’’ہم بزرگوں کو پنشن کون دے گا؟ کوئی نہیں،‘‘ ایک انتخابی ریلی میں کرسی پر بیٹھے ایک بزرگ آدمی نے بلند آواز میں شکایت کی۔ جواب میں امیدوار کہتا ہے، ’’تاؤ، ہم آپ کو پنشن دیں گے اور ہر مہینے ۶۰۰۰ روپے تائی کو بھی ملیں گے۔‘‘ اس گفتگو کو سن رہے ایک دوسرے بزرگ نے تقریر ختم ہوتے ہی اپنے سر سے پگڑی اتار کر اس امیدوار کے سر پر رکھ دی۔ شمالی ہندوستان کے اس حصہ میں اسے ایک اعزاز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
امیدوار تھے دیپندر ہڈا، جو روہتک پارلیمانی حلقہ میں ۲۰۲۴ کے لوک سبھا انتخابات کے لیے پرچار کر رہے تھے۔ لوگوں نے ان کی بات غور سے سنی۔ کچھ لوگوں نے ان سے سوال جواب بھی کیا اور ان کے دل میں جو باتیں تھیں، انہیں شیئر بھی کیا۔
( تازہ معلومات: ۴ جون، ۲۰۲۴ کو اعلان کیے گئے انتخابی نتائج کے مطابق انڈین نیشنل کانگریس کے دیپنڈر ہڈا نے اس پارلیمانی سیٹ پر ۷ لاکھ ۸۳ ہزار ۵۷۸ ووٹوں سے جیت درج کی۔)
*****
’’جس پارٹی نے کسانوں سے ان کی زمینیں چھیننے کی کوشش کی اور اسے ترقی کا جھوٹا نام دیا، اسے ووٹ دینے کا کیا مطلب ہے؟‘‘ کرشن، پاری سے مئی کے ابتدائی دنوں میں ہی یہ سوال پوچھتے ہیں۔ یہ الیکشن کی مقررہ تاریخ، ۲۵ مئی سے بہت پہلے کی بات ہے۔ ہم نیگانہ میں ہیں، جو روہتک ضلع کے کلانور بلاک کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ فصلوں کی کٹائی کا وقت ہے۔ گیہوں کی فصل کٹ چکی ہے اور کسان دھان کی فصل لگانے کے لیے کھیتوں کو تیار کرتے ہوئے مانسون کے انتظار میں ہیں۔ لیکن آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے، اور ہواؤں میں سڑکوں کی گرد و غبار کے ساتھ جلتے ہوئے کھیتوں سے اٹھتا دھواں تیرتا نظر آ رہا ہے۔
درجہ حرارت ۴۲ ڈگری سیلسیس تک پہنچ چکا ہے، اور درجہ حرارت کے ساتھ انتخابات کے مزاج میں بھی گرمی آ رہی ہے۔ تقریباً ۴۰ کی عمر کے کرشن ایک الیکٹریشین ہیں اور فی الحال پاس کے ہی ایک گھر میں کام کر رہے ہیں۔ انہیں روزانہ ۵۰۰ روپے بطور اجرت ملتے ہیں۔ یہاں ان کا کام تقریباً ایک ہفتہ تک اور چلے گا۔ وہ یومیہ اجرت پر ایک دوسری جگہ بھی کام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔ روہتک ضلع کے اس حصہ میں زیادہ تر لوگ زرعی مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ زندہ رہنے کے لیے وہ کنسٹرکشن سائٹوں اور منریگا میں بھی کام کرتے ہیں۔
ان کے گھر جاتے وقت ہم ایک موڑ سے گزرتے ہیں۔ ’’کسان اور مزدور ایک دوراہے پر کھڑے ہیں،‘‘ کرشن کہتے ہیں۔ ’’ہم چوطرفہ مار جھیل رہے ہیں۔ ہمارے ساتھ ’سام، دام، دنڈ، بھید‘ سب ترکیبیں آزمائی جا رہی ہیں۔‘‘ وہ کوٹلیہ یعنی چانکیہ، جنہیں ایک قدیم ہندوستانی استاد، حکمت ساز اور بادشاہ کے مشیر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کے ذریعہ لکھے گئے ’ارتھ شاستر‘ (اقتصادیات) میں درج حکمرانی کے چار بنیادی اصولوں – تحمل، دولت کا استعمال اور لالچ، ظلم اور طاقت کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن کرشن، چانکیہ کا ذکر جدید سیاق و سباق میں کرتے ہیں!
’’برسر اقتدار پارٹی [بی جے پی] نے دہلی کی سرحد پر ۷۰۰ سے زیادہ کسانوں کی موت کی کوئی ذمہ داری نہیں لی،‘‘ کسانوں کے ذریعہ ۲۰۲۰ کے تاریخی احتجاجی مظاہرے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں اور بی جے پی کے کسان مخالف قوانین – جسے مسلسل تنقید کے سبب تقریباً ایک سال بعد واپس لے لیا گیا – کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
’’آپ کو یاد ہونا چاہیے، کیسے ٹینی [بی جے پی لیڈر کے بیٹے] نے کسانوں کو لکھیم پور کھیری میں روند ڈالا تھا۔ یہ مارنے میں کنجوسی نہیں کرتے،‘‘ ۲۰۲۱ میں اتر پردیش میں رونما ہونے والے اس واقعہ کی یاد آج بھی ان کے دماغ میں تازہ تھی۔
بی جے پی نے جنسی استحصال کے ملزم اپنے ہی رکن پارلیمنٹ اور ہندوستانی کشتی ایسوسی ایشن (ڈبلیو ایف آئی) کے صدر برج بھوشن سنگھ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ یہ بات بھی کرشن جیسے لوگوں کے حلق میں نہیں اتری تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’پچھلے سال ساکشی ملک اور دیگر مشہور خواتین پہلوان مہینوں تک نئی دہلی میں دھرنے پر بیٹھی رہیں۔ وہ رکن پارلیمنٹ کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہی تھیں، جس پر متعدد خواتین، جس میں ایک نابالغ بھی تھی، کے جنسی استحصال کے سنگین الزامات تھے۔‘‘
سال ۲۰۱۴ میں، بی جے پی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ خواتین کے خلاف تشدد کو ہر حال میں کنٹرول کرے گی۔ ’’ان وعدوں کا کیا ہوا؟‘‘ کرشن پوچھتے ہیں۔ ’’انہوں نے سوئٹزرلینڈ سے کالا دھن واپس لانے اور ہمارے اکاؤنٹ میں ۱۵ لاکھ روپے ڈالنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن آخر میں ہمیں بھوک اور راشن کے سوا کیا ملا!‘‘
گھر پر ان کی بھابھی ببلی نے ابھی ابھی چولہے پر صبح کا ناشتہ بنا کر تیار کیا ہے۔ ببلی کے شوہر چھ سال پہلے ہی لیور کی بیماری سے چل بسے۔ اس کے بعد سے ۴۲ سالہ ببلی منریگا کے سائٹوں پر مزدوری کرتی ہیں۔
’’مجھے مہینہ بھر کا کام شاید ہی کبھی ملتا ہے۔ مل بھی گیا، تو مجھے وقت پر پیسے نہیں ملتے ہیں۔ اگر مل بھی گئے، تو مجھے اتنے کم پیسے ملتے ہیں کہ ان پیسوں سے گھر چلا پانا ناممکن ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ مارچ ۲۰۲۴ میں انہوں نے صرف سات دن کام کیا، لیکن ان کی مزدوری کے ۲۳۴۵ روپے اب تک نہیں ملے ہیں۔
گزشتہ چار سالوں میں ہریانہ میں منریگا کے ذریعے دستیاب ہونے والے روزگار میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ سال ۲۱-۲۰۲۰ میں قانون میں کیے گئے وعدے کے مطابق ۱۴ ہزار خاندانوں کو ریاستی حکومت کے ذریعے ۱۰۰ دنوں کا کام دیا گیا، لیکن ۲۴-۲۰۲۳ میں یہ تعداد گھٹ کر صرف ۳۴۴۷ رہ گئی۔ سال ۲۲-۲۰۲۱ میں ۱۰۳۰ کے مقابلے روہتک ضلع میں صرف ۴۷۹ خاندانوں کو ہی ۱۰۰ دنوں کا کام ملا۔
’’دس سال پہلے بھی زندگی بہت آسان نہیں تھی، لیکن اتنی مشکل نہیں تھی جتنی اب ہے،‘‘ ببلی کہتی ہیں۔
نیگانہ سے صرف چھ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع کاہنور میں رہنے والے کیسو پرجاپتی کے لیے اس الیکشن کا سب سے بڑا ایشو مہنگائی ہے۔ تقریباً ۴۴ سال کے کیسو گھروں اور بڑی عمارتوں کی فرشوں پر ٹائلس لگانے کا کام کرتے ہیں۔ وہ مہنگائی کو نمک اور چینی جیسی ضروری اشیاء کی قیمتوں کے پیمانے پر ناپتے ہیں۔ پیشہ سے دہاڑی مزدور اور روہتک کے لیبر یونین ’بھون نرمان کاریگر مزدور یونین‘ کے رکن کیسو کہتے ہیں کہ ایک دہائی قبل دودھ ۳۵-۳۰ روپے فی لیٹر ہوا کرتا تھا؛ اب یہ ۷۰ روپے فی لیٹر ملتا ہے؛ جو نمک اُس وقت ۱۶ روپے میں ملتا تھا، اب ۲۶ روپے کلو مل رہا ہے۔
’’راشن ہمارا حق تھا۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے سرکار ہمیں قرض دے رہی ہے، جس کے لیے ہمیں اس کا احسان مند ہونا چاہیے۔‘‘ ابھی ایک پیلے کارڈ ہولڈر کو پانچ کلو گیہوں، ایک کلو چینی اور خوردنی تیل ملتا ہے، جب کہ ایک گلابی کارڈ ہولڈر کو مہینہ میں ۳۵ کلو گیہوں ملتا ہے۔ ’’پہلے سرکار سے ہمیں راشن میں کیروسن تیل بھی ملتا تھا، لیکن اب اسے روک دیا گیا ہے اور ایل پی جی سیلنڈر کو دوبارہ بھرا پانا بہت مشکل ہے۔ ہمیں چنا اور نمک بھی ملتا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ لیکن بعد میں یہ دونوں چیزیں بھی ملنی بند ہو گئیں۔
چونکہ اب حکومت نے راشن میں ملنے والی چیزوں سے نمک کو بھی ہٹا دیا ہے، اس لیے وہ کہتے ہیں، ’’کم از کم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے سرکار کا نمک نہیں کھایا۔‘‘
مرکز اور ریاست، دونوں میں بی جے پی کی حکومت کے ساتھ ہریانہ کی ’ڈبل انجن کی سرکار‘ نے رام رتی جیسے ووٹروں کے لیے کچھ بھی خاص نہیں کیا۔ رام رتی (۴۸) کاہنور کے سرکاری اسکول میں مڈ ڈے میل (دوپہر کا کھانا) پکانے کا کام کرتی ہیں۔ ’’اتنی شدید گرمی میں جب آگ کے سامنے ایک منٹ کے لیے بیٹھنا بھی مشکل ہو، میں ایک مہینہ میں تقریباً ۶۰۰۰ روٹیاں بناتی ہوں۔‘‘ اس کام کے لیے انہیں مہینہ میں ۷۰۰۰ روپے کا محنتانہ دیا جاتا ہے۔ لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کی آدھی محنت کے پیسے انہیں نہیں دیے جاتے ہیں۔ مہنگائی کے سبب اتنے کم پیسوں میں ان کے لیے اپنی چھ رکنی فیملی کی کفالت کر پانا بہت مشکل ہے۔ اپنی محنت میں وہ اپنے گھر کے کاموں کو شامل بھی نہیں کرتی ہیں۔ ’’جتنی دیر کے لیے سورج نکلتا ہے، اس سے زیادہ گھنٹے میں کام کرتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’میں مندر [رام مندر] کے نام پر ووٹ نہیں دینے والی ہوں۔ اور نہ ہی مجھے کشمیر سے کچھ لینا دینا ہے،‘‘ ہریش کمار واضح لفظوں میں کہتے ہیں۔ ایودھیا میں مندر کی تعمیر اور آئین کی دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی (جس کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے) جیسی جن دو حصولیابیوں پر بی جے پی کو ناز ہے، ان کا کوئی تعلق ان دہاڑی مزدوروں کی زندگی کی مشکلات سے نہیں ہے۔
ہریش، کاہنور سے ۳۰ کلومیٹر دور مکرولی کلاں میں سڑک کی تعمیر کے ایک مقام پر کام کرتے ہیں۔ جب وہ جھلستی ہوئی گرمی میں کچھ خواتین اور مرد مزدوروں کے ساتھ کام کرتے ہیں، تو ان کے بغل سے بڑی گاڑیوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ عورتیں کنکریٹ کے پتھر اٹھا کر ایک دوسرے کے سہارے دوسری جگہوں تک پہنچاتی ہیں۔ مرد پکّی سڑک بنانے کے لیے لال، بھورے اور پیلے پتھروں کو جوڑنے کا کام کرتے ہیں۔
ہریش، کلانور تحصیل کے سمپل گاؤں میں رہتے ہیں۔ انہیں اس کام کے لیے ۵۰۰ روپے کی یومیہ اجرت ملتی ہے۔ ’’ہماری مزدوری مہنگائی کا مقابلہ نہیں کر پاتی ہے۔ مجبوری میں محنت بیچنے کو مزدوری کہتے ہیں۔‘‘
وہ تیزی سے اپنا کھانا ختم کرتے ہیں، کیوں کہ ان کو کنکریٹ ملانے کے اپنے کام پر دوبارہ لوٹنا ہے۔ ہندوستان میں اپنے جیسے تقریباً سبھی دوسرے مزدوروں کی طرح، وہ بھی اپنی محنت کی کم قیمت پاتے ہیں اور انہیں ناموافق حالات میں بھی کڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ ’’کام کے پہلے دن محسوس ہوا کہ اگر میں نے پیسے کمائے، تو لوگ میری عزت کریں گے۔ آج بھی میں اُس عزت کی تلاش میں ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
’’مزدوری میں اضافہ ہی ہمارا واحد مطالبہ ہے۔ ہمیں برابری کا حق بھی چاہیے۔‘‘
ایک صدی سے پہلے، کلانور تحصیل ہندوستان کی آزادی کی لڑائی کے تاریخی لمحہ کی گواہ بنی تھی۔ مہاتما گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے یہاں ایک عوامی جلسہ سے خطاب کیا تھا۔ روہتک کے ایک اجلاس میں ۸ نومبر، ۱۹۲۰ کو علاقے میں عدم تعاون کی تحریک کی حمایت کرنے سے متعلق ایک تجویز پاس کی گئی۔ بعد کے دنوں میں ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں یہ فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔
سال ۲۰۲۴ میں، روہتک کے لوگ ایک بار پھر دوراہے پر کھڑے تھے، اور ملک میں جمہوریت بچانے کی لڑائی کے ایک اور فیصلہ کن موڑ کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ان کے خود کے لیے بھی وجود کو بچانے کی لڑائی تھی۔
مترجم: قمر صدیقی