گنیش پنڈت نے حال ہی میں تیس کی عمر پار کی ہے، اور وہ شاید نئی دہلی کے پرانے یمنا برج – لوہا پل – کے سب سے نوجوان رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی برادری کے نوجوان تیراکی کوچ جیسی ’مین اسٹریم‘ کی نوکریوں اور قریب میں واقع چاندنی چوک کی خوردہ دکانوں میں کام کرنا زیادہ پسند کر رہے ہیں۔
دہلی سے ہو کر گزرنے والی یمنا، گنگا کی سب سے لمبی معاون ندی ہے اور حجم کے لحاظ سے گھاگھرا کے بعد دوسری سب سے بڑی ندی ہے۔
گنیش پنڈت یمنا پر تصویریں کھنچوانے کا انتظام کرتے ہیں اور پوجا پاٹھ کے لیے آئے لوگوں کو ندی کے بیچوں بیچ لے جاتے ہیں۔ ’’جہاں سائنس فیل ہو جاتی ہے، وہاں عقیدہ کام کرتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کے والد یہاں کے پجاری ہیں اور گنیش اور ان کے دونوں بھائیوں نے، ’’نوجوانی کی عمر میں جمنا [یمنا] میں تیرنا سیکھ لیا تھا۔‘‘ ان کے بھائی پانچ ستارہ ہوٹلوں میں لائف گارڈ کے طور پر کام کرتے ہیں۔
گنیش کے مطابق، آج لوگ اپنی بیٹی کی شادی کسی کشتی چلانے والے سے نہیں کرنا چاہتے، کیوں کہ کوئی اس پیشہ میں آنا نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی عزت کرتا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی اور وہ اس سے متفق بھی نہیں ہیں، ’’میں لوگوں کو کشتی کی سواری کرا کر روزانہ ۵۰۰-۳۰۰ روپے کماتا ہوں۔‘‘ گنیش بتاتے ہیں کہ وہ ندی پر فوٹو اور ویڈیو شوٹ کرنے میں مدد کر کے بھی اچھی کمائی کر لیتے ہیں۔
وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لوگوں کو کشتی کی سواری کرا رہے ہیں اور ندی کے آلودہ پانی کے بارے میں افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ندی کی صفائی ستمبر میں ہی ہو پاتی ہے، جب مانسون کے پانی کی وجہ سے گندگی باہر نکل جاتی ہے۔
قومی راجدھانی خطہ دہلی کے صرف ۲۲ کلومیٹر (یا بمشکل ۶ء۱ فیصد) حصہ سے یمنا گزرتی ہے۔ لیکن اسی چھوٹے سے حصہ میں ڈالا گیا کچرا اس ۱۳۷۶ کلومیٹر لمبی ندی کی تقریباً ۸۰ فیصد آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ پڑھیں: جب ’یمنا کی مری ہوئی مچھلی تازہ ہوگی‘
مترجم: محمد قمر تبریز