وہ شکاری، کسان، ٹوکری بُنکر اور پنچایت کے مُکھیا رہ چکے ہیں۔ ماکو لِنگی اپنی حصولیابیوں کے بارے میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں کرتے۔ اروناچل پردیش کی ایدو مِشمی برادری سے تعلق رکھنے والے اس بزرگ نے اپنی زندگی ایسے ہی گزاری ہے۔
اپنی نسل کے زیادہ تر لوگوں کی طرح انہیں بھی اروناچل پردیش کے اس دور افتادہ علاقے میں گزارہ کرنے کے لیے مختلف قسم کا ہنر سیکھنا پڑا۔
تقریباً ۶۵ سال کے لِنگی بتاتے ہیں، ’’گاؤں میں ہم لوگ کچھ خریدتے نہیں تھے۔ خریداری کا تب کوئی متبادل تھا بھی نہیں۔ ہمیں سب کچھ خود ہی بنانا پڑتا تھا۔ ہم کھیتی کرتے تھے، شکار کرتے تھے، اور ضرورت کے سامان بناتے تھے۔‘‘ ہم سے بات کرتے وقت بھی وہ نئی ٹوکری بُننے میں مصروف ہیں۔
ایدو مشمی برادری پورے اروناچل پردیش میں آباد ہے، اور کسی کسی بستی میں تو دو یا تین خاندان ہی رہتے ہیں۔ لِنگی، اہونلی گاؤں کے رہائشی ہیں، جہاں صرف ۱۱ لوگ ہی رہتے ہیں۔ یہ گاؤں انینی سرکل کے پاس دیبانگ وادی میں واقع ہے۔
وہ ہاتھ اور پیروں کا استعمال کرکے صرف اپنے داؤ (چاقو) کی مدد سے کئی قسم کی ٹوکریاں بنا سکتے ہیں۔ انہیں دوسرے اوزاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہاں پر درجنوں قسم کی ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں، جن کا ایدو برادری کے لوگ استعمال کرتے ہیں۔ ہر ٹوکری کی بُنائی کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، جو استعمال کے حساب سے تیار کی جاتی ہے – جیسے کھانا رکھنے کے لیے، لکڑیاں لانے کے لیے یا پھر شکار میں ساتھ لے جانے کے لیے۔ ہم لوگ ہر ٹوکری کے لیے الگ بانس اور ڈنڈیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم جنگل جاتے ہیں، بانس یا ڈنڈی کاٹ کر گھر لاتے ہیں۔ پھر، ان سے پتلی قمچیاں کاٹنے کے بعد ٹوکری بُننا شروع کرتے ہیں۔‘‘ کچھ ٹوکریاں چند گھنٹوں میں ہی بن جاتی ہیں، کچھ میں کئی دن لگتے ہیں، اور وہیں کئی ٹوکریوں کی بُنائی ہفتوں تک چلتی ہے۔
ڈاکٹر راجیو میسو کہتے ہیں، ’’ہر ایدو [جو ابھی گاؤں میں رہ رہا ہے] ٹوکریاں، زمین پر بچھائی جانے والی چٹائی، ٹوپی اور تیر وغیرہ بنانے کا کام کرتا ہے۔‘‘ راجیو کا تعلق بھی ایدو مشمی برادری سے ہے، اور وہ روئنگ میں واقع جومن تائینگا گورنمنٹ ماڈل ڈگری کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی پی ایچ ڈی اروناچل پردیش کی نسلی تاریخ پر مرکوز تھی، جس میں ایدو مشمی برادری پر خاص توجہ دی گئی تھی۔ ’’جو چیزیں بنائی جاتی ہیں وہ زیادہ تر افادیت کے حساب سے، فیملی کے استعمال کے لیے ہوتی ہیں، اور ضرورت کے سامان کے بدلے آپس میں انہیں لیا دیا جاتا ہے۔ برادری کے کچھ لوگ علم کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا تجربہ بہت کام آتا ہے، جیسے گھر بنانے کے لیے پیمائش کرنا۔ یہ لوگ خود ہی دوسروں کی مدد کرتے ہیں، اور بدلے میں کسی قسم کی کوئی امید نہیں رکھتے۔‘‘
ایدو مشمی برادری کا فطرت سے گہرا رشتہ رہا ہے، اور شکار کرنے کے بعد ان کے درمیان پشیمانی کی روایت رہی ہے۔ مشکل حالات میں زندگی گزارنے کے سبب، اس برادری کے بہت سے رسم و رواج کو تقویت ملی ہے – چنندہ جانوروں کا شکار، گھر کی بناوٹ، بانس کے استعمال میں ایسا نظر آتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی معاشرتی زندگی کی سمجھ کو بھی مضبوطی ملی ہے۔ لنگی کہتے ہیں، ’’رشتے ناطے ایدو برادری کے لوگوں کے لیے بہت اہم ہیں۔ ہم لوگ ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طریقے سے جڑے ہوئے ہیں اور آپس میں مل کر ہی مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے ہیں۔ یہاں پر کبھی بھی پولیس نہیں ہوا کرتی تھی؛ ہم لوگوں کو کبھی پولیس کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔‘‘
ایدو برادری کے محترم بزرگ ہونے کے ناطے، لِنگی کو لوگ ہمیشہ نابا (والد) کہتے ہیں؛ وہ اپنے گاؤں کی پنچایت کے ۱۰ سال تک رکن تھے، اور ۱۹۹۳ میں ضلع پریشد کی انچل سمیتی کے عہدہ پر فائز تھے۔ ’’میں گاؤں کے لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ ہم لوگوں نے اہونلی اور ارد گرد کے گاؤوں میں بہت کوشش کی، لیکن ریاستی حکومت نے بہتر روڈ اور اسکول بنانے کے لیے نہ تو ہمیں پیسے دیے اور نہ ہی ہماری کوئی مدد کی۔ ہم لوگوں کو سرکار سے صرف ایک لاکھ روپے ہی ملے۔ اتنے کم پیسوں سے کیا کرتے؟ ہم خود ہی اچھی سڑک بنا سکتے ہیں،‘‘ وہ سر ہلاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’ہم نے محنت کرکے جو اسکول بنایا وہ مٹی کا تودہ گرنے سے تباہ ہو گیا۔‘‘
اگر لوگ آج کل کوئی ہنر سیکھتے ہیں، تو صرف اس لیے کہ یہ ایک ’آرٹ‘ ہے۔ لِنگی کو یہ سوچ بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ ’پرانے زمانے میں یہ ہنر نہیں تھا، بلکہ جینے کا ایک طریقہ ہوا کرتا تھا۔‘
اپنی انتظامی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ لنگی چاول، مکئی اور پھلیوں کی کھیتی کرتے ہیں۔ ان کی ۱۵-۱۰ ایکڑ زمین پہاڑی علاقے میں ہے۔ پہلے وہ شکار بھی کرتے تھے۔ کئی سال پہلے لنگی شیر کے ایک حملہ میں بال بال بچے تھے۔ وہ ہنستے ہوئے یاد کرتے ہیں، ’’میرے بھائی پر شیر نے حملہ کر دیا تھا اور گھر کے لوگوں نے بھائی کو بچانے کے لیے مجھے جنگل بھیج دیا [اس علاقے میں شیر عام طور پر دکھائی نہیں دیتے ہیں]۔ جب میں جنگل گیا، تو شیر نے مجھ پر بھی حملہ کر دیا، جس میں مجھے خراش آئی تھی، لیکن میں نے اسے گولی مار دی تھی…میں بہت ڈرا ہوا تھا۔‘‘
ٹوکری بُننے کے درمیان میں لِنگی بُنائی کو کھول کر دوبارہ ٹوکری بُننا شروع کرتے ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’دیکھو، یہ بُنائی اچھی طرح کَسی ہوئی نہیں ہے۔ یہ کبھی بھی ٹوٹ سکتی تھی۔‘‘ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں، ’’میں نے اپنا وقت ہمیشہ دوسروں کو دیا، اور آخر میں ہار گیا۔ باقی لوگوں نے اپنا وقت پیسہ کمانے میں لگایا۔ سب کے پاس پیسہ ہے، میرے پاس نہیں ہے۔‘‘
مالی تنگی نے ایدو مشمی برادری کے لوگوں کو اپنے گاؤں اور کھیتوں سے دور کر دیا ہے۔ ٹوکری بُنائی جیسی پرانی روایت کی جگہ ان اسکل ٹریننگ نے لے لی ہے جن سے سرکاری نوکری یا کوئی آفس کا کام مل سکے۔ کئی لوگ کام کی تلاش میں اپنے گاؤوں، اور یہاں تک کہ اروناچل پردیش سے باہر جا چکے ہیں۔ ریاست کے کئی گاؤوں میں سڑکیں اور پُل بن چکے ہیں، جس سے لوگوں کو آنے جانے میں سہولت ہونے لگی ہے۔ اس کی وجہ سے ثقافتی تبدیلی بھی آئی ہے۔
وقت کے ساتھ ایدو مشمی برادری کی آبادی بھی گھٹ رہی ہے۔ سال ۲۰۰۱ کی مردم شماری میں صرف ۱۰ ہزار ایدو مشمی درج کیے گئے تھے (وہیں ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں اس برادری کی الگ سے گنتی نہیں کی گئی)۔ ڈاکٹر میسو کہتے ہیں، ’’برادری کے لوگوں کا ماننا ہے کہ آبادی کم ہو رہی ہے۔ پہلے ایک فیملی میں ۷-۶ بچے ہوتے تھے اور اب ۳-۲ ہی ہوتے ہیں – اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری زبان اور ثقافت پر اثر پڑ رہا ہے۔‘‘
ماکو لِنگی کے بیٹے اور بیٹی بھی گاؤں چھوڑ کر چلے گئے ہیں؛ وہ اپنی فیملی کے ساتھ روئنگ شہر میں رہتے ہیں، جو اہونلی سے ۲۳۰ کلومیٹر دور ہے۔ لِنگی اکثر بچوں سے ملنے روئنگ جاتے رہتے ہیں۔ سڑک کے ذریعے روئنگ پہنچنے میں انہیں ۱۲ گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ جاتا ہے۔
ان کی فیملی میں اب کوئی بھی ٹوکری بُنائی کا ہنر نہیں سیکھنا چاہتا ہے، کیوں کہ گزارہ کے لیے یہ ضروری نہیں رہ گیا ہے۔ اگر لوگ ٹوکری بُنائی کا ہنر سیکھتے ہیں، تو صرف اس لیے کہ یہ ایک آرٹ ہے۔ لنگی کو یہ بات عجیب سی لگتی ہے۔ ’’ایدو فیملی کسی ایک ہنر پر ہی منحصر نہیں ہوا کرتی تھی۔ ایدو برادری کے سبھی لوگ کاریگر رہے ہیں۔ آپ کو ہونا ہی پڑتا تھا۔ اب ایسا دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہمارے بچے کوئی ایک ہنر سیکھ رہے ہوتے ہیں یا ایک بھی نہیں سیکھتے۔ پرانے زمانے میں یہ آرٹ نہیں تھا، بلکہ جینے کا ایک طریقہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
مضمون نگار ماکو لِنگی کی فیملی، دیوراج چالیہا، اور ’فردر اینڈ بیانڈ‘ فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز