’’مغربی بنگال کے لوگ ڈُلی بنانا نہیں جانتے ہیں۔‘‘

ببن مہتو دھان رکھنے کے کام میں استعمال ہونے والی اس چھ فٹ اونچی اور چار فٹ چوڑی ’’دھان دھورار ڈُلی‘‘ کے بارے میں تفصیل سے بتانا شروع کرتے ہیں۔

ہم بھی پہلی بار میں اس کی بُنائی کو سمجھ نہیں پائے تھے، پڑوسی ریاست بہار سے آیا یہ کاریگر اپنی گفتگو کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے، ’’ ڈُلی بنانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔‘‘ اس کے لیے کاریگروں کو الگ الگ مراحل سے گزرنا ہوتا ہے: ’’بہت سے کام ہوتے ہیں – کندا سادھنا، کام سادھنا، تَلّی بیٹھانا، اسے کھڑا کرنا، بُنائی کرنا، تیری چڑھانا [بانس کو آڑا ترچھا رکھنا، اس کا گول ڈھانچہ تیار کرنا، ٹوکری کے لیے اسٹینڈ بنانا، اس کی بُنائی اور بندھنوں کو پورا کرنا وغیرہ]۔‘‘

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

ببن مہتو بانس کی ٹوکریاں بنانے کے لیے بہار سے مہاجرت کر کے مغربی بنگال کے علی پور دوار ضلع میں آئے ہیں۔ بُننے سے پہلے انہیں تیار کرنے کے لیے وہ بانس (دائیں) کو پھاڑنے کے بعد کڑی دھوپ (بائیں) میں سُکھاتے ہیں

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

ٹوکریوں کو بُنتے ہوئے ببن کی انگلیاں تیزی سے گھومتی ہیں (بائیں)۔ وہ لگاتار ٹوکریوں (دائیں) کو گھماتے رہتے ہیں، تاکہ ان کے توازن کو برقرار رکھا جا سکے

ببن (۵۲) اس کام کو گزشتہ چار دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ ’’بچپن سے میرے ماں باپ نے مجھے صرف یہی کام سکھایا ہے۔ انہوں نے بھی صرف یہی کام کیا۔ سبھی بِند لوگ ڈُلی ہی بناتے ہیں۔ وہ چھوٹی ٹوکریاں بھی بناتے ہیں، مچھلیاں پکڑتے ہیں اور کشتیاں چلانے کا کام کرتے ہیں۔‘‘

ببن کا تعلق بہار کی بِند برادری سے ہے، جو (ذات پر مبنی مردم شماری ۲۳-۲۰۲۲ کے مطابق) ریاست میں انتہائی پس ماندہ طبقہ (ای بی سی) کے طور پر درج ہے۔ بقول ببن، زیادہ تر ڈلی کاریگر بِند برادری سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن کانو اور حلوائی برادری کے بھی کچھ لوگ اس کام کو کرتے ہیں۔ یہ دونوں ذاتیں بھی ای بی سی کے تحت درج ہیں، اور گزشتہ کئی دہائیوں سے بند برادری کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انہوں نے اس ہنر کو سیکھ لیا ہے۔

’’میں اپنے ہاتھ کے اندازے پر کام کرتا ہوں۔ اگر میری آنکھیں بند ہوں، یا بہر اندھیرا ہو، تب بھی میرے ہاتھ میں وہ ہنر ہے کہ وہ مجھے راستہ بتاتا رہے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

سب سے پہلے وہ لمبے بانس کو آڑا کاٹ لیتے ہیں، پھر ۱۰۴ کی تعداد میں انہیں لچکدار قمچیوں میں چیر لیتے ہیں۔ یہ ایک مہارت سے کیا جانے والا کام ہے۔ اس کے بعد، اچھی طرح سے پیمائش کرنے کے بعد بانس کے گول فریم کا قطر تیار کیا جاتا ہے۔ ایک ڈلی کا قطر عام طور پر ’’چھ یا سات ہاتھ‘‘ (تقریباً ۹ سے ۱۰ فٹ) کا ہوتا ہے۔ یہ اس میں رکھے جانے والے دھان کی مقدار پر منحصر ہے۔ ایک ’’ہاتھ‘‘ لمبائی ناپنے کی وہ اکائی ہے جو درمیانی انگلی کے اگلے سرے سے لے کر کہنی کے برابر ہوتی ہے۔ یہ اکائی عام طور پر پورے ہندوستان کے کاریگروں اور دستکاروں کے درمیان لمبائی ناپنے کی اکائی کے طور پر مشہور ہے اور یہ تقریباً ۱۸ انچ کے برابر مانی جاتی ہے۔

PHOTO • Gagan Narhe
PHOTO • Gagan Narhe

صحیح خام مال کی تلاش میں کاریگر خود بانسوں کے جھرمٹ میں جاتے ہیں (بائیں) اور انہیں کاٹ کر اپنے ساتھ کام کرنے کی جگہ (دائیں) پر لے جاتے ہیں

PHOTO • Gagan Narhe

ڈُلی کے لیے دائرہ کار بنیاد تیار کرتے ببن، جو تقریباً تین فٹ چوڑی ہے۔ اس بنیاد کو آڑی ترچھی قمچیوں کو بُن کر تیار کیا گیا ہے

پاری کی ٹیم ببن سے علی پور دوار ضلع (پہلے جلپائی گڑی) میں بات چیت کر رہی ہے۔ مغربی بنگال کا یہ شمالی میدانی حصہ بہار میں بھگوانی چھپرہ میں واقع ان کے گھر سے تقریباً ۶۰۰ کلومیٹر دور ہے، جہاں سے وہ ہر سال کام کرنے آتے ہیں۔ وہ یہاں کارتک (اکتوبر-نومبر) کے مہینہ میں پہنچتے ہیں، جب خریف کے موسم میں دھان کی فصل کٹنے کے لیے تیار ہو چکی ہوتی ہے۔ اگلے دو مہینوں کے لیے وہ یہیں رکیں گے، اور ڈلی بنا کر انہیں بیچیں گے۔

وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ’’علی پور دوار اور کوچ بہار کے سبھی ہاٹوں [ہفتہ واری بازاروں] میں ہمارے بھگوانی چھپرہ گاؤں سے آئے ڈلی بنانے والے کاریگر مل جائیں گے،‘‘ پورن ساہا کہتے ہیں۔ وہ خود بھی ڈُلی بنانے والے کاریگر ہیں، جو ہر سال بہار سے کوچ بہار ضلع میں کھاگڑا باڑی شہر کے دودیئر ہاٹ آ جاتے ہیں۔ یہاں پہنچنے والے زیادہ تر مہاجر کاریگر پانچ سے دس کی تعداد میں ایک ساتھ عارضی خیموں (ٹینٹ) میں رہتے ہیں۔

ببن جب پہلی بار مغربی بنگال آئے، تب وہ صرف ۱۳ سال کے تھے۔ وہ اپنے استاد رام پربیش مہتو کے ساتھ آئے تھے۔ ’’میں نے مسلسل ۱۵ سال تک اپنے گرو (استاد) کے ساتھ سفر کیا۔ اس کے بعد ہی میں ڈلی بنانے کا ہنر ٹھیک سے سمجھ پایا،‘‘ ببن کہتے ہیں، جو ڈلی بنانے والے کاریگروں کے خاندان سے آتے ہیں۔

PHOTO • Gagan Narhe

علی پور دوار کے متھرا میں ایک ہفتہ واری ہاٹ میں ٹوکری بنانے والوں کا ایک گروپ، جو اپنے عارضی خیموں کے سامنے کھڑا ہے۔ یہ کاریگر یہیں رہتے ہیں اور ڈُلی بناتے اور بیچتے ہیں

*****

صبح اٹھ کر ببن سب سے پہلے آگ جلاتے ہیں۔ ٹھنڈ اتنی زیادہ ہے کہ ان عارضی خیموں کے اندر سو پانا بہت مشکل ہے، اس لیے انہوں نے باہر سڑک پر نکل کر آگ کے قریب بیٹھنا ہی بہتر سمجھا ہے۔ ’’میں روز صبح ۳ بجے ہی بیدار ہو جاتا ہوں۔ رات میں مجھے ٹھنڈ لگتی ہے۔ سردیوں کے سبب میں بستر سے باہر نکل پڑتا ہوں۔ باہر نکل کر آگ جلاتا ہوں اور اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘ ایک گھنٹہ کے بعد وہ اپنا کام شروع کرتے ہیں، جب کہ باہر اندھیرا تب بھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوتا ہے۔ لیکن اسٹریٹ لائٹ کی ہلکی روشنی کام شروع کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ڈلی ٹوکری بناتے وقت سب سے اہم کام صحیح قسم کے بانس کا انتخاب ہوتا ہے، ’’تین سال پرانا بانس اس کام کے لیے سب سے موزوں تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ اسے آسانی سے چیرا جا سکتا ہے، اور یہ مناسب طور پر موٹا بھی ہوتا ہے،‘‘ ببن بتاتے ہیں۔

اچھی طرح پیمائش کر کے بانس کے گول فریم کو بنانا ایک مشکل کام ہے، اور اس کے لیے وہ داؤ (درانتی) کا استعمال کرتے ہیں۔ اگلے ۱۵ گھنٹے تک وہ صرف کھانا کھانے اور بیڑی پینے کے لیے ہی چھٹی لیں گے۔

ایک بہترین ڈلی ۵ فٹ اونچی ہوتی ہے اور اس کا دائرہ ۴ فٹ کا ہوتا ہے۔ ببن اپنے بیٹے کی مدد سے ایک دن میں دو ڈلی بنا سکتے ہیں۔ ڈلی تیار ہو جانے کے بعد وہ انہیں علی پور دوار ضلع کے ہفتہ واری متھرا ہاٹ میں پیر کے روز بیچنے جاتے ہیں۔ ’’جب میں ہاٹ جاتا ہوں، تب میرے پاس الگ الگ سائز کی ڈلی ہوتی ہے۔ ان میں ۱۰ من، ۱۵ من، ۲۰ من، ۲۵ من تک دھان رکھا جا سکتا ہے۔‘‘ ایک من ۴۰ کلوگرام کے برابر ہوتا ہے۔ ببن گاہکوں کی مانگ کے مطابق ڈلی کا سائز طے کرتے ہیں۔ اس طرح ۱۰ من کی حجم والی ایک ڈلی میں ۴۰۰ کلوگرام دھان رکھا جا سکتا ہے۔ ببن گاہکوں کی مانگ کے مطابق ڈلی بناتے ہیں کہ وہ کتنے وزن کی ڈلی بنوانا چاہتے ہیں۔ ڈلی کا سائز ان میں رکھے جانے والے دھان کی مقدار کے مطابق ۵ سے ۸ فٹ کے درمیان کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: ببن مہتو اور بانس کی لمبی چوڑی ٹوکری

میرے ماں باپ نے مجھے بچپن میں ہی ڈُلی بنانا سکھا دیا تھا۔ وہ خود بھی صرف یہی کام جانتے تھے

’’فصل کی کٹائی کے موسم میں ہمیں ایک ڈلی کے ۶۰۰ سے ۸۰۰ روپے تک مل جاتے ہیں۔ سیزن ختم ہونے لگتا ہے، تب مانگ میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ ایسے میں مجھے اسی سامان کو سستے میں بیچنا پڑتا ہے۔ اضافی آمدنی کے لیے میں ٹوکری کو خود پہنچا بھی دیتا ہوں، اور اس کے عوض مجھے ۵۰ روپے الگ سے مل جاتے ہیں۔

ایک ڈلی کا وزن آٹھ کلو تک ہوتا ہے اور ببن اپنے سر پر ایک ساتھ تین ڈلی (تقریباً ۲۵ کلو) اٹھا سکتے ہیں۔ ’’کیا میں کچھ دیر کے لیے اپنے سر پر ۲۵ کلو کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا؟‘‘ وہ اس لہجے میں پوچھتے ہیں گویا کہنا چاہتے ہوں کہ ان کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

اپنی دکان لگانے کے لیے جب ببن ہفتہ واری ہاٹ سے گزرتے ہیں، تب وہ بہار سے آئے اپنے گاؤں کے دوسرے ساتھیوں کو دیکھ کر سر ہلاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ وہ ان دکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو ان کی برادری کے لوگوں کی ہیں، یا مقامی بنگالیوں کی ہیں جو مددگار ہیں۔ ’’سب جان پہچان کے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اگر میرے پاس ایک بھی پیسہ نہ ہو اور مجھے چاول، دال اور روٹی کھانے کی خواہش ہو، تو یہ میرے لیے تمام چیزوں کا انتظام کر دیں گے۔ وہ ایک بار بھی مجھ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ میرے پاس پیسے ہیں یا نہیں۔‘‘

PHOTO • Gagan Narhe
PHOTO • Gagan Narhe

ببن سر پر ایک ڈلی اٹھائے ہوئے ہیں، جسے انہیں اپنے گاہک (بائیں) کے گھر پہنچانا ہے، جو ان کے (دائیں) پیچھے پیچھے سائیکل سے چل رہا ہے

ان کی خانہ بدوش زندگی نے انہیں مادری زبان بھوجپوری کے علاوہ کئی دوسری زبانیں بھی فراٹے سے بولنے کا ہنر سکھا دیا ہے۔ وہ ہندی، بنگالی، اور آسامی بول سکتے ہیں اور میچیا بولی سمجھ سکتے ہیں – جو علی پور دوار ضلع کے گاؤں دکشن چکواکھیتی (پہلے جلپائی گڑی ضلع میں واقع) میں رہنے والی میچ برادری کی زبان ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ ۱۰ روپے میں دو گلاس شراب خرید کر پیتے ہیں، کیوں کہ ’’دن بھر کی کڑی محنت کے بعد میرا پورا بدن درد کرنے لگتا ہے۔ شراب میرے درد کو تھوڑا کم کر دیتی ہے۔‘‘

حالانکہ، ان کے ساتھ آئے دوسرے بہاری ایک ساتھ رہتے ہیں، لیکن ببن کو خود کے سہارے رہنا زیادہ پسند ہے: ’’اگر مجھے ۵۰ روپے کا کھانا کھانا ہے اور میرے ساتھ دوسرے لوگ بھی ہیں، تو وہ کہیں گے، ’مجھے بھی میرا حصہ چاہیے!‘ اسی لیے میں نے اکیلے کھانے کا طے کیا۔ اس طرح سے میں جو کچھ کھاتا ہوں وہ میرا ہوتا ہے، اور جو کچھ بھی میں کماتا ہوں وہ بھی میرا ہوتا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ بہار میں بِند برادری کے لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بہت کم ہیں، اس لیے وہ گزشتہ کئی نسلوں سے اسی طرح مہاجرت والی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ببن کے بیٹے ارجن تقریباً ۳۰ سال کے ہو چکے ہیں۔ ارجن مہتو بھی بچپن سے ہی اپنے والد کے ساتھ سفر کرتے تھے، لیکن اب وہ ممبئی میں ایک پینٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ’’ہماری آبائی ریاست بہار میں اتنے مواقع نہیں ہیں کہ ہمیں اچھی آمدنی ہو سکے۔ یہاں صرف ریت کی ٹھیکہ داری ہی واحد کاروبار ہے…اور پورا کا پورا بہار اس پر منحصر نہیں رہ سکتا ہے۔‘‘

PHOTO • Shreya Kanoi

ببن ہر سال اکتوبر سے دسمبر تک، مغربی بنگال میں علی پور دوار کے ہائی وے کے کنارے رہتے اور کام کرتے ہیں

PHOTO • Shreya Kanoi

بائیں: ترپال کا عارضی خیمہ، جہاں ببن رہتے بھی ہیں اور ڈلی بھی بناتے ہیں۔ بائیں: ان کا بیٹا چندن اپنے والد کے ذریعے اچھی طرح پیمائش اور بنیادی بُنائی کے بعد ٹوکریوں کو حتمی طور پر تیار کرتا ہے

چندن، جو ببن کی آٹھ اولادوں میں سب سے چھوٹے ہیں، اس سال (۲۰۲۳) اپنے والد کے ساتھ یہاں آئے ہیں۔ انہوں نے مغربی بنگال کے چائے کے باغات سے ہو کر آسام جانے والی قومی شاہراہ ۱۷ کے کنارے اپنا عارضی خیمہ بنایا ہے۔ ان کا گھر تین طرف سے ترپال سے گھرا ہوا ایک گیراج نما کمرہ ہے، جس کی چھت ٹین کی بنی ہوئی ہے۔ کمرے میں مٹی کا ایک چولہا، ایک بستر اور تھوڑی سی خالی جگہ ہے، جس میں ڈلی ٹوکریاں رکھی جاتی ہیں۔

رفع حاجت کے لیے باپ بیٹے دونوں ہی سڑک کے کنارے کی کھلی جگہوں کا استعمال کرتے ہیں، اور پانی کے لیے پاس کے ہینڈ پمپ پر منحصر ہیں۔ ’’مجھے ان حالات میں رہنے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔ میں ہمیشہ اپنے کام میں مصروف رہتا ہوں،‘‘ ببن کہتے ہیں۔ وہ باہر کے حصے میں ڈلی بناتے اور بیچتے ہیں اور اندر کے حصے میں کھانا پکاتے اور سوتے ہیں۔

جب ان کے واپس گھر لوٹنے کا وقت آتا ہے، تب بانس کے اس کاریگر کے لیے یہ جذباتی لمحہ ہوتا ہے: ’ماں، جو میری مالکن ہیں، نے مجھے اپنے گھر کے باغیچہ میں اُگایا گیا ایک گچھا تیز پات ساتھ لے جانے کے لیے دیا ہے۔‘‘

*****

دھان جمع کرنے کے لیے پلاسٹک کی بوریوں کی آمد اور پروسیسنگ اور ذخیرہ کے نئے طریقوں نے ڈلی کے کاریگروں کے ذریعہ معاش کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ’’پچھلے پانچ سالوں میں اس علاقے میں نئی کھلی چاول کی ملوں کے سبب ہمارے کام پر اس کا برا اثر پڑا ہے۔ اب کسان پہلے کی طرح ذخیرہ کرنے کی بجائے اپنا دھان کھیت سے پروسیسنگ کے لیے سیدھے ملوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔ لوگوں نے دھان کو جمع کرنے کے لیے پلاسٹک کی بوریوں کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے،‘‘ بہار سے آئے ڈلی کے کئی کاریگر پاری سے بات چیت کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔

PHOTO • Gagan Narhe
PHOTO • Gagan Narhe

بائیں: اس سال (۲۰۲۴) ڈُلی کے کاریگر اپنی سبھی ٹوکریاں فروخت نہیں کر پائے ہیں۔ دائیں: اب ڈلی کے مقابلے کسان بستہ (پلاسٹک کی بوری) کا زیادہ استعمال کرتے ہیں، کیوں کہ وہ سستا ہونے کے ساتھ ساتھ ذخیرہ کے لیے زیادہ موزوں ہوتے ہیں

دیگر چھوٹے سائز کی ٹوکریاں بنانا بھی ایک متبادل ہے، لیکن وہ مقامی کاریگروں کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے جو خود بھی انہیں بناتے ہیں۔ انہوں نے تو ان سے درخواست بھی کی کہ ’دیکھو بھائی، یہ مت بناؤ، اپنا بڑا والا ڈُلی بناؤ…ہم لوگ کے پیٹ میں لات مر مارو۔‘‘

کوچ بہار اور علی پور دوار ضلعوں کے سبھی ہاٹوں میں ایک بستے (پلاسٹک کی بوری) کی قیمت ۲۰ روپے ہے، جب کہ ایک ڈلی کی قیمت ۶۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ ایک بستہ میں ۴۰ کلو چاول آتا ہے، جب کہ ایک اچھی ڈلی میں ۵۰۰ کلوگرام تک چاول ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔

سشیلا رائے دھان اگانے والی ایک کسان ہیں اور ذخیرہ کے لیے ڈلی کو بہتر مانتی ہیں۔ علی پور دوار کے دکشن چکواکھیتی گاؤں کی رہنے والی ۵۰ سالہ سشیلا کہتی ہیں، ’’اگر ہم دھان کو پلاسٹک کی بوریوں میں جمع کریں گے، تو ان میں کالے کیڑے [چاول کے گُھن] لگ جائیں گے۔ اس لیے ہم ڈلی کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم پورے سال بھر کی اپنی کھپت کے لیے بڑی مقدار میں چاول کا اسٹاک رکھتے ہیں۔‘‘

مغربی بنگال ملک میں سب سے زیادہ چاول کی پیداوار کرنے والی ریاست ہے (ہندوستان میں چاول کی کل پیداوار کا ۱۳ فیصد یہیں سے آتا ہے)۔ زراعت اور کسانوں کی فلاح کے محکمہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ سال ۲۲-۲۰۲۱ میں ریاست میں ۶ء۱۶۷ لاکھ ٹن چاول کی پیداور ہوئی۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Gagan Narhe

بائیں: ببن ایک ادھوری بنی ڈلی کے ساتھ دھان کے کھیت سے گزر رہے ہیں، جس کی کٹائی ہو چکی ہے۔ دائیں: ان ٹوکریوں کو کٹے ہوئے دھان کو جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دھان اگلے سال کسان کے ذاتی استعمال میں کام آئے گا۔ اس پر گوبر کی پرت لگائی گئی ہے، تاکہ ٹوکری کے تمام سوراخ بند ہو جائیں اور چاول کے دانے گرے نہیں

*****

وسط اکتوبر سے دسمبر تک مغربی بنگال میں رہنے کے بعد ببن کچھ دنوں کے لیے اپنے گھر بہار لوٹ جائیں گے۔ فروری آتے ہی وہ چائے کے باغات میں کام کرنے کے لیے آسام جائیں گے اور اگلے چھ سے آٹھ مہینوں تک چائے کی پتیاں توڑنے کے موسم میں وہیں قیام کریں گے۔ ’’آسام میں ایسی کوئی جگہ نہیں ہے، جہاں میں نہیں گیا ہوں…ڈبرو گڑھ، تیج پور، تنسکھیا، گولا گھاٹ، جورہاٹ، گوہاٹی،‘‘ وہ بڑے شہروں کے نام دہراتے ہوئے کہتے ہیں۔

آسام میں بانس کی جو ٹوکریاں وہ بناتے ہیں، انہیں ڈھوکو کہا جاتا ہے۔ ڈلی سے موازنہ کیا جائے، تو ڈھوکو کی اونچائی بہت کم ہوتی ہے – زیادہ سے زیادہ تین فٹ۔ یہ چائے کی پتیاں توڑنے کے وقت استعمال میں آتی ہیں۔ ایک مہینہ میں وہ تقریباً ۴۰۰ ایسی ٹوکریاں بناتے ہیں۔ یہ ٹوکریاں عام طور پر چائے کے باغات کے آرڈر پر بنائی جاتی ہیں، جو ببن جیسے کاریگروں کے لیے بانس مہیا کرانے اور رہنے کا انتظام بھی کرتے ہیں۔

’’بانس کا کام کیا، گوبر کا کام کیا، ماٹی کا کام کیا، کھیتی میں کام کیا، آئس کریم کا بھی کام کیا،‘‘ پورے سال کے اپنے کاموں کی تفصیل بتاتے ہوئے ہر فن مولا ببن بتاتے ہیں۔

اگر آسام میں ٹوکریوں کی مانگ میں کمی آ جاتی ہے، تو ببن متبادل کے طور پر راجستھان یا دہلی چلے جاتے ہیں اور وہاں سڑکوں پر گھوم گھوم کر آئس کریم بیچتے ہیں۔ گاؤں میں دوسرے کئی لوگ بھی یہی کام کرتے ہیں، اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔ ’’راجستھان، دہلی، آسام، بنگال – میری پوری زندگی انھیں جگہوں کے چکر لگاتے ہوئے کٹ رہی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

PHOTO • Shreya Kanoi
PHOTO • Shreya Kanoi

بائیں: ڈُلی کا پیندا (بنیادی حصہ) بنانے کے لیے کاریگر کو احتیاط سے پیمائش کرنی پڑتی ہے۔ یہ ایک ایسا ہنر ہے جسے سیکھنے میں لمبا وقت لگتا ہے۔ پیندے پر ہی ٹوکری کا توازن برقرار رہتا ہے۔ دائیں: تیار ڈلی گاہک کو دیتے ہوئے ببن۔ وہ اپنی کاریگری میں اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ ایک ڈلی بنانے میں انہیں صرف ایک دن کا وقت لگتا ہے

کئی دہائیوں سے یہ کام کرنے کے بعد بھی ببن ایک رجسٹرڈ کاریگر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے پاس ڈیولپمنٹ کمشنر برائے دستکاری (ٹیکسٹائل کی وزارت کے ماتحت) کے دفتر سے جاری کردہ کوئی کاریگر کا شناختی کارڈ ہے۔ یہ شناختی کارڈ کاریگروں کو ایک رسمی شناخت فراہم کرتا ہے، تاکہ وہ مختلف سرکاری اسکیموں اور قرضوں، پنشن، اور کاریگری کو قبولیت کا درجہ فراہم کرنے والے انعامات کی اہلیت کے ساتھ ساتھ ہنرمندی کی تجدید اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق امداد حاصل کر سکیں۔

’’ہمارے جیسے کئی کاریگر ہیں، لیکن ہم غریبوں کے بارے میں کون سوچتا ہے؟ ہر آدمی کو بس اپنی جیب بھرنی ہے،‘‘ ببن کہتے ہیں، جن کے پاس اپنے نام کا کوئی بینک اکاؤنٹ تک نہیں ہے۔ ’’میں نے اپنے آٹھ بچوں کی پرورش کی۔ اب جب تک میرے ہاتھ پیر چلیں گے، میں کماؤں گا اور کھاؤں گا۔ مجھے اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ اور، اس سے زیادہ کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟‘‘

یہ اسٹوری مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے۔

مترجم: قمر صدیقی

Shreya Kanoi

Shreya Kanoi is a design researcher working at the intersection of crafts and livelihood. She is a 2023 PARI-MMF fellow.

Other stories by Shreya Kanoi

Gagan Narhe is a professor of communication design. He has served as a visual journalist for BBC South Asia.

Other stories by Gagan Narhe
Photographs : Shreya Kanoi

Shreya Kanoi is a design researcher working at the intersection of crafts and livelihood. She is a 2023 PARI-MMF fellow.

Other stories by Shreya Kanoi
Editor : Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique