معاشرے کی پسماندہ برادریوں کے لیے فوٹوگرافی ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہی ہے، کیوں کہ مہنگا ہونے کے سبب کیمرہ ان کے لیے ایک نایاب چیز ہے۔ ان کی زندگی کے اسی المیہ کو سمجھاتے ہوئے میں ان کے اس خواب کو پورا کرنا، اور گزشتہ کئی نسلوں سے ظلم کے شکار محروم طبقوں – خاص کر دلتوں، ماہی گیروں، ٹرانس کمیونٹی، اقلیتی مسلم برادریوں اور دوسرے کمزور طبقوں کی اس نئی نسل کو فوٹوگرافی کا ہنر سکھانا چاہتا تھا۔
میں اپنے شاگردوں سے ان کی خود کی کہانی سنانے کی امید کرتا تھا، جس کے بارے میں دنیا بہت کم جانتی ہے۔ ان ورکشاپوں میں وہ ان چیزوں کی فوٹوگرافی کرتے ہیں جو ان کے روزمرہ کے معمول میں شامل ہیں۔ یہ ان کی اپنی کہانیاں ہیں، اور ان کے دل کے بہت قریب ہیں۔ انہیں اپنے ہاتھوں میں کیمرہ پکڑے تصویریں لینے میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ یہ کام کرتے رہیں اور تصویروں کے فریم اور زاویوں کے بارے میں بعد میں سوچیں۔
ان تصویروں میں ان کی زندگی جھانکتی ہے، اس لیے یہ خاص ہیں۔
جب وہ ان تصویروں کو مجھے دکھاتے ہیں، تب میں ان بچوں سے ان تصویروں کی سیاست پر گفتگو کرتا ہوں اور ان کو سمجھاتا ہوں کہ یہ تصویریں حالات کے بارے میں کیا کہتی ہیں۔ ورکشاپ ختم ہو جانے کے بعد یہ بچے بڑے سماجی و سیاسی امور سے واقف ہو جاتے ہیں۔
زیادہ تر تصویریں قریب سے لی گئی ہیں اور انہیں قریب سے لے پانا اس لیے ممکن ہو پایا ہے کہ یہ ان کی فیملی اور گھروں کی تصویریں ہیں۔ باہر کا کوئی آدمی ہوتا، تو ان کے ساتھ دوری بنانی پڑتی۔ لیکن یہاں ایسی بات نہیں ہے، کیوں کہ تصویر لینے والوں نے لوگوں کے ساتھ پہلے سے ہی اعتماد کا رشتہ قائم کر لیا ہے۔
یکساں ذہنیت والے کچھ لوگوں کی مدد سے میں نے ان شاگردوں کے لیے کیمرے خریدے۔ ڈی ایس ایل آر کیمرے پر ہاتھ آزمانا انہیں پیشہ ور طور پر مدد کرے گا۔
ان طلباء نے جو کام کیے ہیں ان میں سے کچھ کام ’ری فریمڈ – نارتھ چنئی تھرو دی لینس آف ینگ ریزیڈنٹ [نوجوان باشندوں کی نظر سے شمالی چنئی کی تصویر]‘ نام کی تھیم کے تحت کیے گئے ہیں۔ اس تھیم کا مقصد شمالی چنئی کی بنی بنائی شبیہ کو توڑ کر سماج کو اس کے حقیقی اور اندرونی سچ سے روبرو کرانا ہے۔ باہر سے آئے کسی عام آدمی کے لیے شمالی چنئی صنعتی گہما گہمی کا بڑا مرکز ہے۔
تقریباً ۱۶ سے ۲۱ سال کی عمر کے بارہ نوجوان شرکاء، جو مدورئی کے منج میڈو کے صفائی مزدوروں کے بچے ہیں، میرے ساتھ اس دس روزہ ورکشاپ میں شامل ہوئے تھے۔ یہ پسماندہ طبقوں سے آئے بچوں کے لیے منعقد کی گئی ایسی پہلی ورکشاپ تھی۔ اس میں طلباء کو ان حالات اور سماجی رویوں سے پہلی بار روبرو ہونے کا موقع ملا، جس میں ان کے والدین کو کام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے یہ محسوس کیا کہ انہیں دنیا کی اپنی کہانیاں سنانے کی ضرورت ہے۔
تین مہینے کی ایک ایسی ہی ورکشاپ میں نے اوڈیشہ کے گنجم میں سات اور تمل ناڈو کے ناگ پٹینم میں آٹھ خواتین ماہی گیروں کے لیے منعقد کی تھی۔ گنجم ایک ایسا علاقہ ہے جو لگاتار سمندری کٹاؤ سے متاثر رہا ہے۔ ناگ پٹینم ایک ساحل سمندر ہے جہاں کام کرنے والوں میں بڑی تعداد ان مہاجر مزدوروں اور ماہی گیروں کی ہے جو یہاں سری لنکائی بحریہ کے دستوں سے لگاتار حملوں کے شکار رہے ہیں۔
ان ورکشاپوں میں لی گئی تصویروں میں ارد گرد کی دنیا کے چیلنجز نظر آتے ہیں۔
سی ایچ پرتیما، ۲۲
دکشن فاؤنڈیشن کی
فیلڈ اسٹاف
پوڈم پیٹا، گنجم،
اوڈیشہ
ان تصویروں نے مجھے اپنی برادری کے کاموں کا احترام کرنا سکھایا اور آس پاس کے لوگوں کے ساتھ قریبی تعلقات بنانے میں میری مدد کی۔
میری پسندیدہ تصویروں میں یہ تصویر بھی شامل ہے جس میں کچھ بچے کھیل کھیل میں ایک کشتی کو ساحل کے کنارے دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں نے پہلی بار یہ محسوس کیا کہ وقت کے کسی خاص لمحہ کو قید کرنے کے لیے فوٹوگرافی کتنا طاقتور ذریعہ ہے۔
میں نے اپنی ماہی گیر برادری کے ایک آدمی کی تصویر لی، جو سمندری کٹاؤ کے سبب مسمار ہوئے اپنے گھر سے بچے ہوئے سامانوں کو نکالنے میں مصروف دکھائی دے رہا ہے۔ یہ تصویر ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پسماندہ طبقوں کو درپیش چیلنجز کو نمایاں کرتی ہے، اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں یہ تصویر لے پائی۔
جب میں نے پہلی بار اپنے ہاتھ میں کیمرہ پکڑا تھا، تو مجھے یقین نہیں تھا کہ میں اسے چلا پاؤں گی۔ مجھے لگا کہ مجھے کوئی بھاری بھرکم مشین دے دی گئی ہے۔ یہ پوری طرح سے ایک نیا تجربہ تھا۔ حالانکہ، میں اپنے موبائل سے شوقیہ تصویریں کھینچتی رہتی تھی، لیکن اس ورکشاپ نے میرے اندر اپنے سبجیکٹ کے ساتھ تال میل قائم کرنے اور تصویروں کے ذریعے ان کی کہانیاں سنانے کے ہنر کی بنیاد ڈالی۔ میں فوٹوگرافی کے بنیادی اصولوں کے بارے میں بیشک الجھن کی شکار تھی، لیکن فیلڈ ورکشاپ کے دوران کیمرے سے متعلق عملی تجربات نے میرے لیے چیزوں کو آسان کر دیا، اور میں نے ورکشاپ میں سیکھے گئے اصولوں کو حقیقی دنیا میں آزمانا سیکھ لیا۔
*****
پی اندرا، ۲۲
بی ایس سی فزکس کی
طالبہ، ڈاکٹر امبیڈکر ایوننگ ایجوکیشن سنٹر
ارپالیَم، مدروئی،
تمل ناڈو
’’فوٹوگرافی میں اپنے آپ کو درج کرو، اپنے ارد گرد کی دنیا کو اور کاموں میں مصروف آس پاس کے اپنے سبھی لوگوں کو بھی درج کرو۔‘‘
مجھے کیمرہ سونپتے ہوئے پلنی انّا نے یہی الفاظ کہے تھے۔ یہاں آ کر میں ایک رومانس سے بھر گئی، کیوں کہ پہلے تو میرے والد نے ورکشاپ میں شامل ہونے کی اجازت دینے سے منع کردیا تھا، اور انہیں راضی کرنے کے لیے مجھے ان کو تھوڑا منانا بھی پڑا۔ بعد میں تو وہ میری فوٹوگرافی کا ایک کردار بھی بنے۔
میں صفائی ملازمین کے درمیان رہی۔ میرے والد کی طرح وہ لوگ بھی اپنے پدرانہ معاش کی جال میں پھنسے ہوئے تھے، اور اس کی بنیادی وجہ ظلم و ستم پر مبنی ذات کا نظام ہے۔ ورکشاپ میں شامل ہونے سے پہلے مجھے ان لوگوں کے کام اور چیلنجز کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، جب کہ میرے والد بھی ان میں سے ایک تھے۔ مجھے صرف ایک ہی بات کہی جاتی تھی کہ مجھے محنت کرکے پڑھنا چاہیے، تاکہ میں ایک سرکاری نوکری حاصل کر سکوں، اور کسی بھی قیمت پر صفائی مزدور نہ بنوں۔ ہمارے اسکول کے ٹیچر ہم سے یہی کہتے تھے۔
آخرکار میں اپنے والد کے کام کو اس وقت ٹھیک سے سمجھ پائی، جب ان کے کام کو اپنی فوٹوگرافی کے ذریعے نمایاں کرنے کے ارادے سے میں دو تین دن ان کے ساتھ گئی۔ میں نے بہت قریب سے دیکھا کہ کیسے صفائی ملازمین کو ناموافق حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور دستانوں اور بوٹ کے بغیر گھریلو کوڑا کرکٹ اور زہریلی گندگیوں کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ٹھیک چھ بجے تک اپنے کام پر حاضر ہو جائیں، اور دو چار منٹ کی تاخیر سے پہنچنے پر بھی وہ ٹھیکہ دار اور عہدیدار، جن کے ماتحت وہ کام کرتے ہیں، ان سے غیر انسانی طریقے سے پیش آتے ہیں۔
میرے کیمرے نے مجھے اپنی ہی زندگی کے بارے میں وہ سب دکھایا جنہیں میں اپنی آنکھوں سے دیکھنے میں ناکام رہی تھی۔ اس نظریہ سے دیکھا جائے، تو یہ میری تیسری آنکھ کے کھلنے جیسا تجربہ تھا۔ جب میں نے اپنے والد کی تصویریں کھینچیں، تو انہوں نے مجھ سے اپنی زندگی اور کاموں کی جدوجہد کی کہانیاں ساجھا کیں اور مجھے بتایا کہ کیسے وہ اپنی کم عمری میں ہی اس کام کی گرفت میں پھنس گئے۔ ایسی بات چیت نے ہمارے آپسی تعلقات کو ایک مضبوطی عطا کی۔
یہ ورکشاپ ہم سب کی زندگیوں کا ایک اہم فیصلہ کن موڑ تھا۔
*****
سُگنتی مانی کویل، ۲۷
ماہی گیر خاتون
ناگ پٹینم، تمل ناڈو
کیمرے نے میرے سوچنے کا نظریہ بدل دیا۔ ہاتھ میں کیمرہ لینے کے بعد میں ایک الگ قسم کی آزادی محسوس کرتی ہوں۔ میں ایک نئی خود اعتمادی سے بھر جاتی ہوں۔ یہ مجھے اپنے جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے اور بات چیت کرنے کا موقع عطا کرتا ہے۔ حالانکہ، میں اپنی پوری زندگی ناگ پٹینم میں ہی رہی، لیکن پہلی بار میں بندرگاہ پر ایک کیمرے کے ساتھ گئی تھی۔
میں نے تصویروں میں اپنے ۶۰ سالہ والد مانی کویل کو قید کیا، جو پانچ سال کی عمر سے مچھلی پکڑنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ سمندر کے کھارے پانی سے لگاتار بھیگے رہنے کی وجہ سے ان کے پیروں کے انگوٹھے سُنّ پڑ چکے ہیں۔ اب ان میں بہت کم خون کی روانی ہوتی ہے، لیکن ہماری ضروریات پوری کرنے کے لیے وہ آج بھی روزانہ مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں۔
پوپتی امّاں (۵۶ سالہ) بنیادی طور پر ویلّو پلّم کی ہیں۔ سال ۲۰۰۲ میں اپنے شوہر کے سری لنکائی بحریہ کے دستوں کے ذریعے مارے جانے کے بعد سے ہی وہ گزر بسر کے لیے مچھلی خریدنے اور بیچنے کا کام کرنے لگیں۔ دوسری ماہی گیر خاتون جن کی میں نے فوٹو لی وہ تنگمّل تھیں، جن کے شوہر کو جوڑوں کا درد ہے اور ان کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ناگ پٹینم کی سڑکوں پر مچھلی بیچنا شروع کیا۔ پلنگلّی میڈو کی ماہی گیر خواتین مہین جالوں (پران ٹریپ) کے استعمال سے، اور سمندر سے – دونوں طریقوں سے مچھلی پکڑتی ہیں۔ میں نے دونوں ہی معاش کو نمایاں کرنے کی کوشش کی۔
ماہی گیروں کے گاؤں میں پیدا ہونے کے باوجود، ایک خاص عمر کے بعد میں شاید ہی کبھی سمندر کے کنارے گئی تھی۔ جب میں نے ان کی تصویریں کھینچنی شروع کیں، تب میں اپنی برادری اور ان کی جدوجہد سے آشنا ہوئی جن سے ہمارا روز کا واسطہ ہے۔
اس ورکشاپ میں شامل ہونا میری زندگی کا ایک بڑا موقع تھا۔
*****
لکشمی ایم، ۴۲
ماہی گیر خاتون
ترومُلّئی وسل، ناگ
پٹینم، تمل ناڈو
ماہی گیر خواتین کو ٹریننگ دینے کے مقصد سے جب فوٹوگرافر پلنی ماہی گیروں کے گاؤں ترومُلّئی وسل آئے، تب ہم یہ سوچ کر بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ کیسے اور کس کی فوٹوگرافی کریں گے۔ لیکن جیسے ہی ہم نے اپنے ہاتھ میں کیمرہ پکڑا، ہماری ساری گھبراہٹ دور ہو گئی، اور ہم ایک نئی توانائی اور خود اعتمادی سے بھر گئے۔
پہلے دن جب ہم آسمان، سمندری ساحل اور اس کے آس پاس کی تصویریں لینے کناروں پر پہنچے، تب ہمیں گاؤں کے پردھان نے روکا بھی۔ ان کا سوال تھا کہ ہم سب کیا کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہماری درخواستوں کو ٹھکرا دیا اور ہمیں تصویریں لینے سے منع کر دیا۔ جب ہم دوسرے گاؤں چِنّ کُٹّی گئے، تو سب سے پہلے ہم نے وہاں کے پردھان سے پیشگی اجازت لے لی، تاکہ ہمارے کام میں ایسی کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
پلنی ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں دھندلی تصویروں کو دوبارہ شوٹ کرنا چاہیے۔ اس سے ہمیں اپنی غلطیوں کو سمجھنے اور انہیں ٹھیک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ میں نے یہ سیکھا کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ یا کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نئی معلومات سے بھرا تجربہ تھا۔
*****
نور نشاں کے، ۱۷
بی ووک ڈیجیٹل
جرنلزم، لویولا کالج
ترووٹّریور، شمالی
چنئی، تمل ناڈو
جب میرے ہاتھ میں پہلی بار کیمرہ دیا گیا تھا، تب میں نے یہ بالکل نہیں سوچا تھا کہ اس سے کوئی بڑی تبدیلی آئے گی۔ لیکن آج میں یقین سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ میری زندگی اب دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے – فوٹوگرافی کرنے سے پہلے کی زندگی اور اس کے بعد کی زندگی۔ میں نے بہت چھوٹی عمر میں ہی اپنے والد کو کھو دیا تھا اور تب سے میری ماں ہماری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
لینس کے ذریعے پلنی انّا نے میرا تعارف ایک ایسی دنیا سے کرایا، جو میرے لیے بالکل نئی اور الگ تھی۔ میری سمجھ میں یہ بات بھی آئی کہ جو تصویریں ہم کھینچتے ہیں وہ صرف تصویریں نہیں، بلکہ دستاویز ہیں، جن سے ہم نا انصافی اور غیر برابری کے خلاف سوال کر سکتے ہیں۔
وہ ہم سے اکثر ایک بات کہتے ہیں، ’’فوٹوگرافی میں یقین رکھو، یہ آپ کی تمام ضروریات کو پورا کرے گی۔‘‘ میں نے محسوس کیا کہ یہ سچ ہے، اور اب میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے قابل ہوں، جو اب کئی بار کام کے سلسلے میں باہر نہیں جا پاتی ہیں۔
*****
ایس نندنی، ۱۷
ایم او پی ویشنو کالج
فار ویمن کی صحافت کی طالبہ
ویاسرپاڑی، شمالی
چنئی، تمل ناڈو
فوٹوگرافی کے لیے میرے سب سے پہلے سبجیکٹ وہ بچے تھے جو میرے گھر کے قریب کھیل رہے تھے۔ میں نے کھیلنے کے وقت ان کے چہروں پر جو خوشی تھی اسے کیمرے میں قید کیا۔ میں نے سیکھا کہ کیمرے کی آنکھوں سے دنیا کیسے دیکھی جا سکتی ہے۔ میری سمجھ میں یہ بات بھی آئی کہ مناظر کی زبان کو بہت آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
کئی بار جب آپ تصویروں کی تلاش میں بھٹک رہے ہوتے ہیں، تو آپ کا سامنا کسی ایسی چیز سے ہو جاتا ہے جس کی آپ نے امید بھی نہیں کی تھی۔ فوٹوگرافی مجھے خوشیوں سے بھر دیتی ہے – ایسی خوشیاں جو آپ کے لیے بالکل جانی پہچانی اور اپنی ہوں۔
ایک بار، جب میں ڈاکٹر امبیڈکر پگوت ریوو پڈسالئی میں پڑھتی تھی، ہمیں ڈاکٹر امبیڈکر میموریل گھمانے کے لیے لے جایا گیا۔ اس سفر میں تصویروں نے مجھ سے بات چیت کی۔ پلنی انّا نے ایک صفائی مزدور کی موت کے واقعہ اور صدمے میں ڈوبے اس کی فیملی کو اپنی تصویروں کے ذریعے دکھایا تھا۔ اس صفائی مزدور کی فیملی کے ممبران کی تصویروں میں ان کی محرومیوں، غموں اور کبھی پورا نہیں ہو سکنے والے نقصان کی کہانیاں تھیں۔ ان کہانیوں کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جب ہم ان سے وہاں ملے، تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے ہمارا حوصلہ بڑھایا کہ ہمارے اندر بھی ایسی تصویریں لینے کی قابلیت ہے۔
جب انہوں نے ورکشاپ میں کلاس لینی شروع کی، تو اسکولی دورے پر ہونے کے سبب میں حاضر نہیں ہو پائی۔ لیکن میرے واپس لوٹنے کے بعد انہوں نے مجھے الگ سے سکھایا اور فوٹوگرافی کرنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔ مجھے تو اس کی بھی بنیادی معلومات نہیں تھی کہ ایک کیمرہ کیسے کام کرتا ہے، لیکن پلنی انّا نے مجھے سکھایا۔ انہوں نے فوٹوگرافی کے لیے اپنا موضوع تلاش کرنے کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کی۔ میں نے اس سفر میں کئی نئے نظریات اور تجربات سیکھے۔
فوٹوگرافی سے متعلق اپنے تجربات کی وجہ سے ہی میں نے صحافت کو اپنا مستقل پیشہ بنانے کا فیصلہ کیا۔
*****
وی ونودنی، ۱۹
بیچلرز آف کمپیوٹر
ایپلی کیشن کی طالبہ
ویاسرپاڑی، شمالی
چنئی، تمل ناڈو
میں اپنے ارد گرد کے علاقوں کو برسوں سے جانتی ہوں، لیکن جب میں نے انہیں اپنے کیمرے کے ذریعے دیکھا، تو مجھے ان میں ایک نیاپن نظر آیا۔ ’’تصویریں آپ کے سبجیکٹ کی زندگی کو بیان کرنے کے قابل ہونی چاہئیں،‘‘ پلنی انّا کہتے ہیں۔ جب وہ اپنے تجربات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، تو آپ ان کی آنکھوں میں صاف دیکھ سکتے ہیں کہ فوٹوگرافی، کہانیوں اور لوگوں سے انہیں کتنا پیار ہے۔ ان سے متعلقہ میری یادگاروں میں مجھے سب سے عزیز وہ ہے جس میں وہ بٹن والے فون سے اپنی ماہی گیر ماں کی تصویر لے رہے ہیں۔
میں نے اپنی پہلی تصویر دیوالی کے موقع پر اپنے پڑوسی کی لی تھی۔ وہ ایک خاندانی تصویر تھی، جو بہت اچھی آئی تھی۔ اس کے بعد میں کہانیوں اور لوگوں کے تجربات کی بنیاد پر اپنے شہر کو کیمرے میں قید کرنے لگی۔
فوٹوگرافی سیکھے بغیر مجھے اپنے آپ سے ملنے کا موقع نہیں ملا ہوتا۔
*****
پی پونکوڈی
ماہی گیر خاتون
سیروتور، ناگ پٹینم،
تمل ناڈو
میری شادی کو ۱۴ سال ہو گئے۔ اس کے بعد سے ہی میں اپنے خود کے گاؤں کے سمندری ساحل پر نہیں گئی ہوں۔ لیکن میرے کیمرے نے سمندر سے میری دوبارہ ملاقات کرا دی۔ میں نے مچھلی پکڑنے سے متعلق طور طریقے اور کشتیوں کو دھکیل کر سمندر میں لے جانے کی سرگرمیوں کے علاوہ، برادری میں خواتین کے تعاون کو بیان کرنے والی تصویریں لیں۔
کسی کو ایک تصویر کے لیے صرف کلک کرنا سکھانا بہت آسان ہے، لیکن ایک فوٹوگرافر کو تصویروں کے ذریعے کہانے کہنے کا ہنر سکھانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ پلنی ہمیں وہی ہنر سکھاتے ہیں۔ وہ ہمیں فوٹوگرافی کرنے سے پہلے سبجیکٹ کے ساتھ رابطہ قائم کرنا سکھاتے ہیں۔ لوگوں کی تصویریں کھینچ کر میں اپنے اندر ایک نئی خود اعتمادی محسوس کر رہی ہوں۔
میں نے ماہی گیر برادری کے ذریعے اختیار کیے جانے والے الگ الگ پیشوں کو اپنی فوٹوگرافی کا موضوع بنایا، جن میں مچھلی بیچنے، ان کی صفائی کرنے اور ان کی نیلامی کرنے جیسے کام شامل ہیں۔ اس موقع نے مجھے اپنی برادری کی ان خواتین کی زندگی کو قریب سے دیکھنے سمجھنے میں مدد کی، جو گھوم گھوم کر مچھلی بیچنے کا کام کرتی ہیں۔ اس کام میں انہیں مچھلیوں سے بھری ایک بھاری ٹوکری اپنے سر پر اٹھا کر گھومنا پڑتا ہے۔
کُپّو سوامی پر میری فوٹو اسٹوری میں مجھے ان کی زندگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا کہ جب وہ سرحدی سمندر میں مچھلیاں پکڑ رہے تھے، تب کیسے سری لنکائی بحریہ نے گولی داغ دی تھی۔ اس کے بعد سے ہی ان کے ہاتھ پیر کام نہیں کرتے ہیں اور نہ وہ بول پاتے ہیں۔
میں جب ان سے ملنے گئی، تو میں نے ان کو اپنا روز کا کام – مثلاً کپڑاً دھوتے، باغبانی اور صاف صفائی کرتے وقت غور سے دیکھا۔ تب مجھے ان کی روزمرہ کی مشکلات کا اندازہ ہوا۔ وہ اپنے ہی ہاتھ پیر پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن وہ مجھ سے ایسے پیش آ رہے تھے کہ اپنا کام خود کرنے میں انہیں سب سے زیادہ خوشی حاصل ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ ان کی معذوری باہر کی دنیا اور ان کے درمیان کھڑی سب سے اونچی دیوار تھی۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی بار وہ اپنے اندر ایک خلاء محسوس کرتے ہیں، جو انہیں مر جانے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔
میں نے سارڈن پکڑنے والے ماہی گیروں پر ایک فوٹو سیریز کی تھی۔ سارڈن مچھلیاں سینکڑوں کی تعداد میں پکڑی جاتی ہیں، اس لیے ان کو سمندر سے نکال کر ساحل تک لانا اور جال سے انہیں ایک ایک کر کے نکالنا ایک چنوتی بھرا کام ہے۔ میں نے تصویروں کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی تھی کہ انہیں جال سے چن چن کر نکالنے اور برف کے بکسے میں جمع کرنے تک کیسے مرد اور عورتیں ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
ماہی گیروں کی برادری سے تعلق رکھنے کے باوجود ایک خاتون فوٹوگرافر کے طور پر ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایسے سوالوں کا پوچھا جانا ہے، جیسے ’آپ ان کی تصویر کیوں کھینچ رہی ہیں؟ عورتیں فوٹوگرافی جیسے کام کیوں کرتی ہیں؟‘
پلنی انّا ان سبھی ماہی گیر خواتین کے لیے ایک بڑی طاقت ہیں، جو اب اپنی شناخت ایک فوٹوگرافر کے طور پر بنانے کے لیے ڈٹی ہوئی ہیں۔
*****
پلنی اسٹوڈیو ہر سال ایسی دو ورکشاپ کا اہتمام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، جس میں طلباء کو فوٹوگرافی کی ٹریننگ دی جائے گی۔ دونوں ورکشاپوں میں ۱۰-۱۰ طلباء شامل ہوں گے۔ ورکشاپ ختم ہونے کے بعد سبھی شرکاء کو چھ مہینے کی مدت میں اپنی کہانیاں درج کرنے کے لیے مالی مدد بھی دی جائے گی۔ ورکشاپ کا اہتمام کرنے اور اس کے کاموں کا جائزہ لینے کے لیے تجربہ کار فوٹوگرافروں اور صحافیوں کو مدعو کیا جائے گا۔ ان تصویروں کی بعد میں نمائش بھی لگائی جائے گی۔
مترجم: محمد قمر تبریز