روپالی پیگو کے گھر کی کھڑکی سے جہاں تک نظر جاتی ہے، صرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے – اس سال سیلاب کا پانی ابھی تک کم نہیں ہوا ہے۔ روپالی، سوون سیری ندی سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر رہتی ہیں، جو برہم پتر کی ایک اہم معاون ندی ہے۔ یہ ندی ہر سال آسام کے ایک بڑے حصہ میں سیلاب کی وجہ بنتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، لیکن پینے لائق پانی تلاش کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ آسام کے لکھیم پور ضلع میں واقع ان کے گاؤں بورڈوبی مالووال میں پینے کا پانی آلودہ ہو چکا ہے۔ روپالی بتاتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں اور قرب و جوار کے گاؤوں کے زیادہ تر ہینڈ پمپ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘
وہ سڑک کے پاس لگے ہینڈ پمپ سے پانی بھرنے کے لیے ڈونگی سے جاتی ہیں۔ اسٹیل کے تین بڑے کنٹینر لیے روپالی سڑک کی طرف بڑھتی ہیں، جو جزوی طور پر پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ سیلاب میں ڈوبے گاؤں میں آنے جانے کے لیے بانس کے ایک ڈنڈے کا استعمال کرتی ہیں۔ ’’مونی، چلو!‘‘ وہ اپنی پڑوسن کو بلاتی ہیں، جو اکثر ان کے ساتھ جاتی ہیں۔ دونوں سہیلیاں کنٹینر بھرنے میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔
کچھ منٹوں تک ہینڈ پمپ چلانے کے بعد آخرکار صاف پانی آنے لگتا ہے۔ روپالی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں، ’’تین دنوں سے بارش نہیں ہوئی ہے، اس لیے ہمیں پانی مل گیا ہے۔‘‘ پانی بھرنا عورتوں کا کام سمجھا جاتا ہے، اور جیسے جیسے ندیوں کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، اس کا بوجھ بھی عورتوں پر ہی پڑتا ہے۔
جب ہینڈ پمپ سے پانی نہیں مل پاتا، تو ۳۶ سالہ روپالی کے مطابق وہ گھر کے چاروں طرف اکٹھا ہوئے گندے پانی کو ’’ابال کر پیتی ہیں۔‘‘
روپالی کا بانس کا بنا گھر، اس علاقہ کے تمام دیگر گھروں کی طرح، خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، تاکہ سیلاب کا سامنا کر سکے۔ انہیں یہاں چانگھر کے نام سے جانا جاتا ہے – اور سیلاب سے بچنے کے لیے ان گھروں کو بانس کے ستونوں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ روپالی کی بطخوں نے ان کے برآمدے کو اپنا گھر بنا لیا ہے، اور ان کی چہچہاہٹ سے وہاں طاری خاموشی میں خلل پڑتا ہے۔
جب روپالی حوائج ضروریہ کے لیے جاتی ہیں، تب بھی ڈونگی ہی ان کا سہارا بنتی ہے۔ ان کے گھر میں بیت الخلاء تھا، جو فی الحال پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہمیں ندی کی طرف، بہت دور جانا پڑتا ہے۔‘‘ یہ کام اندھیرے میں ہی کرنا ہوتا ہے۔
سیلاب کا اثر روزمرہ کی زندگی پر ہی نہیں، بلکہ یہاں رہنے والی مسینگ برادری کے معاش پر بھی بڑے پیمانے پر پڑتا ہے۔ ’’ہمارے پاس ۱۲ بیگھہ زمین تھی، جس پر ہم چاول کی کھیتی کرتے تھے۔ لیکن اس سال ہماری پوری فصل ڈوب گئی اور سب کچھ برباد ہو گیا،‘‘ روپالی کہتی ہیں۔ ندی نے ان کی زمین کا ایک حصہ پہلے ہی نگل لیا ہے۔ ان کے مطابق، ’’سیلاب کا پانی گھٹنے کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ ندی کتنی زمین نگل چکی ہے۔‘‘
میسنگ برادری (ریاست میں درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج) کے لوگ روایتی طور پر کھیتی ہی کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب اس میں ناکام ہونے کے سبب، ان میں سے بہت سے لوگ معاش کی تلاش میں مہاجرت کرنے کو مجبور ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق، سال ۲۰۲۰ میں لکھیم پور سے مہاجرت کرنے والوں کی تعداد ۲۹ فیصد تھی، جو قومی سطح سے تین گنا زیادہ ہے۔ روپالی کے شوہر مانُس حیدرآباد میں ہیں اور بطور چوکیدار کام کرتے ہیں۔ روپالی اکیلے گھر کی ذمہ داری سنبھالتی ہیں اور اپنے دونوں بچوں – ایک بیٹا اور ایک بیٹی – کی بھی پرورش کرتی ہیں۔ مانُس ہر مہینہ ۱۵ ہزار روپے کماتے ہیں اور ۱۰-۸ ہزار روپے گھر بھیجتے ہیں۔
روپالی کا کہنا ہے کہ سال کے چھ مہینے جب ان کے گھر میں پانی بھر جاتا ہے، تو کام ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے۔ ’’پچھلے سال ہمیں سرکار سے پالی تھین شیٹ اور راشن کے طور پر تھوڑی مدد ملی تھی۔ لیکن اس سال کچھ نہیں ملا۔ اگر ہمارے پاس پیسے ہوتے، تو ہم یہاں سے چلے گئے ہوتے،‘‘ وہ کہتی ہیں اور ان کے چہرے پر اداسی چھا جاتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز