محنت کش لوگ گھِس چکی چپلوں کو بھی بچا کر رکھتے ہیں۔ ڈھُلائی کرنے والوں کی چپلوں میں گڑھے پڑ جاتے ہیں اور اس کے تلوے پچک جاتے ہیں، جب کہ لکڑہاروں کی چپلیں کانٹوں سے بھری نظر آتی ہیں۔ اپنی خود کی چپلوں کو لمبا چلانے کے لیے، میں نے اکثر انہیں سیفٹی پن سے جوڑا ہے۔

ہندوستان کے الگ الگ علاقوں کے سفر کے دوران، میں چپل جوتوں کی تصویریں کھینچتا رہا ہوں اور اپنی تصویروں میں ان کہانیوں کو ڈھونڈنا شروع کیا ہے۔ ایسی چپلوں کی کہانیوں کے ذریعے میرا سفر بھی سامنے آتا ہے۔

حال ہی میں، کام کے سلسلے میں اوڈیشہ کے جاجپور کے سفر کے دوران، مجھے بارہ بنکی اور پورن منتیرا گاؤوں کے اسکولوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔ جب ہم وہاں جاتے تھے، تو اس کمرے کے باہر، جہاں آدیواسی برادریوں کے لوگ اکٹھا ہوتے تھے، ککافی منظم طریقے سے سجا کر رکھے گئے چپل بار بار میرا دھیان کھینچ لیتے تھے۔

شروع میں، میں نے ان پر زیادہ توجہ نہیں دی، لیکن دو تین دن بعد میں نے ان گھس چکی چپلوں پر غور کرنا شروع کیا جن میں سے کچھ میں تو سوراخ بھی تھے۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

چپل جوتوں کے ساتھ میرا اپنا رشتہ بھی میری یادوں میں بسا ہوا ہے۔ میرے گاؤں میں ہر کوئی ’وی‘ شکل کے پٹّے والی چپلیں خریدتا تھا۔ مدورئی میں، جب میں تقریباً ۱۲ سال کا تھا، ان کی قیمت صرف ۲۰ روپے ہوا کرتی تھی۔ پھر بھی ہمارے خاندانوں کو انہیں خریدنے کے لیے کڑی محنت کرنی پڑتی تھی، کیوں کہ چپل ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

جب بھی سینڈل کا کوئی نیا ماڈل بازار میں آتا تھا، تو ہمارے گاؤں کا کوئی لڑکا اسے خرید لیتا تھا، اور ہم میں سے بقیہ لوگ اس سے سینڈل مانگ کر تہواروں، خاص موقعوں پر یا شہر سے باہر کے سفر کے دوران پہنتے تھے۔

جاجپور کے اپنے سفر کے بعد، میں اپنے ارد گرد کے جوتے چپلوں پر زیادہ غور کرنے لگا ہوں۔ سینڈلوں کی کچھ جوڑیاں میرے ماضی کے واقعات سے جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، جب مجھے اور میرے ہم جماعتوں کو فزیکل ایجوکیشن (جسمانی ورزش سے متعلق تعلیم) کی کلاس میں ٹیچر نے جوتے نہ پہننے کے لیے ڈانٹ لگائی تھی۔

چپل جوتوں نے میری فوٹوگرافری پر بھی اثر ڈالا ہے اور اہم تبدیلی لے کر آئے ہیں۔ مظلوم طبقوں کو طویل عرصے تک چپل جوتوں سے محروم رکھا گیا۔ جب میں نے اس بات پر غور کیا، تو اس کی اہمیت کے بارے میں پھر سے سوچ پایا۔ اس سوچ نے بیج کا کام کیا ہے اور مزدور طبقہ کی جدوجہد اور دن رات ان کے لیے گھسنے والے چپل جوتوں کی ترجمانی کرنے کے میرے مقصد کو حوصلہ بخشا ہے۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

مترجم: محمد قمر تبریز

M. Palani Kumar

ایم پلنی کمار پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے اسٹاف فوٹوگرافر ہیں۔ وہ کام کرنے والی خواتین اور محروم طبقوں کی زندگیوں کو دستاویزی شکل دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پلنی نے ۲۰۲۱ میں ’ایمپلیفائی گرانٹ‘ اور ۲۰۲۰ میں ’سمیُکت درشٹی اور فوٹو ساؤتھ ایشیا گرانٹ‘ حاصل کیا تھا۔ سال ۲۰۲۲ میں انہیں پہلے ’دیانیتا سنگھ-پاری ڈاکیومینٹری فوٹوگرافی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ پلنی تمل زبان میں فلم ساز دویہ بھارتی کی ہدایت کاری میں، تمل ناڈو کے ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’ککوس‘ (بیت الخلاء) کے سنیماٹوگرافر بھی تھے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز M. Palani Kumar
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique