ریکھا کو صرف ۱۰ دن پہلے اس بات کا احساس ہوا کہ اس کے پاس شادی کرنے کے علاوہ اب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔ تب اس کی عمر محض ۱۵ سال تھی اور شادی سے بچنے کے لیے وہ جو کچھ کر سکتی تھی اُس نے کیا۔ لیکن اس کے والدین پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کی ماں، بھاگیہ شری بتاتی ہیں، ’’وہ بہت روئی اور بولی کہ وہ اور پڑھنا چاہتی ہے۔‘‘

بھاگیہ شری اور ان کے شوہر، اَمر دونوں کی عمر ۳۰ سال ہے اور وہ اپنے بچوں کے ساتھ مہاراشٹر کے بیڈ ضلع میں واقع ایک غریب گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ ہر سال نومبر کے آس پاس گنّے کی کٹائی کرنے کے لیے مغربی مہاراشٹر یا کرناٹک چلے جاتے ہیں۔ کھیتوں میں چھ مہینے تک کڑی محنت کرنے کے بعد دونوں مجموعی طور پر ۸۰ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس خود اپنی کوئی زمین نہیں ہے، اس لیے گنّے کی کٹائی ہی ان کا واحد ذریعہ معاش ہے۔ اس فیملی کا تعلق متنگ ذات سے ہے، جو کہ ایک دلت برادری ہے۔

ماں باپ جب گنّے کے کٹائی کے لیے باہر چلے جاتے، تو ریکھا اپنے ۱۲ اور ۸ سال کی عمر کے بھائی بہنوں کے ساتھ دادی کی نگرانی میں رہتی تھیں (جن کا پچھلے سال مئی میں انتقال ہو گیا)۔ یہ سارے بھائی بہن اپنے گاؤں کے باہر موجود ایک سرکاری اسکول میں پڑھتے تھے۔ لیکن، مارچ ۲۰۲۰ میں جب وبائی مرض کے سبب اسکول بند ہو گیا، تو ۹ویں کلاس کی طالبہ ریکھا کو گھر پر ہی رہنا پڑا۔ بیڈ ضلع کے تمام اسکول ابھی بھی بند ہیں، جب کہ انہیں بند ہوئے ۵۰۰ سے زیادہ دن ہو چکے ہیں۔

بھاگیہ شری کہتی ہیں، ’’ہمیں لگا کہ اسکول اب جلدی کھلنے والے نہیں ہیں۔ اسکول جب کھلا ہوتا تھا تو اساتذہ اور بچوں کی چہل پہل رہتی تھی۔ گاؤں مصروف رہتا تھا۔ لیکن اسکول بند ہو جانے کی وجہ سے، ہم اسے چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے تھے کیوں کہ ہم اس کی سلامتی کو لیکر فکرمند تھے۔‘‘

لہٰذا، بھاگیہ شری اور امر نے پچھلے سال جون میں ریکھا کی شادی ۲۲ سال کے آدتیہ کے ساتھ کر دی۔ آدتیہ کے ماں باپ ۳۰ کلومیٹر دور واقع ایک گاؤں میں رہتے تھے اور وہ بھی موسمی مہاجر مزدور تھے۔ نومبر ۲۰۲۰ میں، جب گنّے کی کٹائی کا موسم شروع ہونے والا تھا، ریکھا اور آدتیہ ہجرت کرکے مغربی مہاراشٹر چلے گئے – اور ان کے پیچھے، اسکول کے رجسٹر میں صرف ریکھا کا نام رہ گیا۔

وبائی مرض کی وجہ سے ریکھا اور ان سے چھوٹی عمر کی لڑکیوں کو شادی کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ یونیسیف کے ذریعے مارچ ۲۰۲۱ میں جاری کی گئی ایک رپورٹ بعنوان کووڈ۔۱۹: کم عمری کی شادی کے خلاف ہونے والی پیش رفت کے لیے ایک خطرہ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اس دہائی کے اختتام تک، عالمی سطح پر مزید ۱۰ ملین (یعنی ایک کروڑ) لڑکیوں کو کم عمری میں ہی دلہن بننے کا خطرہ لاحق ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسکولوں کے بند ہونے، غریبی کے بڑھنے، والدین کی موت اور کووڈ۔۱۹ کے سبب اس قسم کے دیگر اسباب کی بناپر، پہلے سے ہی خستہ حالی کی زندگی بسر کر رہی لاکھوں لڑکیاں مزید مشکلوں میں پھنس گئی ہیں۔‘‘

یونیسیف کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ ۱۰ برسوں کے دوران عالمی سطح پر اُن نوجوان عورتوں کا تناسب ۱۵ فیصد گھٹا ہے جن کی شادی کم عمری میں ہوئی تھی، جب کہ تقریباً ۲۵ ملین (ڈھائی کروڑ) کم عمر لڑکیوں کی شادی کو روکا گیا ہے۔ وبائی مرض مہاراشٹر تک میں، حالیہ برسوں کے دوران ہونے والی پیش رفت کے لیے ایک خطرہ بن گیا ہے۔

Activists and the police intercepting a child marriage in Beed
PHOTO • Courtesy: Tatwashil Kamble and Ashok Tangde

کارکن اور پولیس اہلکار بیڈ ضلع میں کم عمری کی ایک شادی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں

حکومت مہاراشٹر کے محکمہ برائے ترقی خواتین و اطفال کے مطابق، اپریل ۲۰۲۰ سے جون ۲۰۲۱ تک کم عمری کی ۷۸۰ شادیوں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن تانگڑے اور کامبلے کا کہنا ہے کہ یہ اندازہ درست نہیں ہے

مہاراشٹر میں، ۲۰۱۵ سے ۲۰۲۰ کے درمیان عورتوں کی جلدی شادی میں ۴ فیصد کی کمی آئی تھی۔ سال ۲۰۱۵-۱۶ کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( این ایف ایچ ایس۔۴ ) نے پایا کہ ۲۰ سے ۲۴ سال کی تقریباً ۲۶ فیصد عورتوں کی شادی ۱۸ سال کی عمر سے پہلے ہی ہو گئی تھی، جب کہ شادی کی قانونی عمر ۱۸ سال ہے۔ یہ شرح ۲۰۱۹-۲۰ کے سروے ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) میں ۲۲ فیصد تھی۔ اُسی دوران، ۲۵ سے ۲۹ سال کی عمر کے صرف ۱۰ اعشاریہ ۵ فیصد مردوں کی شادی ۲۱ سال سے پہلے ہوئی تھی، جو کہ ان کی شادی کرنے کی قانونی عمر ہے۔

تاہم، اس بات کے ثبوت موجود ہونے کے باوجود کہ وبائی مرض کے دوران بچپن اور نو عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے، ریاستی حکومت نے انہیں روکنے کے لیے سنجیدگی سے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ بیڈ کے رہنے والے ۳۴ سالہ کارکن، تتوشیل کامبلے کہتے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کے معاملے میں ریاستی حکومت صرف ان کی آن لائن کلاسوں پر توجہ دے رہی ہے، جب کہ صرف ان ہی بچوں تک اس کی رسائی ہے جن کے والدین اسمارٹ فون اور اچھا انٹرنیٹ کنکشن حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

سال ۲۰۱۷-۱۸ کی نیشنل سیمپل سروے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہاراشٹر کے صرف ۱۸ اعشاریہ ۵ فیصد گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت تھی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دیہی مہاراشٹر کے (۵ سال اور اس سے زیادہ عمر کے) تقریباً ۱۷ فیصد لوگ ’’انٹرنیٹ کا استعمال کرنے کے قابل‘‘ تھے، لیکن عورتوں میں یہ تناسب صرف ۱۱ فیصد تھا۔

جن بچوں کی رسائی انٹرنیٹ تک نہیں ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پس ماندہ برادریوں سے ہے، جہاں غریبی اور دنیاوی عدم تحفظ کا احساس لڑکیوں کو ابتدائی عمر میں ہی شادی کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اوپر سے اسکول بند ہو جانے کی وجہ سے صورتحال مزید خستہ ہو گئی ہے، جیسا کہ بیڈ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

سال ۲۰۱۹-۲۰ میں، بیڈ میں ۲۰ سے ۲۴ سال کی تقریباً ۴۴ فیصد عورتوں نے بتایا کہ ان کی شادی ۱۸ سال کی عمر سے پہلے ہی کر دی گئی تھی (این ایف ایچ ایس۔۵)۔ اس کی بنیادی وجہ کام کی تلاش میں لوگوں کا ہجرت کرنا تھا – خاص کر گنّے کی کٹائی جیسے موسمی کام کے لیے۔ ضلع میں قحط اور زرعی بحران کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔

جو ٹھیکہ دار گنّے کی کٹائی کے لیے کارکنوں کو کام پر لگاتے ہیں، وہ شادی شدہ جوڑے کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ اس کام میں بیک وقت دو لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے – ایک گنّے کو چھیلتا ہے اور دوسرا ان کے گٹھر بنا کر انہیں ٹریکٹر پر لادتا ہے۔ میاں بیوی کو ایک اکائی تصور کیا جاتا ہے، کیوں کہ اس سے انہیں ادائیگی کرنے میں سہولت ہوتی ہے اور دو غیر متعلقہ کارکنوں کے درمیان تنازع سے بھی آدمی بچ جاتا ہے۔ لڑکی شادی کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ سفر کر سکتی ہے اور کام کرکے پیسے بھی کما سکتی ہے۔ اس طرح، ان کے ماں باپ کو لگتا ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ محفوظ رہے گی، اور ساتھ ہی ان کا مالی بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔

تتوشیل کامبلے بتاتے ہیں کہ وبائی مرض کے دوران مالی تنگ دستی کا سامنا کر رہے والدین نے گھر پر موجود اپنے بچوں کے لیے دو میں سے ایک راستہ ڈھونڈ نکالا۔ ’’اگر لڑکا ہے تو اسے بچہ مزدوری میں لگا دیا۔ اور اگر لڑکی ہے تو کم عمری میں ہی اس کی شادی کردی۔‘‘ کامبلے چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے رکن ہیں، جو کہ ایک آئینی ادارہ ہے اور ضرورت مند بچوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرتا ہے، اور وہ بیڈ میں کم عمری کی کئی شادیوں کو رکوانے میں مدد کر چکے ہیں۔

Girls as young as 12 are being married off by their parents to ease the family's financial burden
PHOTO • Labani Jangi

فیملی کے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے والدین اپنی ۱۲ سال کی بچیوں تک کی شادی کر دیتے ہیں

اشوک تانگڑے بیڈ تعلقہ کی چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کے رکن ہیں، جو کم عمری کی شادی اور بچہ مزدوری روکنے کے لیے کام کرتی ہے۔ اشوک کے ساتھ مل کر کامبلے، مارچ ۲۰۲۰ میں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض شروع ہونے سے لیکر اب تک کم عمری کی ۱۰۰ سے زیادہ شادیاں رکوا چکے ہیں۔ ۵۳ سالہ تانگڑے بتاتے ہیں، ’’یہ تو صرف وہ شادیاں تھیں جن کا ہمیں علم ہو گیا۔ پتہ نہیں ایسی کتنی شادیاں ہوئی ہوں گی جن کا ہمیں کوئی پتہ نہیں چل پایا۔‘‘

وبائی مرض کے دوران لوگوں کی خریدنے کی صلاحیت میں ہونے والی کمی کم عمری کی شادیوں میں ایک بڑا رول ادا کر رہی ہے۔ تانگڑے بتاتے ہیں، ’’دولہے کے ماں باپ زیادہ جہیز لینے کی ضد نہیں کر رہے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ شادیاں اب سستی ہو گئی ہیں۔ ’’اب آپ فیملی کے صرف خاص خاص لوگوں کو دعوت دیکر چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں کیوں کہ اس وقت زیادہ لوگوں کو جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

دوسری طرف، وبائی مرض کے سبب ہونے والی اموات نے بھی والدین کو کچھ زیادہ ہی فکرمند کر دیا ہے کہ کہیں ان کی بیٹیوں کی موت نہ ہو جائے۔ تانگڑے کہتے ہیں، ’’ان تمام چیزوں کی وجہ سے کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ کچھ لڑکیوں کی شادی تو ۱۲ سال کی عمر میں ہی کر دی گئی ہے۔‘‘

حکومت مہاراشٹر کے محکمہ برائے ترقی خواتین و اطفال کے مطابق، اپریل ۲۰۲۰ سے جون ۲۰۲۱ تک کم عمری کی ۷۸۰ شادیوں کو روکنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن تانگڑے اور کامبلے کا کہنا ہے کہ یہ اندازہ درست نہیں ہے۔ مثال کے طور پر وہ بیڈ ضلع میں سرکاری طور پر ایسی ۴۰ شادیوں کی گنتی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُسی مدت میں انہوں نے اس قسم کی اس سے کہیں زیادہ تعداد میں شادیاں رکوائی ہیں۔

ویسے، کم کرکے بتائی گئی یہ تعداد بھی وبائی مرض کے دوران بچپن اور نو عمری کی شادیوں میں ہونے والے اضافہ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ ریاستی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، جنوری ۲۰۱۹ سے ستمبر ۲۰۱۹ تک، مہاراشٹر میں کم عمری کی ۱۸۷ شادیاں رکوائی گئیں۔ یہ کووڈ۔۱۹ شروع ہونے کے بعد رکوائی گئی کم عمری کی شادیوں کی ماہانہ اوسط میں ۱۵۰ فیصد اضافہ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

ایسی شادیاں رکوانے کے لیے کامبلے اور تانگڑے مخبروں کی مدد لیتے ہیں۔ کامبلے بتاتے ہیں، ’’آشا کارکن یا گاؤں کے گرام سیوک ہمیں خبر دیتے ہیں۔ لیکن اکثر انہیں اس بات کا ڈر ستاتا ہے کہ وہ اسی گاؤں میں رہ رہے ہیں۔ جس فیملی کے لوگ ایسی شادیاں کروا رہے ہیں، اگر انہیں اس کا علم ہو گیا تو مخبروں کی زندگی مشکل میں پڑ سکتی ہے۔‘‘

Left: A file photo of Tatwashil Kamble with a few homeless children. Right: Kamble and Ashok Tangde (right) at a Pardhi colony in Beed after distributing ration kits
PHOTO • Courtesy: Tatwashil Kamble and Ashok Tangde
Left: A file photo of Tatwashil Kamble with a few homeless children. Right: Kamble and Ashok Tangde (right) at a Pardhi colony in Beed after distributing ration kits
PHOTO • Courtesy: Tatwashil Kamble and Ashok Tangde

بائیں: چند بے گھر بچوں کے ساتھ تتوشیل کامبلے کی ایک فائل فوٹو۔ دائیں: بیڈ کی ایک پاردھی کالونی میں راشن تقسیم کرنے کے بعد کامبلے اور اشوک تانگڑے (دائیں)

تانگڑے کہتے ہیں کہ اس میں گاؤں کی دشمنی بھی اپنا رول ادا کرتی ہے۔ ’’کبھی کبھی، مخالف گروپ سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ایسی معلومات فراہم کر دے گا۔ کئی بار یہ بھی ہوتا ہے کہ جس لڑکی کی شادی ہونے والی ہے اُس سے محبت کرنے والا لڑکا ہمیں اس کی خبر پہنچا دے گا۔‘‘

خفیہ اطلاع ایسی شادیوں کو روکنے کا صرف پہلا قدم ہے۔ اس میں ملوث کنبے بچنے کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہیں، کبھی کبھی وہ سیاسی اثر و رسوخ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ کامبلے بتاتے ہیں، ’’ہمیں دھمکی دی گئی اور ہمارے اوپر حملہ بھی کیا گیا۔ لوگوں نے ہمیں رشوت دینے کی بھی کوشش کی ہے۔ لیکن ہم ہمیشہ پولیس کو الرٹ کر دیتے ہیں۔ کچھ لوگ فوراً سرنڈر کر دیتے ہیں۔ جب کہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو لڑائی کیے بغیر نہیں مانتے۔‘‘

اکتوبر ۲۰۲۰ میں، کامبلے اور تانگڑے کو ۱۶ سال کی اسمیتا کے بارے میں خبر ملی کہ ایک دن بعد اس کی شادی ہونے والی ہے۔ اس کا گھر بیڈ شہر سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور ہے، لہٰذا یہ لوگ اُس دن شادی کی رسم شروع ہونے سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئے۔ لیکن، اس کے والد، وٹھل نے شادی کو روکنے سے منع کر دیا۔ تانگڑے بتاتے ہیں، ’’انہوں نے چیخنا شروع کر دیا، ’یہ میری بیٹی ہے، اور میں اس کے ساتھ جو چاہوں وہ کر سکتا ہوں‘۔ جو کچھ وہاں ہو رہا تھا اس کی سنگینی کو سمجھنے میں انہیں تھوڑا وقت لگا۔ ہم انہیں پولیس اسٹیشن لے گئے اور ان کے خلاف شکایت درج کروائی۔‘‘

اسمیتا ایک ہونہار طالبہ تھی، اس کے چچا کشور بتاتے ہیں۔ ’’لیکن چونکہ اس کے ماں باپ کبھی اسکول نہیں گئے اس لیے وہ اس کی اہمیت کو کبھی سمجھ نہیں پائے۔ وبائی مرض کی وجہ سے انہیں دو وقت کا کھانا حاصل کرنے میں بھی جدوجہد کرنی پڑ رہی تھی۔‘‘ وٹھل اور ان کی بیوی، پوجا دونوں کی عمر ۳۰ سال ہے اور یہ لوگ ایک ساتھ اینٹ کے بھٹے پر کام کرکے چار مہینے میں ۲۰ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ کشور بتاتے ہیں، ’’اسمیتا کی شادی کر دینے سے یہ ہوتا کہ روزانہ ایک آدمی کے دو وقت کے کھانے کی فکر نہیں کرنی پڑتی۔‘‘

کامبلے اور تانگڑے کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ایک بڑا چیلنج ہے کہ فیملی کے لوگ شادی کا دوبارہ انتظام کرنے کی کوشش نہ کریں۔ ’’اسکول کے ٹیچر ہمیں یہ بتاتے تھے کہ جس لڑکی کی کم عمری میں ہونے والی شادی کو رکوا دیا گیا ہے اس نے اب اسکول آنا بند کر دیا ہے، جس کے بعد ہم اس پر نظر رکھتے تھے۔ لیکن اب چونکہ اسکول بند ہیں، اس لیے ویسی لڑکیوں پر نظر رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘‘

وٹھل سے کہا گیا ہے کہ وہ ہر دو مہینے کے بعد پولیس اسٹیشن میں حاضری دیں۔ تانگڑے کہتے ہیں، ’’ہم ان کے اوپر بھروسہ نہیں کر سکتے،‘‘ کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ وہ اپنی کم عمر لڑکی کی شادی دوبارہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

Left: Ashok Tangde and Tatwashil Kamble (right) with a retired migrant worker (centre). Right: Kamble talking to students about child marriage
PHOTO • Courtesy: Tatwashil Kamble and Ashok Tangde
Left: Ashok Tangde and Tatwashil Kamble (right) with a retired migrant worker (centre). Right: Kamble talking to students about child marriage
PHOTO • Courtesy: Tatwashil Kamble and Ashok Tangde

بائیں: اشوک تانگڑے اور تتوشیل کامبلے (دائیں) ایک ریٹائرڈ مہاجر کارکن (درمیان میں) کے ساتھ۔ دائیں: کامبلے طلباء کو کم عمری کی شادی کے بارے میں بتا رہے ہیں

اپنی شادی روک دیے جانے کے بعد اسمیتا تین مہینے کے لیے کشور کے ساتھ رہنے چلی گئیں۔ اس کے چچا کا کہنا ہے کہ اُس دوران وہ غیر معمولی طور پر خاموش رہتی تھی۔ ’’وہ زیادہ بولتی نہیں تھی اور اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔ وہ اپنا کام کرتی، اخبار پڑھتی اور گھر میں ہماری مدد کرتی تھی۔ وہ اتنی جلدی شادی کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں تھی۔‘‘

عورتوں کی صحت سے متعلق مطالعوں میں کہا گیا ہے کہ کم عمری کی شادی کا برا اثر پڑتا ہے، یہاں تک کہ بچے کی پیدائش کے دوران ماں کی موت بھی ہو جاتی ہے۔ قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ، ہندوستان میں کم عمری کی شادی کا شماریاتی تجزیہ کے مطابق جن لڑکیوں کی شادی ۱۰ سے ۱۴ سال کی عمر میں ہو جاتی ہے، ۲۰ سے ۲۴ سال کی عمر کی خواتین کے مقابلے حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران اُن کی موت کا خطرہ پانچ گُنا زیادہ ہوتا ہے۔ اور اگر حمل سے پہلے یا اس کے بعد مائیں کم غذائیت کی شکار رہی ہیں، تو ان کے بچے بھی کمزور پیدا ہوتے ہیں۔

ریکھا کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا، جب اس کی جسمانی کمزوری کی وجہ سے، جو کہ کم غذائیت کی نشانی ہے، اس کے سسرال والوں نے اسے مائیکے بھیج دیا تھا۔ بھاگیہ شری بتاتی ہیں، ’’جنوری ۲۰۲۱ میں، جب اسے اپنے شوہر کے ساتھ گئے ہوئے دو یا تین مہینے گزر چکے تھے، وہ گھر لوٹ آئی۔‘‘

ریکھا کا وزن چونکہ اس کی عمر کے لحاظ سے کم ہے، اس لیے گنّے کاٹنا اور سر پر ۲۵ کلو سے زیادہ وزنی گٹھر ڈھونا اس کے لیے مشکل تھا۔ بھاگیہ شری کہتی ہیں، ’’وہ کمر توڑ محنت نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ سے اس کے شوہر کی آمدنی متاثر ہونے لگی۔ لہٰذا اس کے سسرال والوں نے شادی توڑ دی اور اسے واپس بھیج دیا۔‘‘

واپس لوٹنے کے بعد ریکھا کچھ دنوں تک گھر پر ہی رہی۔ اس کی ماں کہتی ہیں، ’’لیکن جب شادی ہونے کے کچھ مہینوں بعد لڑکی گھر واپس آ جاتی ہے، تو گاؤں کے لوگ سوال کرتے ہیں۔ اس لیے وہ اکثر و بیشتر اپنی چچی کے ساتھ رہتی ہے۔‘‘

اب جب کہ گنّے کی کٹائی کا دوسرا موسم قریب آ رہا ہے اور بھاگیہ شری اور امر مہاجرت کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، ایسے میں ریکھا کا مستقبل ایک بار پھر طے ہو رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار ریکھا زیادہ مزاحمت نہیں کر رہی ہے – وہ دوبارہ شادی کے لیے تیار ہو گئی ہے۔

رازدای کی حفاظت کے مدنظر بچیوں اور ان کے رشتہ داروں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

یہ اسٹو ری پُلٹزر سنٹر سے امداد یافتہ سیریز کا حصہ ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Illustrations : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique