لینن داسن چاول کی ۳۰ اقسام کی کاشت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ساتھی کسانوں کے ذریعہ اگائے گئے مزید ۱۵ اقسام فروخت کرتے ہیں۔ وہ دھان کے بیجوں کی ۸۰ اقسام کا تحفظ بھی کرتے ہیں۔ ان تمام سرگرمیوں کو وہ  تمل ناڈو کے تیرو ونّ ملئی ضلع میں اپنی چھ ایکڑ پشتینی زمین پر انجام دیتے ہیں۔

یہاں محض یہ اعداد ہی غیرمعمولی نہیں ہیں۔ طویل مدت سے نظر انداز چاول کی یہ روایتی قسمیں اس علاقے کے چھوٹے اور معمولی کسانوں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ لینن – جیسا کہ انہیں پکارا جاتا ہے – اور ان کے دوست چاول کی جدید اقسام کو تبدیل کرنے اور یک فصلی (مونو) کاشت روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا ارادہ کھوئے ہوئے تنوع کو بحال کرنا ہے اور چاول کی کھیتی کا انقلاب لانا ہے۔

یہ الگ قسم کا انقلاب ہے، جس کی قیادت ایک الگ لینن کر رہے ہیں۔

پولور تعلقہ کے سینگونم گاؤں کے جس گودام میں وہ دھان کی سینکڑوں بوریوں کا ذخیرہ کرتے ہیں، وہ ان کے کھیتوں سے ملحق بکریوں کا ایک شیڈ ہے۔

باہر سے دیکھنے پر اس چھوٹی سی عمارت میں کچھ بھی غیرمعمولی نظر نہیں آتا ہے، لیکن اندر قدم رکھتے ہی یہ تاثر تیزی سے بدل جاتا ہے۔ ’’یہ کروپّو کؤونی، یعنی سیرگ سنبا ہے،‘‘ لینن چاول کی بوریوں کو سوئے کی مدد سے چھید کر چند دانے نکالتے ہوئے کہتے ہیں۔ انہوں نے دھان کی ان دو روایتی اقسام کو اپنی ہتھیلی پر رکھا ہے۔ پہلی کالی اور چمکدار ہے، جب کہ دوسری باریک اور خوشبودار۔ وہ ایک کونے میں رکھے لوہے کے پرانے تول کے برتن – پیڈی، مرکّا – لے کر آتے ہیں جن میں مختلف مقدار میں دھان کے بیج رکھے ہوئے ہیں۔

شور شرابہ اور ہنگامے سے دور اس شیڈ سے ہی لینن چاولوں کو تول کر پیک کرتے ہیں اور اسے شمال میں بنگلور اور جنوب میں ناگرکوئل تک بھیجتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ کئی دہائیوں سے دھان اگا اور بیچ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ایسا کرتے ہوئے ابھی چھ سال ہی ہوئے ہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: لینن کے دھان کے کھیت۔ دائیں: وہ ہمیں ابھی ابھی پیٹ کر نکالے ہوئے دھان کے بیج دکھاتے ہیں

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: لینن اپنے گودام کے اندر کام کرتے ہوئے۔ دائیں: کروپو کؤونی ایک روایتی چاول ہے

’’دھان ہماری دنیا کا جزو کبھی نہیں تھا،‘‘ ۳۴ سالہ لینن مسکراتے ہیں۔ اس ضلع کی بارش پر منحصر زمینیں طویل عرصے سے پھلی دانہ، تِل اور باجرے کا مسکن رہی ہیں۔ ’’ہماری پرمپرائی [وراثت] میں دھان کی کاشت نہیں ہے۔‘‘ ان کی ۶۸ سالہ ماں ساوتری، کارامنی (لوبیا) اگاتی اور فروخت کرتی تھیں۔ ہر چارمٹھی لوبیا فرخت کرنے پر وہ  دو مٹھی مفت میں دے دیتی تھیں۔ ’’اماں نے جتنا کچھ مفت میں دے دیا اگر آج ہم اس کا حساب لگائیں، تو یہ خاصی بڑی رقم ہو گی!‘‘ ان کے کنبے کی اصل فصل کالکا (مونگ پھلی) تھی، جسے ان کے والد ۷۳ سالہ ایلو ملئی اگاتے اور فروخت کرتے تھے۔ اور کارامنی کی ضمنی فصل کی آمدنی اماں کے لیے ہوتی تھی۔

’کسان بننے سے پہلے‘ کی لینن کی کہانی چنئی سے شروع ہوتی ہے، جہاں وہ ایک کارپوریٹ ملازم تھے۔ ان کے پاس دو ڈگریاں (اور ایک ماسٹر جس کو انہوں نے چھوڑ دیا تھا) تھیں۔ وہ اچھی تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ لیکن پھر انہوں نے ایک کسان کے بارے میں ایک دل خراش فلم – اونپتو روپائی نوٹّو (نو روپے کا نوٹ) – دیکھی۔ فلم نے ان کے اندر اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی خواہش پیدا کردی۔ لہٰذا، لینن ۲۰۱۵ میں گھر واپس آ گئے۔

’’اس وقت میں ۲۵ سال کا تھا اور میرے سامنے کام کا کوئی خاکہ یا ایجنڈہ نہیں تھا۔ میں نے صرف سبزیاں اور پھلیاں اگائیں۔‘‘ تین سال بعد متعدد وجوہات کی بناپر وہ دھان اور گنے کی کھیتی کی طرف مائل ہوئے۔ مشینیں، بازار اور دیگر چیزوں کے علاوہ بندروں نے بھی ان کے فیصلہ کو متاثر کیا۔

اور بارش، وہ مزید کہتے ہیں۔ ’’ممکن ہے کسان ’موسمیاتی تبدیلی‘ کی اصطلاح کا استعمال نہ کریں، لیکن وہ آپ سے اس کے متعلق بات ضرور کریں گے۔‘‘ لینن کہتے ہیں کہ بے موسم بارش اس مہمان کے انتظار کے مترادف ہے جو کبھی کھانے پر نہیں آتا۔ ’’بھوک سے نڈھال ہو کر آپ مرجائیں گے تو وہ آ کر میت پر ہار ڈالیں گے…‘‘

نیم کے درخت کے نیچے گرینائٹ کی بینچ پر بیٹھے ریشہ دار آم کا لطف اٹھاتے ہوئے لینن لگاتار تین گھنٹے تک بات کرتے ہیں، اس دوران وہ تمل ناڈو میں نامیاتی کاشتکاری (آرگینک فارمنگ) کے بانی اور قدیم تمل شاعر تیروولوور، نمّلوار اور چاول کے مشہور محافظ دیبل دیب کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ لینن کا کہنا ہے کہ روایتی اقسام اور نامیاتی کھیتی کی جانب پیش قدمی ضروری اور ناگزیر ہے۔

چار سالوں کے دوران ہماری تین ملاقاتوں میں انہوں نے مجھے زراعت، موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع اور بازاروں کی جانکاری دی۔

یہ لینن کے ساتھ ساتھ اس چاول کی بھی کہانی ہے، جو اب بارانی زمینوں پر اور کبھی ہمیشہ خشک رہنے والے کھیتوں میں گہرے، گہرے بورویلوں کے پانی سے اور ایسے بیجوں سے جن کے ناموں میں حروف اور نمبر ہوتے ہیں، اگائے جاتے ہیں…

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

لینن کی ماں ساوتری چاول کی پیمائش کے لیے استعمال ہونے والے لوہے کے برتن، پیڈی اور ماراکا (بائیں)، دکھارہی ہیں۔ وہ پیڈی میں توئے ملّی دھان (دائیں) رکتھی ہیں، جو دھان کی ایک روایتی قسم ہے

*****

بہت ساری بھینسوں والے کسان
تمہارے اناج کے ڈھ۔یر جیسا کوہستان!
سورج سے پہلے پھوٹتی ہے تمہاری پو
پوری ہونے سے قبل ہی بجھ جاتی ہے نیند کی لو
اور لپک جاتے ہیں تمہارے بھوکے ہاتھ
تناول کرنے بہترین چاول کے بھات
بڑی بڑی کالی آنکھوں والی ورال مچھلی کے ساتھ۔

نٹری نئی ۶۰، مروتم تینئی۔

تمل منظرنامہ پر چاول ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ یہ خوبصورت نظم، جو ایک کسان، اس کے اناج اور اس کے طعام کا بیان کرتی ہے، تقریباً ۲۰۰۰ سال پہلے سنگم دور کی ہے۔ برصغیر میں چاول کی کاشت تقریباً آٹھ ہزار سال سے ہوتی آ رہی ہے۔

’’آثار قدیمہ اور جینیاتی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ایشیائی چاول کی ذیلی نوع انڈیکا [برصغیر کے تقریباً تمام کاشت شدہ چاول اسی گروپ سے تعلق رکھتے ہیں] تقریباً ۷۰۰۰ سے ۹۰۰۰ سال قبل مشرقی ہمالیہ کے دامن میں اگائے گئے تھے،‘‘ دیبل دیب ’سائنٹفک امریکن‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’اس کے بعد آنے والے الفیوں میں جانوروں کو پالتو بنانے کے عمل اور کاشت کاری کے دوران، روایتی کسانوں نے زمینوں کا ایک خزانہ تیار کیا جو متنوع مٹیوں، زمین کی وضع اور آب و ہوائے مقصورہ (مائیکرو کلائمیٹ) سے بالکل ہم آہنگ تھا اور مخصوص ثقافتی، غذائیت یا طبی ضروریات کے لیے موزوں تھا۔‘‘ ۱۹۷۰ کی دہائی تک ہندوستانی کھیتوں میں ’’تقریباً ایک لاکھ ۱۰ ہزار  الگ الگ اقسام‘‘ اگائی جاتی تھیں۔

لیکن اس کے بعد  – خاص طور پر سبز انقلاب کے بعد – اس تنوع کا زیادہ تر حصہ تباہ ہوگیا۔ اپنی یادداشتوں کی دوسری جلد ’’سبز انقلاب‘‘ میں، ۶۰ کی دہائی کے وسط میں خوراک اور زراعت کے مرکزی وزیر سی سبرامنیم لکھتے ہیں، ’’شدید اور وسیع پیمانے پر خشک سالی کے حالات کے نتیجے میں ۱۹۶۵-۶۷ کے سالوں میں غذائی اجناس کی شدید قلت پیدا ہوگئی،‘‘ اور لوک سبھا میں ’’امریکہ سے پی ایل-۴۸۰ کے تحت غذائی اجناس کی درآمد پر مسلسل انحصار پر ایک قرارداد پیش کی گئی۔ یہ انحصار ہمارے لیے توہین آمیز اور ہماری معیشت کے لیے نقصاندہ تھا۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

لینن دھان کی اقسام توئے مَلّی (بائیں) اور مُلّن کئیما (دائیں) کی کاشت اور تحفظ کرتے ہیں

ریاست اور اس کے رہنماؤں کے پاس دو متبادل تھے: زمین کی دوبارہ تقسیم، جو کہ ایک سیاسی (اور ممکنہ طور پر نفاقی) حل تھا، اور دوسرا سائنسی اور تکنیکی (جس سے تمام کسانوں کو یکساں طور پر فائدہ نہیں ہو سکتا تھا)۔ انہوں نے چاول اور گندم کی زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کو متعارف کرانے والے متبادل کا انتخاب کیا۔

پانچ دہائیوں کے بعد ہندوستان اپنی کھپت سے زیادہ چاول اور گندم پیدا کرتا ہے اور وہ بہت سی اجناس کا ایکسپورٹر ہے۔ اس کے باوجود زرعی شعبہ بحران کا شکار ہے۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین دہائیوں میں چار لاکھ سے زیادہ کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ ملک نے کسانوں کی طرف سے منصفانہ قیمتوں اور منصفانہ پالیسیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھے ہیں۔ اور جب تک آپ یہ مضمون پڑھیں گے، درجن بھر کسان زراعت چھوڑ چکے ہوں گے۔

یہاں سے ہم لینن اور ان کے انقلاب کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ زراعت اور فصلوں کے اندر تنوع پیدا کرنا کیوں ضروری ہے؟ کیونکہ، مویشیوں، کپاس اور کیلے کی طرح، دنیا میں کم سے کم نوع کی افزائش اور کاشت کی جا رہی تھی، اور زیادہ دودھ، سوت اور پھل حاصل کیے جا رہے تھے۔ دیب خبردار کرتے ہیں کہ ’’مونو کلچرز (یک فصلی کھیتی) کا وسیع پھیلاؤ کچھ کیڑوں کی افزودگی کی دعوت دیتا ہے۔‘‘

زرعی سائنسداں اور ہندوستان میں سبزانقلاب کے بانی، ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن نے ۱۹۶۸میں ہی متنبہ کیا تھا کہ ’’اگر مقامی طور پر موافق فصلوں کی تمام اقسام کو ایک یا دو زیادہ پیداوار والے اقسام کے ساتھ تبدیل کر دیا جائے، تو اس کے نتیجہ میں سنگین بیماریاں پھیل سکتی ہیں، جو تمام فصلوں کو تباہ کر سکتی ہیں۔‘‘

تاہم چاول کی نئی اقسام  پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں۔ ۲۸ نومبر ۱۹۶۶ کو انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ذریعہ متعارف کرایا جانے والا پہلا جدید چاول، جس کا ’’مجہول نام آئی آر ۸‘‘ تھا۔ جلد ہی اس نیم بونے چاول کو ’’معجزہ چاول‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ ایشیا اور اس سے بعید بڑی تبدیلیوں کا سبب بنا، یہ باتیں رائس ٹوڈے میں شائع ایک مضمون میں کہی گئی ہیں۔

اپنی کتاب ہنگری نیشن میں بینجمن رابرٹ سیگل نے مدراس (اب چنئی) کے مضافات میں ایک امیر کسان کا ذکر کیا ہے، جو اپنے مہمانوں کو ناشتہ میں ’’آئی آر ۸ اڈلی‘‘ پیش کر رہا تھا۔ اس کے مہمانوں – بشمول دیگر کسانوں اور صحافیوں کو – ’’اطلاع دی گئی کہ آئی آر-۸ چاول فلپائن سے ہندوستان لایا گیا ہے، ان کے دانے جس مقدار میں دستیاب تھے اتنے ہی لذیذ تھے۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

دھان کا لہلہاتا سرسبز کھیت (بائیں) اور دھان کے دانے (دائیں)

’اسٹفڈ اینڈ اسٹاروڈ‘ میں راج پٹیل لکھتے ہیں کہ نئے بیجوں کے کارگر ہونے کے لیے، انہیں ’’لیبارٹری میں تیار کیے گئے کاشتکاری کے حالات، جس میں آبپاشی، کھاد اور کیڑے مار ادویات شامل ہیں، سے مطابقت کی ضرورت تھی۔‘‘ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’’کچھ مقامات پر، جزوی طور پر سبز انقلاب کی تکنیک کی وجہ سے وسیع پیمانے پر بھوک کو قابو میں رکھا گیا تھا۔ لیکن اس کے عوض ادا کی گئی سماجی اور ماحولیاتی قیمت زیادہ تھی۔

اسٹیٹ آف رورل اینڈ ایگریرین انڈیا رپورٹ ۲۰۲۰ کے مطابق، صرف گندم، چاول اور گنے کو خصوصی طور پر سبسڈی دینے کی وجہ سے کسان بڑے پیمانے پر ان فصلوں کی طرف مائل ہوئے۔ ’’نتیجتاً خشکی والے علاقوں میں آبپاشی پر منحصر فصلوں کو فروغ دے کر فصل کے رائج نمونہ کو بگاڑ دیا گیا اور ہماری خوردنی اشیاء کے تنوع میں تخفیف کر کے ان کے بدلے انتہائی پالش شدہ چاول، گندم اور ریفائنڈ چینی کی خالص کیلوریز کے ذریعہ ہمارے لوگوں کے صحت کو بھی متاثر کیا گیا۔‘‘

لینن کا کہنا ہے کہ یہ ساری باتیں تیرو ونّ ملئی ضلع کے لوگوں کی یاداشت میں آج بھی تازہ ہے۔ ’’اپّا کے زمانے میں صرف ماناوری [بارش پر مبنی] فصلیں اور پھلیاں بڑے پیمانے پر اگائی جاتی تھیں۔ جھیل کے قریب سانبا [دھان] کی یک فصلی کھیتی ہوتی تھی۔ اب اس سے کہیں زیادہ سیراب زمین ہے۔ اپا کو تقریباً ۲۰ سال پہلے بینک لون اور بورویل کنکشن ملا تھا۔ اس زمانے میں آپ کو ہر جگہ ٹھہرے ہوئے پانی میں دھان کے کھیت اس طرح نظر نہیں آتے تھے،‘‘ وہ اپنے پیچھے والے کھیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، جس میں دھان کے چھوٹے اور سبز پودے لگے ہیں، پانی کیچڑ آمیز اور بھورے رنگ کا ہے، اور اس میں درختوں، آسمان اور سورج کی پرچھائیاں نظر آ رہی ہیں۔

’’پرانے کسانوں سے معلوم کریں،‘‘ لینن کہتے ہیں، ’’وہ آپ کو بتائیں گے کہ آئی آر ۸ نے کیسے ان کا پیٹ بھرا۔ وہ یہ بھی بتائیں گے کہ ان کے مویشیوں کے لیے چارہ کم ہو گیا تھا۔ کلس پکّم میں کسانوں کے اجلاس میں، کئی کاشتکاروں نے اس سے متعلق لطیفے سنائے۔ ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ کچھ کسان خاندانوں میں، چھوٹے قد کے افراد کو اب بھی ایریٹّو [تمل میں آئی آر ۸] کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے،‘‘ انہوں نے کہا اور قہقہوں کا ایک دور شروع ہو گیا۔

لیکن جب حیاتیاتی تنوع کا موضوع آیا تو ہنسی غائب ہوگئی۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: لینن گودام کے راستے اپنے کھیتوں میں داخل ہوتے ہیں۔ دائیں: وہ کھیت جہاں وہ وراثتی دھان کی اقسام کا تحفظ اور اس کی کاشت کرتے ہیں

*****

لینن سے میری پہلی ملاقات ۲۰۲۱ میں ہوئی تھی۔ وہ کسانوں کے ایک بڑے گروپ سے موسمیاتی تبدیلی اور زراعت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ یہ تیرو ونّ ملئی ضلع کے کلس پکّم قصبہ میں پارمپریہ ودھئیگل مئیئم (روایتی بیجوں کے فورم) کا ماہانہ اجلاس تھا۔ یہ گروپ ہر مہینہ کی ۵ تاریخ کو جمع ہوتا ہے اور اس ستمبر کی صبح خاصی گرم تھی اور دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ مندر کے عقب میں نیم کے درخت کی قدرے ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھے ہم نے انہیں سنا، ان کے لطیفوں پر ہنسے اور بہت کچھ سیکھا۔

’’جس لمحے ہم اپنا تعارف نامیاتی کسان کے طور پر کراتے ہیں، تو لوگ یا تو ہمارے پیر چھوتے ہیں یا ہمیں احمق سمجھتے ہیں،‘‘ لینن بتاتے ہیں۔ ’’لیکن آج کے نوجوان نامیاتی کاشتکاری کے بارے میں کیا جانتے ہیں،‘‘ فورم کے شریک بانی، ۶۸ سالہ پی ٹی راجندرن دریافت کرتے ہیں۔ ’’انہوں نے پنچ کوّیم [گائے کے پیشاب، گوبر کے علاوہ دیگر اجزاء کو ملا کر تیار کیا جاتا ہے، جو نمو کو فروغ دیتا ہے اور پودوں کو قوت مدافعت بخشتا ہے] کے بارے میں سن رکھا ہوگا۔ لیکن نامیاتی کاشتکاری اس سے بعید بھی بہت کچھ ہے۔‘‘

کسانوں کے لیے بعض اوقات تبدیلی خودکار طور پر ہوتی ہے۔ لینن کے والد ییلو ملئی نے کیمیائی کیڑے مار ادویات اور کھادیں صرف اس لیے ترک کر دیے کہ وہ بہت مہنگی تھیں۔ لینن کہتے ہیں، ’’چھڑکاو کے ہر دور کے بعد ہمیں چند ہزار روپوں کا خسارہ ہوتا تھا۔ اپا نے پسومئی وکٹن [ایک زرعی رسالہ] پڑھا اور قدرتی زراعت پر مبنی اجزاء کے ساتھ تجربہ کیا اور مجھے چھڑکاؤ کرنے کے لیے دیا، جو میں نے کیا۔‘‘ یہ کارگر ثابت ہوا۔

ہر مہینے کسان بحث کرنے کے لیے ایک موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شکر قند، دالیں اور کچی گھانی کے تیل فروخت کے لیے لاتے ہیں۔ ایک شخص حاضرین کے لیے کھانے کا بندوبست کرتا ہے۔ دوسرا شخص دال اور سبزی لاتا ہے۔ چاول کی ایک روایتی قسم کھلے میں لکڑی کے چولہے پر پکائی جاتی ہے اور کیلے کے پتے پر سبزیوں اور ذائقہ دار سامبھر کے ساتھ گرم گرم پیش کیا جاتا ہے۔ ۱۰۰ سے زائد شرکاء کے لیے دوپہر کے طعام کے مد میں تقریباً ۳۰۰۰ روپے خرچ ہوتے ہیں۔

کسان اس دوران موسمیاتی تبدیلی پر بحث کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نامیاتی کاشتکاری، بیج کی روایتی اقسام اور تنوع اس سے نمٹنے کے کچھ بہترین طریقے ہیں۔

’’گہرے بادل چھا رہے ہیں۔ کسان بارش کی توقع رکھتے ہیں۔ لیکن پھر… کچھ نہیں! جنوری میں جب دھان کی فصل تیار رہتی ہے، تو یہ بارش فصل کو خراب کر دیتی ہے۔ ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟ میرا مشورہ ہے کہ ایک ہی قسم کی فصل پر زیادہ زور نہ دیا جائے،‘‘ راجندرن کہتے ہیں۔ ’’کھیتوں کے مینڈوں کے ساتھ اگاتی [ہمنگ برڈ ٹری] اگائیں اور خشک زمین پر کھجور کے درخت۔ صرف مونگ پھلی اور دھان پر اکتفا نہ کریں۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

پی ٹی راجندرن (بائیں) اور لینن (دائیں) کلس پکّم نامیاتی فورم میں کسانوں سے بات کر رہے ہیں

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: اجلاس کے دوران فروخت ہونے والی دانہ پھلیاں، دالیں اور چاول۔ دائیں: کھانا پکا کر شرکاء  کو پیش کیا جاتا ہے

نامیاتی کسانوں کی تحریک – کم از کم تیرو ونّ ملئی ضلع میں – کسانوں کی آگہی سے صارفین کی آگہی کی جانب منتقل ہو گئی ہے۔ ’’ہمیشہ چاول کی ایک ہی قسم کی امید نہ رکھیں۔‘‘ اس کی بازگشت بار بار سنائی دیتی ہے۔ ’’صارفین پانچ کلو کے تھیلوں میں چاول مانگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑی مقدار میں چاول ذخیرہ کرنے کے لیے ان کے پاس جگہ نہیں ہے۔‘‘ ایک بزرگ کسان طنزیہ لہجے میں کہتے ہیں: ’’جب آپ موٹر سائیکل اور کار پارک کرنے کی جگہ کے ساتھ کوئی مکان خرید سکتے ہیں تو چاول کی ایک بوری کی جگہ کے ساتھ کیوں نہیں خریدتے؟‘‘

کسانوں کا کہنا ہے کہ کم مقدار میں چاول بھیجنا سر درد ہے۔ اس میں چاول کی ایک بڑی تھیلی بھیجنے کی بہ نسبت وقت، محنت اور خرچ کہیں زیادہ آتا ہے۔ ’’ہائبرڈ چاول اب سیپّم [۲۶ کلو کی بوری] کے طور پر فروخت کیے جاتے ہیں۔ پیکیجنگ کی قیمت دس روپے سے بھی کم ہوتی ہے۔ جب کہ اسی مقدار کے چاول کو پانچ کلو کے بنڈل میں فروخت کرنے کے لیے ہم ۳۰ روپے خرچ کرتے ہیں،‘‘ لینن بتاتے ہیں۔ ’’ناکو تلّودو،‘‘ وہ آہ بھرتے ہوئے تمل میں کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے تھکاوٹ سے زبان باہر آ جاتی ہے۔ ’’شہر کے لوگ یہ نہیں سمجھ پاتے کہ گاؤں میں یہ کیسے کیا جاتا ہے۔‘‘

لینن کے لیے کام  اور کام کے اوقات کی ایک سادہ سی تعریف ہے: ’’جب میں نہیں سوتا یا اپنی موٹر سائیکل نہیں چلاتا تو کام کر رہا ہوتا ہوں۔‘‘ اور پھر جب وہ موٹر سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں تو بھی دراصل کام ہی کر رہے ہوتے ہیں؛ وہ گاڑی پر چاول کی بوریاں باندھ کر گاہکوں تک پہنچاتے ہیں۔ ان کا فون بھی ہمیشہ کھلا رہتا ہے، اور صبح پانچ بجے بجنا شروع ہو جاتا ہے، اور رات دس بجے تک جاری رہتا ہے۔ جب تھوڑا وقت ملتا ہے تو وہ وہاٹس ایپ پیغامات کا جواب دیتے ہیں۔ وہ لکھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔

’’ہم نے تیرو ونّ ملئی ضلع میں دھان کی تمام روایتی اقسام پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا ہے۔‘‘ یہ کتابچہ مشہور ہو گیا اور اس کی شہرت دور تک پھیل گئی ہے۔ ’’میری ماما پونّو [ماموں کی بیٹی] نے مجھے وہاٹس ایپ پر بھیجا تھا،‘‘ لینن ہنستے ہیں۔ ’’اس نے کہا ’دیکھو، کسی نے یہ کتنا اچھا کام کیا ہے۔‘ میں نے اسے آخری صفحہ پر نظر ڈالنے کو کہا۔ وہاں میرا نام لکھا تھا: لینن داسن۔‘‘

ایک پراعتماد اور نرم گفتار کسان، لینن تمل اور انگریزی زبانیں بولتے ہیں، اور بہت آسانی سے ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ ان کے والد ییلو ملئی کمیونسٹ تھے (جو ان کے نام کی وضاحت کرتا ہے، لینن مسکراتے ہیں)۔ اپنی جوانی میں لینن نے اپنے کھیتوں میں کئی گھنٹے گزارے، لیکن انہوں نے کبھی بھی کل وقتی نامیاتی کسان اور چاول کے تحفظ کا ماہر بننے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا۔

PHOTO • M. Palani Kumar

لینن دھان کی بہت سی روایتی اقسام دکھتے ہیں

’’گریجویشن کی دو ڈگریاں لینے کے بعد میں نے ایگمور، چنئی میں ملازمت اختیار کی اور وہیں رہنے لگا۔ ۲۰۱۵ میں مارکیٹ ریسرچر کے طور پر میری ماہانہ تنخواہ ۲۵۰۰۰ روپے تھی۔ یہ اچھی خاصی رقم تھی…‘‘

جب وہ سینگونم واپس آئے تو انہوں نے کیمائی کھادوں کا استعمال کرتے ہوئے کاشتکاری کی۔ ’’میں لوکی، بیگن، ٹماٹر اگاتا تھا اور یہیں فروخت کرتا تھا،‘‘ وہ ہمارے بغل والی سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لینن ہر ہفتے اُلوَر سندئی (کسانوں کی جھونپڑیوں) کا بھی سفر کرتے تھے۔ اس دوران ان کی تین بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔

’’میری منجھلی بہن کی شادی کا خرچ ہلدی کی فصل سے پورا ہو گیا تھا۔ لیکن آپ کو معلوم ہے؟ یہ بہت محنت طلب کام ہے۔ پورے کنبے کو ہلدی ابالنے میں شامل ہونا پڑتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

ان کی بہنوں کے اپنے اپنے سسرال جانے کے بعد، لینن کو کھیتوں اور گھر کا کام مشکل معلوم ہوا۔ وہ تنہا بارش پر منحصر الگ الگ فصلیں نہیں اگا سکتے تھے، اور نہ ہی روزانہ توڑنے اور فروخت کرنے کے کام سے نمٹ سکتے تھے۔ یہاں تک کہ موسمی فصلیں اگانے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی – کٹائی کا وقت طے کرنے اور اسے کیڑوں، طوطوں اور شکاریوں سے بچانے میں وسائل صرف ہوتے تھے۔ ’’مکئی، مونگ پھلی، گوار پھلی کی حفاظت کرنے اور انہیں جمع کرنے کے لیے بہت سے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم اپنے دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں  اور اپنے بوڑھے والدین کی معمولی تعاون سے یہ سب کچھ کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘

اسی دوران بندروں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ’’آپ وہ ناریل کا درخت دیکھ رہے ہیں؟ وہاں سے یہاں تک،‘‘ وہ اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ’’بندر درختوں کی چوٹیوں تک جاسکتے ہیں۔ وہ ان برگدوں پر سوتے تھے۔ ان میں سے چالیس یا ساٹھ ہمارے کھیتوں پر حملہ کرتے تھے۔ وہ مجھ سے تھوڑا ڈرتے تھے۔ میں تیزی سے انہیں بھگا سکتا تھا۔ لیکن وہ ہوشیار تھے۔ اور میرے والدین کے ساتھ نفسیاتی حربے استعمال کیا کرتے تھے۔ ایک یہاں آ جاتا، جب وہ اس کا پیچھا کرنے جاتے تو دوسرا اس درخت سے اتر کر فصل توڑ لیتا…ہم جو کہانیوں کی کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ غلط نہیں ہے، بندر ہوشیار ہوتے ہیں!‘‘

یہ خطرہ تقریباً چار سال تک برقرار رہا، اور تین کلومیٹر کے دائرے میں زیادہ تر کسانوں نے ایسی فصلوں کا رخ کیا جسے بندر نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ لینن اور ان کے کنبے نے دھان اور گنے کی کاشت کو ترجیح دی۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • Sabari Girisan

لینن (بائیں) اپنے دوست ایس وگنیش (دائیں) کے ساتھ مل کر موٹر سائیکل پر چاول کی بوریاں لاد رہے ہیں، وگنیش بھی ایک کسان اور تقسیم کار ہیں

*****

لینن کا کہنا ہے کہ ’’دھان ہمارے لیے باعث فخر ہے۔‘‘ یہ یہاں کی ایک باوقار فصل ہے۔ مویشی پالنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر ان کی گائیں اور بکریاں دوسرے کھیتوں میں چرنے چلی جائیں، لیکن اگر کھیت دھان کا ہے تو وہ آ کر معافی مانگیں گے، خواہ ان کے جانور حادثاتی طور پر ہی کھیت میں کیوں نہ گھس آئے ہوں۔ وہ معاوضہ کی پیشکش بھی کریں گے۔ اس فصل کا اس قدر احترام کیا جاتا ہے۔‘‘

اس فصل کو تکنیک اور مشینوں کے فوائد اور بازار تک رسائی حاصل ہے۔ لینن اسے سوریم (آرام) کہتے ہیں۔ ’’خیال رہے کہ دھان کے کاشتکار سماجی حل نہیں بلکہ تکنیکی حل کے خواہاں ہیں، جو یک فصلی کاشت کی طرف جاتا ہے۔‘‘

زرعی زمین کو روایتی طور پر پُنسیئی نیلم (خشک یا بارش پر منحصر زمین) اور ننسیئی نیلم (گیلی یا سیراب زمین) میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ’’پُنسیئی میں آپ متنوع فصلیں اُگا سکتے ہیں،‘‘ لینن بتاتے ہیں۔ ’’بنیادی طور پر اپنی گھریلو ضرورت کی ہر چیز اگا سکتے ہیں۔ کسانوں کے پاس جب وقت رہتا تھا تو وہ پولودی – خشک، خاک آلود زمین – جوتا کرتے تھے۔ یہ وقت اور محنت کی ’بچت‘ کی طرح تھا، جیسے کھیت کو ’بینک‘ میں رکھا گیا ہو۔ لیکن مشین کاری کے ساتھ وہ سب کچھ بدل گیا۔ راتوں رات آپ ۲۰ ایکڑ زمین جوت سکتے تھے۔‘‘

کسان فصل کے ایک چکر کے لیے پُنسیئی میں دیسی چاول کی اقسام اگاتے تھے۔ ’’وہ چاول کی دو مشابہ اقسام پونکار یا کولّنکار کا انتخاب کرتے تھے،‘‘ لینن بتاتے ہیں۔ ’’فرق فصل کی چکر کی مدت میں تھا۔ اگر آپ پانی کو لے کر فکرمند ہیں تو بہتر ہے کہ پونکار لگائیں جو ۷۵ دنوں میں تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسری قسمیںم۹۰ دنوں میں تیار ہوتی ہیں۔‘‘

لینن کا کہنا ہے کہ مشین کاری نے زمین کے چھوٹے سے چھوٹے ٹکڑوں میں بھی دھان کی کھیتی کو ممکن بنا دیا ہے، خواہ کھیت میں زیادہ پانی ہو یا نہ ہو۔ ’’ان کھیتوں میں ۱۰ یا ۱۵سالوں سے بیلوں کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ کرایے [یا یہاں تک کہ فروخت] کے لیے دستیاب نئی مشینوں کے ساتھ  ایک یا آدھا ایکڑ زمین پر ہل چلایا جا سکتا ہے اور ان کی مدد سے زیادہ لوگوں کے لیے دھان اگانا ممکن ہوا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ دوسری مشینوں کا رخ کرتے ہیں جو دھان کے پودے لگا، اکھاڑ، نکائی، کٹائی اور تھریش کرسکتی ہیں۔ ’’جہاں تک دھان کا سوال ہے تو فصل لگانے سے لے کر فصل کاٹنے تک مشینیں آپ کے لیے سب کچھ کریں گی۔‘‘

بعض اوقات یہ انسان اور مشینوں کے درمیان لین دین سے  زیادہ کی چیز ہوتی ہے۔ بارش پر منحصر فصلوں – جیسے تل – کا ذخیرہ کرنے، خشک کرنے اور تھریشنگ کے لیے بہت زیادہ جگہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ’’لیکن ایک بار جب آپ نے بیج بو دیے، تو اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی،‘‘ لینن اپنے ہاتھ کو ایک کامل نیم دائرے کی شکل بنا کر بیج بونے کے عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ’’اس میں آپ آرام کرسکتے ہیں۔‘‘ لیکن دھان نے اس کی جگہ لے لی ہے، کیونکہ اس میں بہتر پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ’’اگر آپ ۵ء۲ ایکڑ میں تل اگاتے ہیں تو آپ کو صرف ۱۰ بوریوں کی پیداوار ملے گی۔ آپ اسے شیئر آٹو میں رکھ کر بازار لے جا سکتے ہیں۔ جہاں تک دھان کا سوال ہے، اتنی ہی زمین سے آپ اتنی پیداوار حاصل کر لیں گے کہ ایک ٹِپّر (چھوٹا ٹرک) بھر جائے!‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar

پونکار قسم والا دھان کا کھیت

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ایک کھلیان۔ دائیں: گودام میں لینن

دوسرا عنصر چاول کے لیے منضبط (ریگولیٹڈ) زرعی منڈی ہے، جو سپلائی کی کڑی اصلاح شدہ اقسام کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ سبز انقلاب کے بعد قائم ہونے والی جدید رائس ملوں میں معیاری مشینری نصب ہیں، جن میں چھلنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ مختلف سائز اور شکلوں والی مقامی اقسام کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ملوں میں رنگین چاولوں کو پروسیس نہیں کیا جاسکتا۔ ’’چاول مل مالکان سبز انقلاب کے بڑے حامی نہیں ہوسکتے یا اس کے بارے میں ان کی کوئی رائے نہیں ہو سکتی ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ باریک، چمکدار، سفید چاول چاہتے ہیں – عام طور پر ہائبرڈ – اور ان کو پروسیس کرنے کے لیے وہ اپنے مل کو اس کے موافق بناتے ہیں۔‘‘

لینن وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جو کسان تنوع کو فروغ دیتے ہیں اور روایتی چاول اگاتے ہیں انہیں اپنے علم، چھوٹے (اور افسوسناک طور پر پرانے ہوتے ہوئے) پروسیسنگ یونٹس، اور غیرمتوقع سماجی امداد پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ’’جبکہ زیادہ پیداوار والی چاول کی جدید اقسام کے لیے یہ سب کچھ آسانی سے دستیاب ہے۔‘‘

*****

تیرو ونّ ملئی، چنئی کے جنوب مشرق میں تقریباً ۱۹۰ کلومیٹر کی دوری پر واقع  ایک خشکی سے گھرا ہوا ضلع ہے۔ کم از کم ہر دوسرا شخص جو یہاں رہتا ہے وہ ’’زرعی کاموں‘‘ پر منحصر ہے۔ علاقے میں شوگر ملوں کے علاوہ چاول کی متعدد ملیں ہیں۔

سال ۲۰۲۰-۲۱ میں، تیرو ونّ ملئی، تمل ناڈو کا دھان کی کاشت کا تیسرا سب سے بڑا رقبہ تھا۔ لیکن  پیداوار کے معاملے میں یہ پہلے مقام پر تھا۔ ریاست میں کل چاول کی پیداوار کا ۱۰ فیصد سے کچھ زیادہ حصہ اس ضلع سے آتا ہے۔ ڈاکٹر آر گوپی ناتھ، پرنسپل سائنسداں، ایکو ٹیکنالوجی، ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن کہتے ہیں، ’’ تیرو ونّ ملئی میں چاول کی اوسط پیداوار ۳۹۰۷ کلوگرام فی ہیکٹیئر ہے، جو ریاست کی اوسط پیداوار ۳۵۰۰ کلوگرام فی ہیکٹیئر سے زیادہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر آر رینگ لکشمی، ڈائریکٹر – ایکو ٹیکنالوجی، ایم ایس ایس آر ایف، کہتی ہیں کہ تیرو ونّ ملئی ضلع میں دھان کی کاشت میں تیزی آئی ہے۔ ’’اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ایک، جب بارش ہوتی ہے تو کسان کم سے کم خطرہ مول لیتے ہوئے دستیاب پانی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور دھان اگاتے ہیں۔ اس سے انہیں اچھی پیداوار ملتی ہے اور ممکنہ طور پر منافع بھی حاصل ہوتا ہے۔ دو، ان علاقوں میں جہاں یہ گھریلو خوراک کی ضرورت کے لیے اگایا جاتا ہے وہاں کسان اسے ضرور اگائیں گے۔ اور آخر میں، زیر زمین پانی سے آبپاشی کی سہولت میں اضافہ کے ساتھ، فصل کے ایک فصلی چکر کے علاوہ بھی دھان اگائے جاتے ہیں۔ لہٰذا، سطح کے پانی پر منحصر دھان کی کھیتی کے رقبے میں اضافہ نہ ہونے کے باوجود پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

دھان کی فصل کو بہت زیادہ پانی دینا پڑتا ہے۔ ’’نابارڈ کی ’بڑی ہندوستانی فصلوں کی آبی پیداواری میپنگ‘ (۲۰ۤ۱۸) کے مطابق، ایک کلو چاول پیدا کرنے کے لیے تقریباً ۳۰۰۰ لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کے علاقے میں یہ ضرورت ۵۰۰۰ لیٹر تک پہنچ جاتی ہے،‘‘ ڈاکٹر گوپی ناتھ کہتے ہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar

لینن کے کھیت میں تازہ تازہ لگائے گئے دھان کے پودے

لینن کے کھیتوں کی آبپاشی کا انحصار ۱۰۰ فٹ گہرے کنویں پر ہے۔ ’’یہ ہماری فصلوں کے لیے کافی ہے۔ ہم موٹر کو تین انچ کے پائپ کے ساتھ ایک بار میں دو گھنٹے اور زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے تک چلا سکتے ہیں۔ لیکن،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’میں اسے چلتا چھوڑ کر ادھر ادھر نہیں گھوم سکتا…‘‘

ڈاکٹر رینگ لکشمی کہتی ہیں کہ ۲۰۰۰ اور ۲۰۱۰ کے درمیان آبپاشی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ ’’زیادہ ہارس پاور والی بورویل موٹریں بھی اسی وقت دستیاب ہوئیں۔ پلس ڈرلنگ مشینیں عام ہوگئیں۔ تمل ناڈو میں تروچین گوڈے بورویل سے متعلق سامان کا مرکز بن گیا۔ بعض اوقات، کسان ہر تین سے چار سال بعد نیا بورویل ڈالتے ہیں۔ اگر وہ صرف بارش کے پانی پر انحصار کرتے، تو ان کی مصروفیت صرف تین سے پانچ ماہ کے لیے ہوتی۔ آبپاشی کی سہولت کی وجہ سے ان کے پاس مسلسل کام رہتے اور پیداوار متاثر نہیں ہوتی۔ لہٰذا، یہ چاول کی پیداوار کے لیے ایک اہم موڑ تھا۔ ۱۹۷۰ کی دہائی تک، یہ زیادہ تر تقریبات کا کھانا تھا؛ اب روزانہ پکایا جاتا ہے۔ استعمال میں اضافہ کے ساتھ ساتھ عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعہ اسے وسیع پیمانے پر دستیاب کرایا گیا۔‘‘

تمل ناڈو میں کل قابل کاشت زمین کے ۳۵ فیصد حصہ پر دھان کی کھیتی ہوتی ہے۔ لیکن کتنے کسان نامیاتی اشیاء کے ساتھ مقامی اقسام کی فصل اگاتے ہیں؟

یہ ایک اچھا سوال ہے، لینن مسکراتے ہیں۔ ’’اگر آپ اسے ایکسل شیٹ میں درج کرتے ہیں، تو آپ کو سیراب شدہ دھان کی زمین کے صرف ۱ یا ۲ فیصد حصہ میں روایتی اقسام کی فصلیں ملیں گی۔ یہ اعداد زیادہ بھی ہو سکتے ہیں، لیکن بڑی بات یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ پوری ریاست میں ہوا ہے۔

لینن دریافت کرتے ہیں کہ جدید اقسام کی فصلیں اگانے والے کاشتکاروں کو کس طرح کی تربیت دی جاتی ہے؟ ’’اس کا واحد مقصد پیداوار اور آمدنی میں اضافہ کرنا ہے۔ ان کی تمام ہدایات ’اوپر سے‘، چنئی یا کوئمبٹور سے پہلے مختلف بلاکوں میں آتی ہیں اور پھر انفرادی کسانوں تک پہنچتی ہیں۔ کیا یہ انہیں [ان کی سوچ سے] روکنے کا طریقہ نہیں ہے؟‘‘ لینن کو حیرت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صرف اس وقت جب وہ قدر میں اضافے کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان کا نقطہ نظر ’نیچے سے اوپر‘ کی طرف ہوتا ہے۔ پیداوار اور منافع پر زور کے ساتھ ’’ہمیں چاول کی پروسیسنگ، پیکنگ وغیرہ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے…۔‘‘ کسانوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ زیادہ پیداوار کے بھرم میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar

لینن اور ان کے دوست مختلف اقسام کے دھان کے ساتھ

لینن کا کہنا ہے کہ نامیاتی کسان، بطور ایک گروپ، تنوع، پائیداری اور ایسے دوسرے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں جن سے بڑے پیمانے پر لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ ’’کیا ایک میز پر بیٹھ کر چاول یا کاشتکاری پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہیے، جس میں تمام شرکاء کو برابری کا موقع دیا جائے؟ کسانوں کو اس بھرپور تجربہ سے کیوں محروم رکھا جائے؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔

تیرو ونّ ملئی میں نامیاتی کاشتکاری بہت مقبول ہے، ’’خاص طور پر نوجوان مرد کسانوں کے درمیان۔ ان میں ۲۵ سے ۳۰ سال کی عمر کے گروپ کے کم از کم نصف کسان کیمیکل سے پاک کاشتکاری کرتے ہیں،‘‘ لینن کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں زمینی سرگرمیاں مستحکم ہیں، اور ضلع میں کئی مشیر موجود ہیں۔ ’’ان مشیروں میں زمینداروں سے لے کر ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس ایک سینٹ بھی زمین نہیں ہے!‘‘ وہ اس ضمن میں کلس پکّم فورم کے بانی وینکٹاچلم ائیا، تمل ناڈو میں نامیاتی کاشتکاری کے بانی نمّالوار، پامیَن (مفکر اور نامیاتی کسان)، میناکشی سندرم، نامیاتی کسان اور زرعی سائنسداں ڈاکٹر وی اری ووڈئی نمبی (جو ضلع کے نوجوانوں کے لئے مثال رہے ہیں) کے رول پر زور دیتے ہیں۔ ’’ایسی کئی نامور شخصیات ہیں جنہوں نے ہمیں سکھایا ہے۔‘‘

کچھ کسانوں کے پاس (غیر زرعی) آمدنی کا کوئی اضافی ذریعہ بھی ہوتا ہے۔ ’’وہ سمجھتے ہیں کہ کاشتکاری سے حاصل ہونے والی رقم شاید کافی نہ ہو۔‘‘ ضمنی فصلوں سے بمشکل ان کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔

میرے تیسرے سفر کے دوران، مارچ ۲۰۲۴ میں لینن کہتے ہیں کہ کسان ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے۔ ’’میں تجربہ سے فصلوں کے بارے میں سکھتا ہوں: وہ اقسام جو لمبی ہوتی ہیں اور اچھی پیداوار دیتی ہیں، بارش وغیرہ کو برداشت کر سکتی ہیں۔ میں چار نکات پر بھی انحصار کرتا ہوں: تحفظ، کاشت، کھپت اور تجارت۔‘‘

ہم شیڈ سے نکل کر ان کے کھیتوں کی طرف جاتے ہیں۔ کالے چنے کے کھیتوں کے دوسری جانب، گنے کے کھیتوں سے ملحق، ’پلاٹوں‘ سے گزر کر تھوڑی دور چلنے کے بعد ہموار چھت والے مکانات دکھائی دیتے ہیں۔ ’’یہاں اب مربع فٹ کے حساب سے زمین فروخت ہوتی ہے،‘‘ لینن ایک سرد آہ بھرتے ہیں۔ ’’سماج وادی ذہنیت کے حامل لوگ بھی اب سرمایہ داری کی گرفت میں پھنس گئے ہیں۔‘‘

لینن۲۵ سینٹ (ایکڑ کا چوتھائی حصہ) میں پونکار اگاتے ہیں۔ ’’میں نے پونکار کے بیج ایک اور کسان کو دیے تھے۔ اس نے فصل کاٹنے کے بعد مجھے وہ بیج واپس کر دیے۔ مفت تبادلہ یہ یقینی بناتا ہے کہ اس سے بیج کے تبادلے میں اضافہ ہو۔

لینن ایک دوسرے کھیت میں ہمیں والئیپو سمبا نسل کے دھان دکھاتے ہیں۔ ’’ایک اور محافظ (کنزرویٹر) کارتی انا نے مجھے اس کے بیج دیے تھے۔‘‘ پکے ہوئے دھان کی بالیوں کو اپنی مٹھی میں جمع کرکے گچھا بناتے ہوئے لینن کہتے ہیں، ’’ہمیں ان اقسام کی طرف جانا پڑے گا۔‘‘ دھان کے دانے والئیپو (کیلے کے پھول) اس خوبصورتی سے لٹکائے جاتے ہیں جیسے کہ انہیں کسی جیولری ڈیزائنر نے تیار کیا ہو۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

لینن ہمیں والئیپو سمبا دھان دکھاتے ہیں، جو ایک روایتی قسم ہے

لینن تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت بھی ڈائیورسٹی فیئر (تنوع میلوں) اور تربیتی پروگراموں کا انعقاد کر کے نامیاتی کاشتکاری اور مقامی اقسام کو مقبول بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ’’راتوں رات حالات کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ وہ کھاد کے تمام کارخانوں اور بیج کی دکانیں بند نہیں کرسکتے، ہے نا؟ تبدیلی آہستہ آہستہ آئے گی،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تمل ناڈو کے زراعت اور کسانوں کی بہبود کے وزیر ایم آر کے پنیر سیلوم نے ۲۰۲۴ کی زرعی بجٹ کی اپنی تقریر میں کہا کہ روایتی دھان کی اقسام کے تحفظ پر نیل جے رامن مشن کے تحت، ’’سال ۲۰۲۳-۲۰۲۴ کے دوران، ۲۰۹۸۹ کسانوں نے ۱۲۴۰۰ ایکڑ کے رقبہ میں روایتی اقسام کاشت کرکے فائدہ اٹھایا۔‘‘

یہ مشن (آنجہانی) نیل جے رامن کے لیے ایک بہترین خراج عقیدت ہے، جنہوں نے ۲۰۰۷ میں ’سیو آور رائس مشن‘ (ہمارا چاول بچاؤ مہم) کے ایک حصہ کے طور پر، تمل ناڈو کے روایتی دھان کے بیجوں کے تبادلے کا تہوار – جسے نیل تیرو ویلا کہا جاتا ہے – شروع کیا۔ ’’۱۲ سالوں کی عرصے میں وہ اور ان کے پیروکاروں – پرجوش نامیاتی کسانوں اور بیجوں کا تحفظ کرنے والوں – نے تقریباً ۱۷۴ اقسام اکٹھا کیں، جن میں سے اکثر معدومیت کے دہانے پر تھے۔‘‘

لینن اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ کسانوں اور صارفین کے درمیان روایتی چاول کو مقبول بنانے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے۔ ’’تحفظ بنیادی شعبہ ہے، جہاں ایک چھوٹے سے علاقے میں دھان کاشت کی جاتی ہے۔ اس کا زور جینیاتی پاکیزگی اور مختلف نوع کے بیجوں کی حفاظت پر ہوتا ہے۔ جہاں تک کاشت کا تعلق ہے، اس کی توسیع کے لیے آپ کو معاشرہ سے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ آخری دو نکات - کھپت اور تجارت - ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آپ بازار بناتے ہیں اور اسے صارفین تک لے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم نے سیرگ سمبا سے اوال [چیوڑا] بنانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش بہت کامیاب رہی تھی،‘‘ وہ خوشی سے کہتے ہیں۔ ’’اب ہم کھوئے ہوئے طریقوں کی بازیافت کرنے اور انہیں مقبول بنانے پر غور کر رہے ہیں!‘‘

لینن کا کہنا ہے کہ سیرگ سمبا کا تمل ناڈو میں ایک ’کرشمائی بازار‘ ہے۔ ’’بریانی کے لیے وہ اس چاول کو باسمتی پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں قرب و جوار میں کوئی باسمتی پروسیسنگ یونٹ نہیں ہے۔‘‘ پس منظر میں گاڑیوں کے ہارن بج رہے ہیں، گویا وہ بھی سیرگ سمبا کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اسی طرح کسانوں کے درمیان کروپّو کؤونی کو دھونی کے چھکے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں صرف ایک کھٹکا رہتا ہے۔ ’’فرض کریں کہ کوئی کسان زمین کے ایک بڑے ٹکڑے کے ساتھ میدان میں اترتا ہے، اور کروپّو کؤونی چاول کاشت کرتا ہے، اور اس کی پیداوار ۲۰۰۰ تھیلے ہوتی ہے۔ اس سے کھیل مکمل طور پر بگڑ جائے گا اور قیمتیں گر جائیں گی۔‘‘ چھوٹے کھیتوں کا سب سے بڑا فائدہ – ان کا تنوع اور چھوٹا حجم – تیزی سے نقصان میں بدل سکتا ہے۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: لینن کے ذریعہ اگائے گئے کروپّو کؤونی چاول۔ دائیں: اِلّ پئیپو سمبا ، ایک غیر پالش شدہ کچا چاول، فورم میں فروخت ہوتا ہے

*****

سب سے بڑی اور سب سے آسانی سے سمجھ میں آنے والی ترغیب اکثر معاشی ترغیب ہوتی ہے۔ کیا دھان کی روایتی اقسام کو نامیاتی چیزوں سے اگانا منافع بخش ہے؟ ’’یہ منافع بخش ہے،‘‘ لینن نرمی اور مضبوطی سے کہتے ہیں۔

لینن تقریباً ۱۰ ہزار روپے فی ایکڑ منافع کا حساب لگاتے ہیں۔ ’’ایک ایکڑ زمیں پر موروثی چاول کو نامیاتی طور پر اگانے کی لاگت ۲۰ ہزار روپے آتی ہے۔ کیمیائی اشیاء کے ساتھ یہ لاگت ۳۰ ہزار سے ۳۵ ہزار روپے کے درمیان تک پہنچ جاتی ہے۔ اسی تناسب سے پیداوار بھی حاصل ہوتی ہے۔ روایتی چاول کی پیداوار اوسطاً ۷۵ کلو کی ۱۵ سے ۲۲ بوریوں کے درمیان ہوتی ہے، جبکہ جدید اقسام کے ساتھ تقریباً ۳۰ بوریوں تک۔‘‘

لینن زیادہ تر کام خود دستی طور پر کر کے اخراجات کو کم کرتے ہیں۔ کٹائی کے بعد گٹھے بناتے ہیں، اسے پیٹتے ہیں اور اناج کو بوریوں میں بھر کر محفوظ کرتے ہیں۔ اس سے انہیں تقریباً ۱۲ ہزار روپے فی ایکڑ کی بچت ہوتی ہے۔ لیکن وہ اس بات کو لے کر محتاط رہتے ہیں کہ اس میں شامل محنت پر زیادہ مبالغہ آمیزی نہ کی جائے۔ ’’میرے خیال سے ہمیں مزید مقامی ڈیٹا کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ۳۰ سینٹ زمین پر ماپِلّئی سمبا جیسے روایتی بیج کاشت کریں اور حساب لگائیں کہ دستی طور پر اور مشین سے کٹائی میں کتنی لاگت آتی ہے اور اس کا بغور مطالعہ کریں۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ مشین کاری سے مشقت تو کم ہوسکتی ہے، لیکن اخراجات نہیں۔ ’’اگر لاگت میں فائدہ بھی ہے تو یہ یقینی طور پر کسان تک نہیں پہنچتا۔ غائب ہو جاتا ہے۔‘‘

دیبل دیب کا حوالہ دیتے ہوئے لینن کہتے ہیں کہ منافع کو مختلف طریقہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ’’اگر آپ کھیتی میں پوال، بھوسی، چوڑا، بیج، چاول وغیرہ شامل کر دیں، تو یہ منافع بخش ہے۔ پوشیدہ بچت یہ ہے کہ مٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔ منڈی میں دھان فروخت کرنے سے آگے بھی دیکھنا ضروری ہے۔‘‘

روایتی نسل کے دھان کے لیے کم سے کم پروسیسنگ سے بھی کام چل جاتا ہے۔ ’’صارفین نامیاتی اجناس میں کاملیت کی توقع نہیں رکھتے۔‘‘ اس کی وضاحت کسان بھی ہر جگہ کرتے ہیں، مثلاً سیب کی شکل بگڑی ہوئی ہو سکتی ہے، گاجروں میں کانٹھیں اور شگافیں ہو سکتی ہیں، اور چاول کے دانے مختلف سائز یا رنگ کے ہوسکتے ہیں۔ لیکن وہ غذائیت سے بھرپور ہوتے ہیں، اور محض خوبصورتی کی بناپر انہیں مسترد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

لیکن معاشی نقطہ نظر سے یہ اہم  اور ضروری ہے کہ کسان گروپ فروخت اور سپلائی چین کا خیال رکھیں۔ لینن اس میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ گزشتہ دو سالوں سے وہ اپنے گودام کے ذریعہ علاقے کے کسانوں کے ذریعہ اگائے گئے دیسی چاول تقسیم کر رہے ہیں۔ پچھلے چھ مہینوں میں انہوں نے ۱۰ ضرب ۱۱ فٹ کے شیڈ سے ۶۰ ٹن چاول فروخت کیے ہیں۔ ان کے خریدار ان پر بھروسہ کرتے ہیں، اور انہیں اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ’’وہ مجھے اجلاس میں بولتے سنتے ہیں، میرے گھر کو جانتے ہیں اور وہ میرے کام کو جانتے ہیں۔ اس لیے وہ اپنی پیداوار یہاں لے کر آتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ اسے فروخت کرنے کے بعد ان کی ادائیگی کر دوں۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar

تھریشنگ کے انتظار میں کٹے ہوئے دھان

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • Aparna Karthikeyan

بائیں: لینن مرکاّ کا استعمال کرتے ہوئے دھان کا وزن کرتے ہیں۔ دائیں: لینن ترسیل کے لیے وگنیش کی موٹر سائیکل پر چاول کی بوریاں لوڈ کر رہے ہیں

لینن کے صارفین سارا دن کال اور میسج کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک مشکل کام ہے، اور وہ مسلسل کھڑے رہ کر وزن اور  پیکنگ کر تے ہیں اور کبھی کبھی قریبی شہروں تیرو ونّ ملئی، آرنی، کنّ منگلم میں تھیلے پہنچاتے بھی ہیں…

لینن کے کچھ غیر متوقع صارف بھی ہیں۔ ’’جو لوگ کھاد بیچتے ہیں، جو ہائبرڈ بیجوں کی مقبولیت میں اضافہ کرتے ہیں، وہ سب ہم سے چاول خریدتے ہیں،‘‘ لینن اس ستم ظریفی پر ہنستے ہیں۔ ’’ایگری ان پٹ کمپنی کے مالکان مجھے کہتے ہیں کہ میں ان کی دکان میں بے نام بوری میں چاول چھوڑ جاؤں اور وہ مجھے ’جی پے‘ (گوگل پے) سے پیسے کی ادائیگی کر دیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ خاموشی سے ہو جائے۔‘‘

چاول کی تقسیم سے ہر مہینے چار سے آٹھ لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا ہے۔ منافع تقریباً ۴۰۰۰ سے ۸۰۰۰ روپے تک ہوتا ہے۔ تاہم لینن خوش ہیں۔ ’’جب میں نے چاول ذخیرہ کرنے کے لیے شہر میں ایک کمرہ کرایے پر لیا تھا، تو اخراجات کافی زیادہ تھے۔ کرایہ زیادہ تھا، کھیتوں سے دور رہنا مشکل تھا، اور کسی مددگار کو رکھ کر تنخواہ دینا مالی طور پر دشوار تھا۔ اس وقت میں قریب ہی واقع ایک بڑی رائس مل سے خوفزدہ ہوا کرتا تھا۔ ان کی بہت سی شاخیں تھیں اور نئی مشینیں تھیں۔ مجھے مل میں داخل ہونے میں بھی جھجک محسوس ہوتی تھی۔ بعد میں مجھ پر یہ عقدہ کھلا کہ ان پر کروڑوں کا قرض ہے۔‘‘

لینن کا کہنا ہے کہ پچھلی نسل نے موروثی چاول کو فروغ دے کر کوئی آمدنی حاصل نہیں کی۔ ’’میں تھوڑا سا منافع کماتا ہوں، فطرت کے ساتھ رہتا ہوں، ماحولیاتی نقصان کو کم کرتا ہوں، اور دھان کی کھوئی ہوئی اقسام کو زندہ کرتا ہوں۔‘‘ اس میں کیا اچھا نہیں ہے، ان کی چوڑی مسکراہٹ پوچھنے لگتی ہے۔

لینن کی مسکراہٹ ہمیشہ ان کی آنکھوں تک پھیل جاتی ہے۔ ان میں ایک خاص چمک پیدا ہوجاتی ہے جب وہ اپنے منصوبوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ پانچ شعبوں – بیج، تجارت، کتابوں، دستکاری اور گفتگو – میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔

دو کتے کھیت میں آگئے ہیں اور ہماری گفتگو سن رہے ہیں۔ ’’بلیاں کسانوں کے لیے زیادہ مددگار ہوتی ہیں،‘‘ میں فوٹو کھینچتی ہوں تو لینن مسکراتے ہیں ۔ ’’خاص طور پر اگر وہ اچھے چوہے پکڑنے والی ہوں۔‘‘ چھوٹا کتا اپنی زبان نکال کر ہمیں چاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔

*****

مارچ ۲۰۲۴ کی اپنی ماہانہ میٹنگ میں کلس پکّم نامیاتی کسانوں کے فورم نے تین دن پہلے ۵ مارچ کو عالمی یوم خواتین منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج مرد واقعی پچھلی صف میں چلے گئے ہیں۔ خواتین بولتی ہیں۔ کسان سومتی مردوں سے پوچھتی ہیں: ’’اگر آپ کے کنبے کی تمام خواتین (آپ کی بہن، آپ کی بیوی) کے نام پر زمینیں ہوتیں تو یہاں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی یا نہیں؟‘‘ ان کے سوال کا استقبال تالیوں کی گونج کے ساتھ ہوا۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

۵ مارچ ۲۰۲۴ کو کلس پکّم نامیاتی فورم کا اجلاس ، جس میں عالمی یوم خواتین منایا گیا

PHOTO • Sabari Girisan
PHOTO • Aparna Karthikeyan

جولائی ۲۰۲۳ میں کلس پکّم کا جمعہ کا بازار جہاں کسان اپنی پیداوار براہ راست طور پر گاہکوں کو فروخت کرتے ہیں

’’ہم ہر سال یوم خواتین منائیں گے،‘‘ راجندرن اعلان کرتے ہیں۔ حاضرین تالیاں بجاتے ہیں۔ ان کے اور بھی منصوبے ہیں۔ جمعہ کا ہفتہ وار بازار، جو دو سال پہلے شروع ہوا تھا، کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ آس پاس کے گاؤوں سے تقریباً ۱۰ کسان اپنی پیداوار لاتے ہیں اور کلس پکم میں ایک اسکول کے سامنے املی کے درخت کے سایہ میں بیٹھ کر فروخت کرتے ہیں۔ بیج کی سالانہ تقریب کے لیے تاریخیں طے ہیں۔ یہ تمل مہینہ آدی (وسط جولائی سے وسط اگست) میں بوائی کے موسم سے پہلے منعقد کی جاتی ہیں۔ اور جنوری میں ایک فوڈ فیسٹیول کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ’’آئیے، مئی میں ایک مہا پنچایت بلاتے ہیں،‘‘ راجندرن کہتے ہیں۔ ’’ہمیں مزید بات کرنے کی ضرورت ہے، ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘

تاہم کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر کھل کر بات نہیں کی جاتی۔ کسانوں کے لیے دھان ایک باوقار فصل ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسان معاشرہ کا حصہ نہیں ہیں، لینن مزید کہتے ہیں۔ ’’فلموں کو دیکھ لیجئے، ہیرو ہمیشہ ڈاکٹر، انجینئر اور وکیل ہوتے ہیں۔ کسان کہاں ہیں؟‘‘ راجندرن پوچھتے ہے۔ ’’یہ سب اس بات کو متاثر کرتا ہے کہ کسانوں کو شادی کے بازار میں کس طرح دیکھا جاتا ہے،‘‘ لینن بتاتے ہیں۔

لینن کہتے ہیں، ’’اگر ہم زمین کے مالک ہوں، ڈگری [اور بعض اوقات دو دو] رکھتے ہوں اور معقول آمدنی ہو تب بھی ہمیں مسترد کر دیا جاتا ہے، کیونکہ ہم کسان ہیں۔ زراعت خود ہی اتنی غیر یقینی ہو گئی ہے کہ آپ کو ہمیشہ ایسے لوگ نہیں ملتے جو ازدواجی کالموں میں کسانوں سے رشتہ طلب کرتے ہوں، ہے کہ نہیں؟‘‘

ایک باضمیر کسان اور تقسیم کار کے طور پر، لینن فصلوں کے تنوع میں بہت سے سماجی مسائل کا حل دیکھتے ہیں۔ ’’جب آپ اپنے وسائل میں اضافہ کرتے ہیں، تو زندگی کی طرح ذریعہ معاش میں بھی آپ کامیابی کے امکانات کو بہتر بناتے ہیں۔‘‘

جب آپ زیادہ اقسام کی فصلیں کاشت کرتے ہیں اور انہیں فروخت کرتے ہیں تو آپ کے جوکھم کم ہو جاتے ہیں۔ ’’یہ واحد طریقہ ہے جس سے آپ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹ سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ اسے مخصوص مثالوں اور ترقی کے ادوار سے واضح کرتے ہیں۔ ’’یہ خیال غلط ہے کہ جدید اقسام کی فصلیں کٹائی کے لیے جلد تیار ہو جاتی ہیں، اور مقامی دھان زیادہ وقت لیتا ہے۔ یہ غلط ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’روایتی بیجوں میں کٹائی کے چھوٹے اور طویل دونوں چکر ہوتے ہیں۔ جبکہ ہائبرڈ کے چکر زیادہ تر درمیانی مدت کے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس فصل کاٹنے کے لیے صرف ایک یا دو موقعے ہوتے ہیں۔‘‘

روایتی دھان کی کھیتی میں کہیں زیادہ اختیارات ہوتے ہیں۔ ’’کچھ تہواروں اور تقریبات کے لیے اگائے جاتے ہیں اور کچھ دواؤں کے لیے۔ وہ سخت ہوتے ہیں، کیڑوں کے خلاف مزاحم ہوتے ہیں، اور خشک سالی اور نمکیات کو برداشت کرنے کی منفرد صلاحیت سے لیس بھی۔‘‘

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

کوتیرئی وال سمبا (بائیں) اور رتسالی (دائیں) دھان کی اقسام جنہیں لینن اگاتے ہیں

ڈاکٹر رینگ لکشمی کہتی ہیں کہ جہاں تناؤ زیادہ ہے وہاں تنوع بھی زیادہ ہے۔ ’’مثال کے طور پر ساحلی تمل ناڈو، اور بطور خاص کڈلور سے لے کر رامنات پورم اضلاع تک کے علاقے کو لے لیں، جہاں نمکیات اور مٹی کی شکل نے دھان کی کئی منفرد روایتی قسمیں پیدا کیں، جو مختلف مدتوں میں تیار ہوتی ہیں۔ مثلاً، ناگ پٹینم اور ویدارنیَم کے درمیان کے علاقے میں چاول کی ایک قسم ہے جسے کلی ویدچان کہا جاتا تھا اور اس طرح کی ۲۰ سے زیادہ اقسام رواج میں تھیں۔‘‘

’’ناگ پٹینم اور پومپوہار کے درمیان، کلورنڈئی نامی ایک اور قسم ہے اور اسی طرح ماضی میں مائیکرو زرعی ماحولیات کو منظم کرنے کے لیے مقامی طور پر موزوں کئی اقسام کاشت کی گئیں۔ ان بیجوں کو روایتی خیال کیا جاتا تھا اور اگلی فصل کے لیے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔ لیکن اب جب بیج باہر سے آنے لگے ہیں اور ان کے تحفظ کی عادت بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘ لہٰذا، آج جب موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بہت زیادہ تناؤ ہے، ڈاکٹر رینگ لکشمی بتاتی ہیں کہ ’’بیجوں کی اقسام سے متعلق علم ختم ہوگیا ہے۔‘‘

لینن کا کہنا ہے کہ چھوٹے کھیتوں میں تنوع برقرار رہتا ہے۔ ان میں متعدد فصلیں اگائی جاتی ہیں۔ ’’انہیں مشینری کے عمل اور بڑی منڈیوں سے نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت بھی ایسی فصلیں ہیں جو بارانی علاقوں میں اگائی جاسکتی ہیں۔ ان علاقوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ راگی، تل، سبز مٹر، سویابین، جوار، باجرہ…بہترین فصلیں ہیں۔ لیکن جب کسان صنعتی زرعی طریقوں کو اپنانے کی کوشش کر رہے ہوں، اور جب زرعی سماجی تانے بانے کی جگہ میکانکی سرگرمیوں کے ایک سلسلے نے لے لی ہو، تو روایتی علم میں شدید کمی آنا لازمی ہے،‘‘ لینن کہتے ہیں۔

سب سے بڑا نقصان ہنر کا بیکار ہو جانا ہے۔ اس لیے نہیں کہ ہنر غیرضروری ہو گئے ہیں، بلکہ اس لیے کہ علم و ہنر کو پسماندہ خیال کیا جاتا ہے۔ ’’اور یہ کہ کوئی بھی فہم و ادراک والا شخص اسے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس تباہ کن عقیدہ نے بہت سے لوگوں کو معاشرے کی نظروں سے گرا دیا ہے،‘‘ لینن کہتے ہیں۔

لینن کا خیال ہے کہ اس کا ایک حل ہے۔ ’’ہمیں ان اقسام کی شناخت کرنے کی ضرورت ہے، جن کا مخزن اس خطے میں ہے اور پھر انہیں محفوظ کیا جائے، کاشت کیا جائے اور دوبارہ لوگوں کے پلیٹ میں لے کر آیا جائے۔ لیکن آپ کو صرف تیرو ونّ ملئی میں بازار کے اس اژدہے سے نمٹنے کے لیے ایک سو مہم جو کاروباریوں کی ضرورت ہوگی،‘‘ لینن کہتے ہیں۔

’’آئندہ پانچ سالوں میں، مجھے امید ہے کہ ایک کوآپریٹو کا حصہ بنوں گا اور اجتماعی کاشتکاری شروع کروں گا۔ آپ کو معلوم ہے پچھلے سال کئی دنوں تک بارش ہوتی رہی تھی اور ۴۰ دنوں تک دھوپ بھی کم نکلی تھی۔ ایسے میں آپ دھان کو کیسے خشک کریں گے؟ ہمیں ڈرائر لگانا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس اجتماعی طاقت ہوگی۔‘‘

لینن کو یقین ہے کہ تبدیلی آئے گی۔ ان کی ذاتی زندگی میں تبدیلی آئی ہے: وہ جون میں شادی کر رہے ہیں۔ ’’سیاسی محاذ پر یا پالیسی کی سطح پر، تبدیلی صرف بتدریج آسکتی ہے اور بہت جلد بہت زیادہ تبدیلی، نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ لینن کا سست رفتار اور خاموش انقلاب، ان کے دوستوں کے تعاون سے کامیاب ہوسکتا ہے…

اس تحقیقی مقالہ کو عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ گرانٹ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہوا ہے۔

*ٹپّر، ایک ٹرک ہوتا ہے جس کے پیچھے ایک پلیٹ فارم لگا ہوتا ہے۔ پلیٹ فارم کے اگلے سرے کو اوپر اٹھا کر اس کا بوجھ گرایا جاتا ہے۔

کور فوٹو: چاول کی اقسام – کولّن کار، کروڈن سمبا اور کرون سیرک سمبا۔

تصویر ایم پلنی کمار

مترجم: شفیق عالم

Aparna Karthikeyan

اپرنا کارتی کیئن ایک آزاد صحافی، مصنفہ اور پاری کی سینئر فیلو ہیں۔ ان کی غیر فکشن تصنیف ’Nine Rupees and Hour‘ میں تمل ناڈو کے ختم ہوتے ذریعہ معاش کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے پانچ کتابیں لکھیں ہیں۔ اپرنا اپنی فیملی اور کتوں کے ساتھ چنئی میں رہتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز اپرنا کارتکیئن
Photographs : M. Palani Kumar

ایم پلنی کمار پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے اسٹاف فوٹوگرافر ہیں۔ وہ کام کرنے والی خواتین اور محروم طبقوں کی زندگیوں کو دستاویزی شکل دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پلنی نے ۲۰۲۱ میں ’ایمپلیفائی گرانٹ‘ اور ۲۰۲۰ میں ’سمیُکت درشٹی اور فوٹو ساؤتھ ایشیا گرانٹ‘ حاصل کیا تھا۔ سال ۲۰۲۲ میں انہیں پہلے ’دیانیتا سنگھ-پاری ڈاکیومینٹری فوٹوگرافی ایوارڈ‘ سے نوازا گیا تھا۔ پلنی تمل زبان میں فلم ساز دویہ بھارتی کی ہدایت کاری میں، تمل ناڈو کے ہاتھ سے میلا ڈھونے والوں پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’ککوس‘ (بیت الخلاء) کے سنیماٹوگرافر بھی تھے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز M. Palani Kumar

پی سائی ناتھ ’پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا‘ کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کئی دہائیوں تک دیہی ہندوستان کے رپورٹر رہے اور Everybody Loves a Good Drought اور The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom کے مصنف ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز پی۔ سائی ناتھ
Translator : Shafique Alam

شفیق عالم پٹنہ میں مقیم ایک آزاد صحافی، مترجم اور کتابوں اور جرائد کے ایڈیٹر ہیں۔ خود کو کل وقتی فری لانسنگ کے لیے وقف کرنے سے قبل، انہوں نے کئی بین الاقوامی پبلشرز کے لیے بطور کاپی ایڈیٹر کام کیا ہے۔ انہوں نے دہلی کے مختلف نیوز میگزینز اور میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے بطور صحافی بھی کام کیا ہے۔ وہ انگریزی، ہندی اور اردو زبانوں کے مترجم ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Shafique Alam