اس سال مئی مہینے کے ایک گرم دن کو گوتم ہانیمی ریڈی نے نوزینڈلا منڈل کے تریپورہ پورم گاؤں سے گنٹور تک ایک ٹرک میں بیٹھ کر ۱۰۵ کلومیٹر کا سفر طے کیا۔ انہیں امید تھی کہ وہ اپنی پانچ ایکڑ زمین پر کاشت کی گئی آٹھ کوئنٹل مرچیں فروخت کرلیں گے۔ یہ آخری فصل تھی۔ وہ اپریل میں تین بار مارکیٹ میں آ چکے تھے، اور مرچوں کی قسم (مرچی ایل سی اے ۳۳۴ یا گنٹور سنم) کی بنیاد پر انہیں ۶۰۰۰ سے ۸۰۰۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے فروخت چکے تھے۔

فی الحال وہ ایک بار پھر آندھرا پردیش کے گنٹور قصبے میں واقع این ٹی آر زرعی مارکیٹ کمیٹی یارڈ میں تین دن سے اس امید میں انتظار کر رہے تھے کہ اگر قیمتوں میں اضافہ ہو تو وہ اپنا لوڈ فروخت کریں۔ ’’آج قیمتیں مزید گر گئی ہیں اور کمیشن ایجنٹ صرف ۴۲۰۰ روپے فی کوئنٹل کا حساب لگا رہے ہیں۔ یہ سب ایک گٹھ جوڑ بناتے ہیں اور من مانے ڈھنگ سے قیمتیں طے کرتے ہیں،‘‘ جس دن منڈی میں کسانوں کے میس کے باہر بیٹھے وہ یہ کہہ رہے تھے، اسی دن ۲۰۱۷-۱۸ کے زرعی سیزن کے لیے مرچوں کی فروخت بند ہو رہی تھی۔

چوطرفہ دباؤ میں ریڈی کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ لوڈ کو گھر واپس لے جائیں اور کولڈ اسٹوریج میں رکھیں یا کم قیمت پر فروخت کر دیں۔ ’’میں اے سی [ایئر کنڈیشننگ] کے اخراجات کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اس کے علاوہ، ایک کوئنٹل (۵۰ کلو کی دو ٹِکیاں [بیگ]) کی ڈھلائی کا ایک طرف کا کرایہ ۱۰۰۰ روپے ہے،‘‘ ریڈی نے کم قیمت پر فروخت کرنے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کی۔ انہوں نے کچھ توقف کے بعد دھیمی آواز میں کہا، ’’اے سی والوں [کولڈ اسٹوریج سپلائرز] کے ساتھ دلالوں کے روابط جگ ظاہر ہیں۔ ایسے حالات دونوں کے لیے فائدے کا سودا ہیں۔‘‘

ریڈی نے بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات اور مزدوروں کی اجرت پر تقریباً ۲ لاکھ روپے فی ایکڑ کے حساب سے سرمایہ کاری کی تھی۔ اس کے علاوہ اس میں ان کی اور ان کی بیوی کی محنت بھی شامل تھی۔ انہیں ۲۰۱۷-۱۸ کے اکتوبر سے مارچ تک کے مرچی سیزن میں ۲۰ کوئنٹل فی ایکڑ پیداوار حاصل ہوئی تھی۔ یعنی مجموعی طور پر ۱۰ لاکھ روپے کی لاگت پر تقریباً ۱۰۰ کوئنٹل کی پیداوار حاصل ہوئی تھی۔ پچھلے برسوں کے دوران انہیں مرچی کی فصل سے کچھ حد تک منافع حاصل ہوا تھا۔ سال ۲۰۱۵-۱۶ میں مرچوں کی قیمتیں ۱۲۰۰۰ سے ۱۵۰۰۰ روپے فی کوئنٹل کی بلند ترین سطح پر تھیں (اس کی وجہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی مانگ بتائی گئی تھی)، اور دیگر سالوں میں کم سے کم قیمت ۱۰ ہزار روپے فی کوئنٹل تھی، جس سے کاشتکاروں کی نقصان کی بھرپائی ہوجاتی تھی۔

Gottam Hanimi Reddy showing the bills he got from the middlemen. The bills show the quantity sold and the price offered apart from other details like commission, debts and dues
PHOTO • Rahul Maganti
Mohammad Khasim, 24 from Tripuranthakam village in Prakasam district.
PHOTO • Rahul Maganti

گوتم ہانیمی ریڈی (بائیں) کو اپنی مرچیں کم قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کیا گیا تھا، جب کہ محمد قاسم (دائیں) نے مایوس ہو کر احتجاجاً اپنی فصل کا ایک حصہ جلا دیا تھا

’’اب آپ بتائیں کہ صرف اس سال میں نے کتنا نقصان اٹھایا ہے؟‘‘ ریڈی پوچھتے ہیں۔ ’’گزشتہ سال [۲۰۱۶-۱۷]، مجھے ۴ لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ فی الحال مجھ پر ۳۶  فیصد کی سود کی شرح سے ۹ لاکھ روپے کا قرض ہے [اس میں سے کچھ بینک کے قرضے بھی ہیں، لیکن زیادہ تر نجی ساہوکاروں کے ہیں]۔

سال ۲۰۱۶-۲۰۱۷ کے زرعی سیزن میں بازار میں مرچوں کا سیلاب آگیا تھا۔ بہت سے کسانوں نے اس امید میں فصل کاشت کی تھی کہ اس سال بھی ۲۰۱۵-۱۶ کی طرح زیادہ قیمت ملے گی۔ اس کے علاوہ جب کپاس کی فصل پر گلابی کپاسی کیڑوں کا حملہ ہوا تو وہ کسان بھی اچھی آمدنی کی امید میں مرچی کی کاشت کی طرف مائل ہوگئے۔ لیکن اس کے بعد مرچی کی قیمتیں اب تک کی کم ترین سطح ۱۵۰۰ سے ۳۰۰۰ روپے فی کوئنٹل پر آگئیں۔ پورے آندھرا پردیش میں مقامی اخبارات میں ۱۰ سے زیادہ مرچی کسانوں کی خودکشی کی اطلاع ملی (دیکھیں: پینوگولانو کی مرچین اب اتنی تیکھی نہیں رہیں

وجئے واڑہ میں مقیم آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے کارکن ناگابوئنا رنگاراؤ کہتے ہیں، ’’گزشتہ ۱۰ سالوں کے دوران کھیتی کی لاگت ۳۰ ہزار روپے سے بڑھ کر ۲ لاکھ روپے فی ایکڑ ہو گئی ہے، لیکن قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ کم قیمتوں نے کسانوں کو دوسری فصلیں کاشت کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ (گنٹور مارکیٹ یارڈ کے سکریٹری کے اعداد و شمار کے مطابق) آندھرا پردیش میں ۲۰۱۶-۱۷ میں ۶۵ء۴ لاکھ ایکڑ پر مرچی کی کاشت کی گئی تھی جس کی کل پیداوار ۹۳ لاکھ ٹن تھی، جبکہ ۲۰۱۷-۱۸ میں کاشت کا رقبہ کم ہوکر ۵ء۲ لاکھ ایکڑ تک رہ گیا اور سیزن کے اختتام تک پیداوار ۵۰ لاکھ ٹن پر سمٹ گئی۔

’’دلالوں اور افسران کا دعویٰ ہے کہ زیادہ سپلائی اور کم مانگ کی وجہ سے پچھلے سال قیمتوں میں کمی دیکھی گئی۔ لیکن اس سال کم سپلائی اور زیادہ مانگ کے باوجود قیمتوں میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا ہے،‘‘ یہ کہنا ہے ضلع پرکاسم کے تریپورانتکم گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۲۴ سالہ کسان محمد قاسم کا، جنہوں نے مارچ ۲۰۱۷ میں گنٹور یارڈ کے سامنے احتجاج کے طور پر اپنی پیداوار کا ایک حصہ جلا دیا تھا۔

Januboina Ankalamma separating the mirchi according to grade in the farm of Rami Reddy
PHOTO • Rahul Maganti
Mirchi being dried up in the Guntur market yard
PHOTO • Rahul Maganti

جَنوبوئنا انکلمّا جیسی زرعی مزدور بھی کم قیمتوں سے متاثر ہوئی ہیں۔ دائیں: گنٹور یارڈ میں مرچی کی شاندار فصل کا مطلب اچھی قیمت نہیں ہے

اور جب کسانوں کو کاشتکاری میں نقصان ہوتا ہے، تو وہ جن زرعی مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں ان کو اور بھی زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مرچی ایک محنت طلب فصل ہے اور اس کے لیے مزدوروں کی تین سے چار کھیپ لگتی ہے:  پہلی جب بیج بویا جاتا ہے، دوسری گھاس کی نکائی گڑائی کے لیے، اس کے بعد فصل توڑ کر مختلف معیاروں پر مرچیوں کو الگ کرنے کے لیے۔ ’’پہلے دو کام عموماً خواتین کرتی ہیں۔ مرد کٹائی کا کام کرتے ہیں اور صرف اس کی لاگت تقریباً ۵ء۱ لاکھ فی ایکڑ ہوتی ہے۔ ایک ایکڑ کی فصل توڑنے کے لیے ۳۰۰ مزدور دو دن تک کام کرتے ہیں،‘‘ کرشنا ضلع کے گمپالا گوڈیم منڈل کے میدورو گاؤں میں دو ایکڑ زمین کے مالک التوری رامی ریڈی کہتے ہیں۔

ملحقہ تروورو منڈل کے گَنوگاپاڈو گاؤں سے ٹریکٹر پر بیٹھ کر ۱۵ کلومیٹر کا سفر طے کرکے رامی ریڈی کے کھیتوں پر کام کرنے آنے والی جنوبوئنا انکلمّا کہتی ہیں، ’’جب ہم کسانوں سے اجرت بڑھانے کے لیے [اور اسے ۱۵۰ سے بڑھا کر مردوں کے برابر ۲۵۰ کرنے کے لیے] کہتے ہیں، تو وہ اس بات پر نادم ہوتے ہیں کہ وہ پہلے ہی ہمیں واجب مزدوری سے زیادہ ادائیگی کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ مرچی کی اچھی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے وہ خود خسارے میں ہیں۔ اگر حکومت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ کسان کو پیداوار کی منصفانہ اور منافع بخش قیمتیں ملیں، تو امکان ہے کہ کسان ہماری اجرت میں بھی اضافہ کرے گا۔‘‘

گنٹور یارڈ ایشیا کا سب سے بڑا یارڈ ہے، جہاں ۴۰۰ سے زیادہ کمیشن ایجنٹ کسانوں اور خریداروں یا برآمد کنندگان کے درمیان دلال کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کسان کو ملنے والے ہر ۱۰۰ روپے میں سے انہیں ۳ سے ۵ روپے تک کا کمیشن ملتا ہے۔ یہ رقم کسان کو ملنے والی حتمی رقم سے کاٹ لی جاتی ہے۔ ’’ان میں سے نصف سے زیادہ کے پاس لائسنس تک نہیں ہیں لیکن وہ کام کرتے ہیں کیونکہ سیاست دانوں سے ان کے تعلقات ہیں۔ افسران، دلالوں اور سیاست دانوں کے درمیان گٹھ جوڑ نرخوں کو کم رکھتا ہے اور کسانوں کو روزانہ لاکھوں روپے کا نقصان ہوتا ہے،‘‘ اے آئی کے ایس کی ناگابوئنا رنگاراؤ کہتے ہیں۔ اے آئی کے ایس نے اس گٹھ جوڑ اور کم قیمتوں کے خلاف احتجاج کی نمائندگی کی ہے۔

یکم فروری ۲۰۱۸ کو گنٹور کا مرچی یارڈ ای-نام (الیکٹرانک نیشنل ایگریکلچر مارکیٹس) کے تحت ڈیجیٹل ہو گیا۔ اب خریدار ملک کے کسی بھی حصے سے یہاں خریداری کر سکتے ہیں۔ گنٹور یارڈ ملک کی ۵۸۵ زرعی پیداوار مارکیٹ کمیٹی (اے پی ایم سی) مارکیٹوں میں سے ایک ہے، جو ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر اس کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پروجیکٹ ۱۶ اپریل ۲۰۱۶ کو شروع ہوا تھا، اور اس کا مقصد ایک آل انڈیا الیکٹرانک ٹریڈنگ پورٹل تشکیل دینا ہے جو زرعی اجناس کے لیے ایک متحد آن لائن قومی مارکیٹ بنانے کی غرض سے اے پی ایم سی منڈیوں کو جوڑے گا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اگر اسے صحیح طریقے سے نافذ کیا جائے تو مقامی گٹھ جوڑ کو توڑا جا سکتا ہے اور خریداروں کے درمیان مسابقت بڑھائی جاسکتی ہے، اور اس طرح کسانوں کو مناسب قیمتیں مل سکتی ہیں۔

Mirchi being stuffed in jute bags by the workers in the yard
PHOTO • Rahul Maganti
Jute bags stuffed with mirchi for sale to the exporters in Guntur Mirchi yard
PHOTO • Rahul Maganti

سوکھی مرچوں کو جوٹ کی بوریوں میں بھرتے ہوئے مزدور، ان بوریوں کو ٹیمپو اور ٹرکوں کے ذریعہ لے جا کر بازار میں خریداروں اور برآمد کنندگان کو فروخت کیا جاتا ہے

گنٹور کے دلالوں نے ڈیجیٹ کاری کی مخالفت کی ہے اور کسانوں سے خریدی گئی پیداوار کو یارڈ میں خریدنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے جواب میں اس سال مارچ میں کسانوں نے دلالوں کے خلاف احتجاج کیا۔ ’’ہم اپنا لوڈ واپس نہیں لے سکتے۔ لہٰذا ہم نے [یارڈ سے ملحقہ] چیلاکالوریپیٹ روڈ کو بلاک کر دیا اور انتظامیہ کو کچھ وقت کے لیے ای این اے ایم کو روکنے پر مجبور کر دیا،‘‘ قاسم کہتے ہیں۔

اپریل میں گنٹور میں ای-نام دوبارہ شروع ہوا۔ مارکیٹ یارڈ کے سکریٹری وینکٹیشور ریڈی کہتے ہیں، ’’یہ واپس آ گیا ہے، لیکن ہم اس مارکیٹ کو ملک کے دوسرے بازاروں کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔‘‘ لہذا ڈیجیٹ کاری کی وجہ سے مرچوں کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ ’’ای-نام اسی وقت مفید ہوگا اگر اسے بازاروں سے جوڑا جائے۔ بصورت دیگر مقامی ایجنٹ جو ایک آف لائن گٹھ جوڑ بناتے ہیں اب آن لائن گٹھ جوڑ بنائیں گے،‘‘ حیدرآباد میں مقیم اے آئی کے ایس کے آل انڈیا نائب صدر سرمپلی مَلّا ریڈی کہتے ہیں۔ ’’مزید برآں ای-نام زراعت کی کارپوریٹ کاری اور بڑے کارپوریٹس کے لیے زرعی شعبے کو کھولنے کا ایک اور حربہ ہے۔‘‘ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ایجنٹ کے زیر کنٹرول گٹھ جوڑوں کو ختم کرنے کا حل استحصال کے محور کو بڑی کمپنیوں تک منتقل کر سکتا ہے۔

مَلّا ریڈی کہتے ہیں، ’’اس کی بجائے حکومت کو کرنا یہ چاہیے کہ وہ کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا اعلان کرے، جس کا مطالبہ کسان کچھ عرصے سے کر رہے ہیں۔ اس کے تحت آندھرا پردیش اسٹیٹ کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن لمیٹڈ اور نیشنل ایگریکلچرل کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا لمیٹڈ کو بھی مارکیٹنگ کے عمل میں شامل کیا جانا چاہیے۔ انہیں ۱۹۹۱ کی نرم کاری کے بعد منظم طریقے سے ختم کر دیا گیا تھا۔ کاشتکاروں پر ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل عمل کا بوجھ نہیں لادا جانا چاہیے، خاص طور پر اس وقت جب ای-نام کے نفاذ کے لیے بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔‘‘ ماضی میں، فیڈریشنز کسانوں سے پیداوار حاصل کرتی تھیں اور کمیشن ایجنٹوں کے کردار کو کم سے کم کرنے میں بفر کا کام کرتی تھیں۔

ڈیجیٹ کاری کے فائدوں یا نقصانات کے ساتھ یا اس سے قطع نظر ہانیمی ریڈی جیسے کسان مایوس ہوکر مارکیٹ سے گھر لوٹتے ہیں۔ اپنی پیداوار مناسب قیمت پر بیچنے کے لیے انہیں مارکیٹ یارڈ میں کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے، جب کہ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam