کرشن گاوڑے بہت جلد بڑے ہو گئے تھے۔ جب ان کی عمر کے گاؤں کے کئی بچے اسکول جاتے تھے، تو وہ ۲۰۰ روپے یومیہ کی مزدوری پر کھیتوں پر کام کرتے تھے۔ جب گاؤں میں ان کے دوست کرکٹ کھیلتے تھے، تب وہ تعمیراتی مقامات کے پاس کھڑے ہو کر دہائی مزدوری کا کام ملنے کا انتظار کرتے تھے۔ پانچ سال پہلے، جب ان کی عمر محض ۱۳ سال تھی، تو ان کے اور ان کے بڑے بھائی مہیش کے اوپر ان کی چھ رکنی فیملی کی ذمہ داری آ گئی۔ مہیش ان سے صرف تین سال بڑے تھے۔
ان کا گھر مہاراشٹر کے بیڈ ضلع کے نو گن راجوری گاؤں میں ہے۔ اپنے گھر کے باہر پتھر کے تخت پر بیٹھے ہوئے ان کے دادا رگھوناتھ گاوڑے بتاتے ہیں کہ ان کے (کرشن اور مہیش کے) والد پربھاکر ذہنی طور پر معذور ہونے کے سبب کام نہیں کر سکتے، اور ان کی ماں اکثر بیمار رہتی ہیں۔ وہ آگے بتاتے ہیں، ’’میں اور میری بیوی کام کرنے کے لحاظ سے اب بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔ اس لیے میرے پوتوں کو بہت جلد ہی بہت ساری ذمہ داری اپنے سر اٹھانی پڑی۔ پچھلے ۴-۵ سالوں سے ان کی کمائی سے ہی یہ گھر چل رہا ہے۔‘‘
گاوڑے فیملی دھنگر برادری سے ہے، جو روایتی طور پر چرواہے رہے ہیں، اور مہاراشٹر میں انہیں ’وِمُکت ذات‘ اور خانہ بدوش قبیلہ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس فیملی کے پاس نو گن راجوری میں (ایک ایکڑ سے کم) زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، جس پر جوار اور باجرے کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں۔ اس سے گھر کے استعمال کے لیے پیداوار تیار ہو جاتی ہے۔
کرشن اور مہیش مل کر مہینے میں ۶ سے ۸ ہزار روپے کما لیتے تھے اور اس سے ان کی فیملی کا خرچ چل جاتا تھا۔ لیکن، کورونا وبائی مرض کی وجہ سے ان کے گھر کا مالی توازن بگڑ گیا ہے۔ مارچ ۲۰۲۰ میں ملک گیر لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد سے دونوں بھائیوں نے اپنا کام اور اپنی کمائی کھو دی ہے۔
کرشن اور مہیش کی ۶۵ سالہ دادی سندر بائی کہتی ہیں، ’’ہم سماجی کارکنوں اور سرکار کے ذریعے دیے گئے راشن پر زندہ رہے۔ لیکن ہمارے پاس پیسے نہیں تھے۔ ہم تیل یا سبزی تک نہیں خرید سکتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بعد کے تین مہینے سب سے زیادہ مشکل تھے۔‘‘
اس کے باوجود کہ جون ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے ضابطوں میں راحت دے دی گئی تھی اور اقتصادی سرگرمیاں دھیرے دھیرے پھر سے شروع ہونے لگی تھیں، بیڈ میں دہاڑی مزدوری کا ملنا پھر بھی کافی مشکل تھا۔ رگھوناتھ کہتے ہیں، ’’اس لیے مہیش کام کی تلاش میں پونہ چلا گیا۔‘‘ لیکن اسے وہاں ایسا کوئی کام نہیں ملا، جس سے وہ اپنے گھر پیسے بھیج سکے۔ ’’کرشن، فیملی کا خیال رکھنے کے لیے یہیں بیڈ میں کام ڈھونڈتا رہا۔‘‘
پیچھے مڑ کر دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ کافی خطرناک ثابت ہوا۔
کرشن ذمہ داریوں کے سبب ہمیشہ پریشان رہے ہیں۔ ۱۷ سالہ کرشن کی ذہنی صحت پر اس کا بہت برا اثر پڑا اور ان کی بے چینی اور ان کا تناؤ ان کی فیملی والوں کو صاف دکھائی دے رہا تھا۔ رگھوناتھ کہتے ہیں، ’’اس وقت کوئی کام نہیں تھا۔ وہ کافی چڑچڑا ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ ہم اس سے کھانے کے بارے میں بھی پوچھتے تھے، تو وہ ہم پر چیخنے لگتا تھا۔ اس نے لوگوں سے بات کرنا بند کر دیا تھا اور جب اس کے پاس کام نہیں ہوتا تھا، تو وہ سارا دن سوتا رہتا تھا۔‘‘
فیملی یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا خاتمہ ایسے ہوگا: پچھلے سال جولائی کے تیسرے ہفتے کی ایک دوپہر کو جب سندر بائی کرشن کے کمرے میں گئیں، تو انہوں نے کرشن کی لاش کو پنکھے سے لٹکتا ہوا پایا۔
سندر بائی کہتی ہیں، ’’جب مہیش یہاں تھا، اسے کچھ دلاسہ رہتا تھا۔ اسے محسوس ہوتا تھا کہ کوئی ہے جو اسے سمجھا سکتا ہے۔ مہیش کے پونہ چلے جانے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس اکیلے پر پوری فیملی کا بوجھ آ گیا ہے۔ اور بے ترتیب آمدنی کی وجہ سے ضرور اسے ایسا لگتا ہوگا کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکا۔‘‘
کرشن کی موت کے بعد مہیش (عمر ۲۱ سال) واپس گھر آ گئے۔ وہ پھر سے بیڈ میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرنے لگے ہیں، اور وہ بھی تب، جب انہیں کام مل پاتا ہے۔ اب ان پر ہی پوری فیملی کی ذمہ داری ہے۔
وبائی مرض نے کرشن کی فیملی کی طرح دیگر کنبوں کو بھی متاثر کیا ہے، جس کے سبب مارچ ۲۰۲۰ کے بعد سے تمام کنبے غریبی میں مبتلا ہیں۔ امریکہ میں واقع پیو ریسرچ سنٹر کی مارچ ۲۰۲۱ میں آئی رپورٹ کے مطابق: ’’کورونا وبائی مرض سے آئی کساد بازاری کے سبب ہندوستان میں ایک دن میں ۲ ڈالر یا اس سے کم کمانے والے غریبوں کی تعداد میں ساڑھے سات کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘ بیڈ میں وبائی مرض کے سبب آئی کساد بازاری نے لوگوں کا ذریعہ معاش برباد کر دیا ہے۔ بیڈ زراعت پر مبنی ایک ضلع ہے، جس کی دیہی اقتصادیات گزشتہ کئی سالوں سے سوکھے اور قرض کے سبب کساد بازاری میں مبتلا ہے۔
اپنے آس پاس کے بالغوں کے ذریعے اٹھائے جانے والے اقتصادی بوجھ کا اثر بچوں اور نوجوانوں پر پڑتا رہا ہے۔ سنتوش شندے، جو حقوق اطفال کے ایک کارکن ہیں اور مہاراشٹر میں حقوق اطفال کے تحفظ کے لیے ریاستی کمیشن کے سابق رکن رہ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ اس بحران نے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ ’’خاص کر کمزور طبقہ سے آنے والے بچوں کو اپنی فیملی کی مالی مدد کرنی پڑتی ہے۔ چھوٹی سی عمر میں اس طرح کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانا بچوں کے لیے اکثر بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جب آپ کے آس پاس ہر کوئی دو وقت کے کھانے کے لیے بھی جدوجہد کر رہا ہو، تو ذہنی صحت پر بات کرنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔‘‘
یہاں تک کہ جب بچوں کو کام نہیں کرنا پڑتا ہے، تب بھی وہ اقتصادی تنگی اور تناؤ بھرے ماحول سے پریشان ہوتے ہیں، جو اکثر گھر میں بالغوں کے درمیان جھگڑے کا سبب بنتا ہے۔ شندے کہتے ہیں، ’’اس کا بھی بچوں کی ذہنی صحت پر برا اثر اپڑتا ہے۔ کووڈ سے پہلے، بچے باہر جاکر کھیل سکتے تھے، وہ دوسرے گاؤں جا سکتے تھے۔ اب اسکول بند ہیں، اس لیے گھر کے ماحول سے نکنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔‘‘
لیکن ۱۴ سالہ سنجنا براج دار اس ماحول سے نکل گئیں۔ جون ۲۰۲۱ میں، وہ بیڈ کے پرلی نگر میں ایک کمرے کے اپنے گھر سے بھاگ کر وہاں سے ۲۲۰ کلومیٹر دور واقع اورنگ آباد چلی گئیں۔ سنجنا اپنے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی بہنوں، سمرتھ (۱۱ سال) اور سپنا (۹ سال) کو بھی لیکر گئیں۔ وہ دبی زبان سے بتاتی ہیں، ’’میں اور نہیں برداشت کر سکتی تھی۔ میں بس اس گھر سے نکلنا چاہتی تھی۔‘‘
سنجنا کی ماں، منگل ایک گھریلو ملازمہ ہیں اور پانچ گھروں میں کام کرکے مہینہ میں ۲۵۰۰ روپے کماتی ہیں۔ ان کے والد، رام ایک ٹیمپو ڈرائیور تھے۔ منگل بتاتی ہیں، ’’لاک ڈاؤن کے بعد ان کی نوکری چلی گئی۔‘‘ وہ آگے کہتی ہیں کہ ان کی فیملی کے پاس کوئی زرعی زمین نہیں ہے۔ ’’میرا بھائی بھی ہمارے ساتھ رہتا ہے۔ اس کے پاس بھی کوئی کام نہیں ہے۔ ہم زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘‘
جب سنجنا نے گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا، تب ۳۵ سالہ منگل اور ۴۰ سالہ رام کے درمیان پیسے کو لیکر روزانہ جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ ان کی لڑائی اکثر بہت بری شکل اختیار کر لیتی تھی۔ منگل کہتی ہیں، ’’کبھی کبھی ایسا ہوتا تھا کہ گھر پر کھانے کو کچھ بھی نہیں ہوتا تھا اور ہم پانی پی کر سو جاتے تھے۔ جب آپ پریشان ہوتے ہیں، کھبی کبھی وہی غصہ چھوٹے بچوں پر نکل جاتا ہے۔ میں مانتی ہوں کہ میرے بچوں کے لیے گھر پر ماحول اچھا نہیں تھا۔‘‘
منگل کے بھائی کے برتاؤ کے سبب گھر کا ماحول اور بھی خراب ہو گیا تھا، جو کام نہیں ملنے کے سبب پریشان تھے اور شراب پینے کے عادی ہو گئے تھے۔ منگل بتاتی ہیں، ’’وہ خوب پیتا ہے اور گھر آ کر مجھے پیٹتا ہے۔ وہ بھاری برتن اٹھا کر میرے سر پر مارتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اسے پیٹ بھر کھانا نہیں دیتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سے کیا کہوں۔ جب گھر پر کھانے کو کچھ نہیں ہے، تو میں کیسے کھانا بناؤں؟‘‘
منگل بتاتی ہیں کہ ان کے بھائی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان کے بچے یہ مار پیٹ دیکھ رہے ہیں۔ ’’وہ مجھے ان کے سامنے مارتا ہے۔ اس لیے، اب جب بھی وہ پی کر گھر آتا ہے اور جھگڑا کرتا ہے، وہ گھر سے باہر چلے جاتے ہیں۔ لیکن وہ سب کچھ سنتے ہیں، سب سمجھتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میری بیٹی کیوں بھاگ گئی۔‘‘
سنجنا نے کہا کہ وہ وہاں دباؤ محسوس کرتی تھیں اور اس سے بچنے کے لیے گھر سے بھاگنا ہی واحد راستہ تھا۔ لیکن اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ پرلی سے ٹرین پکڑنے کے بعد انہیں معلوم نہیں تھا کہ آگے کیا کریں۔ انہوں نے بغیر ٹکٹ کے سفر کیا اور وہ یہ بھی نہیں طے کر سکے تھے کہ انہیں جانا کہاں ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مجھے نہیں معلوم کہ ہم اورنگ آباد کیوں اترے۔ ہم کچھ دیر کے لیے اسٹیشن پر بیٹھے رہے۔ ریلوے پولیس نے ہمیں وہاں دیکھا اور بچوں کے ایک ہاسٹل میں ہمیں ڈال دیا۔‘‘
وہ تینوں اگست ۲۰۲۱ کے آخر تک دو مہینوں تک ہاسٹل میں رہے۔ آخرکار سنجنا نے ہاسٹل انتظامیہ کو یہ بتا دیا کہ وہ لوگ پرلی سے ہیں۔ مقامی کارکنوں کی مدد سے اورنگ آباد اور بیڈ ضلع کی بہبود اطفال کمیٹیوں نے انہیں ان کی فیملی سے ملا دیا۔
لیکن جب وہ لوٹے، تو گھر میں کچھ نہیں بدلا تھا۔
سنجنا اپنے اسکول کے کھلنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ بڑی ہو کر ایک پولیس افسر بننا چاہتی ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’مجھے اسکول جانا پسند ہے۔ میں اپنے دوستوں کو یاد کرتی ہوں۔ اگر اسکول کھلا ہوتا، تو میں گھر سے بھاگ کر نہیں جاتی۔‘‘
وبائی مرض کے سبب پورے مہاراشٹر میں بچے بے چینی کے مسئلہ سے پریشان ہیں۔ بیڈ سے شائع ہونے والے مراٹھی زبان کے ایک روزنامہ پرجا پتر میں ۸ اگست، ۲۰۲۱ کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق، اس سال کے شروعاتی سات مہینے میں ضلع میں ۱۸ سال سے کم عمر کے ۲۵ بچے خودکشی سے مارے گئے۔
معاشرہ کی ذہنی صحت پر کام کرنے والی تھانے کی ایک غیر منافع بخش تنظیم، انسٹی ٹیوٹ فار سائیکولوجیکل ہیلتھ کے بانی اور ماہر نفسیات ڈاکٹر آنند ناد کرنی کہتے ہیں، ’’جب بچوں کے پاس خود کو بہلانے یا اپنے دماغ کو تخلیقی کاموں میں لگانے کے لیے کوئی وسیلہ نہیں ہوتا، تو ان کے اندر بہت زیادہ خالی پن پیدا ہو جاتا ہے۔ ٹھیک اسی دوران، اپنی طرز زندگی میں آنے والی گراوٹ کے وہ گواہ اور حصہ دار دونوں ہوتے ہیں۔ یہ تمام باتیں ان کے ڈپریشن (تناؤ) کا سبب بنتی ہیں۔‘‘
’پورے مہاراشٹر میں بچے وبائی مرض کے نتائج کا سامنا کر رہے ہیں۔ بیڈ سے شائع ہونے والے مراٹھی زبان کے ایک روزنامہ ’پرجا پتر‘ میں ۸ اگست، ۲۰۲۱ کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق، اس سال کے شروعاتی سات مہینے میں ضلع میں ۱۸ سال سے کم عمر کے ۲۵ بچے خود کشی سے مارے گئے‘
کورونا وبائی مرض کی شروعات کے بعد سے بچوں اور نوجوانوں میں ڈپریشن کا مسئلہ بڑھ گیا ہے۔ نند کرنی آگے کہتے ہیں، ’’اسے ’ماسکڈ ڈپریشن‘ (پوشیدہ تناؤ) کہتے ہیں۔ یہ بڑوں کی طرح باہر نہیں آتا۔ کئی بار فیملی کے ممبران کو کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ وہ جذباتی دباؤ کی علامات کو پہچان نہیں پاتے اور نوجوان عمر کے بچے ان جذبات کا اظہار کر پانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کے ڈپریشن کو کوئی دیکھ نہیں پاتا، اس کی تشخیص نہیں ہو پاتی، اور علاج بھی نہیں ہوتا۔‘‘
رامیشور تھومرے بھی اپنے بچے کی پریشانی کو نہیں دیکھ پائے۔
رامیشور کا ۱۵ سالہ بیٹا، آوِشکار ۲۸ فروری ۲۰۲۱ کو بیڈ کے مجل گاؤں تعلقہ (جسے مانجلے گاؤں بھی کہا جاتا ہے) میں اپنے گاؤں دندروڑ سے لاپتہ ہو گیا تھا۔ ایک ہفتہ بعد، آوشکار کی لاش اس کے اسکول میں برآمد ہوئی۔ رامیشور کہتے ہیں، ’’پولیس نے تصدیق کی ہے کہ اس کے پیچھے کسی کا ہاتھ نہیں ہے۔ اسکول بند تھا۔ لیکن دروازے کے نیچے کافی جگہ تھی۔ وہ دروازے کے نیچے کی جگہ سے اندر گھسا اور خود کو پھانسی لگا لی۔‘‘
اسکول بند ہونے کے سبب لاش کا پتہ چلنے تک وہ اسی حالت میں تھا۔ اس کے والد بتاتے ہیں، ’’ہم نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا، لیکن اسے تلاش نہیں کر سکے۔ کچھ بچے اسکول کے پاس کرکٹ کھیل رہے تھے، اور ان کی گیند غلطی سے کھڑکی کے راستے اندر چلی گئی۔ ایک لڑکا دروازے کے نیچے سے اندر گیا اور اسے دیکھا۔‘‘
رامیشور یہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے بیٹے کو کس بات نے ایسا قدم اٹھانے پر مجبور کیا۔ ان کا کہنا ہے، ’’وہ کچھ نہیں کہتا تھا۔ وہ اپنے بھائی کے بہت قریب تھا، جو ہماری طرح ہی حیران ہے۔ جس دن وہ گم ہوا تھا، اس نے ہماری دکان کا شٹر کھولا تھا اور مجھ سے کہا تھا کہ وہ لنچ کے بعد آئے گا۔ لیکن کبھی نہیں لوٹا۔‘‘
رامیشور ایک زرعی کاروباری ہیں اور ایک زرعی سروس سنٹر کے مالک ہیں۔ ان کی دکان میں بیج، کھاد، حشرہ کش، اور دوسری زرعی مصنوعات کی فروخت ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن میں ہم نے بھی دوسروں کی طرح تناؤ کا سامنا کیا۔ مجھے اس بات پر شک ہے کہ یہی وجہ ہوگی۔ میں سچ میں نہیں جانتا۔ کاش کہ مجھے پتہ ہوتا۔‘‘
اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز