اعجاز، عمران، یاسر اور شمیمہ ابھی ۱۰ سال کے نہیں ہوئے ہیں، اور انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ سال ہی اسکول میں گزارے ہیں۔ ہر سال انہیں چار مہینوں کے لیے اپنی کلاسوں سے غیر حاضر رہنا پڑتا ہے، اور ابتدائی سطح کی ریاضی، سائنس، سوشل اسٹڈیز، الفاظ و معانی اور لکھنے کی مشق جیسی بنیادی تعلیم سے محروم رہ کر اپنے والدین کے ساتھ مہاجرت کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔
جب یہ بچے اپنی زندگی کا ۱۰ سال پورا کریں گے، تب کلاسوں میں ان کی غیر حاضری کا کل وقت سال بھر کے برابر ہو جائے گا۔ ایک باقاعدہ طالب علم کے طور پر یہ وقت انہیں اپنی کلاسوں میں گزارنا چاہیے تھا۔ کلاس کے سب سے تیز بچوں کے لیے بھی یہ ایک بڑا خسارہ ہے، جسے پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔
بہرحال، حالات اب بدل چکے ہیں۔ ان مہاجر بچوں کو تعلیم میں ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے ہمیشہ تیار رہنے والے مسافر ٹیچر علی محمد اب ان کے ساتھ ہیں۔ تقریباً ۲۵ سال کے علی کو کشمیر کی لدر وادی میں واقع گوجروں کی اس بستی – کھالن میں آئے تین سال پورے ہو چکے ہیں، اور گرمی کے اگلے چار مہینوں (جون سے ستمبر) تک وہ ان گوجر کنبوں کے چھوٹے بچوں کو پڑھائیں گے جو گرمیوں کے موسم میں اپنے مویشیوں کے ساتھ چراگاہوں کی تلاش میں ان علاقوں میں آئے ہیں۔
اپنے سامنے کھلی ہوئی ایک کتاب، جسے حکومت نے شائع کیا ہے، پر نظریں جمائے شرمیلی شمیمہ جان کہتی ہے، ’’بڑی ہو کر میں بھی ایک ٹیچر بننا چاہتی ہوں۔‘‘ ایسا موقع بھی آتا ہے جب علی ان بچوں کی لکھنے پڑھنے کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرتے ہیں۔
گوجر ایک چرواہا برادری ہے، جو عموماً گائے اور بھینسوں کے ساتھ ساتھ بھیڑ بکریاں بھی پالتے ہیں۔ ہر سال گرمیوں میں اپنے مویشیوں کے لیے سبز گھاس کے چراگاہوں کی تلاش میں ہمالیہ کی اونچائیوں پر چڑھتے ہیں۔ اس سالانہ مہاجرت کی وجہ سے بچوں کو اسکول کی پڑھائی بیچ میں ہی چھوڑنی پڑتی تھی، جس کا سیدھا اثر ان کی بنیادی تعلیم پر پڑتا تھا۔
حالانکہ، اب علی کی طرح ان بچوں کے ساتھ سفر کرنے والے ٹیچروں نے حالات سے نمٹنے کے لیے پڑھائی میں ہوئے ان نقصانات کی تلافی کا گویا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ ’’کچھ سال پہلے ہماری برادری کے لوگوں کی شرح خواندگی بہت کم ہوا کرتی تھی۔ بہت کم تعداد میں لوگ اسکول جا پائے، کیوں کہ ہمیں پہاڑوں کے بالائی علاقوں میں جانا پڑتا تھا، جہاں اسکولی تعلیم کو جاری رکھنے کا کوئی موقع نہیں تھا،‘‘ نوجوان ٹیچر علی بتاتے ہیں، جو اپنے بچپن کے دنوں میں خود بھی گوجر والدین کے ساتھ اسی طرح گھوما کرتے تھے۔
’’لیکن اب اس نئے انتظام کی وجہ سے ان بچوں کو ان کا ٹیچر مل گیا ہے۔ اب وہ اپنے اسکول کے کاموں میں مصروف رہیں گے اور ہماری برادری ترقی کرے گی،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’اگر یہ انتظام نہیں رہے گا، تو بالائی علاقوں میں چار مہینے تک گھومنے والے بچے نچلے علاقوں [اننت ناگ ضلع] کے دیہی اسکولوں میں اپنے ہم عمر بچوں سے پچھڑ جائیں گے۔‘‘
انتظام سے علی کی مراد مرکزی حکومت کے سرو شکشا ابھیان سے ہے، جسے ۲۰۱۹-۲۰۱۸ میں شروع کیا گیا تھا۔ اس میں سرو شکشا ابھیان (ایس ایس اے)، راشٹریہ مادھیہ مک شکشا ابھیان (آر ایم ایس اے) اور ٹیچر ایجوکیشن (ٹی ای) کی پالیسیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ’’اسکولی تعلیم کے یکساں مواقع اور یکساں تدریسی اہداف کے سلسلے میں پتہ لگائی گئی اسکول کی اثر انگیزی‘‘ کو بہتر کرنا تھا۔
یہ اسکول سبز رنگ کے ایک ٹینٹ (خیمہ) میں چلتا ہے جو اننت ناگ ضلع کی پہلگام تحصیل میں بہنے والی لدر ندی کے کنارے لگا ہے۔ لیکن چمکتی ہوئی دھوپ میں ڈوبی اس دوپہر میں سر سبز گھاس کا میدان ہی اسکول کے اس ٹیچر کے لیے اسکول کی کلاس کے طور پر کام آ رہا ہے۔ علی نے بائیو لوجی میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ہے، اور اس نوکری کے لیے انہوں نے باقاعدہ تین مہینے کی ٹریننگ لی ہے۔ ’’ہمیں ٹریننگ میں یہ بتایا گیا کہ مطالعہ کے لیے کن مقاصد کو حاصل کرنا ہمارا ہدف ہونا چاہیے، ہمیں بچوں کو کیسے پڑھانا چاہیے، اور ایک طالب علم کی زندگی میں تعلیم کا کیا عملی استعمال ہوتا ہے۔‘‘
جون کی اس گرم صبح کو اسکول کی کلاس جاری ہے۔ بچوں سے گھرے علی گھاس کے میدان میں بیٹھے ہیں۔ ان کے طالب علموں کی عمر ۵ سے ۱۰ سال کے درمیان ہے۔ تقریباً ایک گھنٹہ میں ۱۲ بج جائیں گے اور وہ تین گوجر کنبوں کی اس چھوٹی سی بستی – کھالن میں اپنی کلاس سمیٹ لیں گے۔ مٹی کے پلستر والے دو چار گھر ندی سے کچھ فاصلہ پر تھوڑی اونچائیوں پر آباد ہیں۔ اس علاقے میں جو گنے چنے لوگ رہتے ہیں ان میں سے زیادہ تر اپنے اپنے گھر کے باہر بیٹھے موسم کا لطف لے رہے ہیں اور لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں آباد خاندانوں کے پاس کل ۲۰ گائے اور بھینسیں، اور ۵۰ بھیڑ بکریاں ہیں۔ یہ اطلاع پاری کو بچوں سے ملتی ہے۔
’’یہاں برفباری کی وجہ سے اسکول کا سیشن دیر سے شروع ہوا۔ میں بھی دس دن پہلے [۱۲ جون، ۲۰۲۳ کو] ہی اوپر پہنچا ہوں،‘‘ علی بتاتے ہیں۔
کھالن، لدرگلیشیئر کے راستے میں پڑتا ہے۔ یہ تقریباً ۴۰۰۰ میٹر کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں پہنچنے کے لیے ۱۵ کلومیٹر کی مزید چڑھائی کرنی پڑتی ہے۔ اپنے چھوٹے شاگردوں کو پڑھانے کے لیے علی کو بھی یہیں آنا ہوتا ہے۔ یہ پورا علاقہ خوبصورت قدرتی مناظر اور سبزہ زاروں سے بھرا ہوا ہے، جہاں مویشیوں کے لیے چارے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ یہاں ندی کے آس پاس کئی جگہوں پر گوجر اور بکروال خاندان پہلے سے آباد ہیں۔
’’اُن بچوں کو پڑھانے کے لیے میں دوپہر کے وقت جاتا ہوں۔‘‘ ندی کے اُس پار چار گوجر خاندانوں کی بستی سلار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علی بتاتے ہیں۔ انتہائی تیز رفتار سے بہتی اس ندی کے اُس پار پہنچنے کے لیے انہیں لکڑی کے ایک پل کو پار کرنا پڑتا ہے۔
مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ دونوں بستیوں کے لیے پہلے ایک ہی اسکول تھا، لیکن کچھ سال پہلے ایک عورت پل سے پھسل کر ندی میں جا گری اور اس کی موت ہو گئی۔ اُس حادثہ کے بعد ہی سرکاری ضابطوں کی وجہ سے پرائمری اسکول کے بچوں پر اسکول جانے کے لیے ندی پار کرنے پر روک لگا دی گئی، جب کہ ٹیچر کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ ’’اس لیے گزشتہ دو گرمیوں سے میں بچوں کو دو شفٹ میں پڑھاتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
چونکہ پرانا پل اب بہہ گیا ہے، اس لیے علی اُس پار جانے کے لیے اب ڈھلان سے نیچے اتر کر ایک دوسرے پل کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ پل تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ آج ندی کے اُس پار کے ان کے شاگرد انہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے پہلے سے ہی ان کا انتظار کر رہے ہیں۔
علی کی طرح تمام مسافر ٹیچر چار مہینے کے معاہدہ پر بحال کیے جاتے ہیں، اور اس پوری مدت کے لیے انہیں ۵۰ ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔ علی، سلار میں پورے ہفتہ رکتے ہیں۔ ’’اپنے ٹھہرنے اور کھانے پینے کا انتظام مجھے ہی کرنا ہوتا ہے، اس لیے میں یہاں اپنے رشتہ داروں کے پاس رکتا ہوں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں ایک گوجر ہوں اور یہ سبھی میرے رشتہ دار ہیں۔ میرا چچیرا بھائی یہاں رہتا ہے اور میں اس کی فیملی کے ساتھ رکتا ہوں۔‘‘
علی کا گھر یہاں سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور، اننت ناگ ضلع کے ہلن گاؤں میں ہے۔ بیوی نور جہاں اور اپنے بچے سے ان کی ملاقات ہفتہ کے آخر میں ہی ہوتی ہے جب وہ پہاڑوں سے نیچے اترتے ہیں۔ ان کی بیوی بھی ایک ٹیچر ہیں۔ وہ اپنے گھر میں اور ارد گرد کے کچھ اور گھروں میں ٹیوشن پڑھاتی ہیں۔ علی کہتے ہیں، ’’جب میں چھوٹا تھا، تب سے ہی پڑھانے کا کام مجھے اچھا لگتا تھا۔‘‘
’’حکومت نے یہ ایک اچھا کام کیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کا حصہ ہوں اور اپنی برادری کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے میں مدد کر رہا ہوں،‘‘ ندی پر بنے لکڑی کے پل کی طرف بڑھتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔
طالب علم اعجاز کے ۵۰ سالہ والد عجیبہ امان بھی کافی مطمئن ہیں۔ ’’میرے اور میرے بھائی کے بیٹے، اب سبھی اپنی پڑھائی کر رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو پڑھنے کا موقع مل رہا ہے، یہ خوشی کی بات ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز