شام ڈھلتے ہی، اوم شکتی دیوی کا رنگین لائٹوں سے مزین بڑا سا کٹ آؤٹ جگمگانے لگتا ہے۔ بنگلا میڈو کے ایرولر لوگ دیوی کے لیے سالانہ تیمیتی تیروویلا یا ’فائر واک‘ (انگاروں پر چلنے کا) جشن منا رہے ہیں (اوم شکتی ایک ہندو دیوی ہیں)۔
دوپہر بھر جلنے والی لکڑی کے ٹکڑے انگارے بننے لگتے ہیں؛ اور رضاکار انہیں چمکدار پھولوں کے بستر کی طرح ایک پتلی سی پرت میں پھیلا دیتے ہیں، تاکہ ایرولر تیمیتی کو ’پومیتی‘ یا پھولوں پر چلنے کی طرح دیکھیں۔
خوشی اور جشن کا ماحول ہے۔ پڑوس کے گاؤوں کے سینکڑوں لوگ ایرولروں کو آگ پر چلتا دیکھنے اور اوم شکتی میں اپنے عقیدہ کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اوم شکتی ایک غیر ایرولر دیوی ہیں، جن کے ماننے والے پورے تمل ناڈو میں موجود ہیں اور جن کی پوجا مضبوطی اور طاقت کے اظہار کے طور پر کی جاتی ہے۔
ایرولر (جنہیں ایرولا بھی کہا جاتا ہے) برادری تمل ناڈو میں درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج ہے۔ وہ روایتی طور پر کنّی امّا دیوی کی پوجا کرتے تھے، جسے وہ سات کنواری دیویوں میں سے ایک مانتے ہیں۔ ہر ایرولر کے گھر میں ایک ’کلسم‘ یا مٹی کا برتن دیوی کی علامت کی طرح رہتا ہے، جسے نیم کے پتوں کے ڈھیر پر رکھا جاتا ہے۔
تو اوم شکتی کے لیے بنگلا میڈو ایرولروں کے جشن کو کیسے سمجھا جائے؟
تقریباً ۳۶ سال کے جی منی گندن ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخری دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں، جب ان کی بہن اور ایک غیر ایرولر نوجوان کے درمیان پیار ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ذات پر مبنی تناؤ شروع ہو گیا، جس کی وجہ سے ان کی فیملی کو چیروکّنور گاؤں میں اپنے گھر سے راتوں رات بھاگنا پڑا۔ تب فیملی نے چیروکنور جھیل کے پاس ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں پناہ لی تھی۔
وہ کہتے ہیں، ’’رات بھر ایک گئولی [چھپکلی] شور مچاتی رہی، اور اس سے ہمیں سکون محسوس ہوا۔ ہم نے اسے امّن [دیوی] کا شگن مانا۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ اوم شکتی ہی تھیں جنہوں نے اُس رات ان کی جان بچائی تھی۔
*****
وہ یاد کرتے ہیں، ’’بھاگنے کے بعد کھانا اور کام تلاش کرنا کوئی آسان نہیں تھا۔ میری ماں کھیتوں سے مونگ پھلی اکٹھا کرتیں اور ہمیں کھلانے کے لیے چھوٹے جانوروں کا شکار کرکے لاتی تھیں۔ بس امّن نے ہی ہماری حفاظت کی تھی۔‘‘ (پڑھیں: بنگلا میڈو میں چوہوں کے ساتھ ایک الگ راہ پر )
منی گندن کی فیملی اور ان کے ساتھ بھاگے دوسرے لوگ آخر چیروکنور جھیل سے تقریباً ایک کلومیٹر دور بنگلا میڈو میں آباد ہو گئے اور انہیں جھیل کے پاس کھیتوں میں کام مل گیا۔
بنگلا میڈو شروع میں ۱۰ سے بھی کم خاندانوں کی بستی تھی، اور اب یہاں ۵۵ ایرولا کنبے رہتے ہیں۔ آفیشیل طور پر چیروکنور کی ایرولر کالونی ایک سڑک کے کنارے واقع ہے، جس کے دونوں طرف گھر ہیں اور جو کھلی جھاڑیوں سے گھری ہے۔ لمبی لڑائی کے بعد ۲۰۱۸ میں آخر یہاں بجلی آئی اور حال ہی میں کچھ پکّے گھر اس بستی میں بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے ایرولر لوگ اپنی آمدنی کے لیے یومیہ مزدوری اور منریگا کے کام پر منحصر ہیں۔ منی گندن، بنگلا میڈو کے ان مٹھی بھر لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مڈل اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔
یہاں آباد ہونے کے کچھ سال بعد ایرولر برادری کے بزرگ اور منی گندن کے والد پی گوپال نے جھیل کے پاس عوامی زمین کے ایک ٹکڑے پر اوم شکتی کا مندر بنایا۔ وہ برے دنوں میں اپنی حفاظت کے لیے امّن کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ سال ۲۰۱۸ میں اپنی موت تک وہ اس کے پجاری رہے۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’مندر ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہوا کرتی تھی۔ ہم نے جھیل کی مٹی سے امن کی مورتی بنائی۔ میرے والد نے ہی آدی تیمیتی تیروویلا کی شروعات کی تھی۔‘‘
گوپال کی موت کے بعد منی گندن کے بڑے بھائی جی سبرامنی نے اپنے والد کا پجاری والا عہدہ سنبھال لیا۔ سبرامنی ہفتے کا ایک دن مندر کے کام کاج کے لیے رکھتے ہیں اور باقی چھ دن مزدوری کے کام تلاش کرتے ہیں۔
تقریباً ۱۵ سال سے زیادہ عرصے سے بنگلا میڈو کی ایرولر برادری کے لوگ دن بھر کے اس پروگرام میں اوم شکتی کے لیے ورت (روزہ) رکھتے ہیں، جس کا اختتام انگاروں پر چلنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ تہوار تمل مہینہ ’آدی‘ میں منایا جاتا ہے، جو جولائی-اگست کے آس پاس آتا ہے۔ مانسون کی شروعات کے ساتھ یہ چلچلاتی گرمی سے نجات کا وقت بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ، ایرولروں کے درمیان یہ حال ہی کی رسم ہے، مگر آدی مہینہ کے دوران تیمیتی تروولور ضلع کے تروتنی تعلق میں عام طور پر منایا جاتا ہے، جس میں عقیدت مند مہابھارت کی دروپدی امّن، مری امن، روجا امن، ریوتی امن وغیرہ دیویوں کی پوجا کرتے ہیں۔
’’گرمیوں میں لوگ اکثر امّن [چیچک] کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہم ان مشکل مہینوں سے نمٹنے کے لیے امّن [دیوی] سے پرارتھنا کرتے ہیں۔‘‘ منی گندن اپنی بات چیت میں دیوی اور بیماری دونوں کے لیے امّن لفظ کا استعمال آرام سے کرتے ہیں اور اس سے اس عام عقیدہ کو تقویت ملتی ہے کہ دیوی ہی ہیں جو بیماری دیتی ہیں اور وہی اپنے عقیدت مندوں کو صحت مند بھی بناتی ہیں۔
بنگلا میڈو میں گوپال نے جب سے تیمیتی تہوار شروع کیا تھا، تبھی سے پڑوسی گڈی گُنٹا گاؤں کی ایک غیر ایرولر فیملی اس کے انتظام و انصرام میں حصہ لے رہی ہے۔ اس فیملی کی کھیت میں بنی جھونپڑی میں ہی ان کے اہل خانہ کو پناہ ملی تھی، جب وہ اپنے گاؤں سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔
کھیت مالکوں میں سے ایک ہیں ۵۷ سال کے ٹی این کرشنن، جنہیں ان کے دوست پلنی کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایرولروں کے علاوہ ہماری فیملی کے دس ارکان اور دوست شروع سے ہی آگ پر چل رہے ہیں۔‘‘ پلنی کی فیملی کا ماننا ہے کہ اوم شکتی کی پرارتنھا شروع کرنے کے بعد ہی ان کے یہاں بچوں کی پیدائش ہو پائی۔
انہوں نے ایرولروں کی معمولی مندر کی جھونپڑی کو چھوٹی سی پختہ عمارت میں بدل کر دیوی کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انہوں نے ہی ایرولروں کی لگائی امّن کی مٹی کی مورتی کی جگہ پتھر کی مورتی نصب کی تھی۔
*****
بنگلا میڈو کے ایرولروں کو آدی تیمیتی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کی تیاری وہ مقررہ دن سے پہلے ہی شروع کر دیتے ہیں۔ جو آگ پر چلنا چاہتے ہیں وہ اپنی کلائی میں ایک کاپّو یعنی ایک مقدس تعویذ باندھ لیتے ہیں اور تہوار کے دن تک کچھ چیزوں پر پابندی سے عمل کرتے ہیں۔
بنگلا میڈو میں چھوٹی سی دکان چلانے والی ایس سمنتی کے مطابق، ’’ایک بار جب ہم کاپّو پہن لیتے ہیں، تو ہم سر کے اوپر سے غسل کرتے ہیں اور دن میں دو بار مندر جاتے ہیں، پیلے کپڑے پہنتے ہیں، گوشت نہیں کھاتے اور گاؤں نہیں چھوڑتے۔‘‘ کچھ لوگ ایک ہفتہ تک اس پر عمل کرتے ہیں، تو کچھ زیادہ وقت تک۔ منی گندن بتاتے ہیں، ’’جو جتنے دن چاہے کر سکتا ہے۔ کاپّو پہننے کے بعد ہم گاؤں نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘
ڈاکٹر ایم دامودرن نے غیر منافع بخش تنظیم ’ایڈ انڈیا‘ کے ساتھ اپنی وابستگی کے دوران سالوں تک اس برادری کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ رسم ثقافتوں کے درمیان خیالات یا طور طریقوں کی توسیع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ورت، اُپواس کرنا (روزہ رکھنا)، ایک خاص رنگ کے کپڑے پہننا اور اجتماعی تقریبات کا اہتمام جیسی روایات اب کئی [غیر ایرولر] برادریوں میں بڑے پیمانے پر شروع ہو گئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ثقافت ایرولا برادریوں کے کچھ حصوں میں بھی آ گئی ہے۔ سبھی ایرولا بستیوں میں ان روایات کی تعمیل نہیں ہوتی۔‘‘
بنگلا میڈو میں ایرولر لوگ دن کے سبھی پروگرام سنبھالتے ہیں اور آرائش میں اپنا تھوڑا بہت تعاون دیتے ہیں۔ تہوار والے دن صبح کو مندر کے راستے پر لگے درختوں پر نیم کی تازہ پتیوں کے گچھے لگائے گئے ہیں۔ اسپیکر سے تیز بھکتی گیت بج رہا ہے۔ ناریل کے تازہ پتوں کی چٹائی اور کیلے کے لمبے پتے مندر کے دروازے کی خوبصورتی کو بڑھا رہے ہیں۔
کاپّو پہننے والے ہلدی جیسے پیلے رنگ کے کپڑوں میں رسم ادا کرنے کے لیے مندر آتے ہیں۔ دن کے پروگراموں کی شروعات امّن کے ارول وکّو یا وعظ سے شروع ہوتی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کے لیے دیوی کسی ایک کو ذریعہ بناتی ہیں۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’جب امّن کسی کے اوپر آتی ہیں، تو وہ اس کے ذریعے بات کرتی ہیں۔ جو لوگ یقین نہیں کرتے انہیں مندر میں صرف ایک پتھر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے لیے مورتی حقیقی چیز ہے، جس میں زندگی ہے۔ وہ ہماری ماں کی طرح ہے۔ ہم اس سے اپنوں کی طرح ہی بات کرتے ہیں۔ ماں ہمارے مسائل کو سمجھتی ہیں اور ہمیں صلاح دیتی ہیں۔‘‘
منی گندن کی بہن کنّی امّا ہر سال ارول وکّو دیتی ہیں۔ وہ جا کر مندر کے چاروں طرف اور گاؤں کی سرحد پر مرغ اور بکری کی بلی (قربانی) کے بعد ان کے خون میں بھیگے چاول چھڑکتی ہیں۔ رضاکار پوری برادری کے لیے چاول اور راگی سے بنا گرم کولو یا دلیہ پکاتے ہیں اور ان میں تقسیم کرتے ہیں۔ شام کے جلوس میں دیوی کو تیار کرنے کے لیے پوری دوپہر بڑا سا تورا ، کیلے کے تنے اور پھولوں کا ہار بنانے میں گزرتی ہے۔
پچھلے کچھ سالوں میں مٹی کی جھونپڑی کی جگہ پختہ مندر بننے کے ساتھ ہی تہوار کا معیار بھی اونچا ہو گیا ہے۔ پلنی کے گڈی گُنٹا گاؤں سمیت پڑوسی گاؤوں سے ناظرین کا بڑا مجمع بنگلا میڈو میں آگ پر چلنے کا کرتب دیکھنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’تہوار کبھی نہیں رکا۔ یہاں تک کہ کووڈ کے دوران بھی نہیں۔ حالانکہ، ان دو سالوں میں کم بھیڑ رہی تھی۔‘‘ سال ۲۰۱۹ میں، کووڈ کے آنے سے ایک سال پہلے اس تہوار کو دیکھنے کے لیے تقریباً ۸۰۰ لوگ آئے تھے۔
حالیہ برسوں میں پلنی کی فیملی سبھی مہمانوں کے لیے مفت کھانا یا اَنّ دانم کا انتظام کرتی ہے۔ پلنی کہتے ہیں، ’’۲۰۱۹ میں ہم نے بریانی کے لیے صرف ۱۴۰ کلو چکن پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اب مہمانوں کی تعداد کووڈ سے پہلے کے دنوں جیسی ہی ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا، ’’ہر کوئی سامان لے آتا ہے۔‘‘ بڑھے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پلنی اپنے دوستوں سے پیسے اکٹھا کرتے ہیں۔
’’جب سے ہم نے مندر کی عمارت بنائی ہے، مجمع اور بڑھ گیا ہے۔ ایرولر اسے نہیں چلا سکتے، ہے نا؟‘‘ وہ گڈی گنٹا اوم شکتی مندر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، جو ان کا گاؤں ہے۔
*****
منی گندن کہتے ہیں، ’’جب نیا مندر بنایا گیا، تو ہماری مٹی کی مورتی پتھر سے بنی مورتی سے بدل دی گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مندروں کی تعمیر اسی طرح کی جاتی ہے۔ ہم نے بغل میں اپنی مٹی کی مورتی بھی رکھی ہے۔ یہ زمین ہی ہے، جو ہماری حفاظت کرتی ہے۔‘‘
وہ کہتے ہیں، ’’انہوں نے ایک ایئّر [برہمن پجاری] کو بلایا، جس نے کچے چاول اور نیم کے پتوں کا ہمارا پرساد ہٹا دیا۔‘‘ کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ وہ بولے، ’’جس طرح ہم پوجا پاٹھ کرتے ہیں اس سے یہ الگ ہے۔‘‘
بشریات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ڈاکٹر دامودرن کہتے ہیں، ’’کنّی امّا جیسی دیویوں کی پوجا میں عموماً لمبی چوڑی اور منصوبہ بند رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ پوری برادری بھی اس میں شامل نہیں ہوتی ہے۔ رسموں اور انہیں ادا کرنے کے کسی خاص طریقے پر زور دینا، اور پھر ایک [اکثر برہمن] پجاری کو شامل کر کے اسے منظوری دلانا اب ضابطہ بنا لیا گیا ہے۔ اس سے الگ الگ ثقافتوں کے پوجا کرنے کے انوکھے طریقے ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی معیار بندی ہو جاتی ہے۔‘‘
سال در سال بنگلا میڈو تیمیتی کے شاندار ہوتے جانے کے ساتھ ہی منی گندن اور ان کی فیملی کو محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ تہوار اب آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔
منی گندن نے بتایا، ’’پہلے میرے والد کھانے کا سارا خرچ موئی [تہوار کے کھانے کا لطف لینے کے بعد مہمانوں سے ملنے والے تحفے کے پیسے] سے چلاتے تھے۔ اب وہ [پلنی کی فیملی] سبھی خرچ دیتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’منی، تم کاپّو رواجوں پر توجہ دو۔‘‘ منی گندن کی فیملی کبھی کبھی پلنی کے کھیتوں پر کام کرتی ہے۔
پروگرام کے لیے شائع ہونے والے پرچوں میں آنجہانی گوپال کی ولئی مورئی (وراثت) کو قبول کرنے والے ایک جملہ کو چھوڑ کر ایرولر برادری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے والد کا نام جوڑنے کے لیے زور دینا پڑا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس میں کسی کا نام لکھا جائے۔‘‘
تیمیتی کے دن آگ پر چلنے والے سبھی لوگ خدشات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی عقیدت کا امتحان دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ غسل کرکے پیلے کپڑے پہنے، گلے میں پھولوں کی مالا ڈالے، بالوں میں پھولوں کو سجائے وہ پورے جسم پر چندن کا لیپ لگاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں نیم کے مقدس گچھے پکڑے ہوتے ہیں۔ کنّی امّا کہتی ہیں، ’’اس دن لگتا ہے جیسے امّن ہمارے اندر ہی ہیں۔ اسی لیے مرد بھی پھول پہنتے ہیں۔‘‘
آگ پر چلنے والے جب انگاروں سے بھرے گڑھے پار کرنے کے لیے باری باری سے آگے بڑھتے ہیں، تو ان کے جذبات خاموشی سے لے کر جوشیلے ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ دیکھنے والے جے جے کار کرتے ہیں (نعرے لگاتے ہیں)، تو دوسرے پرارتھنا کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ اس نظارہ کو قید کرنے کے لیے اپنے موبائل فون نکال لیتے ہیں۔
کبھی سادگی کی علامت رہے ایرولر مندر کا نیا نام، نئی مورتی اور مندر اور تہوار کے انتظام و انصرام سے جڑے طور طریقے کے باوجود، منی گندن اور ان کی فیملی کے لوگ اپنے آنجہانی والد کا امّن سے کیا وعدہ نبھا رہے ہیں اور اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے دیوی کے شکرگزار ہیں۔ تیمیتی کے دوران ان کی تمام تشویشیوں مستقبل کے لیے ٹل جاتی ہیں۔
نوٹ: اس اسٹوری میں شامل سبھی تصویریں ۲۰۱۹ میں لی گئی تھیں، جب رپورٹر تیمیتی تہوار دیکھنے بنگلا میڈو گئی تھیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز