بنگلور کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پاری پر مبنی پیشکش کے دوران ایک متجسس طالب علم ہم سے سوال کرتا ہے، ’’غیر برابری میں برائی کیا ہے؟‘‘

پھر پورے اعتماد کے ساتھ اپنی دلیل پیش کرتا ہے، ’’پنساری کی دکان کے مالک کے پاس چھوٹا سا اسٹور ہوتا ہے اور امبانی کے پاس اپنا بڑا کاروبار ہے کیوں کہ وہ کڑی محنت کر رہے ہیں۔ جو لوگ کڑی محنت کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔‘‘

تعلیم، حفظان صحت اور انصاف تک غیر مساوی رسائی پر پاری کی ایک اسٹوری سے اس قسم کی جگہوں پر ’کامیابی‘ کے نئے معنی تلاش کرنے کے متعدد امکانات ہیں۔ ہم کلاس روم میں ان موضوعات کے قریب جاتے ہیں، تاکہ کھیتوں، جنگلات اور شہروں کے اندھیرے علاقوں میں کام کرنے والے محنت کش لوگوں کی زندگی کو دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکیں۔

تعلیم سے متعلق ہمارا کام پاری کے صحافیوں کی تحریر کو کلاس روم کے اندر لے جا کر نوجوان طلباء کو ہمارے دور کے اہم مسائل سے متعارف کرانا ہے۔ اپنی اسٹوریز، تصاویر، فلموں، موسیقی اور آرٹ کے مجموعہ کے ذریعے ہم دیہی اور شہری ہندوستان کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ان کے لیے زندگی کی مختلف حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں۔

چنئی ہائی اسکول کے ارنو جیسے طلباء اعتراف کرتے ہیں، ’’ہم انہیں [ان کے سماجی و اقتصادی گروپ سے نیچے کے لوگ] اعداد و شمار کی طرح دیکھتے ہیں، نہ کہ حقیقی انسان کی طرح، جو حالات کو ٹھیک ایسے ہی دیکھتے ہیں جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں۔‘‘

Left: At a session in Punjabi University, Patiala, on the need for more rural stories in mainstream media.
Right: At a workshop with young people at the School for Democracy in Bhim, Rajasthan on how to write about marginalised people
PHOTO • Binaifer Bharucha

بائیں: پٹیالہ کی پنجابی یونیورسٹی میں، قومی دھارے کے میڈیا میں مزید دیہی اسٹوریز درج کرنے کی ضرورت پر منعقد ایک اجلاس۔ دائیں: راجستھان کے بھیم میں واقع اسکول فار ڈیموکریسی میں نوجوانوں کے ساتھ حاشیہ بردار لوگوں پر مبنی رپورٹنگ سے متعلق ورکشاپ

سماجی مسائل پیچیدہ ہوتے ہیں، لیکن کئی بار ہم اسے صرف ایک عام اسٹوری کے ذریعے سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں: دو ہزار گھنٹے تک گنّے کی کٹائی مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے اُن زرعی کسانوں پر مبنی اسٹوری ہے جو کام کی تلاش میں گنّے کے کھیتوں تک جاتے ہیں۔ وہ ایک دن میں ۱۴ گھنٹے تک کام کرتے ہیں اور فصل تیار ہونے کے بعد ان کی کٹائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ اسٹوری ان کے ذاتی بیان کی طرح ہے، جو کام کے لیے ان کی بے چین تلاش کو سامنے لاتی ہے کہ مراٹھواڑہ کے ۶ لاکھ زرعی مزدور گنّا کاٹنے کے اپنے سالانہ سفر پر نکلنے کے لیے کیوں مجبور ہیں۔

گنّا مزدوروں پر مبنی یہ رپورٹ درحقیقت ایک تیزی سے ابھرتے زرعی بحران کی تفصیلی کہانی بیان کرتی ہے، جس کے پیچھے خراب پالیسیاں، بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری، غیر یقینی آب و ہوا وغیرہ جیسے کئی دوسرے اسباب ہیں۔ یہ خاندان اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے جانے کو مجبور ہیں۔ نتیجتاً ان بچوں کو لمبے عرصے تک اسکول سے دور رہنا پڑتا ہے اور ان کی تعلیم متاثر ہوتی ہے۔ ایک غیر یقینی زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور یہ بچے آخرکار اپنے ماں باپ جیسی ہی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔

نصابی کتابوں میں عام طور پر پائے جانے والے محاورہ ’غریبی کا دلدل‘ کی یہ ایک جیتی جاگتی مثال ہے جسے کلاس روم میں ایک اسٹوری کے طور پر نئی زندگی ملتی ہے – ایک ایسی کہانی، جسے نوجوان طلباء سناتے ہیں اور نوجوان طلباء ہی سنتے ہیں۔

اس قسم کی کہانیاں اُن مفروضات کو غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، جن کے مطابق معاشی کامیابی کو صرف قابلیت کا نتیجہ بتائے جانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

کلاس روم کے اندر ’کامیابی‘ پر کہے گئے جملے کی مخالفت کرتے ہوئے ایک دوسرا بچہ پلٹ کر پوچھتا ہے، ’’لیکن کڑی محنت تو ایک رکشہ والا بھی کرتا ہے!‘‘

سچی رپورٹ، ذاتی کہانیوں، مستند اعداد و شمار اور قصہ گوئی کی مدد سے ہم صرف معاشرہ سے متعلق مدلل خیالات کی حوصلہ افزائی کرنا نہیں چاہتے ہیں، بلکہ ایک حساس ماحول بنانا اور انہیں ان کے آرامدہ علاقے سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ ’’دراصل، آپ ہمیں ہماری زندگی کو الگ طریقے سے دکھانے کے لیے آمادہ کرتے ہیں،‘‘ دہلی کے ایک کالج میں پڑھنے والے طالب علم نے ہم سے کہا۔

Sugarcane workers are affected by an agrarian crisis caused by poor policies and unpredictable climate. Their children miss school due to travel. 'Success' isn't just about hard work
PHOTO • Parth M.N.
Sugarcane workers are affected by an agrarian crisis caused by poor policies and unpredictable climate. Their children miss school due to travel. 'Success' isn't just about hard work
PHOTO • Parth M.N.

گنّا مزدور خراب پالیسیوں اور آب و ہوا کی بے یقینی کے سبب پیدا ہوئے زرعی بحران سے متاثر ہیں۔ نقل مکانی کے سبب ان کے بچوں کا اسکول چھوٹ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرہ میں ’کامیابی‘ صرف کڑی محنت سے نہیں ملتی

ہم اساتذہ کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں اور جتنا ہم طلباء کو بتاتے ہیں، اس سے آگے کی ذمہ داری اساتذہ کی ہوتی ہے۔ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ پاری میں تھرمل اور گرین انرجی جیسے موضوعات پر ضروری مواد تلاش کرتے ہیں، اور ثقافت اور معاش جیسے موضوعات پر شارٹ ویڈیو دکھاتے ہیں، جو چیزوں کو ان کی حقیقی حالت میں پیش کرتے ہیں۔ زبان کے اساتذہ جب پیشہ ور طریقے سے ترجمہ کی گئی اسٹوریز کو دیکھتے ہیں، تو رومانس سے بھر جاتے ہیں۔ ترجمہ کی گئی اسٹوریز کا تدریسی مواد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے – ’’کیا آپ کے پاس اس اسٹوری کا پنجابی ترجمہ ہے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔ اور ہمارے پاس ہوتا ہے! وہ بھی ۱۴ زبانوں میں۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے لیے ہماری لائبریری پوری طرح سے مفت ہے۔ پاری کے دیگر وسائل بھی ہیں، جن کا وہ استعمال کر پاتے ہیں۔

*****

سال ۲۰۲۳ میں ہندوستان، عالمی سطح پر پریس کی آزادی کی فہرست میں نیچے کھسک کر ۱۶۱ویں مقام پر آ گیا ہے۔ یہ مقام اسے ۱۸۰ ممالک کے درمیان ملا ہے۔ یہ رپورٹ میڈیا پر نظر رکھنے والے ایک عالمی ادارہ ’رپورٹس وداؤٹ بارڈرز‘ (آر ایس ایف) کی ہے۔

آپ نوجوانوں کو اس خطرناک ’غیر جمہوری‘ حقیقت سے کیسے واقف کرائیں گے، جو لگاتار سوشل میڈیا پر من گھڑت خبروں کو جھیلنے کے لیے مجبور ہیں، اور حقیقی صحافیوں کی معتبریت کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں؟

یونیورسٹی کے پاس گنجائش ہے، لیکن اسکول کے کلاس روم میں متبادل کی کمی ہے۔ وہاں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

پاری پر ہم اپنی اسٹوریز کی طاقت کا استعمال کرتے ہیں – تصاویر کے ذریعے، ویڈیو اور بہت سی زبانوں کے ذریعے۔ ہم یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اچھی صحافت کس طرح حکمرانوں کی سچائی کو کھوج نکالنے، اور اپنی سچائی بیان کرنے والوں کو حق سونپنے کے قابل ہے۔

لوک فنکاروں، ڈاکیہ، مقامی تحفظ کار، ربڑ نکالنے والے مزدور، کوئلے کی ردّی نکالنے والی عورتیں، اور ماہر مجسمہ ساز سمیت دیگر کارکنوں کی کہانیاں طلباء کو نصابی کتابوں سے باہر کی دنیا کے بارے میں سناتی اور سکھاتی ہیں۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کے موجودہ طرز عمل کو چنوتی پیش کرتی ہیں۔

Left: PARI at the Chandigarh Children's Literature Festival, engaging with students on stories about people in rural India.
PHOTO • Chatura Rao
Right: After a session with the Sauramandala Foundation in Shillong, Meghalaya, on the role of the media in democracies
PHOTO • Photo courtesy: Sauramandala Foundation

بائیں: چنڈی گڑھ چلڈرنز لٹریچر فیسٹیول میں پاری نے شرکت کی اور دیہی ہندوستان کے لوگوں کی اسٹوریز کے بارے میں طلباء کے ساتھ بات چیت کی۔ دائیں: ’جمہوریت میں میڈیا کا رول‘ موضوع پر میگھالیہ کے شیلانگ میں سورمنڈل فاؤنڈیشن کے ساتھ ایک اجلاس کے انعقاد کے بعد

ہم کسی موضوع کا ماہر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے ہیں۔ بطور صحافی کلاس روم میں ہمارا مقصد اس ماحول کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جس میں نوجوان ریاست کے اقتدار سے سوال پوچھ سکیں، فرسودہ نظام کو چنوتی دے سکیں، خبروں میں جانبداری کو روک سکیں اور ذات اور طبقہ پر مبنی سہولیات کو للکار سکیں۔ اور، سیکھنے کے اس طریقہ کو اُس دنیا کے ضروری بنا سکیں جو انہیں وراثت میں ملی ہے۔

کئی بار ہمیں ملازمین کا تعاون نہیں بھی ملتا ہے۔ کلاس روم میں ذات پر مبنی امور پر بات چیت کے تئیں لوگ بہت جوش نہیں دکھاتے ہیں۔

لیکن ان اسٹوریز کو آگے نہیں بڑھانے یا انہیں کلاس روم سے دور رکھنے کا سیدھا مطلب ہے، اگلی نسلوں کو ذات پر مبنی جبر و استحصال سے لا علم اور بے خبر رکھنا۔

ہماری اسٹوری، ’نالے میں کسی کی موت نہیں ہونی چاہیے‘ نے طلباء کو ملک کی راجدھانی کے ایک مہنگے کاروباری علاقہ کے وسنت کنج مال کے گٹر میں مرے ایک صفائی مزدور کی موت کے بارے میں بتایا۔ وہ صرف اس غیر قانونی اور خطرناک کام کے بارے میں سن کر حیرت زدہ نہیں تھے، بلکہ اس وجہ سے بھی صدمے میں تھے کہ یہ واقعہ ان کے آس پاس یعنی ان کے اسکول سے کچھ ہی کلومیٹر کے فاصلہ پر پیش آیا تھا۔

ان مسائل کو اسکول کی کلاسوں سے ’چھپا کر‘ یا ’ان کی اندیکھی کر‘ ہم ’وشو گرو بھارت‘ کے جھوٹے تصور کو پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔

جب ہم طلباء کو ان اسٹوریز کے بارے میں بتاتے ہیں، تب وہ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ان حالات میں کیا مدد کر سکتے ہیں۔

Left: ' No life in the gutter' told students a story about a worker who died in the drain in a Vasant Kunj mall.
PHOTO • Bhasha Singh
Right: Masters student at Azim Premji University, Dipshikha Singh, dove right into the deep end with her uncovering of female dancers' struggles at Bihar weddings
PHOTO • Dipshikha Singh

بائیں: ’نالے میں کسی کی موت نہیں ہونی چاہیے‘ اسٹوری نے طلباء کو وسنت کنج مال کے گٹر میں مارے گئے ایک صفائی مزدور کی موت کے بارے میں بتایا۔ دائیں: عظیم پریم جی یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کی طالبہ دیپ شکھا سنگھ نے بہار کی شادیوں میں ناچنے والی لڑکیوں کی زندگی کا بہت گہرائی سے کوریج کیا

زمینی رپورٹر اور صحافی کے طور پر جب ہم ان کے تجسس کی تعریف کرتے ہیں، تب ہمارا بنیادی مقصد مسائل کا فوری حل بتانا نہیں، بلکہ ان کے آس پاس کی زندگی اور معاشرہ کو دیکھنے پرکھنے کی ان کی بھوک کو بڑھاوا دینا ہوتا ہے۔

ہم صرف یہ نہیں چاہتے کہ وہ ہماری بات یا تحریر کو سچ مان لیں، اس لیے ایک طالب علم کے طور پر ہم انہیں باہر کی دنیا میں جا کر اپنے ارد گرد کی چیزوں اور واقعات کو درج کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ ’پاری ایجوکیشن‘ سال ۲۰۱۸ میں اپنی شروعات کے بعد سے ۲۰۰ اداروں اور ہزاروں طلباء کے توسط سے اپنے کام میں مصروف ہے۔ ہائی اسکول میں پڑھنے والوں سے لے کر پوسٹ گریجویشن کے طلباء تک رپورٹنگ سیکھ رہے ہیں اور آپ ان کے ذریعے کی گئی اسٹوریز کو یہاں پاری پر پڑھ سکتے ہیں۔

یہ ہمارا بے لوث نظریہ ہے – جس میں ہم انہیں اپنے بارے میں بلاگ لکھنے کی بجائے کسی اور کی زندگی پر مبنی تحریر کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ دوسروں کی آواز کی توسیع کرکے، ان کی زندگی اور معاش سے کچھ سیکھنے کے لیے ترغیب دیتے ہیں۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن کی طالبہ دیپ شکھا سنگھ نے بہار کی شادیوں میں ناچنے والی لڑکیوں/عورتوں کی زندگی کا بہت گہرائی سے کوریج کیا۔ بالی ووڈ کے آئٹم نمبر جیسے گانوں پر ناچنے والی ان عورتوں کو سماج عزت کی نظر سے نہیں دیکھتا ہے۔ ’’مرد ہماری کمر میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں یا ہمارے بلاؤز میں ہاتھ گھسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے روزمرہ کی باتیں ہیں،‘‘ ان میں سے ایک رقاصہ کہتی ہے ۔ اس نے ہم سے درخواست کی کہ ان کا نام پوشیدہ رکھا جائے، لیکن اپنی سماجی و اقتصادی اذیتوں کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتایا۔

اب سماجی شعبے میں کام کرنے والی دیپ شکھا کے لیے ان ناچنے والی لڑکیوں/عورتوں سے ملنے، ان سے پوچھ گچھ اور بات چیت کرنے کا عمل ایک ایسا تجربہ تھا، جن سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا۔ ’’اس رپورٹنگ کے تجربہ نے میری قلم کاری کے سفر میں ایک اہم رول ادا کیا اور مجھے ایسی ضروری اسٹوریز کو شیئر کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ مجھے امید ہے کہ میں پاری کے اس مشن میں آئندہ بھی تعاون کر سکوں گی،‘‘ انہوں نے ہمیں لکھا۔

پاری ایجوکیشن دیہی اسکولوں اور طلباء کے تعاون سے انہیں اپنے آس پاس اور زندگی سے جڑی کہانیوں کو ان کی ہی زبان میں لکھنے میں مدد کرتا ہے۔ نو عمر بچوں نے اوڈیشہ کے جروڈی میں لگنے والی ہاٹ یا ہفتہ واری بازار پر رپورٹنگ کی۔ اپنی رپورٹ کے لیے معلومات جمع کرنے کے مقصد سے انہوں نے ہاٹ کے کئی دورے کیے اور خریداروں اور دکانداروں کے انٹرویو لیے۔

Left: In Jurudi, Odisha, school reporters document the people and produce they sell at a vibrant weekly haat (market)
Right: Student reporter Aysha Joyce profiles N. Saramma, a waste collector who runs an open kitchen in Trivandrum. Saramma's story touched thousands of readers across India, many offering to support her work via donations
PHOTO • Aysha Joyce

بائیں: اسکول کے طلباء نے اوڈیشہ کے جروڈی میں لگنے والی ہفتہ واری ہاٹ میں لوگوں اور وہاں فروخت ہونے والے سامانوں کے بارے میں رپورٹنگ کی۔ دائیں: اسٹوڈنٹ رپورٹر عائشہ جائس نے کچرا اٹھانے والی این سرمّا کے بارے میں لکھا، جو ترواننت پورم میں ایک مفت باورچی خانہ چلاتی ہیں۔ سرمّا کی اسٹوری نے ہندوستان کے ہزاروں قارئین کو متاثر کیا، اور کئی لوگوں نے ان کے کام کو حوصلہ افزائی کرنے کے لیے مالی مدد کی پیشکش کی

رپورٹرز اننیا ٹوپنو، روہت گگرائی، آکاش اور پلّبی لگون نے پاری کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کیے۔ ’’اس قسم کا [تحقیقی] کام کرنا ہمارے لیے کچھ نیا کرنے جیسا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ سبزی بیچنے والوں کے ساتھ مول بھاؤ کرتے ہیں، جب کہ ہمیں معلوم ہے کہ سبزیاں اُگانا کتنا مشکل ہے۔ اس لیے، ہمیں حیرت ہوئی کہ لوگ کسانوں کے ساتھ قیمتوں کو لے کر مول بھاؤ کیوں کرتے ہیں؟‘‘

جو طلباء ہندوستان کے گاؤں دیہاتوں میں نہیں بھی جاتے ہیں، ان کے لیے بھی لکھنے کو بہت سے دوسرے موضوعات ہیں۔ مثلاً کچرا اٹھانے والی این سرمّا کی اسٹوری ، جو ترواننت پورم میں ایک مفت باورچی خانہ چلاتی ہیں۔ ’’بچپن میں، میں نے خطرناک غریبی کا سامنا کیا، اور میں چاہتی ہوں کہ کسی کو بھی بھوکا سونے کو مجبور نہ ہونا پڑے،‘‘ سرمّا اسٹوری میں کہتی ہیں۔

یہ رپورٹ عائشہ جائس نے لکھی ہے اور اسے ہزاروں لوگوں نے پسند کیا ہے اور مدد کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے کمینٹ بھی کیا ہے۔ جب سرمّا سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کی بیٹی بھی وہی کام کیوں نہیں کرتی ہے، تو جواب میں وہ کہتی ہیں، ’’ایک دلت کو نوکری کون دے گا؟‘‘ وہ عائشہ کو بتاتی ہیں، ’’لوگ ہمیشہ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ دوسروں کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم کتنی بھی چالاکی سے کام کریں، کچھ بھی کر لیں، لیکن ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔‘‘

ہم انہیں تکنیکوں سے واقف کرانے، انٹرویو دینے والوں سے معلومات اور رضامندی حاصل کرنے اور تفصیلات کی دیگر ذرائع سے بھی تصدیق کرنے کی ٹریننگ دیتے ہیں، تاکہ قارئین کی دلچسپی برقرار رہے۔ طلباء لکھنے کا ہنر سیکھ سکیں، رپورٹ کو پیشکش کی سطح تک تیار کر سکیں، یہ بھی اہم ہے کیوں کہ وہ بلاگ نہیں، بلکہ ایک رپورٹ لکھ رہے ہوتے ہیں۔

جہاں صحافت کو اکثر لمبی جانچ پڑتال، ذرائع اور اعداد و شمار سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے، ہم طلباء کی عام لوگوں سے جڑی رپورٹ لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان رپورٹس میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کے تجربات، ان کے کام کی نوعیت، ناموافق حالات سے نمٹنے کی ان کی صلاحیت، ان کی خوشیاں اور غم، اور اپنے بچوں سے جڑے ان کے خواب شامل ہوتے ہیں۔

پاری ایجوکیشن ہماری وہ کوشش ہے، جس میں ہم نوجوانوں کو ایماندار صحافت کے نظریہ سے سماجی مسائل کی نشاندہی کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ لوگوں اور ان کی زندگی سے جڑی کہانیاں بیان کرتے ہوئے طلباء صحافت کے ساتھ ساتھ اپنے کلاس روم میں بھی انسانی زاویہ لے کر آتے ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ پاری آپ کے ادارہ کے ساتھ کام کرے، تو براہ کرم [email protected] پر لکھیں۔

اس اسٹوری کی فیچر امیج پاری کی فوٹو ایڈیٹر بنائیفر بھروچا نے کھینچی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Vishaka George

Vishaka George is Senior Editor at PARI. She reports on livelihoods and environmental issues. Vishaka heads PARI's Social Media functions and works in the Education team to take PARI's stories into the classroom and get students to document issues around them.

Other stories by Vishaka George
Editor : PARI Desk

PARI Desk is the nerve centre of our editorial work. The team works with reporters, researchers, photographers, filmmakers and translators located across the country. The Desk supports and manages the production and publication of text, video, audio and research reports published by PARI.

Other stories by PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique