دو بچوں کی اکیلی ماں، کے ناگمّا پوچھتی ہیں، ’’کیا بجٹ کو لے کر ہونے والی اس سالانہ مشق سے ہماری زندگیوں میں تھوڑی بھی تبدیلی آئے گی؟‘‘ ان کے شوہر کی ۲۰۰۷ میں سیپٹک ٹینک کی صفائی کرتے ہوئے موت ہو گئی تھی۔ اس المناک حادثہ نے انہیں صفائی ملازمین کی تحریک سے جوڑ دیا، جہاں وہ اب رابطہ کار کا کردار نبھا رہی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی شیلا نرس ہے، جب کہ چھوٹی بیٹی آنندی ایک عارضی سرکاری نوکری میں ہے۔

’’بجٹ ہمارے لیے بس فیشن ایبل سا لفظ ہے۔ ہم جتنا کماتے ہیں اس سے ہم اپنے گھر کا بجٹ نہیں بنا سکتے اور سرکار کی اسکیموں سے ہمیں باہر رکھا جاتا ہے۔ ویسے بھی بجٹ سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے میری بیٹیوں کی شادی ہو جائے گی؟‘‘

ناگمّا کے والدین ان کے پیدا ہونے سے پہلے ہی چنئی چلے آئے تھے، اس لیے ناگمّا کی پیدائش اور پرورش و پرداخت چنئی میں ہی ہوئی۔ سال ۱۹۹۵ میں ان کے والد نے ان کی شادی اپنی بہن کے بیٹے سے کر دی، جو ان کے آبائی شہر نگولا پورم میں رہتے تھے۔ آندھرا پردیش کے پرکاشم ضلع کے پمورو شہر کے پاس واقع اس گاؤں میں ان کے شوہر کنّن راج مستری کا کام کرتے تھے۔ ان کے خاندان کا تعلق مڈیگا برادری سے ہے، جسے درج فہرست ذات کے زمرہ میں شامل کیا گیا ہے۔ ناگمّا یاد کرتی ہیں، ’’دو بچوں کے پیدا ہونے کے بعد، ۲۰۰۴ میں بیٹیوں کی پڑھائی کی خاطر ہم نے چنئی آنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ حالانکہ، چنئی آنے کے تین سال بعد ہی کنّن کی موت ہو گئی۔

PHOTO • Kavitha Muralidharan
PHOTO • Kavitha Muralidharan

کے ناگمّا اپنی بیٹیوں – شیلا اور آنندی – کے ساتھ

ناگمّا، چنئی کے گنڈی کے پاس سینٹ تھامس ماؤنٹ کی ایک تنگ گلی میں بیحد چھوٹے سے گھر میں رہتی ہیں۔ پانچ سال پہلے جب میری ان سے ملاقات ہوئی تھی، اس کے بعد سے اب تک ان کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ’’جب سونا ۲۰ سے ۳۰ ہزار روپے فی سوورن تھا [ایک سووَرن تقریباً ۸ گرام کا ہوتا ہے]، تب میں نے تھوڑا تھوڑا پیسہ بچا کر ایک یا دو سوورن سونا خریدنے کے بارے میں سوچا تھا۔ فی الحال، جب ایک سوورن کی قیمت ۶۰-۷۰ ہزار روپے کے درمیان ہے، تو میں اپنی بیٹیوں کی شادی کا خرچ کیسے برداشت کر پاؤں گی؟ شاید یہ تبھی ہو پائے گا، جب شادیوں میں سونا دینے کا چلن بند ہو جائے گا۔‘‘

کچھ دیر سوچ میں ڈوبے رہنے کے بعد وہ آہستہ سے کہتی ہیں، ’’سونے کی بات تو بھول ہی جائیے، کھانے پینے کا کیا؟ گیس سیلنڈر، چاول، یہاں تک کہ ایمرجنسی میں دودھ کا سب سے سستا پیکٹ بھی خرید پانا اپنی پہنچ سے باہر لگتا ہے۔ جتنا چاول میں ۲۰۰۰ روپے میں خرید کر لائی ہوں، اتنا پچھلے سال ۱۰۰۰ روپے میں مل جاتا تھا۔ لیکن ہماری آمدنی اب بھی اتنی ہی ہے۔‘‘

جب وہ ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی جدوجہد کے بارے میں بات کرتی ہیں، تو ان کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے، جن کی آواز اٹھانے کے لیے وہ کل وقتی کارکن بن گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ان کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ ایس آر ایم ایس* [ہاتھ سے میلا اٹھانے والے ملازمین کی باز آبادکاری کے لیے خود روزگار کی اسکیم] کو ’نمستے‘ بنا دیا گیا، لیکن اس کا کیا مطلب ہے؟ کم از کم ایس آر ایم ایس کے تحت ہم گروپ بنا سکتے تھے اور عزت کے ساتھ گزر بسر کے لیے قرض بھی لے سکتے تھے۔ لیکن ’نمستے‘ کے تحت اب ہمیں مشینیں دی جاتی ہیں۔ یعنی کہ اب ہمیں لازمی طور پر وہی کام کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے جسے کرتے ہوئے میرے والد کی موت ہو گئی۔ مجھے بتائیے کہ کیا مشین ہمیں عزت دے سکتی ہے؟‘‘

*ایس آر ایم ایس (سیلف امپلائمنٹ اسکیم فار ری ہیبلی ٹیشن آف مینوئل اسکیونجرز، ۲۰۰۷) کو ۲۰۲۳ میں بدل کر ’نمستے‘ یعنی نیشنل ایکشن فار میکنائزڈ سینی ٹیشن ایکو سسٹم کر دیا گیا۔ لیکن جیسا کہ ناگماّ بتاتی ہیں، اس نے ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں کی زندگی میں تبدیلی پیدا کرنے کی بجائے اس چلن کو مزید مضبوط کیا ہے

ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز

Kavitha Muralidharan

کویتا مرلی دھرن چنئی میں مقیم ایک آزادی صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ وہ پہلے ’انڈیا ٹوڈے‘ (تمل) کی ایڈیٹر تھیں اور اس سے پہلے ’دی ہندو‘ (تمل) کے رپورٹنگ سیکشن کی قیادت کرتی تھیں۔ وہ پاری کے لیے بطور رضاکار (والنٹیئر) کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز کویتا مرلی دھرن

پی سائی ناتھ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک دیہی ہندوستان کے رپورٹر رہے اور Everybody Loves a Good Drought اور The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom کے مصنف ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز پی۔ سائی ناتھ
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique