ویڈیو دیکھیں: ماڑی کی مسجد اور مزار

تین نوجوان مرد مکانوں کی تعمیر کے مقام پر کام کرنے کے بعد اپنے گاؤں ماڑی لوٹ رہے تھے۔ ان میں سے ایک، اجے پاسوان بتاتے ہیں، ’’یہ ۱۵ سال پرانی بات ہے۔ ہم لوگ اپنے گاؤں کی اس ویران مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اچانک ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ چلو اندر جا کر دیکھتے ہیں۔ ہم اس کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔‘‘

فرش پر جگہ جگہ کائی جمی ہوئی تھی اور جھاڑیوں نے پوری عمارت کو گھیر لیا تھا۔

’’اندر گئے تو ہم لوگوں کا من بدل گیا،‘‘ ۳۳ سالہ دہاڑی مزدور اجے پاسوان بتاتے ہیں۔ ’’شاید اللہ کی یہی مرضی تھے کہ ہم اندر جائیں۔‘‘

لہٰذا، ان تینوں نوجوانوں – اجے پاسوان، بکھوری بند اور گوتم پرساد نے مسجد کی صفائی کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’ہم نے جنگل [جھاڑیوں] کو کاٹا اور مسجد کو پینٹ کیا۔ پھر ہم نے مسجد کے سامنے ایک بڑا چبوترہ بنایا،‘‘ اجے بتاتے ہیں۔ انہوں نے شام کو اس کے اندر چراغ جلانا بھی شروع کر دیا۔

تینوں نے ساؤنڈ سسٹم لگایا اور مسجد کے گنبد پر ایک لاؤڈ اسپیکر ٹانگ دیا۔ ’’ہم نے ساؤنڈ سسٹم کی مدد سے اذان دینے کا فیصلہ کیا،‘‘ اجے بتاتے ہیں۔ جلد ہی، بہار کے نالندہ ضلع میں واقع ماڑی گاؤں کی  اس مسجد میں تمام مسلمانوں کے لیے پانچ وقت اذان ہونے لگی۔

PHOTO • Umesh Kumar Ray
PHOTO • Shreya Katyayini

اجے پاسوان (بائیں) نے اپنے دو دیگر دوستوں کے ساتھ، بہار کے نالندہ ضلع میں واقع اپنے گاؤں ماڑی کی مسجد کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی۔ گاؤں کے بزرگ (دائیں) بتاتے ہیں کہ صدیوں سے اس گاؤں میں جب بھی کوئی تقریب ہوتی ہے، خواہ وہ ہندوؤں کی ہی کیوں نہ ہو، اس کی شروعات ہمیشہ مسجد اور مزار پر سجدہ ریزی کے ساتھ ہوتی ہے

ماڑی گاؤں میں ایک بھی مسلمان نہیں رہتا۔ لیکن یہاں کی مسجد اور مزار کی دیکھ بھال تین مقامی ہندو – اجے، بکھوری اور گوتم کرتے ہیں۔

’’اس مسجد اور مزار سے ہمارا عقیدہ جڑا ہوا ہے، اور ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں،‘‘ جانکی پنڈت بتاتے ہیں۔ ’’تقریباً ۶۵ سال پہلے جب میری شادی ہوئی تھی، تو میں نے بھی سب سے پہلے اپنا سر اسی مسجد میں جھکایا تھا اور اس کے بعد اپنے [ہندو] دیوتاؤں کی پوجا کی تھی،‘‘ گاؤں کے ۸۲ سالہ بزرگ جانکی پنڈت کہتے ہیں۔

سفید اور سبز رنگ سے پینٹ کی گئی یہ مسجد مرکزی سڑک سے بھی دکھائی دیتی ہے؛ ہر مانسون میں اس کا پینٹ پھیکا پڑ جاتا ہے۔ مسجد اور مزار کے چاروں طرف چار فٹ اونچی دیوار بنی ہوئی ہے۔ لکڑی سے بنے ایک بڑے دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی آپ مسجد کے صحن میں پہنچ جاتے ہیں، جہاں قرآن کا ہندی ترجمہ اور ’سچی نماز‘ نام کی ایک کتاب رکھی ہوئی ہے، جس میں نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔

’’شادی کے وقت گاؤں کے دولہا کو بھی سب سے پہلے اسی مسجد اور مزار پر اپنا سر جھکانا پڑتا ہے، پھر وہ ہمارے ہندو دیوی دیوتاؤں کی پوجا کرتا ہے،‘‘ جانکی پنڈت مزید بتاتے ہیں، جو سرکاری اسکول کے ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر گاؤں کے باہر سے بھی کوئی بارات آتی ہے، تو ’’دولہا کو سب سے پہلے مسجد میں لے جایا جاتا ہے۔ وہاں سر جھکانے کے بعد ہی ہم اسے مندروں میں لے جاتے ہیں۔ یہ لازمی رسم ہے۔‘‘ مقامی لوگ مزار پر جا کر دعائیں مانگتے ہیں، اور منت پوری ہونے پر چادر چڑھاتے ہیں۔

PHOTO • Shreya Katyayini
PHOTO • Umesh Kumar Ray

ماڑی کی اس مسجد کی صفائی ۱۵ سال پہلے تین نوجوانوں: اجے پاسوان، بکھوری بند اور گوتم پرساد نے کی تھی – جنہوں نے گھاس پھوس اور جھاڑیوں کو کاٹا، مسجد کو پینٹ کیا، ایک بڑا چبوترہ بنایا اور شام کو چراغ جلانا شروع کیا۔ مسجد کے اندر قرآن کا ہندی ترجمہ (دائیں) اور نماز کا طریقہ بیان کرنے والی ایک کتاب رکھی ہوئی ہے

PHOTO • Shreya Katyayini
PHOTO • Shreya Katyayini

اس مزار (بائیں) کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک صوفی حضرت اسماعیل کا ہے، جو تقریباً تین صدی قبل عرب سے یہاں آئے تھے۔ ریٹائرڈ اسکول ٹیچر جانکی پنڈت (دائیں) بتاتے ہیں، ’اس مسجد اور مزار سے ہمارا عقیدہ جڑا ہوا ہے، اور ہم اس کی حفاظت کرتے ہیں‘

پچاس سال قبل، ماڑی گاؤں میں مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی آبادی رہتی تھی۔ لیکن بہار شریف میں ۱۹۸۱ میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کی وجہ سے وہ تمام لوگ اس گاؤں کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اُس سال اپریل میں یہ فساد تاڑی کی ایک دکان پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شروع ہوا تھا، جس میں ۸۰ لوگوں کی جانیں چلی گئی تھیں۔

حالانکہ فساد کی آگ ماڑی تک نہیں پہنچی، لیکن ماحول اتنا خراب ہو گیا تھا کہ مسلمان کافی ڈر گئے تھے اور انہیں اپنا مستقبل اندھیرا نظر آنے لگا تھا۔ اسی لیے انہوں نے آہستہ آہستہ اس علاقے کو چھوڑنا شروع کیا، اور ارد گرد کے مسلم اکثریتی گاؤوں اور شہروں میں جا کر آباد ہو گئے۔

اجے اُس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’لوگوں نے مجھے بتایا کہ مسلمان اسی وقت گاؤں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مسلمان آخر گاؤں چھوڑ کر کیوں گئے تھے اور یہاں کیا ہوا تھا۔ لیکن، جو کچھ بھی ہوا وہ اچھا نہیں ہوا،‘‘ مسلمانوں کے اس مکمل انخلاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔

گاؤں کے سابق رہائشی، شہاب الدین انصاری یہ مانتے ہیں کہ ’’وہ ایک اندھڑ [طوفان] تھا، جس نے ہمیشہ کے لیے سب کچھ بدل دیا۔‘‘

انصاری فیملی بھی اُن تقریباً ۲۰ مسلم گھرانوں میں سے ایک تھی، جنہوں نے ۱۹۸۱ میں گاؤں چھوڑ دیا تھا۔ ’’میرے والد، مسلم انصاری اُس وقت بیڑی بنانے کا کام کرتے تھے۔ جس دن فساد شروع ہوا، وہ بیڑی بنانے کا سامان لانے کے لیے بہار شریف گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد، انہوں نے ماڑی کے مسلم کنبوں کو فساد کے بارے میں بتایا،‘‘ شہاب الدین کہتے ہیں۔

PHOTO • Umesh Kumar Ray
PHOTO • Umesh Kumar Ray

ماڑی میں اجے (بائیں) اور شہاب الدین انصاری (دائیں)۔ شہاب الدین بتاتے ہیں کہ کیسے ایک ہندو نے انہیں ڈاکیہ کی نوکری حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ مسلمانوں کے ذریعے ۱۹۸۱ کے فساد کی وجہ سے گاؤں چھوڑنے کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے شہاب الدین کہتے ہیں، ’چونکہ میں ماڑی گاؤں میں ڈاکیہ کے طور پر کام کر رہا تھا، اس لیے میں نے وہاں کی ایک ہندو فیملی کے گھر میں رہنا شروع کر دیا، لیکن اپنے ماں باپ کو بہار شریف بھیج دیا۔ وہ ایک طوفان تھا، جس نے ہمیشہ کے لیے سب کچھ بدل دیا‘

اس وقت شہاب الدین کی عمر ۳۰ سال کے آس پاس تھی، اور وہ گاؤں کے ڈاکیہ (پوسٹ مین) تھے۔ ان کی فیملی نے جب گاؤں چھوڑ دیا، تو وہ بھی بہار شریف قصبہ میں پنساری کی دکان چلانے لگے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے اچانک چلے جانے کے بعد بھی، ’’گاؤں میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ ہم لوگ زمانے سے یہاں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے چلے آ رہے تھے۔ کسی کو کسی سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔‘‘

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ماڑی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نہ تو پہلے کبھی کوئی عداوت تھی اور نہ اب ہے۔ ’’میں جب بھی ماڑی جاتا ہوں، تو کئی ہندو خاندان کے لوگ مجھے اپنے گھر پر کھانا کھلانے کی ضد کرتے ہیں۔ ایک بھی ایسا گھر نہیں ہے جس نے مجھ سے کھانے کے بارے میں نہ پوچھا ہو،‘‘ ۶۲ سالہ شہاب الدین کہتے ہیں، جو اس بات سے کافی خوش ہیں کہ مسجد اور مزار کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

بین بلاک کے ماڑی گاؤں کی آبادی تقریباً ۳۳۰۷ ہے ( مردم شماری ۲۰۱۱ )، اور یہاں کے زیادہ تر لوگ پس ماندہ اور دلت ہیں۔ مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے سب سے چھوٹے شخص کا نام اجے ہے، جو کہ ایک دلت ہیں، بکھوری بند کا تعلق ای بی سی (انتہائی پس ماندہ طبقہ) سے ہے، جب کہ گوتم پرساد ایک او بی سی (دیگر پس ماندہ طبقہ) ہیں۔

’’یہ گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثال ہے،‘‘ گاؤں کے سابق رہائشی محمد خالد عالم بھٹو (۶۰) کہتے ہیں۔ یہ بھی ان مسلمانوں میں شامل ہیں، جو گاؤں چھوڑ کر قریب میں واقع بہار شریف قصبہ چلے گئے تھے۔ ’’یہ مسجد ۲۰۰ سال سے بھی زیادہ پرانی ہے، اور اس کے اندر موجود مزاد شاید اس سے بھی پرانا ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔

’’یہ مزار حضرت اسماعیل کا ہے، جو کہ ایک صوفی تھے اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عرب سے ماڑی گاؤں آئے تھے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ ان کی آمد سے قبل یہ گاؤں سیلاب اور آگ زنی جیسی قدرتی تباہ کاریوں کے سبب کئی بار اجڑ چکا تھا۔ لیکن جب وہ یہاں رہنے لگے، تب سے یہاں کوئی تباہی نہیں آئی۔ ان کے انتقال کے بعد، ان کا مزار بنایا گیا اور گاؤں کے ہندوؤں نے پوجا شروع کر دی،‘‘ محمد خالد بتاتے ہیں۔ ’’یہ روایت آج بھی برقرار ہے۔‘‘

PHOTO • Umesh Kumar Ray
PHOTO • Shreya Katyayini

اجے (بائیں) اور ان کے دوستوں نے اذان کے لیے ایک آدمی کو یہاں مامور کیا ہے، اور اپنی مزدوری سے حاصل کیے گئے پیسے سے اس آدمی کو ماہانہ ۸۰۰۰ روپے تنخواہ دیتے ہیں۔ دائیں: ’گنگا جمنی تہذیب کی یہ بہترین مثال ہے،‘ ماڑی کے سابق رہائشی محمد خالد عالم بھٹو کہتے ہیں

تین سال پہلے، کووڈ-۱۹ وبائی مرض اور اس کی وجہ سے لگنے والے لاک ڈاؤن کے بعد سے اجے، بکھوری اور گوتم کے لیے ماڑی میں کام تلاش کرنا مشکل ہو گیا تھا، اس لیے وہ الگ الگ مقامات کی طرف چلے گئے – گوتم (یہاں سے ۳۵ کلومیٹر دور) اسلام پور میں ایک کوچنگ سنٹر چلاتے ہیں اور بکھوری، چنئی میں راج مستری کا کام کرتے ہیں؛ اجے اب بہار شریف قصبہ منتقل ہو چکے ہیں۔

ان تینوں کے یہاں سے چلے جانے کی وجہ سے مسجد کی دیکھ ریکھ کا کام متاثر ہوا ہے۔ فروری ۲۰۲۴ میں، اجے بتاتے ہیں کہ مسجد میں اذان دینا بند ہو گیا تھا، اس لیے انہوں نے اذان دینے کے لیے ایک مؤذن کو رکھ لیا ہے۔ ’’مؤذن کا کام دن میں پانچ بار اذان دینا ہے۔ ہم [تینوں] انہیں ہر مہینے ۸۰۰۰ روپے کی تنخواہ دیتے ہیں اور گاؤں میں رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی دیا ہے،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔

اجے نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ جب تک زندہ ہیں مسجد اور مزار کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ ’’ مرلا کے بعدے [مرنے کے بعد ہی] کوئی کچھ کر سکتا ہے۔ جب تک ہم زندہ ہیں، مسجد کو کسی کو کچھ [نقصان] کرنے نہیں دیں گے۔‘‘

یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔

مترجم: قمر صدیقی

Text : Umesh Kumar Ray

اُمیش کمار رائے سال ۲۰۲۲ کے پاری فیلو ہیں۔ وہ بہار میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں اور حاشیہ کی برادریوں سے جڑے مسائل پر لکھتے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Umesh Kumar Ray
Photos and Video : Shreya Katyayini

شریا کاتیاینی ایک فلم ساز اور پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کی سینئر ویڈیو ایڈیٹر ہیں۔ وہ پاری کے لیے تصویری خاکہ بھی بناتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز شریہ کتیاینی
Editor : Priti David

پریتی ڈیوڈ، پاری کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنگلات، آدیواسیوں اور معاش جیسے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ پریتی، پاری کے ’ایجوکیشن‘ والے حصہ کی سربراہ بھی ہیں اور دیہی علاقوں کے مسائل کو کلاس روم اور نصاب تک پہنچانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Priti David
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique