محمد اسلم جب گرم پگھلے ہوئے پیتل کو سانچہ میں ڈھالتے ہیں، تو ہوا میں چھوٹے چھوٹے ذرات اوپر اٹھتے ہیں۔ اس طرح سے پیتل ایک ٹھوس ’چندن پیالی‘ (پوجا میں استعمال ہونے والی ایک چھوٹی سی کٹوری) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
خصوصی طور پر پیتل کی ڈھلائی کا کام کرنے والے کاریگر، محمد اسلم کے ہاتھ مضبوطی اور احتیاط سے چلتے ہیں۔ پیتل کو سانچہ میں انڈیلتے ہوئے وہ کنٹینر پر پڑ رہے دباؤ کو نوٹ کرتے ہیں، تاکہ پیتل کو شکل فراہم کرنے والی اندر کی ریت باہر نہ گرے۔
محمد اسلم (۵۵) اس پورے عمل کے بارے میں بتاتے ہیں، ’’آپ کے ہاتھوں کی پکڑ مضبوط ہونی چاہیے، ورنہ سانچہ کے اندر کا ڈھانچہ بگڑ سکتا ہے۔ ادت [ڈھالی ہوئی مصنوع] خراب ہو جائے گی۔‘‘ حالانکہ، ریت کے بکھرنے سے انہیں اتنی تشویش نہیں ہوتی جتنی ہوا میں موجود ذرات سے ہوتی ہے۔ ’’کیا آپ انہیں دیکھ پا رہے ہیں؟ یہ پیتل ہے اور برباد ہونے والا ہے۔ ہمیں اس کی لاگت برداشت کرنی ہوگی،‘‘ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اگر ۱۰۰ کلوگرام پیتل وہ ڈھالتے ہیں، تو اس میں سے تقریباً ۳ کلوگرام ہوا میں برباد ہو جاتا ہے؛ یعنی تقریباً ۵۰ روپے ہوا ہو جاتے ہیں۔
اسلم، مراد آباد کے پیرزادہ علاقے میں واقع کئی بھٹیوں میں سے ایک میں کام کرنے والے مٹھی بھر کاریگروں میں سے ایک ہیں، جو پیتل کے کام کے لیے مشہور ہیں۔ مقامی سطح پر اس کاریگری کو پیتل ڈھلائی کا کام کہا جاتا ہے، جس میں کاریگر پیتل کی پلیٹ کو پہلے پگھلاتے ہیں اور پھر انہیں الگ الگ سائز میں ڈھالتے ہیں۔
ان کے کارخانہ میں ان کے کام سے متعلق الگ الگ اشیاء جیسے کوئلہ، ریت، لکڑی کے تختے، لوہے کی چھڑیں اور الگ الگ سائز کے چمٹے وغیرہ بکھرے پڑے ہیں، جہاں اسلم اور ان کے معاون رئیس جان روزانہ ۱۲ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اسلم اس پانچ مربع فٹ کی تنگ جگہ کے لیے ہر مہینے ۱۵۰۰ روپے کا کرایہ ادا کرتے ہیں۔
اتر پردیش کے اس شہر کو پیتل نگری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جہاں پیتل کا کام کرنے والے زیادہ تر لوگ مسلم برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلم کے اندازہ کے مطابق، اس کام سے جڑے ہوئے ۹۰ فیصد لوگ مسلمان ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگ پیرزادہ علاقے میں یا اس کے آس پاس رہتے ہیں۔ مراد آباد کی مسلم آبادی، شہر کی کل آبادی کا ۱۲ء۴۷ فیصد ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔
اسلم اور رئیس جان گزشتہ پانچ سالوں سے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ علی الصبح ہی اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ وہ صبح کو ساڑھے پانچ بجے ہی اپنی بھٹی پر پہنچ جاتے ہیں اور دوپہر کے کھانے کے لیے گھر چلے جاتے ہیں۔ دونوں لوگ بھٹی کے پاس ہی رہتے ہیں۔ شام کو جب چائے پینے کا وقت ہوتا ہے، تو ان کی فیملی کا کوئی رکن دکان پر ہی چائے لے کر آ جاتا ہے۔
اسلم کہتے ہیں، ’’ہم کڑی محنت کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے کھانا کھانا نہیں چھوڑتے۔ آخر اسی کے لیے تو ہم کام کر رہے ہیں۔‘‘
رئیس جان اسلم کے معاون ہیں اور ۴۰۰ روپے یومیہ کی اجرت پر وہ ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ساتھ مل کر وہ پہلے پیتل کو پگھلاتے ہیں، اس کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور دوبارہ استعمال کے لیے آس پاس بکھری ریت کو اکٹھا کرتے ہیں۔
رئیس جان زیادہ تر بھٹی کا کام سنبھالتے ہیں، جس میں کوئلہ بھرنے کے لیے لگاتار کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ رئیس جان (۶۰) کہتے ہیں، ’’ایک آدمی یہ سارا کام نہیں کر سکتا۔ آپ کو کم از کم دو لوگوں کی تو ضرورت ہے۔ اس لیے اگر اسلم بھائی چھٹی پر چلے جائیں، تو میرا بھی کام چھوٹ جاتا ہے۔‘‘ اسلم مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’رئیس بھائی کل اپنے سسرال جا رہے ہیں اور مجھے ۵۰۰ روپے کا نقصان ہوگا۔‘‘
اسلم ہمیں بتاتے ہیں، ’’یہ تو کوئلہ ہے جو ڈھلیا کی کمر توڑ رہا ہے۔ اگر ہمیں کوئلہ آدھے داموں پر ملے، تو ہمیں کافی راحت ملے گی۔‘‘ اسلم روزانہ پیتل کی ڈھلائی کا کام ٹھیکہ پر لیتے ہیں۔
وہ مقامی فرموں سے ۵۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے پیتل کی پلیٹیں خریدتے ہیں اور ڈھلائی ہو جانے کے بعد انہیں واپس کر دیتے ہیں۔ عام طور پر پتیل کی ایک پلیٹ کا وزن آٹھ کلو کے درمیان ہوتا ہے۔
اسلم کہتے ہیں، ’’ہم ایک دن میں کم از کم ۴۲ کلو پیتل ڈھالتے ہیں، جو کہ کام کی دستیابی پر منحصر ہے۔ ہر کلو پیتل کی ڈھلائی پر ہم ۴۰ روپے کماتے ہیں، جس میں کوئلہ اور دوسرے دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔‘‘
ایک کلو کوئلہ کی قیمت ۵۵ روپے ہے اور اسلم بتاتے ہیں کہ ایک کلوگرام پیتل کو پگھلانے کے لیے ۳۰۰ گرام کوئلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اگر تمام خرچے ہٹا کردیکھو، تو ہمیں ایک کلو پیتل کی ڈھلائی سے چھ سے سات روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔‘‘
رئیس جان نے ۱۰ سال کی عمر میں کام کرنا شروع کردیا تھا اور انہیں یہ کام سیکھنے میں ایک سال لگے۔ وہ کہتے ہیں، ’’دیکھنے میں بھلے ہی یہ آسان کام لگتا ہو، لیکن یہ آسان نہیں ہے۔ سب سے مشکل یہ بات سمجھنا ہے کہ پگھلنے کے بعد پیتل کیسا برتاؤ کرتا ہے۔‘‘
وہ اس پورے عمل کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پیتل کی ڈھلائی کے دوران ہاتھوں کی پکڑ مضبوط اور متوازن ہونی چاہیے۔ ’’سارا کمال اس میں ہے کہ سانچہ کو بھرنا کیسے ہے۔ ایک نو آموز (نوسکھئے) کو معلوم نہیں ہوتا ہے کہ پگھلے ہوئے پیتل سے بھرے سانچہ کو کتنی بار پیٹنا پڑتا ہے۔ اگر یہ ٹھیک سے نہ کیا جائے، تو ادت (ڈھلائی کے بعد تیار پروڈکٹ) ٹوٹ جائے گا۔ اسی طرح، اگر ہم سانچہ کو جھٹکے سے اٹھائیں گے، تو یہ ٹوٹ جائے گا۔ ایسے حالات میں ایک ماہر کے ہاتھ فطری طور پر چلتے ہیں۔‘‘
رئیس جان کی فیملی کئی نسلوں سے پیتل کی ڈھلائی کے کام میں لگی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ میرا پشتینی کام ہے۔ یہ کام ہم گزشتہ ۲۰۰ سالوں سے کرتے آ رہے ہیں۔‘‘ لیکن، رئیس جان اکثر اپنے کاروبار کو آگے بڑھانے کے فیصلہ کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میرے والد پیتل کی ڈھلائی کا اپنا کاروبار کرتے تھے، لیکن میں تو صرف ایک دہاڑی مزدور ہوں۔‘‘
اسلم نے پیتل کی ڈھلائی کا کام ۴۰ سال پہلے شروع کیا تھا۔ شروعات میں، فیملی کا گزارہ ان کے والد کے پھل اور سبزی کے ٹھیلہ سے چلتا تھا۔ وہ اپنی فیملی کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس پیشہ میں آئے۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہاں ہر دن ایک جیسا ہوتا ہے، کبھی کچھ بھی نہیں بدلا۔ آج ہم جو ۵۰۰ روپے کماتے ہیں، وہ اتنا ہی ہے جب ہم ۱۰ سال پہلے ۲۵۰ روپے کماتے تھے۔‘‘
اسلم کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ان کی بیٹیوں کی شادی ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرے گھر میں اتنی جگہ نہیں ہے کہ میں اپنے بیٹے کی شادی کروں اور گھر میں ایک نیا ممبر لے کر آؤں۔‘‘
*****
پیرزادہ میں کام کرنے والے کاریگروں کے لیے جمعہ کو چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ اس دن تمام بھٹیاں بند کر دی جاتی ہیں، اور جو علاقہ ہر روز ہتھوڑے اور چمٹے کے شور میں ڈوبا ہوتا ہے، وہاں خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
چھٹی کے دن محمد نعیم اپنے گھر کی چھت پر پوتے پوتیوں کے ساتھ پتنگ اڑاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس سے مجھے اپنا تناؤ دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘
وہ ہفتہ کے باقی دن ایک ورکشاپ (کارخانہ) میں کام کرتے ہوئے گزارتے ہیں، جو کہ ایک بیحد تنگ گلی میں واقع ہے۔ یہ ورکشاپ اسلم اور رئیس جان کی بھٹی سے پانچ منٹ کے فاصلہ پر ہے۔ وہ گزشتہ ۳۶ سالوں سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ لوگ پیتل سے بنے ان سامانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں؟ میں نے اپنے لیے کبھی کچھ نہیں بنایا۔‘‘ اسلم اور رئیس جان کے بالکل برعکس، انہیں کام پر جانے کے لیے ۲۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، اور علی الصبح ہی کام کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ وہ روزانہ تقریباً ۸۰ روپے آنے جانے میں خرچ کرتے ہیں۔
محمد نعیم (۵۵) زیادہ تر بھٹی کا کام سنبھالتے ہیں، جب کہ ان کے تین رفیق کار ڈھلائی اور آمیزہ بنانے کا کام کرتے ہیں۔
وہ پوجا کا سامان تیار کر رہے ہیں، جس میں دیے (چراغ)، اوم کے سائز کے علامتی نشان اور دیوں کی بنیاد شامل ہیں۔ نعیم کہتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر کا استعمال مندروں میں کیا جاتا ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے ملک کے ہر مندر کے لیے پیتل کے دیے بنائے ہیں، وہ انگلیوں پر جگہوں کے نام گناتے ہیں، ’’کیرالہ، بنارس، گجرات اور بہت سی دوسری جگہوں کے لیے۔‘‘
درجہ حرارت تقریباً ۴۲ ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا ہے، لیکن نعیم گرمی کے باوجود سبھی کے لیے چائے بنانے پر زور دیتے ہیں۔ میں سب سے اچھی چائے بناتا ہوں،‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ وہ پاری کے رپورٹر سے پوچھتے ہیں، ’’کبھی آپ نے بھٹی والی چائے پی ہے؟‘‘ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی چائے اس لیے اسپیشل ہوتی ہے، کیوں کہ بھٹی کی آگ میں دودھ اور چائے کہیں بہتر طریقے سے ابلتے ہیں۔
نعیم نے اپنے بھائیوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہاں کام کرنا شروع کیا تھا، لیکن ان کی فیملی کا روایتی پیشہ کپڑے بیچنا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’وہ [اس کام سے] نکل گئے، مگر میں یہیں رہ گیا۔‘‘
نعیم کو بھی لگتا ہے کہ ہر دن ۵۰۰-۴۵۰ روپے کی کمائی کافی نہیں ہے اور وہ اکثر یہ کام چھوڑنے کے بارے میں سوچتے ہیں، ’’اگر میرے پاس پیسے ہوتے، تو میں کپڑے بیچنے واپس چلا جاتا۔ مجھے وہ کام بہت پسند تھا۔ اس میں بس آپ کو پورے دن آرامدہ کرسی پر بیٹھ کر کپڑے بیچنے ہوتے ہیں۔‘‘
*****
مشہور پیتل صنعت، مرکز اور حکومت اتر پردیش کی بڑی اسکیم ’ ایک ضلع، ایک پروڈکٹ ‘ کا حصہ ہے اور سال ۲۰۱۴ میں مراد آباد کے دھات کاریگروں کو جی آئی (جغرافیائی نشان) کا ٹیگ دیا گیا تھا۔ لیکن اس سے کاریگروں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
پیتل کی صنعت میں ڈھلائی کے کام کو سب سے زیادہ محنت طلب کام سمجھا جاتا ہے۔ کاریگر فرش پر بیٹھ کر گھنٹوں کام کرتے ہیں، اور وزنی سانچوں کو اٹھانے، ریت کو ہموار کرنے اور بھٹی میں کوئلہ بھرنے میں لگاتار اپنے ہاتھوں کا استعال کرتے ہیں اور اس درمیان انہیں آگ کے شعلوں سے بھی محتاط رہنا پڑتا ہے۔
کڑی محنت کے باوجود، اس پیشہ سے بہت کم مالی منافع ملنے کے سبب نوجوانوں کی نئی نسل ڈھلائی کے کام سے دور ہو رہی ہے۔
نوجوان عمر کے مرد زیادہ تر مینا کے کام یا دھات کی رنگائی کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کہیں زیادہ عزت بخش کام ہے، جہاں آپ کے کپڑے گندے نہیں ہوتے۔ اس شعبہ میں سلائی سے لے کر باکس میں بھرنے اور پیکجنگ کا کام شامل ہے۔
پیتل کی ڈھلائی کرنے والے ۲۴ سالہ محمد سبحان کو اپنی فیملی کی کفالت کرنے کے لیے دو کام کرنے پڑتے ہیں۔ دن میں وہ پیتل ڈھالتے ہیں اور ۳۰۰ روپے کماتے ہیں۔ جب شادیوں کا سیزن شروع ہوتا ہے، تو وہ الیکٹریشین کے طور پر کام کرتے ہیں، اور ہر شادی میں لائٹنگ کے کام کے عوض ۲۰۰ روپے کماتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’پیسے کی تنگی کے سبب میرے پاس اس کام [ڈھلائی] کو چھوڑنے کا متبادل نہیں ہے۔‘‘
رکشہ چلانے والے کے بیٹے سبحان نے ۱۲ سال کی عمر میں ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں گھر کے آٹھ بچوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہوں اور مجھ پر اپنی فیملی کی کفالت کی ذمہ داری ہے۔ کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران بچت کے پیسے ختم ہو گئے اور اب اس کام کو چھوڑنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
سبحان جانتے ہیں کہ وہ اکیلے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں۔ ’’یہاں میرے جیسے کئی نوجوان ہیں جنہیں دو دو کام کرنے پڑتے ہیں۔ اگر پریشانی آتی ہے، تو کچھ تو کرنا پڑے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت کی گئی ہے۔
مترجم: قمر صدیقی