’’سال ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے دوران، کچھ لوگ ۲۰ء۱ ایکڑ زمین کی باؤنڈری بنانے کے لیے آئے تھے،‘‘ ۳۰ سالہ پھگوا اوراؤں کہتے ہیں، وہ ایک کھلی زمین کے چاروں طرف کھڑی ایک اینٹ کی دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہم کھونٹی ضلع کے ڈوماری گاؤں میں ہیں، جہاں بڑے پیمانہ پر اوراؤں آدیواسی برادریاں رہتی ہیں۔ ’’انہوں نے یہ کہتے ہوئے اس کی پیمائش شروع کر دی کہ یہ زمین کسی اور کی ہے، آپ کی نہیں ہے۔ ہم نے اس کی مخالفت کی۔
’’اس واقعہ کے تقریباً ۱۵ دن بعد، ہم گاؤں سے ۳۰ کلومیٹر دور کھونٹی میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے پاس گئے۔ ہر بار کے سفر پر ہمیں ۲۰۰ روپے سے زیادہ کا خرچ آتا ہے۔ ہمیں وہاں ایک وکیل کی مدد لینی پڑی۔ وہ آدمی ہم سے ۲۵۰۰ روپے لے چکا ہے۔ لیکن کچھ نہیں ہوا۔
’’اس سے پہلے، ہم اپنے بلاک کے ژونل آفس گئے تھے۔ ہم اس کی شکایت کرنے پولیس اسٹیشن بھی گئے۔ ہمیں زمین پر اپنا دعویٰ چھوڑنے کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کرّا بلاک کے ایک سخت گیر دایاں محاذ کے رکن، جو کھونٹی کے ضلع صدر بھی ہیں، نے ہمیں دھمکی دی تھی۔ لیکن کورٹ میں کوئی سماعت نہیں ہوئی۔ اب یہ دیوار ہماری زمین پر کھڑی ہے۔ اور ہم دو سال سے اسی طرح دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔
’’میرے دادا لوسا اوراؤں نے ۱۹۳۰ میں زمیندار بال چند ساہو سے زمین خریدی تھی۔ ہم اسی زمین پر کھیتی کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس زمین کے لیے ۱۹۳۰ سے ۲۰۱۵ تک کی رسید ہے۔ اس کے بعد [۲۰۱۶ میں] آن لائن سسٹم شروع کیا گیا تھا اور آن لائن ریکارڈ میں ہماری زمین کا ٹکڑا [سابق] زمیندار کے جانشینوں کے نام پر ہے، ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ یہ کیسے ہوا۔‘‘
پھگوا اوراؤں نے مرکزی حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا لینڈ ریکارڈز ماڈرنائزیشن پروگرام (ڈی آئی ایل آر ایم پی) کی وجہ سے اپنی زمین کھو دی ہے، جو ملک میں تمام زمینی ریکارڈوں کو ڈیجیٹل بنانے اور ان کے لیے مرکز کے زیر انتظام ڈیٹا بیس تیار کرنے والی ایک ملک گیر مہم ہے۔ ایسے تمام ریکارڈز کو جدید بنانے کے مقصد سے ریاستی حکومت نے جنوری ۲۰۱۶ میں ایک زمینی بینک پورٹل کا افتتاح کیا، جس میں زمین کے بارے میں ضلع وار معلومات درج کی گئیں۔ اس کا مقصد ’’زمین/جائیداد سے متعلق تنازعات کے دائرے کو کم کرنا اور زمینی ریکارڈ کے رکھ رکھاؤ کے نظام میں شفافیت پیدا کرنا تھا۔‘‘
المیہ یہ ہے کہ اس نے پھگوا اور اس کے جیسے دیگر کئی لوگوں کے لیے بالکل برعکس کام کیا ہے۔
ہم آن لائن زمین کی حالت کا پتہ لگانے کے لیے پرگیا کیندر [مرکزی حکومت کی ڈیجیٹل انڈیا اسکیم کے تحت بنائی گئی جھارکھنڈ میں عوامی سروس سنٹرز کے لیے ایک وَن اسٹاپ شاپ، جو گرام پنچایت میں فیس کے عوض عوامی خدمات فراہم کرتی ہے] گئے۔ وہاں کے آن لائن ریکارڈ کے مطابق، ناگیندر سنگھ زمین کے موجودہ مالک ہیں۔ ان سے پہلے سنجے سنگھ مالک تھے۔ اس نے زمین بندو دیوی کو فروخت کر دی، جس نے بعد میں اسے ناگیندر سنگھ کو فروخت کر دیا۔
’’ایسا لگتا ہے کہ زمینداروں کے جانشین ہماری اطلاع کے بغیر ایک ہی زمین کو دو سے تین بار خریدتے اور بیچتے رہے۔‘‘ لیکن یہ کیسے ممکن ہے، جب ہمارے پاس ۱۹۳۰ سے ۲۰۱۵ تک کی زمین کی آف لائن رسیدیں ہیں؟ ہم اب تک ۲۰ ہزار روپے سے زیادہ خرچ کر چکے ہیں اور ابھی بھی ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ پیسے کا انتظام کرنے کے لیے ہمیں گھر کا اناج بیچنا پڑا۔ ’’اب جب زمین پر کھڑی دیوار دیکھتا ہوں، تو ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے اپنا سب کچھ کھو دیا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس لڑائی میں کون ہماری مدد کر سکتا ہے۔‘‘
*****
ریاست میں زمین سے متعلق حقوق کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے۔ بڑی آدیواسی آبادی والے اس معدنیات سے مالا مال علاقے میں پالیسیاں اور سیاسی پارٹیاں ان حقوق کے ساتھ بری طرح کھلواڑ کر رہی ہیں۔ ہندوستان میں معدنیات کے ۴۰ فیصد ذخائر جھارکھنڈ میں ہیں۔
قومی مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق، ریاست میں ۷۶ء۲۹ فیصد جنگلاتی علاقہ ہے، جو ۲۳ ہزار ۷۲۱ مربع کلومیٹر میں پھیلایا ہوا ہے؛ درج فہرست قبائل (ایس ٹی) کے طور پر درج ۳۲ آدیواسی برادریاں ریاست کی آبادی کا ایک چوتھائی، یعنی تقریباً ۲۶ فیصد حصہ ہیں؛ ۱۳ ضلعوں میں پوری طرح سے ان کی موجودگی ہے اور تین ضلعوں کا احاطہ جزوی طور پر پانچویں شیڈول علاقوں (ایف ایس اے) کے تحت ہوتا ہے۔
ریاست میں آدیواسی برادریاں آزادی کے پہلے سے ہی اپنے وسائل پر حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، جو ان کے زندگی بسر کرنے کے روایتی سماجی و ثقافتی طریقوں سے گہرائی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ پچاس برسوں سے بھی زیادہ عرصے تک ان کی اجتماعی جدوجہد کے نتیجہ میں ہی حقوق کا پہلا ریکارڈ، ۱۸۳۳ میں حقوق نامہ منظر عام پر آیا۔ یہ ہندوستانی جدوجہد آزادی سے ایک صدی قبل آدیواسیوں کے اجتماعی زرعی حقوق اور مقامی سیلف گورننس کی باقاعدہ منظوری تھی۔
اور ایس اے ایس کی آئینی بحالی سے بہت پہلے، ۱۹۰۸ کے چھوٹا ناگپور ٹیننسی ایکٹ (سی این ٹی ایکٹ) اور سنتال پرگنہ ٹیننسی ایکٹ (ایس پی ٹی ایکٹ) ۱۸۷۶ نے آدیواسی (ایس ٹی) اور آبائی باشندوں (ایس سی، بی سی اور دیگر) کے زمینوں کے حق کو منظوری دی تھی۔ یہ تمام خصوصی علاقے ہیں۔
*****
پھگوا اوراؤں اور ان کی فیملی اپنے معاش کے لیے اپنے آباء و اجداد کے ذریعہ زمیندار سے خریدی گئی زمین پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ، ان کے پاس ۵۰ء۱ ایکڑ بھوئیں ہری زمین ہے جو ان کے اوراؤں آباء و اجداد کی ہے۔
ایک ایسے خاندان کے جانشین، جن کے آباء و اجداد نے جنگلوں کو صاف کر کے زمین کو دھان کے کھیتوں میں تبدیل کر دیا اور گاؤں قائم کیے، اجتماعی طور پر ایسی زمین کے مالک ہیں، جسے اوراؤں علاقوں میں بھوئیں ہری اور مُنڈا آدیواسیوں کے علاقوں میں مُنڈاری کھونٹ کٹّی کے طور پر جانا جاتا ہے۔
پھگوا کہتے ہیں، ’’ہم تین بھائی ہیں۔ ہم تینوں کی فیملی ہے۔ بڑے بھائی اور منجھلے بھائی، دونوں کے تین تین بچے ہیں اور میرے دو بچے ہیں۔ فیملی کے ممبران کھیتوں اور پہاڑی زمینوں پر کھیتی کرتے ہیں۔ ہم دھان، باجرہ، اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔ ہم اس کا آدھا حصہ کھاتے ہیں اور جب ہمیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے تو آدھا فروخت کر دیتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
علاقے میں کھیتی سال میں ایک بار ہوتی ہے۔ باقی وقت میں انہیں زندہ رہنے کے لیے کرّا بلاک یا اپنے گاؤں میں اور اس کے ارد گرد مزدوری کرنی پڑتی ہے۔
ڈیجیٹائزیشن اور اس کے مسائل ایسی خاندانی ملکیت والی زمین سے کہیں آگے تک جاتے ہیں۔
تقریباً پانچ کلومیٹر دور ایک دوسرے گاؤں، کوسمبی میں، بندھو ہورو اپنی اجتماعی زمین کی کہانی سناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جون ۲۰۲۲ میں کچھ لوگ آئے اور ہماری زمین کی گھیرابندی کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ وہ جے سی بی مشین لے کر آئے تھے، تبھی گاؤں کے سبھی لوگ باہر آ گئے اور انہیں روکنے لگے۔‘‘
اسی گاؤں کی ۷۶ سالہ فلورا ہورو بھی کہتی ہیں، ’’گاؤں کے تقریباً ۲۵-۲۰ آدیواسی آئے اور کھیتوں میں بیٹھ گئے۔ لوگوں نے کھیتوں کی جُتائی بھی شروع کر دی۔ زمین خریدنے والے فریق نے پولیس کو بلایا۔ لیکن گاؤں کے لوگ شام تک بیٹھے رہے اور بعد میں، کھیتوں میں سرگوجا [گوئی زوٹیا ایبیسینکا] بویا گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
گرام پردھان وکاس ہورو (۳۶) تفصیل سے بتاتے ہیں، ’’کوسمبی گاؤں میں ۸۳ ایکڑ زمین ہے، جسے مجھیہس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ گاؤں کی ’خصوصی درجہ والی‘ زمین ہے، جسے آدیواسی برادریوں نے زمیندار کی زمین کے طور پر الگ کر دیا تھا۔ گاؤں کے لوگ اس زمین پر اجتماعی طور پر کھیتی کرتے رہے ہیں اور فصل کا ایک حصہ زمیندار کی فیملی کو سلامی کی شکل میں دیتے رہے ہیں۔‘‘ ریاست میں زمینداری سسٹم ختم ہونے پر بھی غلامی ختم نہیں ہوئی۔ ’’آج بھی،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’گاؤوں میں کئی آدیواسی اپنے حقوق کو نہیں جانتے ہیں۔‘‘
کسان سیتینگ ہورو (۳۵)، جن کی فیملی ان کے تین بھائیوں کی طرح اپنے گزر بسر کے لیے اپنی دس ایکڑ مشترکہ ملکیت والی زمین پر منحصر ہے، کے پاس بتانے کے لیے ایک جیسی ہی کہانی ہے۔ ’’شروعات میں ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ زمینداری نظام کے خاتمہ کے ساتھ، مجھیہس زمین اُن لوگوں کے پاس واپس چلی جاتی ہے جو اجتماعی طور پر ان کھیتوں پر کھیتی کر رہے تھے۔ اور چونکہ ہمیں معلوم نہیں تھا، اس لیے ہم کھیتی کے بعد سابق زمیندار کے جانشینوں کو کچھ اناج دے دیتے تھے۔ جب انہوں نے ایسی زمین کو غیر قانونی طریقے سے بیچنا شروع کیا، تبھی ہم نے خود کو متحد کیا اور زمین بچانے کے لیے سامنے آئے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
سینئر ایڈووکیٹ رشمی کاتیاین بتاتے ہیں، ’’بہار اصلاح اراضی قانون ۵۵-۱۹۵۰ کے درمیان نافذ کیا گیا تھا۔ زمین میں زمینداروں کے تمام مفادات – بنجر زمین کو پٹّہ پر دینے کا حق، لگان اور ٹیکس وصول کرنے کا حق، بنجر زمین پر نئی رعیتوں کو بسانے کا حق، گاؤں کے بازاروں اور گاؤں کے میلوں وغیرہ سے ٹیکس جمع کرنے کا حق تب حکومت کے پاس تھا، سوائے اُن زمینوں کے جن پر سابق زمینداروں کے ذریعہ کھیتی کی جا رہی تھی۔
’’سابق زمینداروں کو ایسی زمین کے ساتھ ساتھ اپنی ’خصوصی درجہ والی‘ زمین، جسے مجھیہس کہا جاتا ہے، کے لیے ریٹرن داخل کرنا تھا۔ لیکن انہوں نے ایسی زمین کو اپنا مان لیا اور اس پر کبھی ریٹرن داخل نہیں کیا۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ زمینداری نظام ختم ہونے کے کافی عرصے بعد تک بھی وہ گاؤوں والوں سے آدھا آدھا حصہ لیتے رہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ڈیجیٹائزیشن کے ساتھ زمین کی لڑائی بڑھ گئی ہے،‘‘ ۷۲ سالہ کاتیاین کہتے ہیں۔
کھونٹی ضلع میں سابق زمینداروں کے جانشینوں اور آدیواسیوں کے درمیان بڑھتے تنازعات پر بات کرتے ہوئے ۴۵ سالہ وکیل انوپ مِنج کہتے ہیں، ’’زمینداروں کے جانشینوں کے پاس نہ تو لگان کی رسید ہے اور نہ ہی ایسی زمینوں پر قبضہ، لیکن وہ ایسی زمینوں کی آن لائن نشاندہی کر رہے ہیں اور انہیں کسی نہ کسی کو فروخت کر رہے ہیں۔ چھوٹا ناگپور ٹیننسی ایکٹ، ۱۹۰۸ کے تحویلی حق کی دفعہ کے مطابق، جو آدمی ۱۲ سالوں سے زیادہ عرصے سے زمین پر کھیتی کر رہا ہے اسے اپنے آپ ہی مجھیہس زمین کا مالکانہ حق مل جاتا ہے۔ ایسی زمین پر کھیتی کرنے والے آدیواسیوں کا حق ہے۔‘‘
متحدہ پڑہا کمیٹی گزشتہ چند برسوں میں سرگرم رہی ہے، جو آدیواسی سیلف گورننس کے روایتی جمہوری پڑہا نظام کے تحت ان زمینوں پر کھیتی کرنے والے آدیواسیوں کو متحد کر رہی ہے، جہاں پڑہا میں ۱۲ سے ۲۲ گاؤوں تک کے گروپ شامل ہیں۔
کمیٹی کے ۴۵ سالہ سماجی کارکن الفریڈ ہورو کہتے ہیں، ’’کھونٹی ضلع کے کئی علاقوں میں یہ لڑائی چل رہی ہے۔ زمیندار کے جانشین تورپا بلاک میں ۳۰۰ ایکڑ زمین پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ضلع کے کرّا بلاک کے تیئو گاؤں میں ۲۳ ایکڑ، پڑگاؤں گاؤں میں ۴۰ ایکڑ، کوسمبی گاؤں میں ۸۳ ایکڑ، مدھوگاما گاؤں میں ۴۵ ایکڑ، میہا گاؤں میں ۲۳ ایکڑ، چھاتا گاؤں میں اب تک ۹۰ ایکڑ زمین متحدہ پڑہا کمیٹی کے پاس ہے۔ تقریباً ۷۰۰ ایکڑ آدیواسی زمینیں بچائی گئی ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
کمیٹی آدیواسیوں کے درمیان ان کے زمین سے متعلق حقوق کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے، انہیں کھتیان دکھا رہی ہے – جو ۱۹۳۲ کے زمین کے سروے کی بنیاد پر اجتماعی اور ذاتی ملکیت والی زمینوں کا ریکارڈ ہے۔ اس میں کس زمین پر کس کا حق ہے اور زمین کی نوعیت کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ جب گاؤں کے لوگ کھتیان دیکھتے ہیں، تو انہیں پتہ چلتا ہے کہ جس زمین پر وہ اجتماعی طور پر کھیتی کر رہے تھے اس کے مالک ان کے آباء و اجداد تھے۔ یہ سابق زمینداروں کی زمین نہیں ہے اور زمینداری نظام بھی ختم ہو گیا ہے۔
کھونٹی کے میرلے گاؤں کی اِپیل ہورو کہتی ہیں، ’’ڈیجیٹل انڈیا کے ذریعہ لوگ زمین کے بارے میں تمام معلومات آن لائن دیکھ سکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ لڑائی بڑھ گئی ہے۔ یوم مزدور، یکم مئی ۲۰۲۴ کو کچھ لوگ باؤنڈری بنانے آئے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گاؤں کے پاس مجھیہس زمین خریدی ہے، گاؤں کے ۶۰ مرد اور عورتیں ایک ساتھ آئے اور انہیں روکا۔
’’سابق زمینداروں کے جانشین مجھیہس زمین کو آن لائن دیکھ سکتے ہیں۔ وہ ابھی بھی ایسی زمینوں کو اپنا ’خصوصی درجہ والا‘ قبضہ مانتے ہیں اور انہیں غیر قانونی طریقے سے فروخت کر رہے ہیں۔ ہم اپنی مشترکہ طاقت سے ان کی زمین ہڑپنے کی مخالفت کر رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس مُنڈا گاؤں میں کل ۳۶ ایکڑ زمین مجھیہس زمین ہے، جس پر گاؤں کے لوگ کئی نسلوں سے اجتماعی کھیتی کرتے آ رہے ہیں۔
بھروسی ہورو (۳۰) کہتی ہیں، ’’گاؤں کے لوگ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس ملک میں کیا قانون بنتے اور بدلتے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ بہت ساری باتیں جانتے ہیں۔ لیکن اس علم سے وہ کم جانکاری والے لوگوں کو لوٹ لیتے ہیں، انہیں پریشان کرتے ہیں، اسی لیے آدیواسی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘
نہ صرف اطلاعات، بلکہ ’ڈیجیٹل انقلاب‘ بھی بجلی کی کم سپلائی اور خراب انٹرنیٹ کنیکٹویٹی والے علاقوں میں رہنے والے تمام مستفیدین تک نہیں پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر، جھارکھنڈ میں دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی پہنچ صرف ۳۲ فیصد دیکھی گئی ہے۔ اس میں ملک میں پہلے سے موجود طبقہ، صنف، ذات اور آدیواسی کی تقسیم کے سبب بڑھی ڈیجیٹل تقسیم کو بھی جوڑ لیں۔
نیشنل سیمپل سروے (این ایس ایس ۷۵واں دور – جولائی ۲۰۱۷ تا جون ۲۰۱۸) میں کہا گیا ہے کہ جھارکھنڈ کے آدیواسی علاقوں کے صرف ۳ء۱۱ فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہے اور ان میں سے دیہی علاقوں میں صرف ۱۲ فیصد مرد اور ۲ فیصد عورتیں ہیں، جو انٹرنیٹ چلانا جانتے ہیں۔ دیہی باشندوں کو خدمات کے لیے ’پرگیا کیندروں‘ پر منحصر رہنا پڑتا ہے، جس کے بارے میں پہلے ہی دس ضلعوں کے سروے میں تذکرہ کیا جا چکا ہے۔
کھونٹی ضلع کے کرّا بلاک کی سرکل آفیسر (سی او) وندنا بھارتی تھوڑے تذبذب کے ساتھ بات کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’سابق زمینداروں کے جانشینوں کے پاس زمین کے کاغذات ہیں، لیکن یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ زمین پر قبضہ کس کا ہے۔ زمین پر آدیواسیوں کا قبضہ ہے اور وہ ہی زمین پر کھیتی کرتے رہے ہیں۔ اب یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ ہم عام طور پر ایسے معاملوں کو عدالت میں لے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی سابق زمینداروں کے جانشین اور لوگ خود ہی معاملے کو حل کر لیتے ہیں۔‘‘
سال ۲۰۲۳ میں، اکنامک اینڈ پولیٹکل ویکلی میں جھارکھنڈ کی مقامی رہائشی پالیسی پر شائع ایک تحقیقی مقالہ میں کہا گیا ہے، ’’…ہر ایک ڈیجیٹل زمینی ریکارڈ محصولات اراضی کو پرائیویٹ پراپرٹی ریجیم میں تبدیل کر رہا ہے، جو اجتماعی زمین کے حقوق کو درج کرنے کے روایتی/کھتیانی نظام کو نظر انداز کر رہا ہے، جو سی این ٹی ایکٹ کے تحت دیا گیا ہے۔‘‘
محققین نے کھاتہ یا پلاٹ نمبر، رقبہ، اور زمین کے مالکوں کے بدلے ہوئے نام اور قبائل/ذاتوں کے لیے غلط اندراج کے ساتھ ساتھ زمین کی دھوکہ دہی والی فروخت کو قبول کیا ہے، جس کے سبب گاؤں والوں کو آن لائن درخواست دینے کے لیے در در بھٹکنا پڑ رہا ہے، تاکہ ریکارڈ ٹھیک کیے جا سکیں اور اپ ڈیٹ کیے جائیں – لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اور اب جب زمین کسی اور کے نام پر ہے، تو وہ متعلقہ ٹیکسوں کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہیں۔
’’اس مشن کے اصلی مستفیدین کون ہیں؟‘‘ ایکتا پریشد کے قومی رابطہ کار رمیش شرما پوچھتے ہیں۔ ’’کیا زمین کے ریکارڈ کا ڈیجیٹائزیشن ایک جمہوری عمل ہے؟ بے شک ریاست اور دیگر طاقتور لوگ سب سے بڑے مستفیدین ہیں، جو اس مشن کے مجموعی نتائج کا مزہ لے رہے ہیں، جیسے کہ زمیندار، زمین مافیا اور بچولیے ایسا کرتے تھے۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ روایتی زمین اور حد بندی کو سمجھنے اور پہچاننے میں مقامی انتظامیہ کو جان بوجھ کر لاچار بنایا گیا ہے، جو انہیں غیر جمہوری اور طاقتوروں کے حق میں کھڑا کرتا ہے۔
بسنتی دیوی (۳۵) آدیواسی برادریوں کے جس خوف کا اظہار کرتی ہیں وہ کسی کے تصور سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہ گاؤں چاروں طرف سے مجھیہس زمین سے گھرا ہوا ہے۔ یہ ۴۵ خاندانوں کا گاؤں ہے۔ لوگ پر امن طریقے سے رہتے ہیں۔ چونکہ ہم ایک دوسرے کے تعاون سے رہتے ہیں، اس لیے گاؤں اسی طرح چلتا ہے۔ اب اگر چاروں طرف کی زمین غیر قانونی طریقے سے فروخت کر دی جائے گی، باؤنڈری بنا دی جائے گی، تو ہماری گائے، بیل، بکریاں کہاں چریں گی؟ گاؤں پوری طرح سے بند ہو جائے گا، ہم یہاں سے دوسری جگہ نقل مکانی کرنے کو مجبور ہو جائیں گے۔‘‘
مضمون نگار سینئر ایڈووکیٹ رشمی کاتیاین سے ملی گہری معلومات اور مدد کے لیے ان کی بیحد ممنون ہیں، جنہوں نے ان کی تحریر کو مضبوط کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز