ماجولی میں گائے کے گوبر، گیلی مٹی اور بانس کی مدد سے مکھوٹے (نقلی چہرے) بنائے جاتے ہیں۔ دریائے برہم پتر کے اس جزیرہ پر لوگ کئی نسلوں سے اس ہنر کا استعمال کر رہے ہیں۔ کاریگر انوپم گوسوامی بتاتے ہیں، ’’ہماری ثقافت میں مکھوٹے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے، اور اسے بنانے والے آخری خاندانوں میں ہم لوگ بھی شامل ہیں۔‘‘ یہاں پر چھوٹے اور بڑے جو بھی مکھوٹے بنائے جاتے ہیں، انہیں برہم پتر کے اس جزیرہ پر ہونے والی سالانہ تھیٹر پرفارمنس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں منائے جانے والے تہواروں میں بھی پہنا جاتا ہے۔

انوپم (۲۵ سالہ) کہتے ہیں، ’’اپنے خاندان کی روایت کو آگے لے جانے کی ذمہ داری میرے اوپر ہے۔‘‘ ان کی فیملی گزشتہ کئی نسلوں سے یہ کام کر رہی ہے اور ان کی نو (۹) رکنی فیملی کا ہر شخص اس سے جڑا ہوا ہے۔

دھیرن گوسوامی (۴۴ سالہ) بتاتے ہیں، ’’دنیا بھر کے کئی سیاح ماجولی کی سیر کرنے آتے ہیں اور یادگار کے طور پر یہاں سے مکھوٹے خرید کر لے جاتے ہیں۔‘‘ وہ انوپم کے چچا ہیں، جو فیملی کی دکان سے الگ الگ سائزوں کے مکھوٹے بیچتے ہیں۔ یہاں پر ایک مکھوٹا ۳۰۰ روپے میں ملتا ہے، لیکن اگر وہ خاص قسم کا ہو یا پھر ضرورت کے مطابق بڑا بنوایا گیا ہو، تو اس کی قیمت ۱۰ ہزار روپے تک بھی جا سکتی ہے۔

ماجولی، ہندوستان میں ندی کا سب سے بڑا جزیرہ ہے اور سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، اسے ’آسام کے ویشنو فرقہ اور ثقافت کا بنیادی مرکز تصور کیا جاتا ہے، جہاں اس کے ۶۲ سترا [ویشنو فرقہ کے مٹھ] ہیں‘۔

Anupam Goswami (left) and his uncle Dhiren at Sangeet Kala Kendra, their family-owned workshop
PHOTO • Riya Behl
Anupam Goswami (left) and his uncle Dhiren at Sangeet Kala Kendra, their family-owned workshop
PHOTO • Riya Behl

انوپم گوسوامی (دائیں) اور ان کے چچا دھیرن اپنی فیملی کی دکان، سنگیت کلا کیندر میں

Sangeet Kala Kendra consists of two workshop rooms (left) and an exhibition hall (right). These rooms are less than 10 steps away from their home
PHOTO • Riya Behl
Sangeet Kala Kendra consists of two workshop rooms (left) and an exhibition hall (right). These rooms are less than 10 steps away from their home
PHOTO • Riya Behl

سنگیت کلا کیندر میں ورکشاپ کے دو کمرے (بائیں) اور ایک نمائش ہال (دائیں) ہے۔ یہ کمرے ان کے گھر سے صرف ۱۰ قدموں کے فاصلہ پر ہیں

مکھوٹا بنانے کے لیے گیلی مٹی اور بانس کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ سامان انہیں برہم پتر ندی سے مل جاتے ہیں۔ ماجولی اسی ندی کا ایک جزیرہ ہے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی ندیوں میں سے ایک ہے اور ہندوستان میں یہ کل ۱۹۴۴۱۳ مربع کلومیٹر کے رقبے پر بہتی ہے۔ اس ندی میں سال بھر پانی کا بہاؤ ہمالیہ کے گلیشیئر پگھلنے اور مانسون میں بھاری بارش کی وجہ سے بنا رہتا ہے۔ ماجولی کے علاقہ میں سالانہ کٹاؤ کے موجودہ بحران کی وجہ بھی یہی ہے۔

مکھوٹا بنانے والے یہ کاریگر اس کٹاؤ کے برے نتائج سے واقف ہیں۔ دھیرن گوسوامی ’انڈیا ڈیولپمنٹ ریویو‘ میں لکھتے ہیں، ’’ماجولی کے کناروں پر جاری اس کٹاؤ کے سبب مکھوٹے بنانے کے لیے ضروری مٹی ملنے میں دقت آنے لگی ہے۔‘‘ وہ قریب کے بازار میں ایک کوئنٹل کمھار مٹی (چکنی مٹی) کے لیے ۱۵۰۰ روپے ادا کرتے ہیں۔ انوپم بتاتے ہیں، ’’پہلے ہم مکھوٹوں کو پینٹ کرنے کے لیے قدرتی رنگوں کا استعمال کرتے تھے، لیکن اب ان کا ملنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔‘‘

دھیرن بتاتے ہیں کہ اس ہنر کے آغاز سے متعلق معلومات مہا پروش شریمنت شنکر دیو کے ایک ناٹک کی پیشکش میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ صرف میک اپ کی مدد سے کچھ [اساطیری] کرداروں کی شکل و صورت تیار کرنا مشکل کام تھا۔ اس لیے شنکر دیو نے ایسے مکھوٹے بنائے جنہیں ان ڈراموں کی پیشکش کے وقت پہنا جا سکے۔ اس طرح ان کی روایت کی شروعات ہوئی۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: ’ماجولی کے رنگ برنگے مکھوٹے‘

انوپم گوسوامی کہتے ہیں، ’ہماری ثقافت میں مکھوٹے کو کافی اہمیت دی جاتی ہے، اور اسے بنانے والے آخری خاندانوں میں ہم لوگ بھی شامل ہیں‘

ان کے ورکشاپ میں دو کمرے ہیں، جو ان کے گھر سے ۱۰ قدم سے بھی کم کے فاصلہ پر ہیں۔ کونے کی ایک میز پر ہاتھی کے بڑے مکھوٹے کا بانس کا ادھورا ڈھانچہ رکھا ہے، جسے ابھی مکمل کیا جانا ہے۔ سال ۲۰۰۳ میں، دھیرن گوسوامی کے آنجہانی والد کوش کانت دیو گوسوامی کو اس ورکشاپ کی تعمیر کرنے اور اس فن میں ان کے خصوصی تعاون کے عوض معروف سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔

ورکشاپ کے نمائش ہال کی دیواروں پر شیشے سے بنی الماری کے اندر مختلف سائزوں، شکلوں اور رنگوں کے مکھوٹے ٹنگے ہیں۔ ویسی شکل و صورت جو سائز میں ۱۰ فٹ یا اس سے بھی بڑی ہیں اور اس الماری میں نہیں آ سکتی ہیں، انہیں باہر رکھا گیا ہے۔ دھیرن ہمیں ایک گروڑ (باز جیسا ایک اساطیری پرندہ) کا پورا مکھوٹا دکھاتے ہیں۔ ماجولی میں اس کا استعمال ’بھاؤنا‘ (مذہبی پیغامات والے ایک روایتی تفریحی پروگرام) جیسے تہواروں یا راس مہوتسو (کرشن کے رقص پر مبنی پیشکش) کے لیے ہوتا ہے۔

انوپم کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۱۸ میں کسی وقت ہمیں امریکہ کے ایک میوزیم سے اسی سائز کے ۱۰ مکھوٹے بنانے کے آرڈر ملے تھے۔ ہمیں ان کا ڈیزائن بدلنا پڑا کیوں کہ یہ اتنے بھاری ہیں کہ انہیں بھیج پانا مشکل تھا۔‘‘

یہ تبدیلیوں کی شروعات تھی۔ اس کے بعد کاریگروں نے ایسے مکھوٹے بنانے شروع کیے جنہیں موڑا جا سکتا تھا، تاکہ انہیں بھیجنے اور مختلف حصوں کو دوبارہ جوڑنے میں آسانی ہو۔ ’’مکھوٹے کی نمائش کیسے کی جائے، ہم نے اس کے طور طریقے بھی بدلے۔ ایک بار کچھ سیاحوں نے کہا کہ انہیں کچھ وال ہینگنگ [دیوار پر سجانے کے لیے] تحفے میں دینے کے لیے چاہیے، لہٰذا ہم نے ان کے لیے یہ مکھوٹے بنائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ اپنے ناقدین، جو روایت کی خلاف ورزی کے مخالف ہیں، کو جواب دیتے ہوئے انوپم کہتے ہیں۔

The Goswami family runs Sangeet Kala Kendra in Samaguri satra that dates back to 1663
PHOTO • Riya Behl
The Goswami family runs Sangeet Kala Kendra in Samaguri satra that dates back to 1663
PHOTO • Riya Behl

گوسوامی خاندان، ساماگڑی سترا میں سنگیت کلا کیندر چلاتا ہے، جسے ۱۶۶۳ میں قائم کیا گیا تھا

Left: Photos of Dhiren Goswami’s late father, Kosha Kanta Deva Gosawami, who won the prestigious Sangeet Natak Akademi Award for his contribution to this art form.
PHOTO • Riya Behl
Right: Goutam Bhuyan, Anupam Goswami, Dhiren Goswami and Ananto (left to right) in the exhibition hall
PHOTO • Riya Behl

بائیں: دھیرن گوسوامی کے آنجہانی والد کوش کانت دیو گوسوامی کی تصویریں، جنہیں اس فن میں بیش قیمتی تعاون کے لیے معروف سنگیت ناٹک اکیڈمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا تھا۔ دائیں: نمائش ہال میں (بائیں سے دائیں) گوتم بھوئیاں، انوپم گوسوامی، دھیرن گوسوامی اور اننتو

ان مکھوٹوں کی فروخت بنیادی طور پر سیاحوں پر منحصر ہے۔ انوپم فکرمند لہجے میں کہتے ہیں، ’’پہلے ہم نے کبھی اپنی آمدنی پر دھیان نہیں دیا۔ یہاں تک کہ سیاحوں کے آنے کے موسم میں بھی اس کام میں کوئی مالی استحکام نہیں ہے۔‘‘

حالانکہ، حال ہی میں ڈبرو گڑھ یونیورسٹی سے سیاحت میں پوسٹ گریجویشن کر چکا یہ نوجوان اب مواقع کی تلاش میں ہے۔ ’’میرے دماغ میں کئی خواب اور خیالات ہیں، تاکہ ہم اپنے روایتی پیشہ کو آگے بڑھا سکیں۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس سے پہلے مجھے اپنی بچت پر توجہ دینی ہوگی، تاکہ میں اس کام میں بنیادی سرمایہ کاری کرنے لائق بھی ہو سکوں۔‘‘

گوسوامی خاندان نے ان تمام خواہش مندوں کو اس ہنر کی ٹریننگ دینا بدستور جاری رکھا ہے، جو ان کے پاس اس مقصد سے آتے ہیں۔ انوپم بتاتے ہیں، ’’ہمارے پاس ہر سال کم از کم ۱۰ طلباء آتے ہیں۔ زیادہ تر آس پاس کے گاؤوں سے کاشتکار خاندانوں کے بچے ہوتے ہیں۔ شروع میں عورتوں کو یہ ہنر سیکھنا منع تھا، لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔‘‘ ورکشاپ میں ٹریننگ حاصل کرنے والے بچوں کے ذریعے بنائے گئے مکھوٹے، کیندر کے ذریعے فروخت کے لیے مہیا کرائے جاتے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والے پیسے کا ایک حصہ اس مکھوٹے کو بنانے والے طالب علم کو بھی ملتا ہے۔

Left: Goutam shapes the facial features of a mask using cow dung outside the exhibition hall.
PHOTO • Riya Behl
Right: Dhiren and Goutam showing a bollywood music video three mask makers from Majuli performed in. The video has got over 450 million views on Youtube
PHOTO • Riya Behl

بائیں: نمائش ہال کے باہر، گوتم ایک مکمل مکھوٹے کو گائے کے گوبر کا استعمال کرکے حتمی شکل دے رہے ہیں۔ دائیں: دھیرن اور گوتم بالی ووڈ کا ایک میوزک دکھاتے ہوئے، جس میں ماجولی کے مکھوٹا بنانے والے تین کاریگروں نے کام کیا تھا۔ اس ویڈیو کو یو ٹیوب پر ۴۵۰ ملین (۴۵ کروڑ) بار دیکھا جا چکا ہے

ورکشاپ میں فی الحال گوتم بھوئیاں موجود ہیں، جو کیندر میں تربیت حاصل کر رہے موجودہ طالب علموں میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک آرڈر کیا ہوا مکھوٹا بنا رہے ہیں۔ تقریباً ۲۲ سال کے بھوئیاں قریب کی ہی ایک بستی، پوٹی آری میں رہتے ہیں جو کملا باڑی بلاک میں واقع ہے۔ وہاں ان کی فیملی اپنے آٹھ بیگھہ کھیت میں چاول اُگاتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں یہاں لوگوں کو مکھوٹے بناتے ہوئے دیکھتا تھا اور تجسس سے بھر اٹھتا تھا، اس لیے اسکول سے نکلنے کے بعد جب کھیت پر میری ضرورت نہیں ہوتی تھی، تب میں نے یہاں سیکھنا شروع کر دیا۔‘‘

گوتم اب لوگوں سے فیس بک اور انسٹاگرام کے ذریعے مکھوٹوں کے آرڈر لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’میری آمدنی آرڈر پر منحصر ہے۔ کئی بار کوئی بڑا آرڈر ملنے پر مجھے کیندر میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پیسوں کے علاوہ اس ہنر کو سیکھتے ہوئے وہ کئی دوسری چیزیں بھی حاصل کر رہے ہیں۔ ’’جب بھی مکھوٹوں پر مبنی ناٹک کرنا ہوتا ہے، تو مجھے ملک میں سفر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مجھے بالی ووڈ کے اس میوزک ویڈیو میں بھی رول ادا کرنے کا موقع ملا، جسے اتنے سارے لوگوں نے دیکھا۔‘‘

گوتم اور انوپم نے حالیہ دنوں بالی ووڈ کے ایک میوزک ویڈیو میں بھی کام کیا ہے، جسے یو ٹیوب پر ابھی تک ۴۵ کروڑ بار دیکھا جا چکا ہے۔ انوپم نے رامائن کے ۱۰ سروں والے کردار، راون کا رول نبھایا تھا، جو ویڈیو کے شروع ہوتے ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس منظر میں انوپم نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہوا مکھوٹا ہی پہن رکھا ہے۔ ’’لیکن میرے نام کا کہیں بھی ذکر نہیں ملتا ہے اور نہ مجھے اس کا کریڈٹ ہی دیا گیا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی جوڑتے ہیں کہ ان کے دو دیگر ساتھیوں کو بھی اس کریڈٹ سے محروم رکھا گیا، جب کہ انہوں نے بھی ویڈیو میں اداکاری کرنے کے علاوہ اپنے اپنے رول کے لیے کاسٹیوم (پوشاک) ڈیزائن کیا تھا۔

رپورٹر، پاری کی سابق انٹرن سبزارہ علی، نندی بوہرا اور ورندا جین کا اس اسٹوری میں تعاون کے لیے شکریہ ادا کرتی ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Riya Behl

ریا بہل، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) کی سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر ہیں۔ ملٹی میڈیا جرنلسٹ کا رول نبھاتے ہوئے، وہ صنف اور تعلیم کے موضوع پر لکھتی ہیں۔ ساتھ ہی، وہ پاری کی اسٹوریز کو اسکولی نصاب کا حصہ بنانے کے لیے، پاری کے لیے لکھنے والے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Riya Behl
Editor : Priti David

پریتی ڈیوڈ، پاری کی ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں۔ وہ جنگلات، آدیواسیوں اور معاش جیسے موضوعات پر لکھتی ہیں۔ پریتی، پاری کے ’ایجوکیشن‘ والے حصہ کی سربراہ بھی ہیں اور دیہی علاقوں کے مسائل کو کلاس روم اور نصاب تک پہنچانے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Priti David
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique