کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچا۔ اب انہیں اپنی اور اپنے ڈرائیوروں کی حفاظت کی فکر لاحق رہتی ہے

لیکن ۲۰۱۴ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) برسراقتدار آئی، اور گئو رکشا کی مہم میں شدت آنے لگی۔ دراصل گائے کی حفاظت کے نام پر تشدد، ہندوستان میں ہجوم کی بربریت سے عبارت ہے۔ اس میں ہندو قوم پرستوں کی جانب سے گائے (جسے ہندو مذہب میں مقدس مقام حاصل ہے) کی حفاظت کے نام پر غیر ہندوؤں، خاص طور پر مسلمانوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

نیویارک کے ایک حقوق انسانی گروپ، ہیومن رائٹس واچ، نے ۲۰۱۹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مئی ۲۰۱۵ اور دسمبر ۲۰۱۸ کے درمیان  ہندوستان میں گائے کے گوشت سے متعلق ۱۰۰ سے زیادہ حملے ہوئے، جن میں ۲۸۰ افراد زخمی اور ۴۴ افراد ہلاک ہوئے۔ متاثرین میں بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

ایک ڈیٹا ویب سائٹ، انڈیا اسپینڈ، نے ۲۰۱۷ میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں ۲۰۱۰ سے گائے سے متعلق لنچنگ کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں پایا گیا تھا کہ ایسے معاملوں میں مارے گئے ۸۶ فیصد افراد مسلمان تھے، جب کہ ۹۷ فیصد حملے مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہوئے تھے۔ اس کے بعد ویب سائٹ نے اپنا ٹریکر ہٹا لیا ہے۔

لونڈھے کا کہنا ہے کہ ایسے تشدد، جس میں جان کا خطرہ ہو، میں پچھلے تین سالوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک ایسا وقت تھا جب لونڈھے نے مہینے میں ۱ لاکھ روپے تک کمائی کی تھی، لیکن گزشتہ تین سالوں میں ان کا نقصان بڑھ کر ۳۰ لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ وہ خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے ڈرائیوروں کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔

’’یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

*****

پچھلے سال، ۲۱ ستمبر ۲۰۲۳ کو لونڈھے کے دو ٹرک ۱۶ بھینسوں کے ساتھ پونے کے ایک بازار کی طرف جا رہے تھے، جب گائے محافظوں یا ’گئو رکشکوں‘ نے انہیں کٹراج کے چھوٹے سے قصبہ کے قریب (وہاں سے تقریباً آدھے گھنٹے کے فاصلے پر واقع) روک لیا۔

مہاراشٹر میں گائے کے ذبیحہ پر ۱۹۷۶ سے پابندی عائد ہے۔ لیکن ۲۰۱۵ میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اس کی توسیع بیلوں اور بچھڑوں تک کر دی۔ بھینسیں، جنہیں لونڈھے کا ٹرک لے کر گیا تھا، اس پابندی کے تحت نہیں آتیں۔

’’اس کے باوجود دونوں ڈرائیوروں سے بدتمیزی کی گئی، تھپڑ مارے گئے اور گالی گلوچ کی گئی،‘‘ لونڈھے کہتے ہیں۔ ’’ایک ڈرائیور ہندو تھا، دوسرا مسلمان۔ میرے پاس تمام قانونی اجازت نامے تھے۔ لیکن میرے ٹرکوں کو پھر بھی ضبط کر کے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

’مویشیوں کو لاد کر ٹرک چلانا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ بہت دباؤ والا کام ہے۔ اس غنڈہ راج نے دیہی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ اس میں صرف وہی لوگ پھل پھول رہے ہیں جنہوں نے امن و امان میں خلل پیدا کیا ہے‘

پونے سٹی پولیس نے لونڈھے اور ان کے دو ڈرائیوروں کے خلاف جانوروں پر ظلم کی روک تھام کے قانون، ۱۹۶۰ کے تحت یہ دعویٰ کرتے ہوئے شکایت درج کی کہ مویشیوں کو چارے اور پانی کے بغیر ایک چھوٹی سی تنگ جگہ میں ٹھونسا گیا تھا۔ ’’گئو رکشکوں کا انداز جارحانہ ہوتا ہے اور پولیس کبھی انہیں نہیں روکتی،‘‘ لونڈھے کہتے ہیں۔ ’’یہ صرف ہراساں کرنے کا ایک حربہ ہے۔‘‘

لونڈھے کے مویشیوں کو پونے ضلعے کے موال تعلقہ کے دھامنے گاؤں میں ایک گئوشالہ میں منتقل کر دیا گیا، جس کے بعد وہ قانونی چارہ جوئی پر مجبور ہوئے۔ ان کے تقریباً ۵ء۶ لاکھ روپے داؤ پر لگے تھے۔ وہ جہاں جا سکتے تھے وہاں گئے اور ایک اچھے وکیل سے بھی صلاح لی۔

دو ماہ بعد ۲۴ نومبر ۲۰۲۳ کو شیواجی نگر میں پونے کے سیشن کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔ لونڈھے نے اس وقت راحت کی سانس لی جب جج نے گئو رکشکوں کو ان کے مویشی واپس کرنے کا حکم دیا۔ تھانہ کو حکم کی تعمیل کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

بدقسمتی سے لونڈھے کے لیے وہ راحت مختصر ثابت ہوئی، کیونکہ سازگار عدالتی حکم کے پانچ ماہ گزرنے کے بعد بھی انہیں ابھی تک ان کے مویشی واپس نہیں ملے ہیں۔

’’عدالتی حکم کے دو دن بعد میرے ٹرک پولیس نے واپس کر دیے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’ٹرکوں کے بغیر اس عرصے میں مجھے کوئی کام نہیں مل سکا تھا۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس سے بھی زیادہ مایوس کن تھا۔‘‘

’’عدالتی حکم کے بعد مجھے اپنے ٹرک واپس مل گئے، لیکن پھر شروع ہوا حوصلہ شکنی کا دور،‘‘ لونڈھے یاد کرتے ہیں۔ وہ اپنے مویشی واپس لانے سنت تکارام مہاراج گئوشالہ پہنچے۔ لیکن گئوشالہ کے انچارج روپیش گراڈے نے انہیں اگلے دن آنے کے لیے کہا۔

اس کے بعد الگ الگ دنوں میں الگ الگ طرح کے بہانے تراشے گئے۔ گراڈے نے حوالگی سے پہلے جانوروں کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹر کی عدم دستیابی کا حوالہ دیا۔ کچھ دن بعد انچارج نے اعلیٰ عدالت سے اسٹے آرڈر حاصل کر لیا۔ اس میں سیشن کورٹ کے فیصلہ کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ لونڈھے کہتے ہیں کہ یہ واضح ہو گیا کہ گراڈے جانوروں کو واپس نہ کرنے کے لیے محض وقت ضائع کر رہے تھے۔ ’’لیکن پولیس نے ان کی ہر بات مان لی، جو مضحکہ خیز بات تھی۔‘‘

پونے اور اس کے آس پاس قریشی برادری سے بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے، بلکہ گئو رکشکوں کا یہی طریقہ کار ہے۔ کئی تاجروں کو اسی طرح کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگرچہ گئو رکشکوں کا کہنا ہے کہ انہیں مویشیوں کی فکر رہتی ہے اس لیے انہیں روکتے ہیں، لیکن قریشی برادری کے شکوک و شبہات بدستور قائم ہیں۔

PHOTO • Parth M.N.

’میرے بہت سے ساتھیوں نے اپنے مویشیوں کو گئو رکشکوں کے ضبط کرنے کے بعد غائب ہوتے دیکھا ہے۔ کیا وہ انہیں دوبارہ فروخت کر رہے ہیں؟ یا کوئی ریکٹ چلایا جا رہا ہے؟‘ سمیر قریشی پوچھتے ہیں۔ سال ۲۰۲۳ میں ان کے مویشیوں کو ضبط کیا گیا تھا جو کبھی واپس نہیں آئے

’’اگر ان گئو رکشکوں کو مویشیوں کی اتنی ہی فکر ہے، تو کسانوں کو نشانہ کیوں نہیں بنایا جاتا؟‘‘ پونے کے ایک تاجر ۵۲ سالہ سمیر قریشی دریافت کرتے ہیں۔ ’’وہی تو انہیں بیچ رہے ہیں۔ ہم تو انہیں صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیتے ہیں۔ ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔‘‘

اگست ۲۰۲۳ میں سمیر کو بھی ایسا ہی تجربہ ہوا تھا، جب ان کے ٹرک کو روکا گیا تھا۔ ایک مہینے بعد وہ اپنے حق میں جاری عدالتی حکم کے ساتھ اپنی گاڑی واپس لینے پورندر تعلقہ کے جھینڈے واڑی گاؤں کے گئوشالہ میں گئے تھے۔

’’لیکن جب میں وہاں پہنچا تو مجھے اپنا کوئی جانور نظر نہیں آیا،‘‘ سمیر کہتے ہیں۔ ’’میری پانچ بھینسیں اور ۱۱ بچھڑے تھے جن کی قیمت ۶ء۱ لاکھ روپے تھی۔‘‘

شام ۴ سے ۱۱ بجے کے درمیان سات گھنٹے تک سمیر صبر و تحمل کے ساتھ انتظار کرتے رہے کہ کوئی ان کے لاپتہ مویشیوں کی جانکاری دے گا۔ بالآخر پولیس افسر نے انہیں اگلے دن واپس آنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ ’’پولیس ان سے پوچھ گچھ کرنے سے ڈرتی ہے،‘‘ سمیر کہتے ہیں۔ ’’جب میں اگلے دن واپس آیا تو گئو رکشکوں کے پاس اسٹے آرڈر تیار تھا۔‘‘

سمیر نے عدالتی چارہ جوئی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مویشیوں کی قیمت سے زیادہ رقم عدالتی کارروائی پر خرچ کر دیں گے، اور جو ذہنی تناؤ ہوگا وہ الگ ہے۔ ’’لیکن میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ ہمارے ضبط شدہ مویشیوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ ’’میرے جانور کہاں تھے؟ میں تنہا نہیں ہوں جس کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ میرے بہت سے ساتھیوں نے اپنے مویشیوں کو گئو رکشکوں کے ہاتھوں ضبط ہونے کے بعد غائب ہوتے دیکھا ہے۔ کیا وہ انہیں دوبارہ فروخت کر رہے ہیں؟ یا کوئی ریکٹ چلایا جا رہا ہے؟‘‘

تاجروں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات جب گئو رکشک مویشیوں کو واپس کرتے ہیں، تو وہ عدالتی کارروائی کی مدت کے دوران جانوروں کی دیکھ بھال کے لیے معاوضہ طلب کرتے ہیں۔ پونے کے ایک اور تاجر ۲۸ سالہ شاہنواز قریشی کا کہنا ہے کہ گئو رکشک فی جانور روزانہ ۵۰ روپے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ ۱۵ جانوروں کو چند مہینوں تک رکھتے ہیں تو ان کی بازیافت کے لیے ہمیں ۴۵ ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم سالوں سے اس کاروبار میں ہیں۔ یہ ایک بڑی رقم ہے اور جبری وصولی سے کم نہیں ہے۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

پونے کے ایک تاجر شاہنواز قریشی کا کہنا ہے کہ بعض اوقات جب مویشیوں کو چھوڑا جاتا ہے، تو گئو رکشک عدالتی کارروائی کے دوران ان کی دیکھ بھال کے لیے معاوضہ طلب کرتے ہیں

پونے ضلع کے چھوٹے سے قصبہ ساسوَڑ میں ۱۴ سالہ سُمت گاوڑے نے مویشیوں کو لے جانے والے ٹرک ڈرائیور کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا مشاہدہ کیا تھا۔ یہ سال ۲۰۱۴ کا واقعہ ہے۔

’’مجھے یاد ہے کہ مجھے بھی جوش آ گیا تھا،‘‘ گاوڑے کہتے ہیں۔ ’’میں نے سوچا کہ مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔‘‘

مغربی مہاراشٹر کی اس پٹی، جس میں پونے ضلع واقع ہے، میں ۸۸  سالہ ریڈیکل ہندو قوم پرست سمبھاجی بھیڑے انتہائی مقبول ہیں۔ نوجوان لڑکوں کی ذہن سازی کرنے اور مسلم مخالف بیانیہ کے لیے سابق جنگجو مہاراجہ شیواجی کی وراثت کے مبالغہ آمیز استعمال کی ان کی تاریخ رہی ہے۔

’’میں نے ان کی تقریریں سنی ہیں، جن میں انہوں نے بتایا کہ شیواجی نے مغلوں کو، جو مسلمان تھے، کس طرح شکست دی،‘‘ گاوڑے کہتے ہیں۔ ’’انہوں نے لوگوں کو ہندو مذہب اور اپنی حفاظت کی ضرورت سے آگاہ کیا ہے۔‘‘

ایک ۱۴ سالہ ناپختہ کار لڑکے کو بھیڑے کی تقریروں نے حوصلہ بخشا۔ گاوڑے کا کہنا ہے کہ گئو رکشا کی مہم کو قریب سے دیکھنا دلچسپ تھا۔ وہ شیو پرتشٹھان ہندوستان ، جس کی بنیاد بھیڑے نے رکھی تھی، کے ایک لیڈر، پنڈت موڑک کے رابطہ میں آئے۔

ساسوَڑ میں مقیم موڑک پونے کے ایک ممتاز ہندو قوم پرست رہنما ہیں، اور فی الحال بی جے پی کے قریب ہیں۔ ساسوڑ اور اس کے آس پاس کے گئو رکشک موڑک کو رپورٹ کرتے ہیں۔

گاوڑے ایک دہائی سے موڑک کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کے مقصد سے مکمل طور پر وابستہ ہیں۔ ’’ہماری چوکسی رات ساڑھے ۱۰ بجے شروع ہوتی ہے اور صبح چار بجے تک جاری رہتی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’اگر ہمیں کچھ مشتبہ دکھائی دیتا ہے تو ہم ٹرک روکتے ہیں، ڈرائیور سے پوچھ گچھ کرتے ہیں اور اسے تھانے لے جاتے ہیں۔ پولیس ہمیشہ تعاون کرتی ہے۔‘‘

گاوڑے دن میں تعمیری مقام پر کام کرتے ہیں، لیکن ان کا کہنا ہے کہ جب سے وہ ’’گئو رکشک‘‘ بنے ہیں ان کے آس پاس کے لوگوں میں ان کی عزت بڑھ گئی ہے۔ ’’میں یہ کام پیسے کے لیے نہیں کرتا،‘‘ وہ واضح کرتے ہیں۔ ’’ہم اپنی زندگی کو داؤ پر لگاتے ہیں اور ہمارے آس پاس کے ہندو اس کا اعتراف کرتے ہیں۔‘‘

گاوڑے کہتے ہیں کہ پورندر کے صرف ایک تعلقہ، جس میں ساسوڑ گاؤں واقع ہے، میں تقریباً ۱۵۰ گئو رکشک ہیں۔ ’’ہمارے لوگ سبھی گاؤوں میں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’بھلے ہی وہ نگرانی میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں، لیکن جب بھی کوئی مشکوک ٹرک دیکھتے ہیں تو ہمیں اطلاع دے کر ہماری مدد کرتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

گئو رکشک ہر ایک جانور کی دیکھ بھال کے لیے ۵۰ روپے یومیہ کی مانگ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر چند مہینوں تک ۱۵ جانوروں کو رکھتے ہیں، تو انہیں واپس لینے کے لیے ہمیں ۴۵ ہزار روپے ادا کرنے ہوں گے،‘ شاہنواز کہتے ہیں، ’یہ جبری وصولی سے کم نہیں‘

دیہی معیشت میں گائے کی مرکزی حیثیت ہوتی ہے۔ کئی دہائیوں تک کسانوں نے ان جانوروں کو بیمہ کے طور پر پالا ہے۔ وہ شادی، علاج یا آنے والے فصل کے موسم کے لیے فوری سرمایہ اکٹھا کرنے کی غرض سے مویشیوں کی تجارت کرتے رہے ہیں۔

لیکن گئو رکشک گروہوں کے وسیع جال نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ ان کی سرگرمیاں تیزتر ہوتی جا رہی ہیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ فی الحال، شیو پرتشٹھان ہندوستان کے علاوہ، کم از کم چار اور ہندو قوم پرست گروہ ہیں جو سرگرم عمل ہیں۔ ان کے نام ہیں بجرنگ دل، ہندو راشٹر سینا، سمست ہندو اگھاڑی اور ہوے ہندو سینا ۔ ان تمام کی خونیں تشدد کی تاریخ رہی ہے اور یہ پونے ضلع میں سرگرم عمل ہیں۔

گاوڑے کہتے ہیں، ’’زمینی سطح پر سرگرم کارکن ایک دوسرے کے لیے کام کرتے ہیں۔ ہمارا ڈھانچہ لچیلا ہے۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں کیونکہ ہمارا مقصد ایک ہے۔‘‘

گاوڑے کا کہنا ہے کہ صرف پورندر میں گئو رکشک مہینے میں تقریباً پانچ ٹرک روکتے ہیں۔ چونکہ ان گروہوں کے ارکان پونے کے کم از کم سات تعلقوں میں سرگرم ہیں، لہٰذا اس کا مطلب ہے ایک ماہ میں ۳۵ ٹرک یا ایک سال میں ۴۰۰ ٹرک روکے جاتے ہیں۔

حساب تو یہی کہتا ہے۔

پونے میں قریشی برادری کے بزرگ ممبران کا اندازہ ہے کہ ۲۰۲۳ میں ان کی تقریباً ۴۰۰ سے ۴۵۰ گاڑیاں ضبط کی گئیں، اور ہر ایک میں کم از کم ۲ لاکھ روپے مالیت کے مویشی موجود تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گئو رکشکوں نے مہاراشٹر کے ۳۶ اضلاع میں سے صرف ایک میں ۸ کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے، جس سے تنگ آکر قریشی برادری اپنی دیرینہ ذریعہ معاش کو ترک کرنے پر غور کر رہی ہے۔

گاوڑے کا دعویٰ ہے کہ ’’ہم کبھی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے۔ ہم ہمیشہ قانون کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘

تاہم گئو رکشکوں کے غضب کا شکار بنے ٹرک ڈرائیور آپ کو دوسری کہانی سنائیں گے۔

*****

سال ۲۰۲۳ کے اوائل میں ایک رات کو ساسوڑ میں گئو رکشکوں نے ۲۵ بھینسوں سے لدے شبیر مولانی کے ٹرک کو روکا تھا۔ اس رات کو یاد کرتے ہوئے وہ آج بھی خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔

پونے کے شمال میں تقریباً دو گھنٹے کی دوری پر واقع  ستارہ ضلع کے بھادلے گاؤں کے رہائشی ۴۳ سالہ مولانی کہتے ہیں، ’’میں نے سوچا کہ اس رات مجھے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا جائے گا۔ اس رات میرے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور بری طرح سے مارا پیٹا گیا۔ میں نے انہیں بتانے کی کوشش کی کہ میں تو صرف ایک ڈرائیور ہوں، لیکن اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

سال ۲۰۲۳ میں شبیر مولانی کے ٹرکوں کو روکا گیا اور ان کی پٹائی کی گئی۔ اب جب بھی مولانی گھر سے نکلتے ہیں، تو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ وہ زندہ ہیں ان کی اہلیہ ثمینہ انہیں ہر آدھے گھنٹے بعد فون کرتی رہتی ہیں۔ ’میں یہ کام چھوڑنا چاہتا ہوں، لیکن میں نے ساری زندگی یہی کام کیا ہے۔ مجھے گھر چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے،‘ مولانی کہتے ہیں

زخمی مولانی کو پولیس اسٹیشن لے جایا گیا، جہاں ان پر جانوروں پر ظلم و تشدد کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ جن لوگوں نے انہیں مارا پیٹا ان سے کچھ نہیں کہا گیا۔ ’’یہاں تک کے گئو رکشکوں نے میرے ٹرک میں موجود ۲۰ ہزار روپے لوٹ لیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے پولیس کو سمجھانے کی کوشش کی۔ شروع میں انہوں نے میری باتیں سنیں۔ لیکن پھر پنڈت موڑک اپنی گاڑی میں پہنچے اور پولیس پوری طرح سے ان کے اثر میں تھی۔‘‘

مولانی، جو مہینے کے ۱۵ ہزار روپے کماتے ہیں، ایک ماہ بعد اپنے آجر کا ٹرک بازیافت کرنے میں کامیاب ہوئے، لیکن مویشی اب بھی گئو رکشکوں کی تحویل میں ہیں۔ ’’اگر ہم نے کوئی غیرقانونی کام کیا ہے تو پولیس ہمیں سزا دے۔‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’انہیں کیا حق ہے کہ وہ ہمیں سڑکوں پر ماریں پیٹیں؟‘‘

جب بھی مولانی اپنے گھر سے نکلتے ہیں، ان کی ۴۰ سالہ بیوی ثمینہ سو نہیں پاتی ہیں۔ وہ ہر آدھے گھنٹے کے بعد انہیں فون کرتی رہتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ زندہ ہیں۔ ’’آپ اس پر الزام نہیں لگا سکتے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں یہ کام چھوڑنا چاہتا ہوں، لیکن میں نے ساری زندگی یہی کام کیا ہے۔ میرے دو بچے اور ایک بیمار ماں ہیں۔ مجھے گھر چلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔‘‘

سرفراز سید، ستارا میں مقیم ایک وکیل ہیں۔ انہوں نے مولانی جیسے کئی معاملوں کی پیروی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرک روک کر گئو رکشک باقاعدگی سے نقدی لوٹ لیتے ہیں اور ڈرائیوروں کو بے رحمی سے مارتے پیٹتے ہیں۔ ’’لیکن کسی بھی معاملے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مویشیوں کی نقل و حمل ایک پرانا کاروبار ہے، اور ہمارے مغربی مہاراشٹر کے علاقے کی منڈیوں کی سب کو جانکاری ہے۔ ان کے لیے ڈرائیوروں کو ٹریک کرنا اور ہراساں کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ وہ سب ایک ہی ہائی وے پر چلتے ہیں۔‘‘

لونڈھے کا کہنا ہے کہ ملازمت کے لیے ڈرائیور تلاش کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ’’تنخواہ بہت کم اور غیرمستقل ہونے کے باوجود بہت سے لوگوں نے مزدوری کے کام پر واپس جانے کو ترجیح دی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مویشیوں کے ساتھ ٹرک چلانا اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہ بہت دباؤ والا ہے۔ اس غنڈہ راج نے دیہی معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ آج کسانوں کو ان کے مویشیوں کی کم قیمت ملتی ہے۔ تاجروں کو مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے، اور ڈرائیوروں کی کمی پہلے سے ہی دباؤ میں چل رہے لیبر مارکیٹ کو متاثر کر رہی ہے۔

’’صرف وہی لوگ پھل پھول رہے ہیں، جو امن و امان میں خلل پیدا کر رہے ہیں۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Parth M.N.

২০১৭ সালের পারি ফেলো পার্থ এম. এন. বর্তমানে স্বতন্ত্র সাংবাদিক হিসেবে ভারতের বিভিন্ন অনলাইন সংবাদ পোর্টালের জন্য প্রতিবেদন লেখেন। ক্রিকেট এবং ভ্রমণ - এই দুটো তাঁর খুব পছন্দের বিষয়।

Other stories by Parth M.N.
Editor : PARI Desk

আমাদের সম্পাদকীয় বিভাগের প্রাণকেন্দ্র পারি ডেস্ক। দেশের নানান প্রান্তে কর্মরত লেখক, প্ৰতিবেদক, গবেষক, আলোকচিত্ৰী, ফিল্ম নিৰ্মাতা তথা তর্জমা কর্মীদের সঙ্গে কাজ করে পারি ডেস্ক। টেক্সক্ট, ভিডিও, অডিও এবং গবেষণামূলক রিপোর্ট ইত্যাদির নির্মাণ তথা প্রকাশনার ব্যবস্থাপনার দায়িত্ব সামলায় পারি'র এই বিভাগ।

Other stories by PARI Desk
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam