سیٹی شری کانت اور سیٹی گوپی چند ہر رات تقریباً ۱۰ بجے وجے واڑہ سے گزرنے والی چنئی-کولکاتا قومی شاہراہ کے ٹریفک ڈیوائیڈر پر ونائل کا ایک پرانا بینر پھیلا کر اپنے تولیوں کو چادر کے طور پر استعمال کرتے ہوئےسو جاتے ہیں۔

صبح کے وقت دونوں قریبی بینز سرکل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں، جہاں یومیہ اجرت والے مزدور کام حاصل کرنے کے امید میں صبح ۶ بجے سے اکٹھا ہونا شروع ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ دونوں بھائی مزدوروں کے ’اڈہ‘ پر سائیکل سوار خوانچے والوں سے اڈلی خرید کر کھا لیتے ہیں اور کبھی کبھی خالی پیٹ ہی کام پر چلے جاتے ہیں۔

’’ہمیں وجے واڑہ آئے ایک سال ہو گیا ہے،‘‘ ۱۶ سالہ شری کانت کہتے ہیں۔ انہوں نے ۲۲ سالہ گوپی چند کے ساتھ تلنگانہ کے کھمم ضلع میں واقع مدوپلّے گاؤں کو ۲۰۱۶ میں چھوڑا تھا۔ انہوں نے یہ اقدام اپنے کنبے کو ہوئے بھاری زرعی نقصانات کے فوراً بعد اٹھائے تھے، حالانکہ تب تک انہوں نے لاگت اور آمدنی کو برابر کر لیا تھا۔ ’’ہمارے والد پانچ ایکڑ [لیز پر لی گئی زمین پر] مرچ، کپاس اور ہلدی کی کھیتی کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس سال پانچ لاکھ روپے کا نقصان ہوا [اور یہ رقم ساہوکاروں کی اونچی شرح سود کی وجہ سے اب سات لاکھ تک پہنچ گئی ہے]،‘‘ شری کانت کہتے ہیں۔ ہلدی کی فصل کی اچھی قیمت نہیں ملی، کپاس کی فصل گلابی کیڑے کی زد میں آگئی اور مرچ کی فصل خراب بیج کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔ ’’ہمیں کام تلاش کرنے اور اپنے قرضوں کی ادائیگی کے لیے گھر چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا،‘‘ شری کانت کہتے ہیں۔ انہوں نے ۱۰ویں جماعت میں پڑھائی چھوڑ دی تھی، جب کہ گوپی چند نے پولی ٹیکنک کورس ادھورا چھوڑا تھا، جس میں وہ آٹوموبائل مکینک بننے کی تربیت لے رہے تھے۔

سیٹی برادران کی طرح روزانہ صبح تقریباً ۱۰۰۰ لوگ بینز سرکل پر سخت محنت والے یومیہ اجرت کے کاموں پر رکھے جانے کی امید میں انتظار کرتے ہیں۔ جبکہ خواتین قریبی دیہاتوں سے سفر کرکے آتی ہیں اور شام کو واپس چلی جاتی ہیں۔ زیادہ تر مرد اس سرکل کے تین میل کے دائرے میں فٹ پاتھ یا ڈیوائیڈرز پر سوتے ہیں۔ وہ آندھرا پردیش کے شمالی شریکاکولم ضلع سے ریاست کے جنوبی ساحلی علاقے کے نیلور ضلع تک پوری ریاست سے اس شہر میں آتے ہیں۔

Migrant daily wage labourers seen early morning at the labour adda in Benz Circle looking for some work. Everyday, atleast 1000 people come here for work starting from 6 AM till 10 AM
PHOTO • Rahul Maganti
Migrant daily wage labourers seen early morning at the labour adda in Benz Circle looking for some work. Everyday, atleast 1000 people come here for work starting from 6 AM till 10 AM
PHOTO • Rahul Maganti

پورے تلنگانہ سے یہ مزدور وجے واڑہ آئے ہیں۔ ہر صبح  ان میں سے تقریباً ۱۰۰۰ مزدور کام کی تلاش میں بینز سرکل پر جمع ہوتے ہیں

کئی دوسرے مزدور تلنگانہ کے کھمم اور نلگونڈہ اضلاع سے یہاں آتے ہیں۔ کھمم کے جمالاپورم گاؤں کے لمباڈا قبائل سے تعلق رکھنے والے ۴۰ سالہ بناوت کوٹیّا نے اس وقت مہاجرت اختیار کی جب وہ اپنی نصف ایکڑ پوڈو (جنگلاتی) زمین پر آئندہ کھیتی کرنے سے قاصر ہو گئے تھے۔ پٹہ (حکومت کی طرف سے جاری کردہ ’زمین کی ملکیت‘ کی دستاویز) کے بغیر وہ زرعی بینک سے قرض کی درخواست نہیں دے سکتے تھے۔ کوٹیّا ۱۵ سال پہلے وجے واڑہ آئے تھے، تبھی سے ان کی زمین  خالی پڑی ہے۔ وہ اپنے پیچھے بیوی اور دو اسکول جانے والے بیٹوں کو چھوڑ کر آئے ہیں۔ ’’میں مہینے میں ایک بار گھر واپس [پہلے ٹرین سے، پھر بس سے] جاتا ہوں اور ایک یا دو دن اپنی فیملی کے ساتھ گزارنے کے بعد واپس آ جاتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ یومیہ ۴۰۰ روپے کی اجرت کے لیے کوٹیّا عام طور پر صبح ۸ بجے سے شام ۴ بجے تک کمر توڑ محنت کرتے ہیں۔

اجرت کی یہ شرح کام کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے۔ اس کا فیصلہ مالک کرتے ہیں، کیونکہ ان مزدور اڈوں پر ہمیشہ مانگ سے زیادہ سپلائی ہوتی ہے۔ مالک بنیادی طور پر ٹھیکیدار اور تعمیراتی مستری ہوتے ہیں۔ وہ اس دن کی ضرورت کے لحاظ سے موٹر سائیکلوں، ٹریکٹروں یا ٹیمپو میں بیٹھ کر مزدوروں کو لینے کے لیے بینز سرکل آتے ہیں۔

’’خواہ کیٹرنگ ہو، تعمیراتی کام ہو یا گھریلو کام، ہم تمام قسم کے کام کرتے ہیں،‘‘ یہ کہنا ہے ضلع کرشنا کے موپللا گاؤں کے ۵۲ سالہ دلت کوٹا ویرا وسنتا کا، جو ۲۰۰۳ میں وجے واڑہ آئے تھے۔ ’’یہ [مزدور] مراکز یہاں طویل عرصے سے موجود ہیں۔ یہاں پچھلے کچھ سالوں میں کام کی تلاش میں آئے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

A man standing on a street in Vijaywada
PHOTO • Rahul Maganti
Kota Veera Vasantha Rao and Kotamarthi Yesu get ready sleep on a vinyl banner in Pandit Nehru Bus Stand in Vijayawada
PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: جمالا پورم گاؤں کے بناوت کوٹیّا اس وقت وجے واڑہ آئے تھے جب وہ اپنی آدھی ایکڑ جنگلاتی زمین پر آئندہ کھیتی نہیں کر سکتے تھے۔ دائیں: کوٹا ویرا وسنتا راؤ (ایک بینر کو چادر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے) اور کوٹامارتی یسو، وجے واڑہ کے پنڈت نہرو بس اسٹینڈ پر ونائل بینر پر سونے کی تیاری کر رہے ہیں

وسنتا راؤ ایک بے زمین مزدور ہیں۔ خطہ میں طویل خشک سالی کی وجہ سے کھیتوں میں کام ختم ہوجانے کے بعد انہیں اپنا گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ سونے کے لیے دو سال تک انہوں نے وجے واڑہ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک لاج میں بستر کے لیے ۳۰ روپے خرچ کیے۔ جب یہ معمولی سہولت بھی ان کی دسترس سے باہر گئی، تو انہوں نے ریلوے اسٹیشن پر ہی رات گزارنا شروع کر دیا۔ ۲۰۱۴ میں وجے واڑہ کو ریاست کا نیا دارالحکومت بنانے کے بعد شہر کے مرکزی بس اسٹیشن کی تجدید کاری ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ وہیں سوتے ہیں۔ شہر کی بے گھری کی راتوں کے درمیان اتوار کا دن ایک وقفے کی طرح ہوتا ہے جب وہ اپنے گھر واپس جاتے ہیں۔ تقریباً ۵۸ کلومیٹر کی دوری وہ سرکاری ٹرانسپورٹ کی بس کے ذریعے طے کرتے ہیں اور پیر کی صبح بینز سرکل واپس آکر کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

وجے واڑہ میں اس طرح کے ۱۰ سے زیادہ مزدور چوک ہیں، جہاں تقریباً ۶۰۰۰ مرد اور عورتیں (کرشنا ضلع کے سینٹر فار انڈین ٹریڈ یونین کے جنرل سکریٹری، این سی ایچ سری نواس کے اندازے کے مطابق) یومیہ اجرت کی نوکریوں کی تلاش میں جمع ہوتے ہیں۔ بینز سرکل کے علاوہ ستیہ نارائن پورم، وجیا ٹاکیز اور چٹی نگر ان میں سب سے نمایاں مراکز ہیں۔

بھولکشمی (۵۵ سالہ) تین سال سے بینز سرکل آ رہی ہیں۔ وہ یہاں ۱۰ سے ۱۲ دیگر خواتین کے ساتھ وجے واڑہ سے ۱۵ کلومیٹر کی دوری پر واقع کانکی پاڈو سے مشترکہ آٹورکشہ کے ذریعے روزانہ تقریباً ۱۰۰ روپے خرچ کرکے یہاں آتی ہیں۔

A woman standing at a street corner in Vijaywada
PHOTO • Rahul Maganti
Migrant daily wage women labourers from Kankipadu
PHOTO • Rahul Maganti

بھولکشمی (بائیں) وجے واڑہ کے مضافات میں کنکی پاڈو گاؤں کی خواتین مزدوروں کے ایک گروپ کے ساتھ مشترکہ آٹورکشہ کے ذریعہ بینز سرکل کا سفر طے کرتی ہیں

’’ہمارے پاس نہ تو کھیتوں میں کام ہے اور نہ ہی منریگا [مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون] کی مزدوری۔ اس لیے ہم شہر آتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے فی دن کے حساب سے ہمیں ہفتے میں مشکل سے دو سے تین دن کے کام ملتے ہیں۔‘‘ خواتین کو بنیادی طور پر تعمیراتی کاموں اور کیٹرنگ کے کاموں کے لیے رکھا جاتا ہے، لیکن انھیں اکثر مردوں کے مقابلے میں کم مزدوری ملتی ہے۔

فروری میں ایک جمعہ کی صبح تقریباً ۶ بجے بینز سرکل میں پرامید مزدوروں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔ وہ صبر و سکون کے ساتھ انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی آکر ان کی خدمات حاصل کرے۔ صبح ۱۰ بجے تک تقریباً ۱۰۰۰ مزدوروں میں سے کم از کم نصف آہستہ آہستہ منتشر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک کلومیٹر دور سائیں بابا کے مندر کی طرف نکل جاتے ہیں، جہاں ہر روز غریبوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔

The people who want work force in their construction sites and homes will come on two wheelers and tempos and pick the labourers up. The labourers throng the employers when they are here for work. Since he demand is less and the supply is more, most often the workers will have a raw deal in the bargaining of the wage for that particular day
PHOTO • Rahul Maganti

بینز سرکل میں ٹھیکیدار مزدوروں کے ساتھ اجرت کی شرح پر مول بھاؤ کرتے ہوئے

’’آج کی کمائی دن کے اختتام تک ختم ہو جائے گی۔ اگر ہمیں اگلے دن کام نہیں ملتا ہے، تو ہمیں اس وقت تک بھوکا رہنا پڑے گا جب تک کہ کوئی کام نہیں مل جاتا،‘‘ سیٹی شری کانت کہتے ہیں۔ ’’تب تک ہم دوپہر کو مندر میں کھاتے ہیں اور رات کو میونسپلٹی کے نل کے پانی سے پیٹ بھرتے ہیں۔‘‘ خالی پیٹ زیادہ دیر تک کام کرنے سے بعض اوقات نوجوان شری کانت کو چکرآنے لگتے ہیں۔ ’’میں پانی پیتا ہوں، کچھ دیر آرام کرتا ہوں، اور دوبارہ کام شروع کر دیتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

کوٹیّا کو وجے واڑہ کی گرمی کا وہ دن یاد ہے جب کئی ہفتوں تک دن میں صرف ایک بار کھانا کھانے کی وجہ سے وہ بیہوش ہو گئے تھے۔ ’’میرے پاس اسپتال جانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور میرے ٹھیکیدار نے اس دن مجھے صرف آدھی اجرت دی تھی، کیونکہ میں اپنی شفٹ مکمل نہیں کر سکا تھا۔ میرے ساتھی مزدوروں نے کچھ پیسے جمع کیے اور مجھے اس شام سرکاری اسپتال لے گئے،‘‘ کوٹیّا کہتے ہیں، جو اگلے دن شدید سر درد، متلی اور تیز بخار کے ساتھ بیدار ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ واپس جملاپورم چلے گئے تھے، اور دو ہفتے بعد وجے واڑہ واپس آئے تھے۔ ’’مجھے اپنے گاؤں واپس جانا پڑا کیونکہ نہ میرے سر پر چھت تھی اور نہ کام کرنے اور پیسہ کمانے کی توانائی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

وجے واڑہ کے مزدور چوک کے بہت سے مزدوروں کو اپنی محنت کی کمائی رات میں سڑکوں پر گھومنے والے منظم گروہوں سے بچانے کے لیے بھی روزانہ جد وجہد کرنی پڑتی ہے۔ ’’ابھی کل ہی، میں نے ’بلیڈ بیچ‘ [گینگ] چوروں کے ہاتھوں ۱۵۰۰ روپے کھو دیے تھے۔ ان گروہوں سے بچانے کے لیے بعض اوقات ہم اپنا پیسہ مٹی میں چھپا دیتے ہیں،‘‘ ۲۵ سالہ کمار کہتے ہیں (جو صرف اپنا پہلا نام استعمال کرنا چاہتے تھے)۔ وہ وجے واڑہ سے تقریباً ۱۳۵ کلومیٹر دور مغربی گوداوری ضلع کے نڈاداول شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’جب ہمیں کوئی کام نہیں ملتا، تو ہم ۵۰ روپے کی [دیسی] شراب خریدتے ہیں، اور فٹ پاتھ پر ہی پی کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔‘‘

سڑکوں پر رہنے کی وجہ سے انہیں اکثر پولیسیا تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کمار کہتے ہیں، ’’وہ آتے ہیں اور ہمیں بھگا دیتے ہیں اور جب کوئی وی آئی پی آتا ہے یا جب وہ شہر کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم پر لاٹھیاں برساتے ہیں۔‘‘

شہر میں ایک این جی او کے زیرانتظام چلنے والے صرف دو نائٹ شیلٹرز ہیں، جن کی کل گنجائش ۱۵۰ افراد کی ہے۔ انہیں وجے واڑہ میونسپل کارپوریشن نے بنایا تھا۔ بینز سرکل سے ملحقہ بس اسٹیشن کے قریب اور ایک دوسرے لیبر اڈہ کے قریب مزید تین نائٹ شیلٹرز چار سالوں سے ’زیرِ تعمیر‘ ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اضافی شیلٹرز اس سال مکمل ہو جائیں گی۔

The Shelter for Urban Homeless has 150 beds across the city, spread across two centers, while it is supposed to have atleast 1500. Four such centers have been in construction since four years
PHOTO • Rahul Maganti
Homeless people, who mostly are migrant daily wage labourer from rural parts of Andhra Pradesh, sleep in the Pandit Nehru Bus Station in Vijayawada.
PHOTO • Rahul Maganti

شہر میں بے گھر لوگوں کے شیلٹرز میں سے ایک؛ اس میں اتنی کم گنجائش ہے کہ زیادہ تر مہاجر مزدور (دائیں) فٹ پاتھوں، بس اسٹینڈوں اور ریلوے اسٹیشن پر سوتے ہیں

’’لیکن وہ ناکافی ہیں۔ سپریم کورٹ کے رہنما خطوط [شہری علاقوں میں بے گھر افراد کو پناہ دینے کے حق سے متعلق ای آر کمار و دیگر بمقابلہ یونین آف انڈیا کے رٹ پٹیشنز پر مبنی ۲۰۱۶ میں عدالت کے فیصلے کے مطابق] بیان کرتا ہے کہ ہر ایک لاکھ افراد کی آبادی کے لیے، کم از کم ایک شیلٹر[۵۰ سے ۸۰ افراد کے درمیان کی گنجائش والا] تعمیر کیا جانا چاہیے۔ لہٰذا وجے واڑہ [اب تقریباً ۱۵ لاکھ کی آبادی کے ساتھ] میں [کم از کم] ۱۵ شیلٹرز ہونے چاہئیں،‘‘ موجودہ نائٹ شیلٹرز کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم گائیڈ فاؤنڈیشن کے مرلی کرشنا کہتے ہیں۔

’’قومی شہری ذریعہ معاش مشن کے تحت [شیلٹرز کی تعمیر کے لیے] کافی فنڈز موجود ہیں، لیکن اس کام کے تئیں وابستگی کا فقدان ہے۔ حکومت کو [این یو ایل ایم کے ذریعے] شیلٹرز میں لوگوں کو مفت طعام کے ساتھ ساتھ روزگار کے اختیارات [یا ہنر کے فروغ] کے بارے میں ٹریننگ بھی دینا چاہیے اور [سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق] شہر میں متبادل رہائش تلاش کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے،‘‘ یہ کہنا ہے پراگدا شری نواسو کا، جو وشاکھاپٹنم میں مقیم شہری اور قبائلی ترقی کی ایسوسی ایشن کے ساتھ منسلک ایک کارکن ہیں۔

اس طرح کے اقدامات اگرچہ دور کی کوڑی ہیں، اور وہ لوگ جو وجے واڑہ کو فعال رکھنے کے لیے سب سے زیادہ محنت کرتے ہیں وہ مسلسل بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اگلی نوکری، اگلا کھانا، سونے کے لیے اگلی محفوظ جگہ، ان کی تلاش جاری رہتی ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam