وارلی قبیلے کو بھلے ہی ان کے فن (جو مخصوص ہندسی تصویروں پر مشتمل ہوتا ہے) کے لیے جانا جاتا ہو، لیکن شمالی ممبئی کے سنجے گاندھی نیشنل پارک (ایس جی این پی) کی بستیوں میں لکڑی، اینٹوں اور اسبسطوس کے معمولی گھروں میں رہنی والی یہ برادری اس فن کو بھلا چکی ہے۔

راول پاڑہ کی رہنے والی آشا کاولے کہتی ہیں، ہم میں ’’اب صرف ایک ہی وارلی فنکار بچا ہے۔ باقی لوگ زندگی کے سرے جوڑنے میں مصروف ہیں۔‘‘ نہ تو ۴۳ سالہ آشا کو اور نہ ہی ان کے دو چھوٹے بھائیوں کو اس فن کی تعلیم دی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ اہم تھا۔‘‘

مصوری کے اس فن کے واحد فنکار ۲۵ سالہ دنیش برپ ہیں، جو کہ نوا پاڑہ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں، اور آشا کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’وارلی برادری کو اب اپنے ہی فن میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔‘‘ دنیش نے اپنی دادی سے مصوری سیکھی تھی۔ ان کی والدہ شامو ایک بال واڑی (بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی) کارکن ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی والدہ سے اس فن کا سبق لیا تھا، لیکن، وہ کہتے ہیں، ’’وہ اس کی مشق پر اپنا وقت صرف نہیں کر سکتی تھیں، کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘

اس کے علاوہ، آشا کہتی ہیں کہ ایک طویل عرصے سے نیشنل پارک کی وارلی برادری ’’[بے دخلی کے] خوف میں زندگی گزار رہی ہے۔ وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی وقت بے دخل کر دیں گے۔ اس کے بعد ہم کیا کریں گے؟ ہمیں کسی نامعلوم جگہ پر نیا گھر بنانا پڑے گا،‘‘ حالانکہ آشا کا خاندان ’’اس زمین پر سات نسلوں سے آباد ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’مجھے جس چیز کو لے کر غصہ آتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ہماری زمین چھینی اور اسی زمین پر ہمیں چھوٹی موٹی نوکریاں دیں گویا وہ ہم پر احسان کر رہے ہیں۔‘‘

Asha Kaole showing her property tax receipts dating back to 1968
PHOTO • Apekshita Varshney

آشا کاولے کے پاس ۱۹۶۸ میں ادا کیے گئے پراپرٹی ٹیکس کی رسیدیں موجود ہیں، حالانکہ وہ کہتی ہیں کہ ان کا خاندان یہاں ’سات نسلوں‘ سے آباد ہے

اگرچہ وارلی برادری کے کئی افراد ایس جی این پی میں نگراں، محافظ، دہاڑی مزدور اور باغبانوں کے طور پر کام کرتے ہیں، لیکن یہ بحث جاری ہے کہ آیا انہیں پارک کے اندر رہنا چاہیے یا نہیں۔ یہ جھگڑا ۱۹۹۷ کے عدالتی حکم کے بعد سے چل رہا ہے

بطور مزدور کام کرنے والوں میں آشا کے شوہر بھی شامل تھے، جن کا تقریباً ایک دہائی قبل انتقال ہوگیا۔ آشا کی پیدائش ایس جی این پی کے اندر ہوئی تھی، اور پانچ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کے ساتھ بوریولی کے بازار میں خشک لکڑی اور سبزیاں بیچنا شروع کر دیا تھا۔ نوعمری میں ہی انہوں نے ایک پیکیجنگ فیکٹری میں کام کیا تھا۔ ۲۰۰۱ سے وہ پارک کے نیچر انفارمیشن سینٹر میں باغبانی، صفائی، اور کبھی کبھی زائرین کے سوالات کا جواب دینے کے کام پر مامور ہیں۔ دن میں ۱۰ گھنٹے سے زیادہ وقت کام کرنے کے عوض انہیں ماہانہ ۷۰۰۰  روپے ملتے ہیں۔

ایس جی این پی کے پاڑوں (بستیوں) میں وارلیوں کا اندازہ ہے کہ ان کی برادری کے تقریباً ۲۰۰۰ سے ۳۰۰۰  افراد اس پارک کے احاطے میں آباد ہیں۔ یہ پارک ۱۰۳ مربع کلومیٹر کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ ایس جی این پی کی ویب سائٹ بتاتی ہے کہ ان جنگلات کو ۱۹۵۰ میں کرشنا گری نیشنل پارک کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ مزید زمین کے اضافے کے ساتھ یہ ۱۹۶۸ میں بوریولی نیشنل پارک بن گیا۔ جبکہ ۱۹۸۱ میں اس کا نام سنجے گاندھی نیشنل پارک رکھ دیا گیا۔ یہ قبائل، جنہیں مردم شماری میں ایک درج فہرست قبائل کے طور پر ’وارلی‘ کے نام سے درج کیا گیا ہے، مہاراشٹر کے دیگر حصوں بشمول نالاسوپارہ، جوہار، دہانو اور دھولے کے ساتھ ساتھ گجرات اور دادرا اور نگر حویلی میں بھی آباد ہیں۔

ممکن ہے ان کے پاس پچھلی کئی نسلوں سے یہاں آباد ہونے کا ثبوت نہ ہو، لیکن آشا کے پاس ۱۹۶۸ میں بمبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) کو ادا کیے گئے پراپرٹی ٹیکس کی رسید موجود ہے۔ وہ کہتی ہیں، اس کے باوجود ’’ہمیں پکے گھر بنانے کی اجازت نہیں ہے اورہم میں سے بہتوں کے گھروں میں بیت الخلاء، گیس کنکشن یا پانی کی فراہمی نہیں ہے۔‘‘

لکشمی وارکھنڈے، جو کیلڈا پاڑہ میں رہتی ہیں، آشا کی شکایات کی تائید کرتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی شکایت ان کے گاؤں میں کمیونٹی ٹوائلٹس کی کمی ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو رفع حاجت کے لیے جنگل کا رخ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ لکشمی کی عمر ۶۰ سال ہے۔ وہ پارک میں عارضی گارڈن کلینر کے طور پر کام کرتی ہیں، جس سے انہیں ماہانہ ۸۰۰ روپے ملتے ہیں۔ اپنی کفالت کے لیے وہ اپنے بیٹے پر انحصار کرتی ہیں، جو ایس جی این پی کی سفاری کی دیکھ بھال کے کام پر مامور ہیں۔

Shamu Barap sitting in her house
PHOTO • Apekshita Varshney
Warli painting
PHOTO • Apekshita Varshney

نوا پاڑہ کی شامو برپ کہتی ہیں، ’ہمیں پکی عمارتوں میں رہنے کے لیے نہ بھیجیں۔‘ ان کے بیٹے دنیش نیشنل پارک میں رہنے والی برادری کے واحد وارلی فنکار ہیں

یہاں کے دیگر خاندانوں کی طرح، وارکھنڈوں کو بھی صرف ساجھے نل کے پانی تک رسائی حاصل ہے۔ وہ لکڑی کے استعمال سے چولہے پر کھانا پکاتے ہیں۔ اور یہاں کے زیادہ تر خاندانوں کی طرح وہ بھی اپنے بجلی کے کنکشن منقطع ہونے کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ وہ محکمہ جنگلات کے ’بجلی کی تقسیم کا فارمولہ‘ استعمال کرتے ہوئے قریبی کھمبے یا پوائنٹ سے کنکشن حاصل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ۷ سے ۸ فیملیز جو اس زبانی معاہدے میں شامل ہوتی ہیں وہ مل کر بل میں حصہ درای ادا کرتی ہیں۔

اگرچہ آشا، لکشمی اور ان کی فیملی کی طرح وارلی برادری کے بہت سے لوگ ایس جی این پی میں بطور نگراں، محافظ، یومیہ مزدور اور باغبان کام کرتے ہیں، لیکن یہ بحث جاری ہے کہ آیا انہیں پارک کے اندر رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے یا نہیں۔ وارلیوں اور ریاست کے درمیان جھگڑے کی شروعات ۱۹۹۷ کے بمبئی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد سے ہوئی تھی۔ ۱۹۹۵ میں بامبے ماحولیاتی ایکشن گروپ کی طرف سے مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کی گئی تھی، جس میں محکمہ جنگلات کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تقریباً ۴ لاکھ لوگ اس پارک کی حدود میں رہتے ہیں۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ جو لوگ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ ۱۹۹۵ سے پہلے سے یہاں آباد ہیں، وہ ۷۰۰۰ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کے بعد  بازآبادکاری کے مستحق ہوں گے۔ باقیوں کو بے دخل کر کے ان کے بجلی اور پانی کے کنکشن کاٹ دیے جائیں۔

اسسٹنٹ کنزرویٹر آف فاریسٹ اور ایس جی این پی کی ترجمان کلپنا ٹیمگیرے کہتی ہیں کہ اب تک ۱۱۳۸۰  خاندانوں، جو بازآبادکاری کے لیے اہل ہیں، کو چاندیولی میں مکانات دیے گئے ہیں، اور ۱۳۶۹۸ انتظار کی فہرست میں ہیں۔ مئی ۲۰۰۲ کی ایک رپورٹ بعنوان ’انوائرنمنٹل مینجمنٹ پلان فار سنجے گاندھی نیشنل پارک، بوریولی‘ میں بتایا گیا ہے کہ ۱۹۹۷ میں تجاوزات والے پارک کے علاقے میں کل ۶۷ ہزار جھونپڑیاں تھیں اور سال ۲۰۰۰ تک ان میں سے ۴۹ ہزار جھونپڑیوں کو ہٹا دیا گیا تھا۔

Navapada view
PHOTO • Apekshita Varshney
portrait of a women
PHOTO • Apekshita Varshney

لکشمی وارکھنڈے کی سب سے بڑی شکایت پاڑوں میں بیت الخلاء کی عدم موجودگی ہے، پارک میں آباد دیگر خاندانوں کی طرح ان کو بھی صرف کمیونٹی کے پانی کے نل تک رسائی حاصل ہے

یہاں کے زیادہ تر وارلیوں کے پاس ۱۹۹۵ سے پہلے کی رہائش کے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو جرمانہ ادا کرنے کے متحمل نہیں تھے (یا ادا کرنا نہیں چاہتے تھے) وہ ایس جی این پی کے اندر ہی رہتے ہیں۔ اس میں آشا کی فیملی بھی شامل ہے، جو دو بیٹوں، دو بہوؤں اور پانچ پوتوں پر مشتمل ہے۔ وہ ۷۰۰۰ روپے ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں، اور ایسی جگہ منتقل ہونا بھی نہیں چاہتی تھیں جہاں ’’تازہ ہوا اور کھلی جگہوں کو کھڑکی اور گرل سے بدل دیا جائے۔‘‘

شامو برپ یاد کرتی ہیں، ۱۹۹۷ میں ’’ہم اپنے جنگل سے باہر نکل کر ۲۲۰ مربع فٹ کے فلیٹ میں آباد نہیں ہونا چاہتے تھے۔ گویا ہمارا نہ تو کوئی گاؤں تھا نہ کوئی ملک۔‘‘ شامو کی ۲۸ سالہ بہو، مانسی پوچھتی ہیں، ’’اپنی ہی زمین کے لیے ہم سے ۷۰۰۰ روپے جرمانے کی توقع کیوں کی گئی؟‘‘ اپنی سلائی مشین سے مانسی جوٹ کے تھیلے اور دستکاری کی دیگر مصنوعات تیار کرتی ہیں اور ان مصنوعات کو ایک مقامی این جی او کے ذریعے فروخت کرتی ہیں۔ اس سے انہیں ۵۰ سے ۲۰۰ روپے یومیہ آمدنی ہو جاتی ہے۔

نوا پاڑہ کی برپ فیملی اس بستی کی معدودے چند فیملیز میں سے ایک ہے جن کے گھروں کے اندر ٹوائلٹ، گیس اور پانی کا  کنکشن موجود ہے۔ ۴۷ سالہ شامو، ۳۳ سال پہلے ۳۵  کلومیٹر دور نالاسوپارہ سے ایس جی این پی کے بوریولی کے داخلی دروازے سے ۱۴ سالہ دلہن کے روپ میں نواپاڑہ میں اپنی آمد کو یاد کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میری ساس نے مجھے اس جگہ سے متعارف کرایا جہاں ان کے کھیت ہوتے تھے۔‘‘

ایک سال بعد جب ان کا پہلا بچہ پیدا ہوا، تو وہ اسے پڑھانا چاہتی تھیں۔ لیکن، وہ کہتی ہیں، ’’ہماری ذات میں تعلیم نہیں تھی۔‘‘ ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں جب ایک این جی او نے ایس جی این پی کے اندر ایک بال واڑی شروع کی تو شامو نے اس میں باورچی کے طور شمولیت اختیار کی، اور وہاں کام کرنا جاری رکھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’یہاں ۲۰۰۰ کی دہائی کے اوائل سے ہی باقی لوگوں نے اپنے بچوں کو اسکول میں پڑھانا شروع کیا تھا۔‘‘ تاہم، تعلیم کی عدم موجودگی کا مطلب روایتی فن کی موجودگی نہیں تھا۔ شامو کہتی ہیں، ’’ہماری مالی مشکلات نے ہمیں برش چھوڑنے اور درانتی، بیلچہ اور جھاڑو اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘

a women is standing
PHOTO • Apekshita Varshney
A women sitting at her doorstep with her child
PHOTO • Apekshita Varshney

’ہم سے یہ توقع کیوں کی گئی کہ ہم اپنی ہی زمین کے لیے جرمانہ ادا کریں گے؟‘ مانسی برپ (بائیں) پوچھتی ہیں، جبکہ آرتی ٹوکرے (دائیں) کو لگتا ہے کہ باہر جانے سے مزید مواقع مل سکتے ہیں

ایس جی این پی کے تمام وارلیوں میں صرف دنیش، جو شامو کے چار بیٹوں میں سب سے چھوٹے ہیں، مصوری سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ وہ روایتی وارلی مواد اور رنگوں، جیسے مٹی، گائے کا گوبر، سرخی مائل مٹی استعمال کرتے ہیں اور دن میں چھ سے سات گھنٹے کینوس اور ساڑیوں پر تصویریں بناتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کو آن لائن اور صارفین کے نیٹ ورک کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اندورن ملک اور بیرون ملک کے زائرین کے تبصروں کا ایک لاگ بک بھی رکھتے ہیں (لیکن اس کام سے اپنی آمدنی کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے)۔ دنیش بچوں کو بھی وارلی پینٹنگ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگرچہ لکشمی وارکھنڈے کو اب بھی یقین ہے کہ ’’پینٹنگ سے انہیں کھانا نہیں مل سکتا،‘‘ لیکن شامو پر امید ہیں کہ ’’نوجوان نسل اپنی برادری کے فن کو زندہ رکھنے میں مدد کر سکتی ہے۔‘‘

دریں اثنا، وارلیوں کے مطالبات بدستور قائم ہیں۔ وہ اپنے گھروں کے اندر بجلی کے میٹر، بیت الخلا، پانی کے نلکوں کی بحالی کے علاوہ پکے مکانات بنانے کی اجازت چاہتے ہیں۔ اگر نقل مکانی ناگزیر ہے تو، ’’ہمیں پکے عمارتوں میں رہنے کے لیے نہ بھیجیں، بلکہ  ہمیں ایس جی این پی کے آس پاس ہی کوئی جگہ دے دیں،‘‘ شامو کہتی ہیں۔

تاہم بازآبادکاری کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔ محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار (جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا) اس کی وجہ بتاتے ہوئے  کہتے ہیں، ’’دوسرے مرحلے میں بازآبادکاری کامیاب نہیں ہو سکی، کیونکہ چاندیولی کا منصوبہ ہوائی اڈے کے فنل ژون (پرواز کے راستے) میں آتا ہے۔‘‘

A women sitting in front her house
PHOTO • Apekshita Varshney

اپنی بزرگ ساس گوری دھڑگے (اوپر) کی طرح اشارہ کرتے ہوئے آرتی کہتی ہیں، ’ہم تو باہر ایڈجسٹ کر سکتے ہیں، لیکن وہ نہیں کریں گی‘

ایک اور جنگلاتی حکام بازآبادکاری کی سست رفتار کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ایس جی این پی سے متعلق متعدد ایجنسیوں کے درمیان بہت کم ہم آہنگی ہے۔ ان ایجنسیوں میں ممبئی، تھانے، میرا- بھایَندر، اور وسَئی ویرار کے چار میونسپل کارپوریشنوں کے ساتھ جھگی جھونپڑی باز آبادکاری اتھارٹی (ایس آر اے) وغیرہ شامل ہیں۔‘‘

اور اسسٹنٹ کنزرویٹر آف فاریسٹ، کے ایم دابھولکر کہتے ہیں، ’’حکومت آرے [ایس جی این پی کے بوریولی کے داخلی دروازے سے تقریباً ۱۵ کلومیٹر دور] کے قریب مرول مروشی میں مستحق گھرانوں کو بسانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔‘‘

۱۹۹۷ کے عدالتی فیصلے اور نقل مکانی میں تاخیر کے درمیان، ۲۰۰۶ کا حقوق جنگلات قانون وارلیوں کو راحت فراہم کرتا ہے۔ یہ قانون زمین کے ساتھ ساتھ جنگلاتی وسائل پر قبائلیوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس قانون کا دفعہ ۳(۱)(ایم) باز آبادکاری کے واجبات ادا کیے بغیر غیرقانونی طور پر بے دخل یا بے گھر کیے گئے جنگلات میں آباد درج فہرست قبیلوں اور دیگر روایتی باشندوں کو ان کے اصلی مقام (جس میں متبادل زمین بھی شامل ہے) پر باز آبادکاری کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔

لیکن ایس جی این پی کے ترجمان ٹیمگیرے کا کہنا ہے، ’’یہ قانون گرام سبھا  تک محدود تھا اور [وزارت برائے  قبائلی امور کی ۲۰۱۵ کے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے] اس کی توسیع میونسپل کارپوریشنوں تک کر دی گئی تھی۔ اب ہم اس وقت پیش رفت کریں گے جب میونسپل کارپوریشن ایک کمیٹی تشکیل دے گی۔‘‘

وارلیوں کی نوجوان نسل میں سے کچھ لوگ باز آبادکاری کے منصوبے کے دوبارہ شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، اور منتقلی کے مخالف نہیں ہیں۔ ۲۳ سالہ آرتی ٹوکرے کہتی ہیں کہ اس سے انہیں ’’مزید مواقع حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘ آرتی بی ایم سی کی ایک کنٹریکٹ ورکر ہیں جو صبح کے وقت بوریولی اسٹیشن کے قریب سڑکوں پر جھاڑو لگاتی ہیں، اپنی جھونپڑی سے کھانے پینے کی چیزوں کی دکان چلاتی ہیں، اور بوریولی کے بازار میں فروخت کرنے کے لیے مانسون میں ایس جی این پی میں لوکی اور ککڑی جیسی سبزیاں اُگاتی ہیں۔

ان کی جھونپڑی کے سامنے ہی ان کی ساس کی ماں، گوری دھڑگے کی جھونپڑی ہے، جن کی عمر ۷۰ سال کے قریب ہے۔ ان کی طرف دیکھتے ہوئے آرتی کہتی ہیں، ’’ہم تو باہر ایڈجسٹ ہو سکتے ہیں، لیکن یہ نہیں کریں گی۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Apekshita Varshney

অপেক্ষিতা ভার্শ্‌ণে মুম্বই-নিবাসী ফ্রিলান্স লেখিকা।

Other stories by Apekshita Varshney
Editor : Sharmila Joshi

শর্মিলা জোশী পিপলস আর্কাইভ অফ রুরাল ইন্ডিয়ার (পারি) পূর্বতন প্রধান সম্পাদক। তিনি লেখালিখি, গবেষণা এবং শিক্ষকতার সঙ্গে যুক্ত।

Other stories by শর্মিলা জোশী
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam