لنگیوں اور قمیضوں میں ملبوس ایلومینیم کے بڑے بڑے بھگونوں کو گمچھے کی مدد سے سائیکلوں پر باندھے ہوئے یہ مردوں کا ایک گروہ ہے۔ انہوں نے چٹنی اور سامبھر والے اسٹینلیس اسٹیل کے چھوٹے چھوٹے ڈبوں اور کاغذ کی پلیٹوں کے بنڈل کو سائیکل کے پھٹے پرانے ٹیوب کی مدد سے ایک ساتھ باندھ رکھا ہے۔
صبح کے ۷ بجتے بجتے یہ شہر کے ہزاروں لوگوں کا ذائقہ درست کرنے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ ممبئی کے اپنے اڈلی والے ہیں۔ لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی ان کی مخصوص آواز ’’پوم پوم‘‘ ہے، جو دور سے پہچان لی جاتی ہے۔ ربڑ کے اس انوکھے ہارن کی آواز ممبئی کی بستیوں کے مکینوں کے لیے اشارہ ہے کہ اڈلی والے آچکے ہیں۔
سائیکل سوار اڈلی فروشوں کی یہ برادری تمل ناڈو کے مدورئی سے آنے والے تارکین وطن کی ایک برادری ہے۔ ان کے تقریباً ۵۰۰ سے ۷۰۰ کنبے ایشیا کی سب سے بڑی کچی بستیوں میں سے ایک، دھاراوی میں آباد ہیں۔ وہ جنوبی ہندوستان کا مشہور ناشتہ تیار کرکے فروخت کرتے ہیں اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ انہوں نے اڈلی وڑا کو ممبئی کے سب سے پسندیدہ ناشتے میں تبدیل کر دیا ہے۔ روزانہ ہر ایک گھر میں بھاپ سے پکے، چاول کے آٹے کی پھولی ہوئی کم از کم ۴۰۰ اڈلیاں تیار ہوتی ہیں، جن سے روزانہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے کا منافع حاصل ہوتا ہے۔ دو یا تین مردوں والے کنبے کی یومیہ آمدنی تقریباً ۱۰۰۰ روپے تک ہو جاتی ہے۔
اس چھوٹے تمل ناڈو سے روزانہ ۳ لاکھ سے زیادہ اڈلیاں اور دیگر جنوبی ہندوستانی ذائقہ دار کھانے ممبئی کے باقی حصوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس برادری کی پکی جھونپڑیاں مرکزی، مغربی اور ہاربر ٹرین لائنوں کے نقطہ اتصال پر ساین اور ماہم کے درمیان کلیدی مقام پر واقع ہیں۔ یہاں سے اڈلی والے شہر کے دوسرے علاقوں میں اس کی پرشور افرادی قوت کی بھوک مٹانے کے لیے نکل سکتے ہیں۔
دھاراوی کی جن گلیوں سے یہ گزرتے ہیں وہ باہری لوگوں کے لیے ایک معمہ لگ سکتی ہیں، لیکن یہ لوگ پھسلن بھری گیلی ٹائلوں اور گٹر کے اوپر سے بھاری برتنوں کو متوازن کرتے ہوئے تیزی سے گزر جاتے ہیں۔
ان کے گھر دنیا کے سب سے مہنگے میٹرو میں سے ایک میں زندہ رہنے اور سب سے سستا ناشتہ پیش کرنے کی ان کی طویل جد وجہد کی کہانی سناتے ہیں۔ ان کے گھر بڑے ورکشاپ کی طرح ہیں، جہاں صبح پو پھٹنے سے قبل مرد اور عورتیں اپنے چولہے جلا لیتے ہیں اور ایک بہت بڑے اسٹیمر میں ریکارڈ وقت میں بڑی مقدار میں اڈلیاں تیار کرلیتے ہیں۔
وہ صبح ۴ بجے چولہا جلاتے ہیں اور اڈلی کے سانچوں کو رات بھر بھگو کر رکھے گئے چاول اور اُڑد کی دال سے بنے خمیر شدہ بیٹر سے بھرتے ہیں۔ سانچوں پر پلاسٹک کی پرتیں لگائی جاتی ہیں تاکہ اڈلی کو چپکنے سے بچایا جا سکے۔ ہر اسٹیمر میں تین ٹرے ہوتے ہیں جن سے ایک وقت میں تقریباً ۱۰۰ اڈلیاں نکلتی ہیں۔ جب اڈلی تیار ہو رہی ہوتی ہے، تو ناریل کی مزیدار چٹنی، ٹماٹر کی چٹنی اور سامبھر بنانے کا کام بھی شروع ہو جاتا ہے۔
منی سبرامنیم وسطی ممبئی میں بھاٹیہ ہسپتال اور صوفیہ کالج کے قریب ۲۰ سالوں سے ہر روز اڈلیاں بیچ رہے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہیں: ’’میں ۲۰ سال کا تھا جب میرے چچا مجھے مدورئی سے اس شہر میں لے کر آئے تھے۔ میں رجنی کانت کی طرح اداکار بننا چاہتا تھا۔ لیکن چیزیں میرے حق میں نہیں نکلیں۔ اڈلی بنانے کا وہ واحد ہنر تھا جو میں جانتا تھا۔‘‘
منی نے بالکل ابتدا سے شروعات کی تھی اور اب وہ اڈلی کے کاروبار میں ایک مشہور شخصیت بن چکے ہیں اور روزانہ ۶۰۰ عدد اڈلیاں فروخت کرتے ہیں۔ وہ اور ان کی بیوی (جو اپنے شوہر کے ساتھ کام کرنے کے لیے علی الصبح اٹھ جاتی ہیں) نے کالج کے بھوکے طالب علموں کے درمیان دال وڑا متعارف کرایا تھا۔ ان کی ایک باقاعدہ گاہک آفرین انصاری کہتی ہیں، ’’انّا (بڑے بھائی) سب سے لذیذ اڈلی بناتے ہیں۔ وہ بہت ہلکی پھلکی اور ذائقہ دار ہوتی ہیں۔ میں اکثر انہیں گھر بھی لے جاتی ہوں۔‘‘
ایک اور باقاعدہ گاہک یتن راٹھور ۱۵ سال سے منی کی اڈلیوں کا لطف اٹھا رہے ہیں: ’’جب میں نے کھانا شروع کیا تھا، تو اس وقت میری عمر پانچ یا چھ سال کی ہوگی۔ ان کا ذائقہ تب سے برقرار ہے اور انا کو خاص طور پر میری پسندیدہ چٹنی یاد رہتی ہے۔‘‘
’’مجھے خوشی ہے کہ میں ممبئی میں ہر صبح اتنے سارے لوگوں کے پیٹ بھر سکتا ہوں،‘‘ منی کہتے ہیں، ’’اس شہر نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میری بیٹیاں سجیتا اور اجیتا تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور مجھے سکھا رہی ہیں کہ اپنے کاروبار کو کیسے نئی سطح پر لے جایا جائے۔‘‘
منی کی طرح بہت سے ایسے لوگ ہیں جو دوسرے کاموں کی تلاش میں ناکامی کے بعد ہی اس کاروبار میں داخل ہوئے۔ ۳۵ سالہ کے پانڈی نوکری کی تلاش میں ممبئی آئے لیکن آخر کار انہوں نے اڈلی کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’مجھ پر اپنے گھر اور اپنے کنبے کی ذمہ داری تھی اور ہمارے پاس بہت کم پیسے باقی بچے تھے۔ میں نے چند واقف کاروں کے ساتھ ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنا شروع کیا جہاں ہم کھانا پکاتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
’’مجھے فروخت کرنے کے لیے اڈلی، میڈو وڑا اور چھوٹے ڈوسے دیے گئے۔ کھانا بنانے میں مدد کے لیے میں صبح ۳ بجے اٹھتا تھا۔ بعض اوقات سبزیاں کاٹتا تھا۔ میں سب کچھ سیکھنے کے لیے بے تاب تھا تاکہ ایک دن مجھے کسی پر انحصار نہ کرنا پڑے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
صبح ۷ بجے کے قریب وہ ایک کھچاکھچ بھری ٹرین میں وکرانت سرکل کے لیے روانہ ہوتے ہیں، جو شمالی ممبئی کے گھاٹ کوپر میں ایک بڑی گجراتی برادری کا مسکن ہے۔ شروع شروع میں، پانڈی کے لیے بڑے بڑے برتن لے جانا اور اڈلی بیچنا مشکل کام تھا۔ ’’لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، میں ایک مانوس چہرہ بن گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مائیں بے صبری سے میرا انتظار کرتی تھیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو ناشتے میں اڈلی پیش کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں چھوٹے سکے کے سائز کی اڈلیاں پسند ہیں کیونکہ ان کے بچے انہیں کبھی ضائع نہیں کرتے۔ ان ڈلیوں کو ٹفن میں پیک کرنا بھی ان کے لیے آسان تھا۔‘‘
پانڈی نے ایک روپے میں چار اڈلی اور ۵۰ پیسے میں ایک ڈوسا فروخت کرنا شروع کیا تھا، جو اس وقت دستیاب سب سے سستے ناشتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ انہوں نے اپنی خود کی ایک سائیکل خرید لی۔ وہ کچرے جمع کرنے کے لیے پلاسٹک کا ایک بڑا بیگ رکھتے تھے اور اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ سڑکوں پر کوئی کوڑا نہ ڈالے۔ ’’لوگ اپنی کاریں روک کر مجھے سے اڈلی خریدتے ہیں۔ میں سرکل کے قریب بیٹھ کر کئی امیر گجراتی تاجروں کی خدمت کر چکا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
آہستہ آہستہ پانڈی کا کام جم گیا۔ ان کے تین بچے ہیں اور تینوں دھاراوی کے لیبر کیمپ کے علاقے میں واقع میونسپل اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری تعلیم صرف یہ تھی کہ تمام اڈلیوں کو بیچوں اور ان میں سے کسی کو واپس نہ لاؤں۔ میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ ان سے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔‘‘
اگرچہ زیادہ تر اڈلی والے مرد ہیں جن کی عورتیں گھر سے ان کے کاروبار میں مدد کرتی ہیں، لیکن الگو تائی جیسی کچھ خواتین ہیں جو اڈلی فروش بھی ہیں۔ اپنے مرحوم شوہر کے ذریعہ شروع کیے گئے اس کاروبار کو چلانے کے لیے وہ سخت محنت کرتی ہیں۔ ۳۶ سالہ الگو صرف تمل بولتی ہیں لیکن کثیر لسانی ممبئی میں وہ تمام کھانے فروخت کرلیتی ہیں، جو وہ بناتی ہیں۔
۳۰۰ سے ۴۰۰ اڈلیوں، ۲۵۰ وڑے اور ۴۰ سے ۵۰ ڈوسوں کے اسٹاک کے ساتھ دوسروں کی طرح وہ بھی اپنے بھائی ملائی رمن کے ساتھ بائیکلہ اسٹیشن کے لیے گھر سے جلدی نکلتی ہیں۔ الگو کو امید ہے کہ وہ اپنے ۱۹ سالہ بیٹے کو کسی دن بڑا آدمی بنتے ہوئے دیکھیں گی۔ ’’اپنے شوہر کی موت کے بعد میں نہیں جانتی تھی کہ کیسے کماؤں اور اپنے بچوں کی ضروریات کیسے پوری کروں۔ مجھے امید ہے کہ میرے بیٹے کو میری طرح تکلیف نہیں ہوگی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ جتنا چاہے پڑھے،‘‘ ان کے بھائی ان کے تمل الفاظ کا ترجمہ کرتے ہیں۔
الگو، پانڈی اور منی ممبئی کے ان لاکھوں لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے پرانے خواب ٹوٹنے کے بعد نئے خواب دیکھے اور روزی روٹی تلاش کی۔ اور بہت سے دوسرے مہاجرین کی طرح ’’پوم پوم والوں‘‘ نے بھی اس شہر میں کچھ اضافہ کیا ہے۔
شفیق عالم