اپنے کھیت میں اگنے والے ارنڈی کے چند پودوں کو دیکھ کر نارائن گائیکواڑ کو اپنی کولہا پوری چپل کی یاد آ جاتی ہے، جسے انہوں نے آخری مرتبہ ۲۰ سال پہلے استعمال کیا تھا۔ تیل اور اس علاقے کی مشہور چپلوں کے درمیان قریبی رشتے کو واضح کرتے ہوئے اس ۷۷ سالہ کسان کا کہنا ہے، ’’ہم کولہاپوری چپلوں کو مزید مضبوطی عطا کرنے کے لیے ارنڈی کے تیل سے چکنا کرتے تھے۔‘‘
کولہاپور ضلع میں ارنڈی کا تیل بنیادی طور پر کولہاپوری چپلوں کو چمکانے کے لیے نکالا جاتا رہا ہے۔ بھینس یا گائے کے چمڑے سے بنی ان چپلوں میں نرمی فراہم کرنے اور ان کی شکل برقرار رکھنے کے لیے چکنائی لگائی جاتی تھی اور اس کے لیے ترجیحی طور پر ارنڈی کے تیل کا استعمال ہوتا تھا۔
کولہاپور کی مقامی فصل نہ ہونے کے باوجود ارنڈی (ریسینَس کمیونِس) اس خطہ کی ایک مقبول فصل تھی۔ سبز پتوں اور موٹے تنے والا یہ پودا پورے سال اگایا جا سکتا ہے۔ ارنڈی کی پیداوار کے معاملے میں ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق ۲۰۲۱-۲۲ میں یہاں ارنڈی کے بیجوں کی کل پیداوار ۵۱ء۱۶ لاکھ ٹن تھی۔ ہندوستان میں ارنڈی پیدا کرنے والی بڑی ریاستیں گجرات، آندھرا پردیش، تمل ناڈو، اوڈیشہ اور راجستھان ہیں۔
’’ ماجھے وڈیل ۹۶ ورش جگلے [میرے والد ۹۶ سال تک زندہ رہے] اور انہوں نے ہر سال ایرنڈی (ارنڈی) کی کھیتی کی تھی،‘‘ نارائن کہتے ہیں، جنہوں نے اپنی ۲۵ء۳ ایکڑ زمین پر سال در سال ارنڈی اگا کر اس روایت کو زندہ رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ان کا خاندان ۱۵۰ سالوں سے ارنڈی کی کھیتی کر رہا ہے۔ اخبار میں سلیقے سے لپیٹے ہوئے بیجوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نارائن کہتے ہیں، ’’کم از کم ایک صدی سے اگائی جا رہی بین کی شکل کی ارنڈی کے دیسی بیجوں کو ہم نے محفوظ کر رکھا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ فقط می آنی بائیکو شیو کِین [اب صرف میں اور میری بیوی ہی اس کے محافظ ہیں]۔
نارائن اور ان کی بیوی کسم (۶۶) ارنڈی کی پھلیوں سے ہاتھ سے تیل نکالتے ہیں۔ آس پاس کے علاقوں میں تیل ملوں (آئل ملز) کی بھرمار کے باوجود، وہ تیل نکالنے کے روایتی طریقے کو اپنائے ہوئے ہیں۔ نارائن کہتے ہیں، ’’پہلے ہم ہر تین مہینے میں ایک بار تیل نکالتے تھے۔‘‘
’’میرے بچپن میں تقریباً ہر گھر میں ارنڈی اگائی جاتی تھی اور اس کا تیل نکالا جاتا تھا۔ لیکن اب یہاں سب نے ارنڈی چھوڑ کر گنے کی کاشت شروع کر دی ہے،‘‘ کسم کہتی ہیں، جنہیں ان کی ساس نے ارنڈی کے تیل نکالنے کے گر سکھائے تھے۔
سال ۲۰۰۰ تک گائیکواڑ فیملی نے اپنی زمین پر ارنڈی کے سو سے زیادہ پودے اگائے تھے۔ یہ تعداد اب کم ہو کر صرف ۱۵ پودوں تک محدود ہو گئی ہے، اور وہ کولہاپور ضلع کے جامبھلی گاؤں کے معدودے چند کسانوں میں سے ہیں جو اب بھی اس کی کاشت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن کولہاپور میں ارنڈی کی پھلیوں کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ’’اب ہم بمشکل تمام ہر چار سال میں ایک دفعہ تیل نکال سکتے ہیں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں کولہاپوری چپلوں کی مانگ میں آئی کمی نے خطے میں ارنڈی کے تیل کی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ’’کولہاپوری چپلیں مہنگی ہوتی ہیں اور اب ایک جوڑی کی قیمت کم سے کم ۲۰۰۰ روپے ہوتی ہے،‘‘ نارائن کہتے ہیں۔ ان چپلوں کا وزن بھی تقریباً دو کلو گرام تک ہوتا ہے، اور کسانوں میں ان کی مقبولیت ختم ہو چکی ہے۔ اب ربڑ کی نہایت سستی اور ہلکی چپلوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اور پھر ’’میرے بیٹوں نے بڑے پیمانے پر گنے کی کاشت شروع کر دی ہے،‘‘ نارائن اپنی زمین پر ارنڈی کی کھیتی سے کنارہ کشی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
جب نارائن ۱۰ سال کے تھے تو انہیں سب سے پہلے ارنڈی کا تیل نکالنے کا طریقہ سکھایا گیا تھا۔ ’’سب کچھ صاف کروں اور انہیں اکٹھا کرو،‘‘ اپنے کھیت میں پڑی پانچ کلو گرام سے زیادہ ارنڈی کی پھلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ اپنی ماں کو یاد کرتے ہیں۔ ارنڈی کا پودا لگانے کے ۳-۴ ماہ کے اندر پھلیاں نکل آتی ہیں اور اکٹھا ہوئی پھلیوں کو تین دن تک دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے۔
خشک پھلیوں سے تیل نکالنے کا عمل ایک محنت طلب کام ہے۔ ’’ہم سوکھی پھلیوں کو چپل سے کچل کر توڑتے ہیں۔ اس سے بالائی کانٹے دار غلاف بیج سے الگ ہوجاتا ہے،‘‘ نارائن تفصیل سے بتاتے ہیں۔ اس کے بعد بیجوں کو چولی (مٹی سے بنا ایک روایتی چولہا) پر پکایا جاتا ہے۔
پکنے کے بعد ارنڈی کے خشک بیج کوٹ کر تیل نکالنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
ارنڈی کو کوٹنے میں نارائن بدھ کے روز اپنی ماں کسا بائی کی مدد کیا کرتے تھے۔ ’’ہم اتوار سے منگل تک اپنے کھیتوں میں کام کرتے تھے اور جمعرات سے ہفتہ تک اپنی پیداوار [سبزیاں اور اناج] قریبی ہفتہ وار بازاروں میں فروخت کرتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’صرف بدھ کا دن خالی رہتا تھا۔‘‘
چھ دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی گائیکواڑ جوڑا صرف بدھ کو ارنڈی کوٹنے کا کام کرتا ہے۔ اس اکتوبر کی صبح کُسم کی پڑوسن اور رشتہ دار، وندنا مگدوم کے گھر، دونوں اُوکھل مسول سے ارنڈی کے بیجوں کو کوٹ رہے ہیں۔
سیاہ پتھروں سے بنی ۶ سے ۸ انچ گہری اوکھلی کو ہال کے فرش میں نصب کیا گیا ہے۔ کسم فرش پر بیٹھتی ہیں اور ساگوان کی لکڑی سے بنے لمبے موسل کو اٹھانے میں مدد کرتی ہیں، جبکہ وندنا کھڑی ہو کر ارنڈی کے بیجوں کو طاقت سے کوٹتی ہیں۔
’’پہلے مِکسر گرائنڈر نہیں ہوتے تھے،‘‘ اس قدیم ٹول کی مقبولیت کی وضاحت کرتے ہوئے کسم کہتی ہیں۔
اس عمل کے تیس منٹ بعد کسم ارنڈی کے تیل کے قطرے بنتے ہوئے دکھاتی ہیں۔ ’’ آتا یاچا ربڑا تیار ہوتو (جلد ہی ربڑ جیسی چیز بن جائے گی)،‘‘ اپنے انگوٹھے میں لگے سیاہ مرکب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ وضاحت کرتی ہیں۔
دو گھنٹے کی کوٹائی کے بعد کسم ایک برتن میں اوکھلی کا مرکب جمع کرتی ہیں اور اس میں ابلتا ہوا پانی ڈالتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دو کلو گرام کچلے ہوئے ارنڈی کے بیجوں کے لیے کم از کم پانچ لیٹر ابلتے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ باہر چولہے پر مرکب کو مزید ابالا جاتا ہے۔ اٹھتے ہوئے دھوئیں کے درمیان اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش میں کھانستے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہم اب اس کے عادی ہو چکے ہیں۔‘‘
مرکب کے ابلتے ہی کسم نے میری قمیض سے ایک دھاگہ نکالا اور اس میں ڈال دیا۔ ’’ کون باہیرچ آل تر تیاچ چندوک گھیئون ٹاکیاچ، ناہیں تر تے تیل گھیئون جات [اگر اس عمل کے دوران کوئی باہر کا آدمی ہمارے گھر آتا ہے، تو ہم اس کے کپڑے سے ایک دھاگہ کھینچ لیتے ہیں۔ بصورت دیگر، وہ تیل چوری کر لیتے ہیں]،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’یہ ایک توہم پرستی ہے،’’ نارائن فوراً لقمہ دیتے ہیں، ’’پرانے زمانے میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کوئی بھی باہر والا تیل چوری کر لے گا۔ اس لیے انہوں نے یہ دھاگہ ڈالا ہے۔‘‘
کُسم ایک داؤ (لکڑی کے بڑے چمچے) کی مدد سے پانی اور کوٹے ہوئے ارنڈی کے بیجوں کو ہلاتی ہیں۔ دو گھنٹے کے بعد تیل الگ ہو جاتا ہے اور اوپر تیرنے لگتا ہے۔
’’ہم نے کبھی تیل نہیں بیچا اور ہمیشہ مفت میں دیا ہے،‘‘ نارائن یہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جامبھلی کے پڑوسی گاؤں کے لوگ کیسے ان کے گھر ارنڈی کا تیل لینے آتے تھے، لیکن ’’پچھلے چار سالوں سے کوئی تیل لینے نہیں آیا،‘‘ سودھنا (چھلنی) سے تیل چھانتے ہوئے کسم کہتی ہیں۔
آج تک گائیکواڑ جوڑے نے کبھی بھی ارنڈی کے تیل کو منافع کے لیے فروخت کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔
بہرحال، ارنڈی کی کھیتی سے حاصل ہونے والی پیداوار ویسے بھی نہ کے برابر ہوتی ہے۔ ’’قریب کے جے سنگ پور شہر کے تاجر ارنڈی کی پھلیاں ۲۰ سے ۲۵ روپیے فی کلو گرام کی معمولی قیمت پر خریدتے ہیں،‘‘ کسم کہتی ہیں۔ صنعتوں میں ارنڈی کے تیل کا استعمال کوٹنگ، روغنی مادے، موم اور پینٹ میں کیا جاتا ہے۔ اسے صابن اور کاسمیٹکس بنانے میں بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔
’’اب ہاتھ سے تیل نکالنے کے لیے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ براہ راست بازار سے ریڈی میڈ کیسٹر آئل خرید لاتے ہیں،‘‘ کسم کہتی ہیں۔
آج بھی گائیکواڑ ارنڈی کے آزمودہ فوائد کو محفوظ رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ نارائن کہتے ہیں، ’’ڈوکیاور ارنڈی ٹھیولیانے، ڈوک شانت راہت [اگر آپ اپنے سر پر ارنڈی کا پتّہ رکھتے ہیں، تو یہ آپ کو شانت رکھنے میں مدد کرتا ہے]۔ ناشتے سے پہلے ارنڈی کے تیل کا ایک قطرہ پینے سے معدے میں موجود تمام جَنتُو [بیکٹیریا] مر جاتے ہیں۔‘‘
’’ارنڈی کا پودا کسان کی چھتری ہوتا ہے،‘‘ وہ اس کے چمکدار پتوں کے سروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہتے ہیں۔ یہ پتے بارش سے بچاتے ہیں۔ خاص طور پر اپریل اور ستمبر کے درمیان بارش کے طویل موسم میں یہ کارآمد ہوتے ہیں۔ نارائن کہتے ہیں، ’’کوٹے ہوئے ارنڈی کے بیج بھی بہترین نامیاتی کھاد ہوتے ہیں۔‘‘
ارنڈی کے بہت سے روایتی استعمال کے باوجود کولہاپور کے کھیتوں سے یہ پودے تیزی سے غائب ہو رہے ہیں۔
کولہاپور میں گنے کی فصلوں کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ارنڈی کی کم ہوتی مقبولیت کو مزید کم کر دیا ہے۔ مہاراشٹر حکومت کے گزیٹیئر ڈپارٹمنٹ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کولہاپور میں ۱۹۵۵-۵۶ کے دوران ۴۸۳۶۱ ایکڑ اراضی پر گنے کی کھیتی ہوتی تھی۔ لیکن، سال ۲۰۲۲-۲۳ میں گنے کی زیر کاشت زمین ۳ء۴ لاکھ ایکڑ سے تجاوز کر گئی۔
’’یہاں تک کہ میرے بچوں نے بھی ارنڈی اگانے اور اس کا تیل نکالنے کا طریقہ نہیں سیکھا،‘‘ نارائن کہتے ہیں۔ ’’ان کے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘ ان کے بیٹے، ۴۹ سالہ ماروتی اور۴۷ سالہ بھگت سنگھ کسان ہیں اور بشمول گنا کے کئی دیگر فصلیں بھی اگاتے ہیں۔ ان کی ۴۸ سالہ بیٹی مینا تائی ایک گھریلو خاتون ہیں۔
ہاتھ سے ارنڈی کا تیل نکالنے کی مشکلات کے بارے میں پوچھنے پر، نارائن کہتے ہیں، ’’کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس سے ہماری اچھی ورزش ہو جاتی ہے۔‘‘
وہ زور دے کر کہتے ہیں، ’’مجھے پودوں کو محفوظ کرنا پسند ہے، اس لیے میں ہر سال ارنڈی اگاتا ہوں۔‘‘ گائیکواڑ جوڑے کو ارنڈی اگانے میں لگنے والی محنت سے کوئی مالی منافع نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود وہ اپنی روایت کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دس فٹ لمبے گنے کے کھیتوں کے درمیان نارائن اور کسم ارنڈی کی کھیتی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ اسٹوری سنکیت جین کے ذریعہ دیہی کاریگروں پر لکھی جا رہی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم