’’موبائل، ٹی وی، ویڈیو گیم آ گئے ہیں اور کٹھ پتلی کا شو اور قصہ گوئی کی تاریخی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ پورن بھاٹ راجستھان کے سیکر ضلع کے دانتا رام گڑھ کے کٹھ پتلی فنکار ہیں۔ پورن (۳۰) اس وقت کو یاد کرتے ہیں، جب وہ اپنی کٹھ پتلیاں بناتے اور بچوں کی پارٹیوں، شادی کے پروگراموں اور سرکاری تقریبات میں ناٹک دکھاتے تھے۔
وہ کہتے ہیں، ’’آج لوگ الگ الگ سرگرمیاں چاہتے ہیں۔ پہلے عورتیں ڈھول پر گاتی تھیں، اب لوگ ہارمونیم پر فلمی گانے چاہتے ہیں۔ اگر ہمیں تحفظ ملے گا، تو ہم اپنے آباء و اجداد کے سکھائے ہنر کو آگے بڑھا پائیں گے۔‘‘
بھاٹ اس سال اگست (۲۰۲۳) میں جے پور کے تین دہائی پرانے کثیر فنون کے مرکز ’جواہر کلا کیندر‘ میں موجود تھے۔ پورے راجستھان سے لوک فنکاروں (فوک آرٹسٹ) کے کئی گروپ ریاست کے ذریعہ منعقدہ اس پروگرام میں آئے تھے، جہاں فنون اور معاش کو بچانے کے لیے جدوجہد کر رہے فنکاروں کے لیے حکومت نے نئی اسکیم کا اعلان کیا تھا۔
’مکھیہ منتری لوک کلا کار پروتساہن یوجنا‘ کے نام والی اس اسکیم میں ہر لوک فنکار خاندان کو ان کی رہائش گاہ پر ۵۰۰ روپے یومیہ کے حساب سے ۱۰۰ دن کے سالانہ کام کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون ۲۰۰۵ دیہی خاندانوں کے لیے ۱۰۰ دنوں کے روزگار کو یقینی بنا کر یہ پہلے ہی طے کر چکا ہے۔
مرکزی حکومت کی ’وشو کرما یوجنا‘ کا اعلان ستمبر ۲۰۲۳ میں کاریگروں اور دستکاروں کے لیے کیا گیا تھا، مگر ’کلا کار یوجنا‘ کال بیلیا، تیرہ تالی، بہو روپیا اور دوسری کئی پرفارم کرنے والی برادریوں کے لیے پہلی اسکیم ہے۔ کارکنوں کی مانیں، تو راجستھان میں تقریباً ۲-۱ لاکھ لوک فنکار ہیں اور کبھی کسی نے ان کی پوری گنتی نہیں کرائی ہے۔ یہ اسکیم کام کے عوض ادائیگی کی بنیاد پر رکھے گئے غیر مستقل ورکرز (ٹرانسپورٹ اور ڈیلیوری) اور خوانچہ فروشوں کو بھی سماجی تحفظ کے دائرے میں لاتی ہے۔
لکشمی سپیرا کہتی ہیں، ’’ہم شادیوں کے سیزن میں صرف کچھ مہینے ہی کام کرتے ہیں، باقی سال ہم گھر پر ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ اس [اسکیم] میں ہمیں باقاعدگی کے ساتھ کمائی کی امید ہے۔‘‘ جے پور کے پاس مہلان گاؤں کی یہ ۲۸ سالہ کال بیلیا فنکار پر امید ہیں۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’جب تک میرے بچے نہیں چاہیں گے، میں انہیں پشتینی آرٹ میں شامل نہیں کروں گی۔ بہتر ہے کہ وہ پڑھیں اور نوکری کریں۔‘‘
جواہر کلا کیندر کی ڈائریکٹر جنرل گایتری اے راٹھوڑ کہتی ہیں، ’’ریاست کے زندہ آرٹس اور کرافٹس‘ – یہ لوک فنکار خاص طور پر ۲۰۲۱ [وبائی مرض] میں کافی بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ انہیں مدد چاہیے تھی، ورنہ وہ اپنا فن چھوڑ دیتے اور نریگا مزدور بن کر رہ جاتے۔‘‘ کووڈ۔۱۹ کے دوران تمام پرفارمنس راتوں رات بند ہو گئی تھی، جس سے فنکار باہری مدد کے بھروسے رہ گئے تھے۔
پوجا کامڈ کہتی ہیں، ’’وبائی مرض میں ہماری کمائی کم ہو گئی۔ اس کلا کار کارڈ کے بعد اب شاید کچھ بہتر ہوگا۔‘‘ کامڈ (۲۶) جودھپور کے پالی ضلع کے پدرلا گاؤں کی تیرہ تالی فنکار ہیں۔
مکیش گوسوامی کہتے ہیں، ’’مانگنیار [مغربی راجستھان میں موسیقاروں کی پرانی برادری] جیسے فوک میوزک میں صرف ایک فیصد فنکار ہی بیرون ملک جا کر فنی مظاہرہ اور کمائی کر پاتے ہیں۔ باقی ۹۹ فیصد کو کچھ نہیں ملتا۔‘‘ کال بیلیا (خانہ بدوش برادری جنہیں پہلے سپیروں اور رقص کرنے والوں کے طور پر جانا جاتا تھا) میں سے کچھ منتخب ۵۰ لوگوں کو کام ملتا ہے، جب کہ باقی کو نہیں ملتا۔
’وبائی مرض میں ہماری کمائی ختم ہو گئی۔ اس کلا کار کارڈ کے ساتھ لگتا ہے کہ کچھ بہتر ہوگا،‘ پوجا کامڈ کہتی ہیں، جو پالی ضلع کے پدرلا گاؤں کی تیرہ تالی فنکار ہیں
گوسوامی ’مزدور کسان شکتی سنگٹھن‘ (ایم کے ایس ایس) کے ایک کارکن ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’لوک فنکاروں کو کبھی سال بھر روزگار نہیں ملا…جو معاش اور عزت و احترام کے لیے ضروری ہے۔‘‘ ایم کے ایس ایس ایک عوامی تنظیم ہے، جو ۱۹۹۰ سے مرکزی راجستھان میں مزدوروں اور کسانوں کو با اختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔
حاشیہ پر رہنے والے فنکاروں کو حکومت سے سماجی تحفظ، بنیادی ذریعہ معاش ملنا چاہیے، تاکہ انہیں دوسرے شہروں میں نقل مکانی نہ کرنی پڑے۔ گوسوامی کہتے ہیں، ’’مزدوری بھی آرٹ ہے۔‘‘
نئی اسکیم کے تحت انہیں ایک آئی ڈی (شناختی کارڈ) ملتا ہے، جو ان کی پہچان فنکار کے طور پر بتاتا ہے۔ وہ سرکاری پروگراموں میں فن کی پیشکش کرنے کے اہل ہیں اور مقامی سرپنچ کی طرف سے تفصیلات کی تصدیق کر دیے جانے کے بعد کمائی گئی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع کر دی جاتی ہے۔
اکرم خان بہو روپی کے اپنے روایتی پرفارمنگ آرٹ کے بارے میں کہتے ہیں، ’’ہم بہو روپی شکل بدلتے ہیں۔‘‘ اس میں کردار کئی مذہبی اور اساطیری رول نبھاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس فن کی شروعات راجستھان میں ہوئی اور پھر نیپال اور بنگلہ دیش تک گئی۔ وہ کہتے ہیں، ’’تاریخی طور پر ہمارے سرپرست ہمیں الگ الگ جانوروں کی شکل [تفریح کے لیے] بنانے کے لیے کہتے تھے اور اس کے عوض ہمیں کھانا، زمین دیتے تھے، ہماری دیکھ بھال کرتے تھے۔‘‘
اکرم خان کا اندازہ ہے کہ آج اس فن میں ان کے جیسے صرف ۱۰ ہزار فنکار ہی بچے ہیں، جن میں ہندو اور مسلم دونوں برادریوں کے لوگ حصہ لیتے ہیں۔
ایم کے ایس ایس کارکن شویتا راؤ کہتی ہیں، ’’اسے [اسکیم کو] ایک قانون بنایا جانا چاہیے، تاکہ حکومت بدلنے پر بھی کام کی گارنٹی بنی رہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ فی خاندان ۱۰۰ دن کے کام کی گارنٹی کی جگہ فی فنکار ۱۰۰ دن کی گارنٹی ہونی چاہیے۔ ’’ابھی جس فنکار کو اس کی ضرورت ہے، جو دور دراز کے گاؤں میں ججمانی [سرپرستی] نظام کے تحت کہیں فن کا مظاہرہ کر رہا ہے، اسے اس سے جوڑ کر فائدہ پہنچانا چاہیے۔‘‘
مئی اور اگست ۲۰۲۳ کے درمیان تقریباً ۱۳ ہزار سے ۱۴ ہزار فنکاروں نے اس نئی اسکیم کے لیے درخواست جمع کی۔ اگست تک ۳۰۰۰ کو منظوری مل پائی اور تہوار کے بعد درخواست جمع کرنے والوں کی تعداد ۲۰ ہزار سے ۲۵ ہزار تک ہو گئی۔
ہر فنکار خاندان کو ان کا ساز (آلہ موسیقی) خریدنے کے لیے یک مشت ۵۰۰۰ روپے بھی دیے جا رہے ہیں۔ راٹھوڑ کہتی ہیں، ’’ہمیں اس پروگراموں کا ایک کیلنڈر بنانا ہوگا، کیوں کہ فنکاروں کے اپنے ضلعوں میں آرٹ اور کلچر کی موجودگی نہیں ہے، اور وہ اپنے فن کی شکلوں اور مقامی زبان کا استعمال کر کے سرکاری پیغامات لوگوں تک پہنچا سکیں گے۔‘‘
فوک آرٹ کی پیشکش کے لیے ایک ادارہ کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے، جہاں سینئر فنکار برادری کے اندر اور باہر اپنے علم دوسروں کے ساتھ شیئر کر سکیں۔ اس سے فنکاروں کے کام کو بچانے اور مجموعہ تیار کرنے میں مدد ملے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ ان کا علم کھو نہ جائے۔
مترجم: محمد قمر تبریز