کیہلیہ وساوے مچھردانی لگی چارپائی پر پیٹھ کے بل لیٹے ہوئے، درد اور بے قراری کی وجہ سے نیند میں ہی کراہ رہے تھے۔ اس بے چینی کو دیکھ کر، ان کی ۱۸ سالہ بیٹی لیلا نے اُن کے پیروں کو سہلانا شروع کر دیا تاکہ انہیں کچھ راحت مل سکے۔
کئی مہینوں سے، وہ چارپائی پر دن بھر اسی طرح لیٹے رہتے ہیں – ان کے بائیں گال میں زخم ہے اور دائیں ناک میں کھانا کھلانے والی ٹیوب لگی ہوئے ہے۔ ’’وہ زیادہ حرکت نہیں کرتے اور نہ ہی بات کرتے ہیں۔ زخم میں درد ہوتا ہے،‘‘ ان کی ۴۲ سالہ بیوی، پیسری بتاتی ہیں۔
اس سال ۲۱ جنوری کو، شمال مغربی مہاراشٹر کے نندُربار ضلع میں واقع چِنچ پاڑہ کرشچین ہاسپیٹل نے بتایا کہ ۴۵ سالہ کیہلیہ کے بائیں گال کے اندرونی حصہ میں کینسر ہے۔
ان کا مرض – کینسر – وزارت صحت اور خاندانی فلاح و بہبود کے ذریعہ جاری کی گئی اُن ۲۰ امراض کی فہرست میں شامل ہے، جن میں مبتلا ۴۵ سال سے ۵۹ سال تک کے لوگوں کو ٹیکہ لگانے کے لیے اہل قرار دیا گیا ہے، اس کی شروعات ہندوستان میں کووڈ- ۱۹ ٹیکہ کاری کے دوسرے مرحلہ کے تحت یکم مارچ سے کی گئی تھی۔ وزارت کی گائیڈ لائنس میں کہا گیا ہے کہ ٹیکہ کاری’’مناسب عمر کی درجہ بندیوں والے شہریوں کے لیے کھلی ہوئی ہے، جس میں ابتدائی طور پر ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے لوگ اور مخصوص امراض میں مبتلا ۴۵ سال سے ۶۰ سال تک کے لوگ شامل ہیں۔‘‘ (یکم اپریل سے، ۴۵ سال سے زیادہ عمر کے ہر شخص کے لیے ٹیکہ کاری کھول دی گئی، بھلے ہی انہیں مخصوص امراض ہوں یا نہ ہوں)۔
لیکن کیہلیہ اور پیسری کے لیے عمر کی حد، امراض کی فہرست یا توسیع شدہ اہلیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وساوے فیملی – ان کا تعلق بھیل برادری، درج فہرست ذات سے ہے – کی پہنچ ٹیکہ تک نہیں ہے۔ اکرانی تعلقہ کی ان کی بستی، کمبھاری سے قریب ترین ٹیکہ کاری مرکز، دھڑگاؤں دیہی اسپتال، ۲۰ کلومیٹر دور ہے۔ ’’ہمیں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے،‘‘ پیسری کہتی ہیں۔
وہاں تک پہنچنے کے لیے چڑھائی اور ڈھلان والے پہاڑی راستوں پر چار گھنٹے تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ’’انہیں بانس اور بستر کی ڈولی [عارضی اسٹریچر] سے مرکز تک لے جانا ممکن نہیں ہے،‘‘ پیسری، آدیواسیوں کے غلبہ والے نندُربار ضلع کے پہاڑی علاقے میں اپنے مٹی سے بنے گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی کہتی ہیں۔
’’کیا سرکار ہمیں یہاں [مقامی پی ایچ سی، پرائمری ہیلتھ سینٹر میں] انجیکشن نہیں دے سکتی؟ ہم وہاں جا سکتے ہیں،‘‘ پیسری کہتی ہیں۔ روشمال خورد گاؤں میں واقع سب سے قریبی پی ایچ سی، ان کے گھر سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور ہے۔
ریاستی ٹرانسپورٹ کی بسیں پہاڑی دھڑگاؤں خطہ میں نہیں چلتی ہیں، جو ۱۶۵ گاؤوں اور بستیوں، اور تقریباً ۲ لاکھ کی آبادی والے اکرانی تعلقہ پر مشتمل ہے۔ دھڑگاؤں دیہی اسپتال کے قریب والے ڈپو سے، بسیں نندُربار کے دیگر حصوں اور اس سے آگے جاتی ہیں۔ ’’یہاں پر کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے،‘‘ نندُربار ضلع پریشد کے رکن، گنیش پراڈکے کہتے ہیں۔
لوگ عام طور سے مشترکہ جیپوں پر منحصر ہیں، لیکن یہ بہت کم چلتی ہیں اور اس سے علاقے میں آنے جانے کے لیے – ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک، بازار تک، بس اسٹینڈ تک – دونوں طرف کا کرایہ ۱۰۰ روپے ہے۔
پیسری اور ان کی فیملی اتنا مہنگا کرایہ نہیں برداشت کر سکتی۔ انہوں نے کیہلیہ کی تشخیص اور ابتدائی علاج کے لیے خطہ کے ایک کسان کو اپنے تمام مویشی – ایک بیل، آٹھ بکریاں، سات مرغیاں – فروخت کر دیے۔ وہ مقام جس کے درمیان میں وہ اپنے جانوروں کو لکڑی کے ستونوں سے باندھ کر رکھتی تھیں، اب خالی پڑا ہے۔
اپریل ۲۰۲۰ کی ابتدا میں، کیہلیہ نے اپنے دائیں گال پر ایک ابھرا ہوا دانہ دیکھا۔ لیکن کووڈ کے ڈر سے فیملی نے طبی مدد حاصل کرنے سے منع کر دیا۔ ’’ہم کورونا کے ڈر سے اسپتال نہیں جانا چاہتے تھے۔ اس سال ہم پرائیویٹ اسپتال [جنوری ۲۰۲۱ میں، نواپور تعلقہ کے چِنچ پاڑہ کرشچین ہاسپیٹل] گئے کیوں کہ وہ دانہ بڑا ہو رہا تھا اور درد بھی بڑھنے لگا تھا،‘‘ پیسری بتاتی ہیں۔
’’میں نے تمام جانور ۶۰ ہزار [روپے] میں فروخت کر دیے۔ سرکاری اسپتال کی بجائے، ہم نے سوچا کہ بڑے [پرائیویٹ]ّ اسپتال میں وہ بہتر علاج کریں گے۔ ہم نے سوچا کہ ہمیں پیسے تو خرچ کرنے پڑیں گے لیکن ہمیں بہتر علاج حاصل ہوگا۔ وہاں کے ڈاکٹر نے کہا کہ سرجری کرانا ضروری ہے، لیکن اب ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں،‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں۔
ان کی آٹھ رکنی فیملی میں ان کی بیٹی لِیلا، سب سے بڑا بیٹا سُباس، جو ۲۸ سال کا ہے، اس کی بیوی سُنی اور اُن کے دو چھوٹے بچے، اور پیسری کا سب سے چھوٹا بیٹا، ۱۴ سالہ انل شامل ہیں۔ یہ فیملی مانسون کے دوران سیدھی ڈھلان والے ایک ایکڑ کھیت میں اپنے کھانے کے لیے تین یا چار کوئنٹل جوار پیدا کرتی ہے، وہ پیسری کے مطابق، ’’کافی نہیں ہے۔ ہمیں [کام کے لیے] باہر جانا پڑتا ہے۔‘‘
لہٰذا، ہر سال وہ اور کیہلیہ اکتوبر میں فصل کی کٹائی کے بعد ہجرت کرتے، اور کپاس کے کھیتوں پر کام کرنے کے لیے گجرات جایا کرتے تھے۔ اس سے ان میں سے ہر ایک کو ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے یومیہ مزدوری ملتی تھی اور نومبر سے مئی تک سال میں تقریباً ۲۰۰ دن کا کام مل جاتا تھا۔ لیکن اس موسم میں، وبائی مرض کے سبب، فیملی اپنی بستی سے باہر نہیں گئی۔ ’’اور اب وہ بستر پر پڑے ہیں، اور باہر وائرس اب بھی موجود ہے،‘‘ پیسری کہتی ہیں۔
ان کی بستی، کُمبھاری میں ۶۶۰ لوگ رہتے ہیں (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ ۳۶ سالہ آشا کارکن، سنیتا پٹلے بتاتی ہیں کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق، کُمبھاری سمیت وہ جن ۱۰ بستیوں کا احاطہ کرتی ہیں، ان میں کیہلیہ واحد شخص ہیں جو کینسر میں مبتلا ہیں۔ اُن کا اندازہ ہے کہ اِن بستیوں کی کل آبادی تقریباً ۵۰۰۰ ہے، اور مزید بتاتی ہیں، ’’یہاں پر سکل سیل کی بیماری [لال خون کے خلیہ کی خرابی، جو گائیڈلائنس میں درج ۲۰ مخصوص امراض کی فہرست میں شامل ہے] میں مبتلا ۴۵ سال سے زیادہ کی عمر کے ۵۰ مرد و عورت اور ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے تقریباً ۲۵۰ لوگ ہیں۔‘‘
نقل و حمل کی کمی اور خراب روڈ کنیکٹیوٹی کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ٹیکہ کے لیے دھڑگاؤں دیہی اسپتال تک جانے کے قابل نہیں ہے۔ ’’ہم گھر گھر جاکر بیداری پھیلا رہے ہیں کہ ٹیکہ کاری شروع ہو چکی ہے،‘‘ سنیتا کہتی ہیں، ’’لیکن مرکز تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔‘‘
ضلع کے محکمہ صحت کے ذریعہ تیار کردہ نندُربار ٹیکہ کاری رپورٹ بتاتی ہے کہ ۲۰ مارچ تک دھڑگاؤں دیہی اسپتال میں ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے ۹۹ شہریوں نے ٹیکہ لگوائے، جب کہ مخصوص امراض میں مبتلا ۴۵ سال سے ۶۰ سال کی عمر والے زمرہ میں صرف ایک شخص کو ٹیکہ لگایا گیا۔
اس ضلع میں مارچ ۲۰۲۰ کے بعد ۲۰ ہزار سے زیادہ پازیٹو معاملے سامنے آئے تھے، لیکن یہاں کے شہری اور نیم شہری علاقوں میں ٹیکہ کاری مراکز قائم کرنے کے بعد حالات میں بہتری آئی ہے: دھڑگاؤں کے اسپتال سے تقریباً ۴۵ کلومیٹر دور، تلوڈا کے سب ڈویژنل اسپتال میں، ۶۰ سال سے زیادہ کی عمر کے ۱۲۷۹ لوگوں نے (۲۰ مارچ تک)، جب کہ مخصوص امراض والے ۳۳۲ لوگوں نے ٹیکہ لگوائے۔
’’ناقابل رسا قبائلی علاقوں میں ٹیکہ کاری کے تئیں جوش کم ہے،‘‘ نندُربار ضلع کے میڈیکل افسر، ڈاکٹر نیتن بورکے کہتے ہیں۔ ’’دھڑگاؤں میں سڑک والے راستے کا نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں کے گاؤوں اور بستیاں ٹیکہ کاری مرکز سے کافی دور ہیں۔‘‘
دور دراز کی بستیوں میں سے ایک چتکھیڑی بھی ہے، جو پیسری کی بستی سے ۱۰ کلومیٹر دور، نرمدا ندی کے ساحل پر ہے۔ چتکھیڑی سے دھڑگاؤں دیہی اسپتال کا ٹیکہ کاری مرکز ۲۵ کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہے۔
اس بستی میں، ۸۵ سالہ سونیا پٹلے، جنہیں پارکنسن کی بیماری ہے (دماغی مرض جس سے بدن کانپتا ہے، سخت ہو جاتا ہے اور چلنے، کھڑا ہونے اور تال میل بنائے رکھنے میں دقت ہوتی ہے)، چارپائی پر لیٹے ہوئے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ ’’میں نے کیا پاپ کیا ہے کہ بھگوان نے مجھے اس بیماری میں مبتلا کر دیا،‘‘ وہ روتے ہوئے چیختے ہیں۔ ان کی بیوی، ببلی چارپائی کے قریب گوبر سے لیپی ہوئی زمین پر بیٹھی ہیں اور بھورے رنگ کے رومال سے ان کے آنسوؤں کو پونچھتی ہیں۔ ان کے شوہر چتکھیڑی میں ایک اونچی پہاڑی پر بانس سے بنی ان کی جھونپڑی میں ۱۱ سال سے اس بیماری میں مبتلا ہیں۔
فیملی کا تعلق آدیواسیوں کی بھیل برادری سے ہے، اور سونیا اور ببلی عمر کے لحاظ سے ٹیکہ لگانے کے لیے اہل ہیں۔ لیکن، ۸۲ سالہ ببلی کہتی ہیں، ’’ہم دونوں بوڑھے ہیں اور وہ بستر پر پڑے ہیں۔ ہمیں ٹیکہ کی خوشی آخر کیوں ہو جب ہم اسے لگوانے کے لیے جا نہیں سکتے؟‘‘
دونوں اپنے ۵۰ سالہ بیٹے ہانو اور بہو گرجی کی کمائی پر منحصر ہیں – وہ اپنے چھ بچوں کے ساتھ، بانس کی اس چھوٹی جھونپڑی میں ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔ ’’ہانو انہیں [اپنے والد کو] نہلاتا ہے، انہیں بیت الخلاء لے جاتا ہے، انہیں اٹھاتا ہے، ان کی دیکھ بھال کرتا ہے،‘‘ ببلی بتاتی ہیں۔ ان کے چار دیگر شادی شدہ بیٹے اور تین شادی شدہ بیٹیاں دیگر بستیوں میں رہتی ہیں۔
ہانو اور گرجی ہفتہ میں تین دن صبح ۹ بجے سے دوپہر ۲ بجے تک، نرمدا ندی میں مچھلی پکڑتے ہیں۔ ’’ایک کاروباری ہماری بستی میں ہفتہ میں تین دن آتا ہے۔ وہ ایک کلو [مچھلی] کے ۱۰۰ روپے ادا کرتا ہے،‘‘ گرجی بتاتی ہیں۔ ہفتہ میں تین دن ۲-۳ کلو مچھلی پکڑنے سے، وہ تقریباً ۳۶۰۰ روپے کماتے ہیں۔ باقی دن، ہانو دھڑگاؤں کے چھوٹے ہوٹلوں پر صفائی اور برتن دھونے کا کام کرکے ایک دن میں ۳۰۰ روپے کماتے ہیں، اور گرجی زرعی مزدوری کرکے ۱۰۰ روپے کماتی ہیں۔ ’’ایک مہینہ میں، ہم دونوں کو ۱۰-۱۲ دنوں کا کام مل جاتا ہے، لیکن کبھی وہ بھی نہیں ملتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اس لیے سونیا اور ببلی کو ٹیکہ کاری مرکز تک لے جانے کے لیے پرائیویٹ گاڑی کا ۲۰۰۰ روپے کرایہ دینا بھی ایک بڑا اضافی خرچ ہوگا۔
’’ہوسکتا ہے وہ انجیکشن ہمارے لیے اچھا ہو۔ لیکن اس عمر میں، میں اتنی دور پیدل نہیں جا سکتی،‘‘ ببلی کہتی ہیں۔ اسپتال جانے پر انہیں کووڈ- ۱۹ کا بھی خطرہ ہے۔ ’’اگر ہمیں کورونا ہو گیا تو؟ ہم نہیں جائیں گے، سرکار کو ہمارے گھر آنے دیجئے۔‘‘
اسی بستی کے ایک گھر میں، ۸۹ سالہ ڈولیا وساوے اپنے سامنے والے برآمدہ میں لکڑی کے ایک تختہ پر بیٹھے ہوئے، اسی خطرے کو دوہراتے ہیں۔ ’’اگر میں جاؤں گا ِ[ٹیکہ لگوانے کے لیے]، تو صرف [چار پہیہ والی] گاڑی سے جاؤں گا، ورنہ نہیں جاؤں گا،‘‘ وہ مضبوطی سے کہتے ہیں۔
ان کی آنکھ کی روشنی دھندلانے لگی ہے، اور وہ اپنے آس پاس کی چیزوں کو پہچاننے کے قابل نہیں ہیں۔ ’’ایک وقت تھا جب میں ان اونچی نیچی پہاڑیوں پر آسانی سے چلتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’لیکن اب میرے اندر اتنی طاقت نہیں رہی اور مجھے صاف دکھائی بھی نہیں دیتا ہے۔‘‘
ڈولیا کی بیوی رولا کا انتقال کافی پہلے بچہ کی پیدائش کے دوران ہوگیا تھا، جب وہ ۳۵ سال کی تھیں۔ انہوں نے اپنے تینوں بچوں کی اکیلے پرورش کی، وہ تمام قریب کی ایک بستی میں اپنی اپنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ ان کا ۲۲ سالہ پوتا، کلپیش ان کے ساتھ رہتا ہے اور ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ وہ آمدنی کے لیے ماہی گیری پر منحصر ہے۔
چتکھیڑی کی ۳۴ سالہ آشا کارکن، بوجی وساوے بتاتی ہیں کہ بستی میں ڈولیا، سونیا اور ببلی سمیت ۶۰ سال سے زیادہ عمر کے ۱۵ لوگ ہیں۔ میں نے وسط مارچ میں جب وہاں کا دورہ کیا تھا، تب ان میں سے کوئی بھی ٹیکہ کاری مرکز نہیں گیا تھا۔ ’’بزرگوں اور شدید بیمار لوگوں کے لیے پیدل اتنی لمبی دوری طے کرنا ممکن نہیں ہے، اور بہت سے لوگ کورونا کی وجہ سے اسپتال جانے سے ڈرتے ہیں،‘‘ بوجی کہتی ہیں، جن کا کام چتکھیڑی کے ۹۴ گھروں میں ۵۲۷ لوگوں کی آبادی کا احاطہ کرنا ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے اور لوگوں کی آمد میں بہتری لانے کے لیے، مہاراشٹر کا محکمہ صحت مبینہ طور پر پی ایچ سی میں ٹیکہ کاری کی منظوری دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ لیکن یہ انہی علاقوں میں ممکن ہوگا جہاں پر انٹرنیٹ دستیاب ہے، ڈاکٹر نتن بورکے کہتے ہیں: ’’ٹیکہ کاری مراکز میں کووِن پلیٹ فارم پر مستفیدین کی تفصیلات آن سائٹ درج کرنے اور کیو آر پر مبنی ٹیکہ کاری سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لیے انٹرنیٹ کنکشن، کمپیوٹر، پرنٹرس کا ہونا ضروری ہے۔‘‘
دھڑگاؤں خطہ کے اندر چتکھیڑی اور کُمبھاری جیسی بسیتوں میں موبائل نیٹ ورک مشکل سے موجود ہے۔ اس لیے ان بستیوں میں یا ان کے ارد گرد موجود پی ایچ سی میں بھی کوئی نیٹ ورک نہیں ہے۔ ’’فون تک کرنے کے لیے یہاں کوئی موبائل نیٹ ورک نہیں ہے، اس لیے انٹرنیٹ رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے،‘‘ روشمال پی ایچ سی کے ڈاکٹر شیواجی پوار کہتے ہیں۔
پیسری نے ان رکاوٹوں کے سبب ہار مان لی ہے۔ ’’کوئی بھی یہاں نہیں آنا چاہتا۔ اور ویسے بھی یہ [کووڈ کا ٹیکہ] ان کے [کیہلیہ کے] کینسر کو ٹھیک نہیں کرنے والا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ڈاکٹر ان دور دراز کی پہاڑیوں میں، ہماری خدمت کرنے، ہمیں دوائیں دینے کیوں آئیں گے؟‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز