پنجاب کے سنگرور ضلع سے تعلق رکھنے والی ۶۰ سالہ چرن جیت کور کہتی ہیں، ’’ہمیں دہلی سے واپس آئے ہوئے دو سال سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے کہا تھا کہ ہمارے تمام مطالبات کو پورا کرے گی، لیکن ان مطالبات پر بات چیت کرنے کے لیے ہم کسانوں کو کسی نے نہیں بلایا۔‘‘ وہ اور ان کی فیملی دو ایکڑ زمین پر گھریلو استعمال کے لیے گندم، دھان اور کچھ سبزیاں اُگاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم لوگ تمام کسانوں کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘‘
چرن جیت اپنی پڑوسن اور سہیلی گرمیت کور کے ساتھ پٹیالہ ضلع کی شمبھو سرحد پر خواتین کے ایک گروپ کے درمیان بیٹھی ہیں۔ سبھی پر دوپہر کی تیز دھوپ پڑ رہی ہے۔ گرمیت کہتی ہیں، ’’انہوں نے [حکومت] ہمیں دہلی تک نہیں جانے دیا۔‘‘ وہ احتجاج کر رہے کسانوں کو دہلی پہنچنے سے روکنے کے لیے ہریانہ و پنجاب اور دہلی و ہریانہ کی سرحدوں پر کئی سطحوں پر کی گئی قلعہ بندی، سیمنٹ کی دیواروں، لوہے کی کیلوں اور کانٹے دار تاروں کی بات کر رہی ہیں۔ پڑھیں: ’ایسا لگتا ہے کہ مجھے شمبھو بارڈر پر قید کر لیا گیا ہے‘
یہاں جمع ہوئے کسانوں کا کہنا ہے کہ مرکز نے انہیں کئی معاملوں میں مایوس کیا ہے: سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی، کسانوں اور زرعی مزدوروں کے قرض کی پوری معافی، لکھیم پور کھیری قتل عام میں متاثرہ کسانوں کو انصاف، قصورواروں کی گرفتاری، کسانوں و مزدوروں کے لیے پینشن اسکیم اور ۲۰۲۱-۲۰۲۰ کے احتجاجی مظاہرہ میں شہید ہوئے کسانوں کے اہل خانہ کو معاوضہ۔
کچھ ہفتے پہلے ۱۳ فروری کو، جب ان کسانوں نے اپنے مطالبات کے ساتھ قومی راجدھانی کی طرف پرامن مارچ شروع کیا، تو ان کا سامنا ہریانہ پولیس کی آنسو گیس، پانی کی بوچھاروں، اور پیلٹ گن کے چھروں اور ربر کی گولیوں سے ہوا۔
سریندر کور کا بیٹا ہریانہ اور پنجاب کے درمیان واقع شمبھو بارڈر پر موجود مظاہرین میں شامل ہے۔ وہ کہتی ہیں، ساڈے تے موبائل، ٹیلی ویژن بند ہی نہیں ہوندے۔ اسیں دیکھ دے ہاں نا سارا دن گولے وجدے، تد من وِچّ ہَول جیہا پیندا ہے کہ ساڈے بچے تے وجّے نہ [ہمارے موبائل فون اور ٹیلی ویژن لگاتار چلتے رہتے ہیں۔ ہم دن بھر آنسو گیس کے گولے داغتے ہوئے دیکھتے ہیں، ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت کی فکر ستاتی ہے]۔‘‘
سریندر کور کھوجے ماجرا گاؤں سے ہیں اور ۲۴ فروری، ۲۰۲۴ کی صبح شبھ کرن سنگھ (۲۲) کے لیے کینڈل مارچ میں حصہ لینے کے لیے پہنچی ہیں۔ ہریانہ و پنجاب کی سرحد کے کھنوری پر حفاظتی دستوں اور احتجاج کر رہے کسانوں کے درمیان جھڑپ کے بعد شبھ کرن کی موت ہو گئی تھی۔
’’ہم اپنے حقوق کے لیے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں، جب تک ہمارے حق نہیں ملیں گے، ہم واپس نہیں جائیں گے،‘‘ وہ پوری طاقت سے کہتی ہیں۔ سریندر (۶۴) کے ساتھ ان کی بہو اور پوتے پوتیاں بھی آئے ہیں۔
سریندر کور کی چھ رکنی فیملی فتح گڑھ صاحب ضلع میں اپنے دو ایکڑ کھیت پر منحصر ہے، جہاں وہ گیہوں اور دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف پانچ فصلوں کے لیے ایم ایس پی کافی نہیں ہے۔ وہ ان کے کھیتوں اور اس کے ارد گرد فروخت ہونے والی سرسوں جیسی دیگر فصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مٹی دے بھا لیندے نے ساڈی فصل [وہ ہماری فصلوں کو مٹی کے بھاؤ لے لیتے ہیں]۔‘‘
دیوندر کور کے بیٹے شروع سے ہی احتجاج کے مقام پر موجود ہیں۔ وہ ڈری ہوئی ہیں اور پوچھتی ہیں، ’’ہمارے پرامن احتجاجی مظاہرہ کے باوجود، پولیس ایسے سخت قدم کیوں اٹھاتی ہے؟‘‘ پنجاب کے صاحبزادہ اجیت سنگھ نگر ضلع کے لانڈراں گاؤں کی رہنے والی دیوندر کور بھی اپنی فیملی کی بہوؤں اور ۲، ۷ اور ۱۱ سال کے پوتے پوتیوں کے ساتھ آئی تھیں۔
دیوندر پوچھتی ہیں، ’’حکومت صرف دو فصلوں – گندم اور دھان – پر ایم ایس پی دیتی ہے۔ پھر وہ ہم سے دیگر فصلوں کی کھیتی کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ ایسے حالات میں ہم کیسے کچھ اگائیں؟‘‘ ہم جو مکئی اُگاتے ہیں وہ ۸۰۰ سے ۹۰۰ روپے فی کوئنٹل کی قیمت پر خریدا جاتا ہے، جب کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے ذریعے ۲۰۲۳-۲۰۲۲ کے لیے مکئی پر ۱۹۶۲ روپے فی کوئنٹل کی ایم ایس پی طے کی گئی تھی۔‘‘
بیریکیڈ سے تقریباً ۲۰۰ میٹر کے فاصلہ پر، ایک ٹرالی پر بنے عارضی اسٹیج پر کھڑے ہو کر کسان لیڈر تقریر کر رہے ہیں اور احتجاج کر رہے کسانوں کو اگلے پروگراموں کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ لوگ ہائی وے پر بچھی دریوں پر بیٹھے ہیں؛ ہزاروں ٹریکٹر ٹرالیوں کا چار کلومیٹر لمبا کارواں پنجاب کی طرف بڑھتا ہے۔
پنجاب کے راجپورہ کی ۴۴ سالہ کسان پرم پریت کور ۲۴ فروری سے شمبھو بارڈر پر ہیں۔ امرتسر اور پٹھان کوٹ کے گاؤوں سے آنے والی ٹریکٹر ٹرالیوں میں ہر ایک میں چار سے پانچ عورتیں ہوتی ہیں۔ وہ پورے دن رکتی ہیں اور اگلے دن عورتوں کے دوسرے گروپ آتے ہیں۔ پرم پریت کا کہنا ہے کہ احتجاج کے مقام پر بیت الخلاؤں کی کمی کے سبب وہ پوری رات نہیں رک سکتیں۔ ان کا ۲۱ سال کا بیٹا بیمار ہے اور یہاں نہیں آ سکتا، اس لیے وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آئی ہیں۔ ان کی فیملی کے پاس ۲۰ ایکڑ زمین ہے، جس پر وہ گندم اور دھان اُگاتے ہیں، لیکن ۲۰۲۱ میں ان کے شوہر کو اسٹروک [جب دماغ کام کرنا بند کر دیتا ہے] آ گیا تھا، جس کے بعد سے انہوں نے زمین سے کچھ بھی نہیں کمایا ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’کسی کو بھی پٹّہ پر دی گئی زمین پر کھیتی کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، کیوں کہ وہاں کا زیر زمین پانی، پاس کی ایک فیکٹری سے نکلنے والے کیمیکل سے آلودہ ہو گیا ہے۔‘‘
امن دیپ کور اور ان کی فیملی کے پاس پٹیالہ ضلع کے بھٹیہری گاؤں میں ۲۱ ایکڑ کھیت ہے۔ وہ عام طور پر گیہوں اور دھان اُگاتے ہیں۔ ’’جب تک ہماری فصلیں ہمارے کھیتوں میں رہتی ہیں، ان کی قیمت نہ کے برابر رہتی ہے۔ حالانکہ، ایک بار ہمارے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد تو انہیں بازار میں دو گنی قیمت پر بیچا جاتا ہے۔‘‘
احتجاجی مظاہرہ کے بارے میں بولتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’مظاہرین نہتھے ہیں، پھر بھی حکومت اپنے ہی شہریوں کے خلاف ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے۔ ہندوستان میں رہنے کی بہت کم وجہیں ہیں۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ نوجوان ملک چھوڑ رہے ہیں۔ یہاں نہ صرف محدود نوکریاں ہیں، بلکہ جب ہم اپنا حق مانگتے ہیں، تو ہمارے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز