محمد شعیب کی دکان یوں تو چوبیسوں گھنٹے کھلی رہتی ہے، لیکن اگر آپ کو اس خاص پکوان کا ذائقہ لینا ہے، تو بہتر ہے کہ آپ وہاں صبح میں جلدی پہنچ جائیں۔

شعیب (۳۵) نواکدل کے گراٹ بل علاقے میں گزشتہ ۱۵ برسوں سے ہریسہ کی اپنی پشتینی دکان چلاتے ہیں۔ سرینگر کے پرانے شہر (ڈاؤن ٹاؤن) کا یہ علاقہ شہر میں ہریسہ کی دکانوں کے لیے مشہور رہا ہے۔ ان میں سے کچھ دکانیں تو تین سو سال پرانی ہیں۔ اور، ان دکانوں سے بھی زیادہ پرانی اس پکوان کی تاریخ ہے۔

’’میں نے اپنے والد سے یہ سنا تھا کہ ہریسہ بنانے کا طریقہ شاہِ ہمدان [ایران کے ۱۴ویں صدی کے ایک صوفی] کے ذریعے یہاں آیا تھا۔ انہوں نے ہی وادی کے باورچیوں کو ہریسہ بنانے کا ہنر سکھایا تھا،‘‘ شعیب بتاتے ہیں۔ وہ اپنے خاندان کی چوتھی نسل سے ہیں، جو ہریسہ بنانے کے کاروبار میں ہیں۔

خاص طور پر ناشتہ میں کھایا جانے والا یہ پروٹین سے بھرا ہوا پکوان میمنہ کے گوشت اور چاول سے بنایا جاتا ہے اور یہ سال میں صرف چھ مہینے – اکتوبر سے مارچ تک ہی ملتا ہے۔ اسے گرما گرم پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں میمنہ کی آنت کا قیمہ (میٹھی) اور کباب ہوتا ہے، جس پر گرم تیل کا تڑکا ڈالا جاتا ہے، اور ساتھ میں گیہوں کے آٹے کی بنی مقامی روٹیاں [کاندر چوٹ] کھائی جاتی ہیں۔ اس پکوان میں استعمال ہونے والے مسالوں میں کالی اور ہری الائچی، دارچینی اور لونگ سب سے ضروری ہیں۔ اس کے بعد اسے رات بھر سلگتی ہوئی لکڑی کے لیے ایک الگ سے بنے چیمبر میں مٹ [تانبے یا مٹی کا پتیلہ] میں پکایا جاتا ہے۔

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: محمد شعیب سرینگر کے پرانے شہر (ڈاؤن ٹاؤن) میں واقع ہریسہ کی دکانوں میں سے ایک کو چلاتے ہیں۔ سردیوں کے دنوں کا یہ ناشتہ چاول اور گوشت سے بنتا ہے، اور اسے ۱۶ سے بھی زیادہ گھنٹے تک پکایا جاتا ہے۔ شعیب مٹی کے پتیلے میں گوشت کو کشمیری چاول کے ساتھ پکنے کے لیے ڈالنے سے پہلے اس کی چربی ہٹا رہے ہیں۔ دائیں: محمد شعیب کی دکان میں کام کرنے والے محمد امین میمنہ کی آنت اور سوکھی ہوئی میتھی سے میٹھی [ایک طرح کا قیمہ] تیار کر رہے ہیں۔ اسے ہریسہ کے ساتھ پیش کیا جائے گا

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

تیل کو ایک برتن میں اونچی آنچ پر گرم کرکے اس پکوان کے اوپر ڈالا جاتا ہے۔ ’تڑکا اس کے ذائقہ کو بڑھاتا ہے،‘ شعیب (دائیں) بتاتے ہیں

’’ہریسہ بنانے کا ہنر میں نے اپنے والد سے سیکھا،‘‘ شعیب بتاتے ہیں۔ ان کی دکان ان کے مکان کو ہی بڑھا کر بنائی گئی ہے۔ اس مکان میں وہ اپنی ماں، بیوی اور دو چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس دکان میں ان کے تین منزلہ مکان کے باورچی خانہ کے راستے سے بھی جایا جا سکتا ہے۔ بہرحال، ہریسہ بنانے کے کام میں عورتوں کا کوئی رول نہیں ہوتا ہے۔ ’’اگر میرا کوئی بیٹا ہوگا، تو میں اس پشتینی کام کو اس کے حوالے کر دوں گا،‘‘ شعیب کہتے ہیں۔ ہریسہ بنانے اور بیچنے کے بعد جو وقت بچتا ہے، اس خالی وقت میں شعیب ایک خشک میوہ اور پنساری کی دکان چلاتے ہیں۔

سال ۲۰۲۲ میں اپنے والد محمد سلطان کے انتقال کے بعد شعیب نے نہ صرف ان کا کام سنبھالا، بلکہ انہوں نے اسے آگے بھی بڑھایا۔ انہوں نے دکان میں نئی میز کرسیاں اور ٹائلس لگا کر اس میں تبدیلی کی۔ ’’میں نے اسے ایسا اس لیے بنوایا تاکہ یہ زیادہ ماڈرن دکھائی دے، کیوں کہ ان دنوں صرف مقامی لوگ ہی نہیں بلکہ سیاح بھی ہریسہ کھانے ہمارے یہاں آتے ہیں،‘‘ مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ اپنی دکان کے باورچی خانہ میں کھڑے ہو کر کھانا بھی پکا رہے ہیں۔

گاہکوں میں ایک ڈاکٹر کامران بھی ہیں، جو تقریباً آٹھ کلومیٹر دور حضرت بل سے یہاں صرف شعیب کی دکان کا ہریسہ کھانے آئے ہیں۔ ’’یہاں کے ہریسہ کا ذائقہ لاجواب ہے۔ جب بھی میری جیب میں پیسے ہوتے ہیں، میں یہاں پہنچ جاتا ہوں،‘‘ ۴۲ سالہ ڈاکٹر کامران کہتے ہیں۔ ’’میں نے یہاں بنے ہریسہ کو سعودی عرب میں رہنے والے اپنے ایک دوست کو بھی بھیجا ہے!‘‘ یہاں ایک پلیٹ ہریسہ کی قیمت ۱۲۰۰ روپے ہے۔

شعیب صبح ۷ بجے سے گاہکوں کو ہریسہ کھلانا شروع کرتے ہیں۔ جن طشتریوں میں اسے پیش کیا جاتا ہے، وہ تانبے کی ہوتی ہیں اور ان پر روایتی طرز میں چنار کے پتوں کی تصویریں بنی ہوتی ہیں۔ صبح ۱۰ بجتے بجتے تانبے کا وہ پتیلہ جس میں ہریسہ پکایا جاتا ہے، پوری طرح خالی ہو جاتا ہے۔ ’’تین سال پہلے تو ایک دن میں نے ۷۵ کلوگرام ہریسہ بیچا تھا!‘‘ وہ اس دن کو یاد کرتے ہیں۔

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: اشفاق (بائیں) اور ان کے چچا محمد منور (دائیں) ۳۵۰ سال پرانے ’بگ چوائس ہریسہ شاپ‘ میں کام کرتے ہیں۔ یہ دکان ڈاؤن ٹاؤن سرینگر کے عالی کدل علاقے میں ہے، اور اس کے مالک فیاض احمد ہیں۔ دائیں: پران (تلے ہوئے چھوٹے سائز کے پیاز، جسے شلوٹ بھی کہتے ہیں) سے بھری تھالی پکڑے محمد منور۔ ’پران کے بغیر آپ ذائقہ دار ہریسہ بنانے کی بات بھی نہیں سوچ سکتے،‘ وہ کہتے ہیں

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: چمنی کو سیٹ کرتے ہوئے اشفاق۔ اس کے بعد وہ اس چیمبر کی لکڑی کو سلگاتے ہیں جس پر ہریسہ سے بھرا مٹی کا پتیلہ رکھا جائے گا۔ دائیں: ایک گاہک کے لیے ہریسہ پیک کرتے ہوئے اشفاق

لیکن پورا ہریسہ فروخت ہو جانے کے بعد بھی شعیب کا کام پورا نہیں ہوتا۔ ’’جب برتن خالی ہو جاتا ہے، تب ہمیں پوری کارروائی دوبارہ شروع کرنی پڑتی ہے۔‘‘

ہریسہ بنانے کے عمل کی شروعات مقامی قصائی سے گوشت کی خریداری کرنے کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک کلو گوشت کی قیمت ۷۵۰-۶۵۰ روپے کے درمیان ہے۔ گوشت کو ٹکڑوں میں کاٹ لیا جاتا ہے، اور اس سے چربی پوری طرح ہٹا دی جاتی ہے۔ ’’اس کے بعد عمدہ قسم کے چاول کو ابالنے کا کام شروع ہوتا ہے۔ چاول کو تب تک پکایا جاتا ہے، جب تک وہ پوری طرح گل کر ایک گاڑھے پیسٹ میں تبدیل نہیں ہو جاتا۔ اس کے بعد ہم چاول کے پیسٹ میں گوشت کو ملا دیتے ہیں اور تیز آنچ پر اسے چھ سے سات گھنٹے تک پکانے کے بعد اس میں ضرورت کے مطابق مسالے اور پانی ملا دیتے ہیں،‘‘ شعیب بتاتے ہیں۔ دکان میں اپنی مدد کے لیے شعیب نے دو ہیلپر بھی رکھے ہوئے ہیں۔

’’ذائقہ دار ہریسہ بنانے کے لیے کسی جادوئی اور خاص مسالے کی ضرورت نہیں ہوتی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’صحیح گوشت کی پہچان سے لے کر اس کی چربی ہٹانے اور عمدہ قسم کے مسالوں کو چننے میں، اور پورے آمیزہ کو آنچ پر رکھنے کے بعد رک رک کر ملاتے ہوئے پکانے میں مجھے تقریباً ۱۶ گھنٹے لگ جاتے ہیں، تب کہیں ہریسہ میں من پسند گاڑھاپن اور ذائقہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘

’’ہریسہ بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے،‘‘ شعیب کہتے ہیں۔

PHOTO • Muzamil Bhat
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: گاہکوں کے لیے طشتری میں میٹھی کے ساتھ گرما گرم ہریسہ سجاتے شعیب۔ دائیں: سرینگر میں ایک شادی کے لیے تانبے کے ایک پتیلہ میں بھر کر ہریسہ اور میٹھی تیار کی جا رہی ہے۔ سردیوں کی شادیوں میں ہریسہ دعوت میں سب سے مزیدار چیز ہوتی ہے اور دولہے کے ذریعے دلہن کی فیملی کو ایک پتیلہ میں ہریسہ بھیجنا ایک رواج ہے

مترجم: محمد قمر تبریز

Muzamil Bhat

Muzamil Bhat is a Srinagar-based freelance photojournalist and filmmaker, and was a PARI Fellow in 2022.

Other stories by Muzamil Bhat
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique