انل کھاپرے گزشتہ تین دنوں سے پربھنی کے ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو بینک (پی ڈی سی بی) کی بوری شاخ میں جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’’آج جا کر مجھے ایک ٹوکن ملا ہے،‘‘ وہ بے بسی سے کہتے ہیں۔ ’’مجھے یہاں کل دوبارہ آنا پڑے گا اور پورا دن خراب کرنا پڑے گا۔‘‘

کھاپرے (۲۸) یہاں سے تقریباً آٹھ کلومیٹر دور، رِڈج گاؤں میں رہتے ہیں۔ بینک کے باہر اپنی باری کا شدت سے انتظار کر رہے کسانوں میں تقریباً ۱۵۰ ٹوکن تقسیم کیے گئے ہیں۔ بہت سے لوگ ٹوکن لیے بغیر ہی واپس چلے گئے۔ بینک کے اندر گرمی میں (اس سال یہاں بالکل بھی بارش نہیں ہوئی ہے) گھنٹوں کھڑے رہنے کے بعد کئی لوگوں کی باری نہیں آ پاتی –  ٹوکن رہنے کے باوجود۔

اپنی تین ایکڑ زمین میں سویابین اور کپاس کی کھیتی کرنے والے کھاپرے کافی ناراض ہیں، اور کہتے ہیں، ’’میں اپنی کھیتی باڑی چھوڑ کر بینک کے سامنے کھڑے رہ کر پورا دن برباد نہیں کر سکتا۔ مجھے ضروری دستاویزات جمع کرنے میں تین دن لگ گئے، جس میں کاشت کی جانے والی اراضی کی تفصیل، بوئی جانے والی فصلوں کی تفصیل سمیت دیگر چیزوں کا ذکر تھا۔ ان دستاویزات کو جاری کرنے والا اکاؤنٹنٹ ان دنوں کافی مصروف ہے کیونکہ اس کے پاس کسانوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، [آٹو رکشہ سے] بینک جانے میں ۴۰ روپے خرچ ہوتے ہیں اور دوپہر کے کھانے اور چائے پر بھی پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: رِڈج گاؤں کے رہنے والے انل کھاپرے کو کئی دنوں کے انتظار کے بعد ٹوکن تو مل گیا، لیکن انہیں یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ بینک میں کب داخل ہو پائیں گے

بینک کے عملے میں بھی اضافہ ہوگیا ہے کیونکہ کسان ایک کے بعد ایک، دستاویزات جمع کرانے اور خریف سیزن کے لیے اپنے فصل بیمہ پریمیم کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں۔ عملے کو دستاویزات کے ہر سیٹ کو چیک کرنے، معلومات آن لائن درج کرنے اور ایک فارم کو اپ لوڈ کرنے میں تقریباً ۱۵ منٹ لگتے ہیں۔ اس کام کے لیے دو کاؤنٹر بنے ہوئے ہیں اور ایک گھنٹہ میں ۵-۴ فارم ہی اپ لوڈ ہو پاتے ہیں۔ اس لیے بینک ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ۷۵ سے ۸۰ فارم تک ہی بھر سکتا ہے۔ اور ۴۰۰ سے زیادہ کسان باہر انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔

لیکن کھاپرے ایسے حالات میں اپنی بھڑاس نکالنے کی غلطی نہیں کر سکتے۔ ماحول تناؤ بھرا ہے۔ بینک کے سامنے ایک پولیس وین کھڑی ہے اور کچھ پولیس اہلکار لاٹھیاں لے کر مستعد ہیں، تاکہ قطار میں کسی طرح کی بد نظمی نہ ہو۔ کھاپرے کو جب ٹوکن ملا تھا اس سے ایک دن پہلے، یعنی ۲۷ جولائی کو، ۲۴ کسانوں پر بینک پر پتھراؤ کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، اور ان میں سے سات کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

انسپکٹر سنیل گیری کہتے ہیں، ’’مشتعل کسانوں کی بینک کے اہلکاروں کے ساتھ جھڑپ ہو گئی تھی۔ انہوں نے دوپہر کو [بینک کی شاخ کے بالکل سامنے] دو گھنٹے تک راستہ روک دیا۔ پولیس نے حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جب انہوں نے پتھراؤ کرنا شروع کیا، تو ہمیں بھی لاٹھی چارج کرنا پڑا۔ تین پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں اور بس کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔‘‘

یہ ۳۱ جولائی (مقررہ آخری تاریخ) سے چند دن پہلے کی بات تھی، اور کسانوں میں خوف و ہراس پھیل رہا تھا۔ ’’آپ جانتے ہی ہیں کہ بارش کتنی غیر متوقع ہو گئی ہے،‘‘ کھاپرے کہتے ہیں، جن پر بینک کا ایک لاکھ روپے کا قرض ہے۔ ’’اس سال بھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے میری آدھی فصل سوکھ گئی ہے۔ فصلوں کا بیمہ نقصانات کو کم کر دیتا ہے۔ لیکن بینک کے اہلکاروں کا رویہ ٹھیک نہیں تھا اور وہ بے حسی کا مظاہرہ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے یہ جھڑپ ہوئی۔‘‘

PHOTO • Parth M.N.

کھاپرے کہتے ہیں، ’ضروری دستاویزات جمع کرنے میں مجھے تین دن لگ گئے، جس میں کاشت کی جانے والی اراضی کی تفصیل، بوئی جانے والی فصلوں کی تفصیل وغیرہ کا ذکر تھا۔‘ اور پھر پربھنی کے بینک میں کئی دن قطار میں بھی کھڑا رہنا پڑا

فصل بیمہ پریمیم کی ادائیگی ایک سالانہ عمل ہے۔ پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کے تحت کسان، بیمہ کمپنیوں کو رقم ادا کرتے ہیں اور ریاستی حکومت کسانوں اور بیمہ کمپنیوں کے مابین پل کا کام کرتی ہے۔ بیمہ کسانوں کو شدید اور غیر متوقع موسمی حالات سے فصلوں کو ہونے والے نقصان سے بچاتا ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی یہ عمل جولائی کے وسط میں شروع ہوا۔ لیکن ایک بڑے فرق کے ساتھ: ریاستی حکومت نے فارم کو آن لائن پُر کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے سرکاری نوٹس جولائی کے پہلے ہفتہ میں ہی آنا شروع ہو گئے۔

اس سے کسانوں کے پاس آن لائن سہولیات والے بینکوں میں فارم بھرنے یا مقامی ای میل سروس سینٹرز میں جانے کا متبادل رہ گیا۔ یہ مراکز، عام طور پر نجی ٹھیکیداروں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں، سائبر کیفے کی طرح ہیں، جہاں کسان براہ راست فارم اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔ لیکن بار بار کنیکٹیویٹی کے مسائل کی وجہ سے ان مراکز کا استعمال مشکل سے ہی ہو پاتا ہے۔

پی ڈی سی بی کی بوری برانچ کے مینیجر راجیش سرودے کہتے ہیں، ’’یہاں کا سرور اس قدر ٹریفک برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ بینک کا عملہ بھی اتنا تربیت یافتہ نہیں ہے کہ وہ بروقت اور تیزی کے ساتھ فارم کو اپ لوڈ کر سکے۔ اگر ہم انہیں آف لائن قبول کرتے ہیں، جیسا کہ ہم ۲۰۱۶ تک کرتے تھے، تو فی الوقت ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان سارے فارموں کو ۳۱ جولائی سے پہلے تک اپ لوڈ کرسکیں۔ یہ ہمیں مزید مصیبت میں ڈال دے گا۔‘‘

*****

جب میں بیڈ ضلع پہنچا، تو ۳۱ جولائی کی آخری تاریخ آنے میں تین دن باقی بچے تھے۔ خوف و ہراس میں کافی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ بوجھ ناقابل برداشت ہے، ریاست نے بینکوں کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس میں انہیں آف لائن فارم بھی قبول کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ضلعی کوآپریٹو بینکوں (جہاں زیادہ تر کسانوں کے اکاؤنٹ ہیں) سے کہا گیا ہے کہ اس بوجھ کو مشترکہ طور پر بانٹیں۔ لیکن ان بینکوں کی کئی شاخوں میں اسکینر اور پرنٹر نہ ہونے کی وجہ سے فارم قبول نہیں کیے جا سکے ہیں۔ اس سے دوسرے بینکوں پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔

PHOTO • Parth M.N.

مراٹھواڑہ کے دیگر حصوں کی طرح، بیڈ ڈسٹرکٹ کوآپریٹیو بینک کی پرلی شاخ میں بھی گہری خاموشی، مایوسی اور لمبی قطاریں تھیں

بیڈ ڈسٹرکٹ کوآپریٹو بینک (بی ڈی سی بی) کی تلکھیڑ برانچ کے باہر، کسان ایک تنگ سڑک پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ بینک مینیجر گنیش مہسکے کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال انہیں ۳۰۰۰ درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ ’’میں ایک دن میں ۳۰۰-۲۵۰ [آف لائن] کرنے کے قابل ہوں،‘‘ وہ میری طرف دیکھے بغیر کہتے ہیں۔ ’’لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میں نے پچھلے سال جو کچھ کیا تھا اس کا نصف بھی قبول کرپاؤں گا [کیوں کہ آخری تاریخ کافی قریب ہے]۔‘‘

اس دوران کسانوں میں مایوسی، بینکوں میں افراتفری اور ہجوم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ بی ڈی سی بی کی پرلی برانچ میں، جب ۲۳ سالہ امیش ساتپوتے صبح ساڑھے پانچ بجے قطار میں لگنے کے لیے پہنچے، تو وہاں ۲۵۰ لوگ پہلے سے ہی موجود تھے۔ ’’میں پانچ دنوں سے پریمیم ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں نے ای میل سروس سینٹرز میں بھی کوشش کی، لیکن وہ کام نہیں آیا۔ پھر میں کل یہاں پہنچا، تو یہاں بہت زیادہ بھیڑ نظر آئی۔ اسی لیے جب میں آج صبح ساڑھے پانچ بجے آیا، تو یہاں کا نظارہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لوگ فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے تھے، اور انتظار کر رہے تھے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: پرلی گاؤں کے کسان امیش ساتپوتے پانچ دنوں سے بیمہ پریمیم ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں

ان ہی میں سے ایک ۶۵ سالہ سمبھاجی ساتپوتے ہیں۔ ’’اچھے دن آنے والے ہیں،‘‘ وہ تقریباً چیختے ہوئے کہتے ہیں، اور مجھے ایک خالی بیگ دکھاتے ہیں۔ ’’میں دو بھاکری اور سبزیاں لے کر آیا تھا۔ میں نے کل شام ہی انہیں کھا پی کر ختم کرلیا۔ تب سے میں نے کچھ نہیں کھایا ہے۔‘‘

سمبھاجی کا گاؤں سیلو، بینک سے ۱۵ کلومیٹر دور ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں دو دن سے یہیں پر ہوں۔‘‘ سمبھاجی کا سفید کرتا سڑک پر سونے کی وجہ سے پیچھے سے گندا ہوگیا ہے، ان کی آنکھیں تھکی ہوئی ہیں۔ ’’میں نے غسل نہیں کیا۔ آٹو رکشہ یا بس کا ایک طرف کا کرایہ ۲۰ روپے ہوگا۔ تو میں نے سوچا کہ یہیں پر سو جاؤں۔‘‘

لوگ قطاروں کو توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کو گالیاں بھی دے رہے ہیں۔ پولیس لاٹھی چارج کرکے نظم و نسق برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپنی ۵ء۴ ایکڑ زمین پر سویابین اور کپاس اگانے والے سمبھاجی کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنی فصل کا انشورنس حاصل کرنے کے لیے [اس سال کے شروع میں] انتظار کرنا پڑا۔ اب ہمیں اپنا پریمیم ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ عجب تماشہ لگا رکھا ہے؟ ہم کام کب کریں گے؟‘‘ وہ سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں۔

کئی کسان ۳۱ جولائی کو غروب آفتاب تک اپنی کاغذی کارروائی مکمل نہیں کر سکے ہیں۔ انہیں اپنی فصلوں کو کسی بھی انشورنس سے غیرمحفوظ چھوڑنے کے خدشات کا سامنا ہے۔ دن کا آغاز امید کے ساتھ ہوا تھا، لیکن اختتام مایوسی کے ساتھ ہو رہا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: سیلو گاؤں کے سمبھاجی ساتپوتے، جو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں کھا سکے، اور رات سڑک پر سوکر اپنے پریمیم کی ادائیگی کے انتظار میں گزار دی

*****

لیکن یکم اگست کو جب میں لاتور پہنچا، تو ایک مثبت خبر کی اطلاع ملی۔ ریاستی حکومت نے آخری تاریخ کی میعاد میں ۴ اگست تک کی توسیع کر دی ہے۔ کسانوں کو لمبی قطاروں میں اپنی قسمت آزمانے کے لیے کچھ اور دن مل گئے ہیں۔

لاتور کے جلکوٹ میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی شاخ میں، ۴۰ سالہ ناگیش کیندرے اپنی خوش نصیبی پر مسرور ہوتے ہوئے بینک سے باہر نکل رہے ہیں۔ ان کی ۱۰ ایکڑ زمین پانچ ممبران – تین بھائیوں اور ان کے والدین – کے مابین تقسیم ہے۔ بینک خاندان کے ہر فرد کے ذریعہ انفرادی طور پر فارم جمع کرانے پر زور دے رہا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’میرا بھائی یہاں سے ۵۰ کلومیٹر دور لوہا میں پڑھ رہا ہے۔ بینک والے ہمیں کئی دنوں تک قطاروں میں انتظار کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ فصل بیمہ کا پریمیم ادا کرنے کے لیے وہ اپنی پڑھائی کیسے چھوڑ سکتا ہے؟ اور خاندان کا ہر فرد فارم کیوں جمع کرائے؟ اگر دستاویزات درست ہیں، تو میں ان کی طرف سے یہ کام کیوں نہیں کر سکتا؟ سب یہاں کھڑے ہونے لگے، تو کھیت کون سنبھالے گا؟ ان ہی سب معاملے پر میری بینک والوں سے تکرار ہو گئی، بالآخر آج بینک نے اسے قبول کر لیا۔ اگر ڈیڈ لائن میں توسیع نہ کی گئی ہوتی، تو میں مشکل میں پڑ جاتا۔‘‘

تاہم، یہ راحت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پاتی۔ ۲ اگست کو صبح ۱۱ بجے، بینکوں کو ایک اور آفیشل میل موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ وہ آف لائن فارم قبول نہ کریں – حالانکہ آن لائن فارم اپ لوڈ کرنے کے لیے ۴ اگست کی آخری تاریخ ابھی باقی ہے۔ میں نے بار بار اور اچانک جاری ہونے والے فرمانوں کے تعلق سے مزید جاننے کے لیے بیڈ ضلع کی تالکھیڑ برانچ میں گنیش مہسکے کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا، ’’آج صبح تقریباً ۱۰۰ کسان بینک کے سامنے جمع تھے۔ میں ۱۶۰۰ فارم قبول کرنے میں کامیاب ہوا۔ میں نے کسانوں سے کہا کہ اب میں مزید کچھ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے پہلے تو احتجاج کیا، پھر ای میل سروس سینٹر کا رخ کرنے لگے۔‘‘

تالکھیڑ میں ای میل سروس سینٹر بینک سے چند میٹر کے فاصلے پر ہے۔ زیادہ سے زیادہ، یا تقریباً ۸-۶ افراد کی یہاں گنجائش ہے، جو یہاں پر اپنا کام کر سکتے ہیں۔ اسے سنتوش گائیکواڈ نام کا ایک نوجوان چلاتا ہے۔ ۳۰ جولائی کو انہوں نے مجھے بتایا کہ ویب سائٹ ( http://agri-insurance.gov.in ) بہت زیادہ لوڈ (بوجھ) برداشت کرنے سے قاصر ہے۔ ’’ڈاؤن لوڈ کرنا، اسکین کرنا، اپ لوڈ کرنا، آن لائن ادائیگی کرنا – ان تمام چیزوں میں کافی وقت لگتا ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’اگر کام کے درمیان سرور میں کسی طرح کی کوئی تکنیکی خرابی آ جائے، تو آپ کو پھر سے، بلکہ نئے سرے سے دوبارہ شروع کرنا پڑے گا۔‘‘ ایک ہفتہ میں دن رات سنٹر چلانے کے بعد بھی حالت یہ ہے کہ وہ صرف ۳۰ کسانوں کے فارم اپ لوڈ کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ لوگ منتظر رہے، کچھ کو امید ہاتھ لگی تو کچھ کو نا امیدی۔

پوسٹ اسکرپٹ: ریاست کے وزیر زراعت پانڈورنگ پھنڈکر نے اس نامہ نگار کو بتایا کہ ۳۱ جولائی تک صرف ۳۹ لاکھ فارم قبول کیے گئے تھے۔ ریاستی حکومت نے مارچ میں بتایا تھا کہ سال ۲۰۱۶ میں، ایک کروڑ ۹ لاکھ کسانوں نے فصل بیمہ کے لیے درخواست دی تھی، اور اسکیم سے استفادہ کرنے کے لیے آدھار کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اگرچہ حکومت نے ابھی تک ۲۰۱۷ کے حتمی اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں، لیکن درخواستوں کی تعداد اور آخری تاریخ میں محض چار دنوں کی توسیع کرکے اسے ۴ اگست تک کیے جانے سے اس بات کا امکان نہیں ہے کہ فصل بیمہ کی درخواستوں کی تعداد گزشتہ سال کے برابر ہو پائے گی۔

تاہم، پھنڈکر کا کہنا ہے کہ اعداد و شمار کو مختلف طریقے سے سمجھا جانا چاہیے: ’’پچھلے سال تک، ہم فصلوں کی تعداد کی بنیاد پر فصل بیمہ قبول کرتے تھے۔ اس لیے اگر کوئی کسان چار فصلیں اُگاتا ہے، تو اسے چار فارم پرُ کرنے پڑتے تھے۔ اس مرتبہ، ایک کسان، ایک فارم بھر رہا ہے، جس کی وجہ سے تعداد کم ہو گئی ہے۔ ہم نے صرف پانچ اگست کو آف لائن فارم قبول کیے اور اس دن ہمیں ایک لاکھ ۲۷ ہزار فارم موصول ہوئے۔ یکم اگست سے چار اگست تک ہمیں صرف آن لائن فارم موصول ہوئے۔ ہم توقع کر رہے ہیں کہ حتمی تعداد تقریباً ۷۰ لاکھ ہوگی۔‘‘

مترجم: سبطین کوثر

Parth M.N.

২০১৭ সালের পারি ফেলো পার্থ এম. এন. বর্তমানে স্বতন্ত্র সাংবাদিক হিসেবে ভারতের বিভিন্ন অনলাইন সংবাদ পোর্টালের জন্য প্রতিবেদন লেখেন। ক্রিকেট এবং ভ্রমণ - এই দুটো তাঁর খুব পছন্দের বিষয়।

Other stories by Parth M.N.
Translator : Sibtain Kauser

Sibtain Kauser is a Delhi based journalist and translator. He has also worked with central news agency and many reputed TV and news networks, digital media platforms.

Other stories by Sibtain Kauser